خدا تجھے یہ غم نہ بھلائے
اب اس پوری داستان میں جن ’’بے پردہ نشینوں‘‘ کا ذکر آتا ہے سب کی سب اپنا ’’کیئرئیر‘‘ تعمیر کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔
محترمہ ریحام خان حالانکہ گرائمر کے لحاظ سے ''خانم'' ہونا چاہیے جیسے بیگ کی مونث بیگم اور ایک پرانے انڈین فلم کے گانے کے مطابق عبد الرحمن کی عبدالرحمانیہ ہو سکتی ہے لیکن ہر کسی کی مرضی ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے دوسروں کی مرضی ہوتی ہے کہ کسی کے نام کو کتنا بگاڑ سکتے ہیں۔
بزرگوں نے بھی کہا ہے نام وہ واحد چیز ہے جو ہوتی ہماری ہے اور استعمال دوسرے کرتے ہیں۔ وہ بزرگ شاید بہرے ہونگے ورنہ کان بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ خیر یہ تو بیچ میں ویسے ہی ایک دُم ''ہلنے'' لگی اصل بات اس ''چوزے'' بلکہ ''چوچے'' کی کرنا چاہتے ہیں جو پیدا ہونے سے پہلے ہی کھایا جا رہا ہے اور کھلایا بھی جا رہا ہے اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ چوزہ اور مرغی بھی وہ واحد جانور ہے جیسے پیدا ہونے سے پہلے ہی کھایا بھی جا سکتا ہے، بیچا خریدا بھی جا سکتا ہے۔ اور یہی اس ریحام خان کے چوزے کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ کوئی اسے ابال رہا ہے کوئی آملیٹ بنا رہا ہے یعنی پیدائش سے پہلے اسے لڑایا بھی جا رہا ہے، ایک دوسرے کو مارا بھی جا رہا ہے۔
بلکہ سنا ہے کہ کچھ لوگ تو اسے اس روایتی پرندے کی طرح لے رہے ہیں جو سونے کا انڈا دیتا تھا یا دیتی تھی ۔ اس ''گولڈ ایگ'' والے پرندے کی کہانی یوں ہے کہ ایک شخص کو ملا تھا جس نے انڈے دے دے کر اس شخص کو مالا مال کر دیا تھا۔ لیکن جس طرح مال کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے اس کے ساتھ بھی ہو گیا۔ اس کی بیوی کا کسی اور شخص سے نین مٹکا ہو گیا وہ شخص جانتا کہ اس پرندے میں سونے کے انڈے کے ساتھ ساتھ یہ کمال بھی ہے کہ جو اس کا سر کھالے گا وہ بادشاہ بن جائے گا اور جو دل کھا لیتا ہے وہ بے انتہا دولت مند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے اس عورت کو شیشے میں اُتارا اور وہ پرندہ ذبح کروایا۔ پرندہ ابھی پک رہا تھا کہ اس عورت کے دو بچے چوری چھپے ہانڈی سے نکال کر وہ سر اور دل کھا گئے۔
یہ تو پرانا قصہ تھا لیکن چشم گل چشم نے اس کو ''ری مکس'' کرکے نیا ایڈیشن نکالا ہے۔ اس کے مطابق جس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اسی طرح کہانیاں بھی اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ابھی ابھی زمانہ حال یعنی موجودہ تاریخ اور جغرافیے میں بھی یہ کہانی دہرائی گئی ہے لیکن چونکہ اس کی کتاب ''شر البیان'' ابھی تک چھپی نہیں ہے اس لیے وہ تفصیلات میں نہیں جا سکتا لیکن چیدہ چیدہ باتیں یا مرکزی خیال سنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ اس کے مطابق اس نئی کہانی میںبھی ایک شکاری ایک ایسے ہی پرندے کو پکڑ لیتا ہے جو سونے کا انڈا دیتی تھی لیکن شکاری بڑ ا حریص تھا یا ہے کہ صرف انڈے پر صبر نہ ہو سکا اور پرندے ہی کو ہڑپ کر لیا۔ چونکہ اس پرانی کہانی میں ''بچوں'' کی حرکت کا اسے پتہ تھا اس لیے اس نے بچوں کو یہ موقع ہی نہیں دیا اور پرندے کو نگل گیا۔
کائیاں شخص بس ہر کہانی ختم کر دیتا ہے یہ بھی نہیں بتاتا کہ پرندے کا سر اور دل کھانے والا وہ شکاری بادشاہ بن گیا یا نہیں۔ کہتا ہے بن گیا ہوگا اور کبھی کہتا ہے کہ بادشاہ نہیں کچھ اور بن گیا ہو گا کیونکہ بادشاہت کا تو اب رواج ہی کم رہ گیا ہے لیکن علامہ بریانی عرف برڈ فلو جو اس کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن مانتے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قہر خداوندی کسی سیاسی لیڈر سے بھی زیادہ بے وثوق اور غیر ثقہ راوی ہے اس لیے اس کی کتاب میں کسی 31 دن والے مہینے اور لیپ کے سال سے بھی زیادہ جھوٹ ہو گا۔
خیر یہ تو درمیان میں ہماری قصہ پسندی نے دم ہلا کر بات ایک کتاب سے دوسری کتاب پر پہنچا دی لیکن ریحام خان کے اس چوزے سے بھی ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، صرف اپنے کپتان خان کی فکر ہے کہ بچارے کو خوامخواہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ بیشک ہم ان کے طر فدار بھی نہیں اور پرستار بھی نہیں لیکن سخن فہم تو ہیں یا ہم ''تحریک انصاف'' میں نہیں لیکن انصاف کے قائل تو ہیں کہ ''پھول'' تو اتنی اتنی بار اور اتنے اتنے دن بہار ''جاں فزا'' دکھلا گئے اور خان صاحب کو ''بن کھلے'' ہی مرجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے بہت ''بے انصافی'' ہے آخر ''مواقع'' سے بھر پور اس ملک پر ان کا بھی تو حق بنتا ہے۔
مانا کہ کپتان صاحب کا منفی پہلو کچھ زیادہ اسٹرانگ نہیں ہے لیکن یہ ان کا نہیں ان کے پیشے کا کیا دھرا ہے۔ وہ کرکٹ میں فاسٹ بالر رہے ہیں چنانچہ جنس مخالف کو بھی وہ اسی کرکٹانہ اور فاسٹ بالرانہ نگاہ سے محسوس کرتے ہوںلیکن اس معاملے میں ہم ان کو بالکل ہی نردوش مانتے ہیں جب ''آم'' خود ہی اپنا باغ اور اپنا پیڑ چھوڑ ان کی جھولی میں گر رہے ہوں تو لاچار کیا کریں؟
اگر انصاف اور تحریک انصاف دونوں کی نظر سے دیکھا جائے تو ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ اب وہ جو ایک محترمہ نے اودھم بچا رکھی ہے کہ میرے نازک آبگینوں کو ٹھیس لگی ہے تو کیا اس کو کپتان صاحب نے رسی سے باندھ کر اتنی دور سے بنی گالہ کھینچا تھا۔ اچھی بھلی خوبصورت اور خاندانی لڑکی تھی۔ آرام سے کسی کے حبالٔہ عقد میں جاکر جلوۂ کثرت اولاد دکھا سکتی تھی لیکن نہیں اسے تو یہ یہ اور وہ وہ بننا تھا بن گئی اور پھر بنتے بنتے بگڑ گئی۔ اس طرح تو ہونا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اب روئیے زارزار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں؟
اسی باعث تو قتل عاشقان سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہوں یوسف بے کارواں ہو کر
اب اس پوری داستان میں جن ''بے پردہ نشینوں'' کا ذکر آتا ہے سب کی سب اپنا ''کیئرئیر'' تعمیر کرنے میں لگی ہوئی تھیں ورنہ بچارے کپتان کا کیا قصور؟ کیریئر بنانے والوں کو پہلے خود اپنے مستقبل کا سوچنا چاہیے۔ معاف کیجیے میں اس ''خبر'' کو پھر سے غلط پڑھتا ہوں۔ خدا کے بندے اگر ''پہلے'' سوچنے کی توفیق نہیں تو کم از کم بعد میں تو سوچ لیا کرو کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے اچھے بھلے مرشد سے تنزل کرتے کرتے مرید بن گئے۔ ہماری تو دعا ہے کہ مریدی ہی ان کو راس آئے۔
پشتو میں ایک بہت ہی مشہور اور زمانوں سے رائج ایک ''تعزیتی جملہ'' مروج ہے جب بھی کسی کے ہاں کوئی میت ہوتی ہے یا المیہ رونما ہوتا ہے تو بزرگ فاتحہ اورسارے تعزیتی لوازمات پورے کرکے جب اٹھتے تو یہی جملہ دراتے ہیں ۔ ''خدا تجھے یہ غم نہ بھلائے'' اکثر تو لوگ کہتے ہیں بھول جائو بس جو ہونا تھا سو گیا۔ لیکن یہاں خدا تجھے یہ غم نہ بھلائے لیکن اس میں جو گہرا فلسفہ ہے کاش کپتان صاحب اس سے واقف ہوتے یہ در اصل دعا ہے کہ خدا کوئی اس سے زیادہ اور بڑا غم یا دوسرا غم نہ دکھائے کہ اس غم سے زیادہ ہو اور تم یہ غم بھول کر اس کا شکار ہو جائو۔ بہر حال محترمہ جانے اوراس کا کام۔ لیکن اگر وہ اس سے تاثر دینا چاہتی ہے کہ کپتان صاحب ایسے ویسے ہیں تو وہ جو ایسی ویسیاں تھی وہ کیسی کیسیاں تھیں جیسی جیسیاں تھیں وہی ہی ویسیاں ہو گئی از مکافات عمل غافل مشود۔
نیت صاف منزل آسان ایسے تو نہیں کہتے۔ا1