کیا 2018ء کے انتخابات تبدیلی لائیں گے

70سال سے تبدیلی کی منتظر قوم ایک بار پھر مثبت پیش رفت کی راہ دیکھ رہی ہے

70سال سے تبدیلی کی منتظر قوم ایک بار پھر مثبت پیش رفت کی راہ دیکھ رہی ہے۔ فوٹو : فائل

ہر ذی روح کی فطرت میں قدرت کی طرف سے تبدیلی کی خواہش اور خوب سے خوب تر کی تلاش کی آرزو رکھی گئی ہے تاہم انسان، اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے اس تمنا کا سب سے زیادہ خوگر ہے۔ اس کا تعلق چاہے کسی بھی طبقے سے ہو، امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، کاروباری ہو یا ملازمت پیشہ اور چھوٹا ہو یا بڑا غرض ہر کوئی اپنے ماحول، معاشی صورتحال اور زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ میں تبدیلی لاتے رہنا چاہتا ہے۔

یہ خواہش فرد میں انفرادی طور پر اور اقوام میں اجتماعی طور پر موجود ہوتی ہے اور اپنی تکمیل کے لیے انہیں اکساتی رہتی ہے۔ کبھی تو قدرت ہی ان کے لیے ایسی راہیں کھول دیتی ہے کہ تبدیلی کی خواہش مندوں کو اپنی منزل سامنے نظر آنے لگتی ہے اور کبھی وہ خود ہی اس منزل کے حصول کے لیے جہد مسلسل کے ذریعے نئے نئے راستے تراشنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کسی جگہ آسودگی کو مزید کشادگی میں بدل دینے کی لگن دلوں میں گھر کررہی ہوتی ہے تو کسی جگہ محرومی و احتیاج کو دور کرنے کی امنگ دماغ میں انگڑائیاں لے رہی ہوتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرد یا قوم کو احساس محرومی تو ہوتا ہے مگر اس سے نجات پانے کا طریقہ ان کے احاطہ شعور کی گرفت میں نہیں آرہا ہوتا۔ ایسے میں اگر قدرت کی مہربانی شامل حال ہو جائے تو کوئی مخلص شخص یا درد دل رکھنے والا راہنما ان کو میسر آجاتا ہے اور ان کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں بہت بار ایسے مقامات بھی آئے کہ جب کسی قوم کو بہتری کے لیے ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت تھی اور قدرت کی طرف سے انہیں ایک مخلص راہنما ودیعت ہوا جس نے اپنی قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دی حالانکہ قوم کو اپنی مشکلات کا ادراک ہی نہیں تھا اور بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ قوم کو شعور تو تھا لیکن ان کے سامنے ایسی کوئی شخصیت ہی موجود نہیں تھی کہ جس کو وہ اپنی قسمت کی نائو سونپ کر بے فکر ہوجاتے، جبکہ کئی مواقع تاریخ میں ایسے بھی گزرے ہیں کہ قوم کو تبدیلی کی ضرورت بھی تھی اور اہل راہنما بھی دستیاب تھا اور وقت نے ایسی تال میل پیدا کیا کہ قوم و راہنما نے یک جان ہوکر اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور تبدیلی کی ایک توانا لہر کے ذریعے، اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے مقصد کو حاصل کرکے شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگئے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کس خوبصورتی کے ساتھ اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ حکومت کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کے عظیم الشان اقتدار کا سورج غروب ہوا تو مسلمان مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوئوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں کو نئے آقائوں کے طور پر تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا اور ان کے طرز معاشرت کو قبول کرلیا کیونکہ وہ پہلے مسلمانوں کے محکوم تھے اور بعدازاں انگریز کے زیر نگیں آجانے سے ان کی حیثیت میںکوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی نسبت معاشی اور معاشرتی سطح پر جلد ہی دوبارہ سے مضبوط حیثیت کے حامل ہو گئے جبکہ دوسری طرف مسلمان اپنے اقتدار سے محرومی کے بعد اس حقیقت کو دل سے تسلیم نہ کرسکے کہ اب وہ حاکم نہیں محکوم ہیں۔ اسی نفسیات کے پس منظر میں وہ انگریزی رہن سہن، انگریزی زبان اور انگریزی ثقافت کو ناپسند کرنے کے سبب اس کو اختیار کرنے میں متامل رہے۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ وہ معاشی اور معاشرتی حوالے سے پسماندہ رہ گئے۔ انگریزی راج سے قبل مسلمان عمومی لحاظ سے ایک متمول زندگی گزار رہے تھے۔ اس وقت سرکاری زبان کیونکہ فارسی تھی، اس لیے مسلمانوں میں شرح خواندگی بہت زیادہ تھی اور ظاہر ہے کہ اسی حساب سے سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ بھی وافر تھا۔

انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کے بعد برطانیہ کے دارالعوام کے ایک ممبر لارڈ میکائولے کو برطانوی حکومت کی طرف سے 1834ء میں ہندوستان بھیجا گیا اور اس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ انڈین کریمنل کوڈ میں اصلاحات کی تجاویز مرتب کرے اور ساتھ ہی ساتھ سامراجی ضروریات کے تحت ہندوستان کے نظام تعلیم کونئے سرے سے تشکیل بھی دے۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے چار سالہ دور میں لارڈ میکائولے نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ بظاہر یہ عمل ہندوستان کے باسیوں کو اس وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق تمدنی شعور سے ہم آہنگ کرنے کی ایک مہم تھی۔ اس پیش رفت کی وجہ سے مسلمان جو پہلے ہی اپنے آپ کو انگریزوں کا حریف تصور کرتے تھے۔ اس نظام سے مزید متنفر ہوگئے اور انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے، اپنانے سے اجتناب کا راستہ اختیار کیا۔ مسلمانوں کے اس قدم نے انہیں معاشرتی ومعاشی پستیوں میں دھکیل دیا۔ مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ تجارت کے شعبے پر تو ہندو پہلے ہی سے قابض تھے اور انگریزی تعلیم سے گریز کے فیصلے نے مسلمانوں کے لیے سرکاری نوکریوں کے دروازے بھی بند کردیئے اور یوں وہ محض محنت مزدوری اور چھوٹی موٹی نجی ملازمتوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے۔ اسی معاشی انحطاط اور انگریزوں سے دوری کے باعث انگریز سرکار کی حکومتی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی اور وہ اپنے حقوق کی آواز، معدودے ان چند بڑے بڑے مسلمان جاگیرداروں اور نوابوں کے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے انگریزوں کے ساتھ تعلقات استوار کررکھے تھے اور مراعات سے مستفید ہورہے تھے، کسی متعلقہ سرکاری پلیٹ فارم کے ذریعے اعلیٰ حکومتی عہدے داروں تک پہنچانے سے بھی قاصر تھے۔اس دگرگوں صورتحال کا اندازہ سب سے پہلے سرسید احمد خان کو ہوا اور انہوں نے مسلمانوں میں اس امر کی آگاہی کے لیے بیداری کی تحریک شروع کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرتی اور معاشی طور پر آگے بڑھیں اور معاشرے میں اپنا جائز مقام اور حصہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہندوئوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم سے دوری کی وجہ سے بحیثیت قوم مسلسل اپنا نقصان کررہے ہیں اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔ دوسری طرف مسلمان علمائے کرام انگریزی تعلیم کے حصول کے خلاف فتوے دے رہے تھے اور مسلمان کیونکہ ہمیشہ سے اپنے دین کے معاملے میں بہت حساس رہے ہیں، اس وجہ سے ان کے لیے یہ مسئلہ بیک وقت معاشرتی، نفسیاتی اور مذہبی رنگ اختیار کرگیا۔ لیکن سرسید احمد خان اپنی دھن کے پکے تھے اور وہ جرائد اور رسائل کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے کام میں لگے رہے۔ بعدازاں انہوں نے اپنا کام مزید آگے بڑھاتے ہوئے 1863ء میں جدید تعلیم دینے والے سکول قائم کیے۔ 1864ء میں مسلمانوں کے لیے سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج بنایا جو آگے چل کر جنوبی ایشیا کی پہلی مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ ان کے ان تمام اقدامات کی دینی طبقات کی جانب سے بھرپور مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ ان پر کفر کے فتوے بھی لگے۔ اس صورتحال کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں


مگر سر سید احمد خان کی محنت کام آئی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ ان کی بنائی ہوئی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بعد میں تحریک پاکستان کا بیس کیمپ ثابت ہوئی اور اس کے طلباء نے اس تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کی حالت زار میں تبدیلی کا نعرہ سب سے پہلے سرسید احمد خان نے لگایا۔ وہی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے معاندانہ رویے کو بھانپتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان میں ایک نہیں بلکہ دو قومیں آباد ہیں۔ یعنی ہندو اور مسلمان۔ ان کا یہی دو قومی نظریہ، پاکستان کے قیام کی اساس بنا۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں اپنے مشہور خطبات میں اسی نظریے کو زیادہ وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے اپنی پر مغز شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو آزادی کی اہمیت کو جاگر کیا اور انہیں خواب غفلت سے جگانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ علامہ اقبال نے نہ صرف پاکستان کا خواب دیکھا بلکہ مسلمانوں کو اپنے اس تصور کی تعبیر تک پہنچنے کی راہ بھی دکھائی اور مسلمان جو معاشرتی طور پر ایک جمود کا شکار ہوکر گہری نیند سو رہے تھے انہیں صرف بیدار ہی نہیں کیا بلکہ تبدیلی کے لیے تیار بھی کیا۔ علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے، سرسید احمد خان کے بعد تبدیلی کی دوسری علامت تھے۔

سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے اکابر کی اس مساعی جمیلہ کی بدولت مسلمانوں میں بیداری اور تبدیلی کا شعور تو پیدا ہونا شروع ہوگیالیکن اس لہر کو دریابنانے کے لیے قوم میں ابھی مزید عملی تحریک پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ اس موقع پر قدرت نے مسلمانان ہند کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کے لیے قائداعظم کو منتخب کیا۔ 1936-37ء میں منعقد ہونے والے انتخابات تک حالت یہ تھی کہ مسلمان ابھی تک سیاسی طور پر کانگریس (جو ہندوستان کے تمام باسیوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار تھی) اور کانگریس کے زیر اثر مسلمان علماء اور زعماء کے پروپیگنڈے کی وجہ سے گومگوکی کیفیت میں مبتلا تھے۔ اسی الجھن کے باعث ان انتخابات میں مسلم لیگ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرپائی۔ تاہم قائداعظم کی سربراہی میں دیگر مسلمان قائدین نے ہمت نہ ہاری اور اپنا پیغام مسلسل اپنی قوم تک پہنچانے کی تگ و دو کرتے رہے۔ مسلمانوں کو شعورو آگاہی دینے کی اس جہد مسلسل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کا بھی بڑا حصہ تھا۔ نوجوانوں میں کیونکہ تبدیلی کی خواہش زیادہ توانا ہوتی ہے اور ان میں جوش و جذبے کی فراوانی اور کچھ کر گزرنے کا عزم اپنی پوری طاقت کے ساتھ کارفرما ہوتا ہے اسی لیے قائداعظم نے ان طلبہ کو اپنی اصل قوت قرار دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کی صورت میں مسلمانان ہند کو اپنی منزل کا صحیح نشان مل گیا اور یوں اگلے سات سال میں انگریزوں کی مخاصمت، ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں اور بعض مسلمان راہنمائوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ 1946ء میں قیام پاکستان سے قبل کے انتخابات نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے حالات میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار بھی ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کردینے کا حوصلہ اور ہمت انسان کے اندر پیدا کردیتا ہے۔ اسی طرح اس جذبے نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی اپنی منزل سے ہم کنار کردیا اور وہ غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنا ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خود مختاری کی زندگی گزار سکیں۔ قائد اعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ کے مطابق ''چند لوگوں نے تاریخ کے دھارے میں نمایاں تبدیلی کی، کم ہی دنیا کا جغرافیہ بدل سکے اور شاید ہی کسی کو نئی قوم یا ریاست (جو ایک نظریے کی بنیاد پر بنائی گئی ہو) تشکیل دینے کا اعزاز حاصل ہوا ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے کر دکھائے''۔ یوں قائداعظم تبدیلی کے ایک نمایاں ترین استعارے کے طور پر اس خطے کے افق پر جگمگائے۔

پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سے پہلے دس برس تک مختلف سماجی و معاشی مسائل، سیاسی ابتری اور سول ملٹری بیورو کریسی کی ہوسِ اقتدار نے سیاسی ماحول کو پراگندہ کئے رکھا اور پاکستان بنانے کے وہ اصل مقاصد حاصل نہ ہوسکے جن کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے شکایات پیدا ہونے لگیں کیونکہ وہاں کے معاشرے میں پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کی تعداد، مغربی پاکستان کی نسبت زیادہ تھی جبکہ یہاں سیاست پر جاگیردار اور وڈیروں کی گرفت مضبوط تھی جو متوسط طبقے کو ابھر نے کا موقع نہیں دنیا چاہتے تھے۔ اس کھینچا تانی اور کشمکش میں خوشحالی کی عوامی توقعات طاق نسیاں میں ہی دھری کی دھری رہ گئیں۔ سیاسی افراتفری کا نتیجہ ملک میں لگنے والے پہلے مارشل لاء کی شکل میں نکلا۔ اگرچہ سیاسی حالات سے تنگ عوام نے سکون کا سانس لیتے ہوئے پہلے پہل اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا مگر بعد میں بقول فیض احمد فیض کے، لوگوں کو احساس ہوا کہ

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

آہستہ آہستہ ملک میں طویل آمریت کے خلاف لاوا پکنے لگا اور سیاسی احساس محرومی کے تانے بانے معاشی بدحالی کے شکوئوں میں ڈھل گئے۔ معاملات یہاں تک آپہنچے کہ اپنوں کی ناچاقی اور اغیار کی سازشوں نے وطن عزیز کو دولخت کردیا۔ اس سانحے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے راہنما بن گئے۔ بھٹو جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ گو ان کے حامی اور مخالفین دونوں ہی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے اور ان کے مخالف انہیں اقتدار کا حریص اور آمرانہ طبیعت کا مالک گردانتے تھے تاہم اس امر میں دورائے نہیں ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو اپنے حقوق کا سیاسی شعور دیا اور اسی آگاہی کے نتیجے میں سیاست، امراء کے ڈرائنگ رومز سے نکل کر گلی کوچوں اور چوپالوں تک عوام کی دسترس میں پہنچ گئی۔ لوگ علی الاعلان اپنے حقوق کی بات کرنے اور ان کے حصول کا مطالبہ اور تقاضا کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سیاست کو فروغ دینے کا اعزاز بھٹو کو حاصل ہے اور ان کی پھانسی کو عشرے گزر جانے کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ آج بھی ان کے مداح اور شیدائی ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے عوام میں اس سیاسی بیداری کے ذریعے تبدیلی کی لہر پیدا کی۔ ستم ظریفی مگر یہ رہی کہ بتدریج بھٹو بھی روایتی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سیاست کے پرانے چہروں کے چنگل میں پھنس گئے اور انہوں نے اپنے منشور میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو وعدے کیے تھے ان کو پورا نہ کرسکے۔ خاص طور پر انہوں نے جو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا اور جسے مقبولیت بھی ملی۔ اس نعرے پر حقیقی انداز میں عمل کرکے عوام کی غربت میں کمی کرنے کی بجائے انہوں نے محض سطحی اقدامات پر اکتفا کیا۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک ان کی اداروں کو قومیانے کی پالیسی نے اداروں کی کارکردگی اور ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا۔ تاہم ان کی خارجہ پالیسی کافی کامیاب رہی اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں پاکستانی ہنرمندوں اور افرادی قوت کی بڑے پیمانے پر کھپت کے مثبت اثرات قومی معیشت میں آج تک بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے اسلامی ممالک کے اتحاد کی طرف بھی قابل ذکر پیش رفت ہوئی۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں 1990ء کی دہائی میں بظاہر عوامی راج پر مبنی منتخب حکومتیں بنتی اور ختم ہوتی رہیں۔ ان حکومتوں میں برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے منشوروں میں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی انسانی حقوق کی باتیں تو رقم کرتی رہیں مگر عمومی طور پر صورتحال یہ رہی کہ عوامی اہمیت کے ان انتہائی ضروری شعبوں کے لیے مختص کی جانے والی رقوم قومی بجٹ کے دو یا تین فیصد سے زیادہ کبھی بھی نہیں رہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان حکومتوں کی ترجیحات میں ان شعبہ جات کا شمار بہت نچلی سطح پر تھا۔ اس کے برعکس ترقیاتی سکیموں کے نام پر بڑے بڑے عظیم الشان میگاپروجیکٹس پر کام شروع کیا گیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسا اس وجہ سے تھا کیونکہ ان پروجیکٹس میں کرپشن کے ذریعے کالا دھن بنانے کے بے شمار مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت ہی برطرف کی جاتی رہیں اور کرپشن پاکستانی سیاست میں ایک اہم ایشو کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ 1999ء کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل مشرف نے بھی اپنے سات نکاتی انقلابی ایجنڈے میں کرپشن کے سدباب کو پہلے نمبر پر رکھا۔ اس مارشل لاء کو بھی کس حد تک تبدیلی کی نوید سمجھا گیا لیکن افسوس یہ بھی قوم کے لیے ایک سراب ہی ثابت ہوا۔

2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں کے دوران بھی کوئی جوہری تبدیلی وقوع پذیر نہ ہوسکی اور لوٹ مار کا بازار گرم رہنے کی وجہ سے ملکی قرضوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بالآخر پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کرپشن کے موضوع کو اس زور و شور سے اٹھایا کہ عدلیہ کو معاملہ کا نوٹس لینا ہی پڑا اور آخر کار آج یہ صورتحال ہے کہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف، وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد کرپشن کے جرم میں جیل میں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ انفراسٹرکچر، پلوں، انڈرپاسز اور جدید ذرائع آمدورفت جیسے ترقیاتی کاموں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں اولیت انسانی ترقی کو ہونی چاہیے اور صحت وتعلیم جیسے بنیادی انسانی حقوق، حکومتوں کے لیے اولین اہمیت کے حامل ہونے چاہئیں۔ پاکستان کی پرانی روایتی سیاسی جماعتیں بھی گو صحت وتعلیم اور روزگار کی فراہمی جیسے نکات کو اپنے اپنے منشوروں میں نمایاں جگہ دیتی رہیں ہیں لیکن ان کا ماضی کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ وہ ان حقوق کو زیادہ تر اپنے منشور کا حصہ بنانے میں ہی دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ عملی طور پر ان کی توجہ ان دیگر ترقیاتی منصوبوں پر ہی مرکوز رہتی ہے جو برسرزمین نظر آئیں اور عوام کو ان کی چکا چوند میں گم کردے۔پاکستان تحریک انصاف، پاکستان میں تبدیلی لاکر نیا پاکستان بنانے کے نعرے کی علمبردار بن کر سامنے آئی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انسانی ترقی کے اقدامات کو ترجیح بناکر نہ صرف اپنے منشور کو عملی جامہ پہنائیں گے بلکہ زبردست معاشی سرگرمیوں اور ٹیکس وصولی کے ذریعے کالے دھن کا قلع قمع کرنے سمیت پاکستان کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نجات بھی دلائیں گے تاکہ تمام تر وسائل کو عوام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاسکے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان کے عوام کس سیاسی جماعت کے پروگرام اور عمل سے متاثر ہوکر اسے اگلے پانچ برس کے لیے ملک پر حق حکمرانی سونپتے ہیں۔۔۔؟؟؟
Load Next Story