آنے والا کمزور وزیراعظم
انسانی کمزوریاں ہر شخص میں موجود ہوتی ہیں جنھیں برداشت کرنا انسانی عظمت ہے۔
چند دوست معروف شاعر صابر ظفر سے ملنے کے لیے ان کے دفتر پہنچے تو ایک ادھیڑ عمرشاعر بھی اپنے کلام پر اصلاح کی غرض سے موجود تھے۔ دوستوں نے ان کے بارے میں پوچھا تو صابر ظفر نے تعارف کراتے ہوئے کہا ''انھیں وہم ہوگیا ہے کہ یہ بھی شاعر ہیں۔''
صابر ظفر نے یہ بات خوامخواہ نہیں کہی تھی بلکہ محترم شاعر کئی برسوں سے اس کوشش میں مصروف تھے کہ انھیں کسی بہانے ایک دفعہ مشاعرے میں مدعو کیا جائے اور اتنی ہی داد ملے جتنی کسی اچھے شاعر کو ملتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں تھا کہ ان کی ابتدائی عمر ادبی محفلوں اور شاعری کے بجائے کسی اور شعبے سے وابستہ رہی تھی۔
مذکورہ شاعر کی طرح زندگی میں بہت سارے لوگ اس وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کی ذات فلاں عہدے، فلاں انعام، فلاں کام یا فلاں مسند کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ موجودہ الیکشن کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے آپ کو شاعر سمجھنے والے شخص کی طرح بہت سارے سیاسی رہنمائوں کو بھی اس بات کا وہم ہو گیا تھا کہ ان کی پارٹی ہی انتخابات میں سرخرو ہوگی اور وہ اب تک اسی وہم میں مبتلا ہیں۔ مختلف وزارتوں کے حصول کے وہم میں مبتلا پرانی پارٹیوں کے بہت سارے لیڈر بھی ہمیشہ کی طرح اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں اس لیے شامل ہوچکے ہیں کہ مستقبل کی حکومت میں وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کا قرعہ ان ہی کے نام نکلنے والا ہے۔ ایسے میں وزارت عظمیٰ کی دیوی سے بغل گیر ہونے والے کئی سیاسی لیڈر بھی موجود ہیں لیکن اظہار کرنے والے بہت کم ہیں۔
بلاول بھٹو نے دو مہینے قبل کہا تھا کہ انھیں وزیراعظم بننے کی کوئی جلدی نہیں، مگر یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ وہ وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ فیس بک پر ''وزیراعظم بلاول بھٹو'' کے نام سے ان کے چاہنے والوں کا ایک اکائونٹ بھی موجود ہے مگر ممبران کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ ان کے سہارے وزیراعظم کی گدی تک پہنچ سکیں، اس کے باوجود بلاول بھٹو کی انتخابی مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جلسوں میں انھیں بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے، جو اس لیے نیک شگون ہے کہ ملکی سیاست میں نوجوان ہی کسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے تازہ ترین بیانات بھی روایت سے بہت مختلف ہیں اور ان کی پارٹی میں نفیسہ شاہ اور سعید غنی جیسے تازہ سوچ رکھنے والے کچھ ارکان بھی پائے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن سے کسی ممکنہ وزیراعظم کا نام اس لیے سامنے نہیں آسکتا کہ مریم نواز اور نواز شریف کی گرفتاری کے بعد اس پارٹی کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے جسے دیکھتے ہوئے اس کے بہت سارے امیدوار دوسری جماعتوں میں چلے گئے ہیں، لہٰذا مختلف وزارتوں اور وزارت عظمیٰ کے حصول کے وہم میں مبتلا ن لیگ کے امیدواروں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں رہی۔ اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو بھی جاتے ہیں تو وہ کسی وہم میں مبتلا نہیں، مگر ماضی میں ان کے بھائی کی حکومت کے خلاف جس طرح دھرنے دیے گئے تھے ممکن ہے بالکل اسی طرح کے احتجاج کی دھمکی انھیں جیتنے سے پہلے ہی مل چکی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اب نہ ویسا دھرنا ممکن ہے اور نہ ہی ویسے جلسے اور جلوس منظم کیے جاسکتے ہیں، اس لیے کہ ان دھرنوں کا مرکزی کردار الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوچکا ہے اور اب ہماری معیشت بھی ویسے دھرنوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
انتخابات میں ہونے والے اس زبانی تشدد پر تو کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے جس نے ملکی سیاست میں ایک نئے کلچر کو روشناس کرایا ہے مگر امن و امان کی بہتری کے باوجود بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کچھ سیاسی پارٹیوں پر اتنے زیادہ اثر انداز ہوئے کہ انھوں نے اپنی انتخابی سرگرمیاں محدود کردیں، اس کے باوجود اس عرصے میں تحریک انصاف کی انتخابی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔
نوازشریف کی سزا کے بعد پی ٹی آئی کے جلسوں میں خطاب کے دوران جہاں عمران خان کے چہرے پر نئی چمک آئی وہاں عام لوگوں کو ان کی گفتگو میں پہلے سے زیادہ تلخی محسوس ہونے لگی اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک مہم شروع ہوگئی، جسے دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو چار رکنی بینچ بنانا پڑا، جو ان کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا مگر اسی دوران جھنگ اور جہلم کے جلسوں میں خالی کرسیوں کی وجہ سے انھیں جو دھچکا پہنچا اس کو تقریر کا موضوع بنا کر شہباز شریف نے اپنے جلسوں کے دوران انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔
موجودہ صورت حال میں عمران خان نے پہلی دفعہ ملکی صورت حال سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل وہ اپنی ہر تقریر میں اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ آنے والی حکومت پی ٹی آئی بنائے گی۔ جس کے بعد نہ کہتے ہوئے بھی ان کا مطلب یہی ہوتا تھا کہ اگلے وزیراعظم بھی وہی ہوں گے، مگر جب انھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ الیکشن کے بعد اگر مضبوط حکومت وجود میں نہ آئی تو یہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے اتحاد کرنے کے بجائے اپوزیشن کی سیٹوں پر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔
ہمارے خیال میں موجودہ صورت حال کے دوران بے یقینی کی جو فضا پروان چڑھی ہے اس میں کچھ دوسری جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کا بھی قصور ہے جس کے سربراہ کے خلاف کافی عرصے سے ناشائستہ زبان استعمال کرنے کا الزام عائد ہوتا چلا آرہا تھا، مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی اور آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتخابی مہم کے دوران مخالفین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف ایک بینچ تشکیل دے دیا، حالانکہ سیاسی مہم کے دوران ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے شروع ہوا تھا اور پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں اس وقت عروج پر پہنچا جب ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں شامل مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے نام کے ساتھ ایک ایسے مشروب کا نام لگایا جانے لگا جو اس حکومت کے دور میں حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ مرحوم ضیا الحق کو بھی کافی القابات سے نوازا گیا مگر موجودہ دور میں چور، لٹیرے وغیرہ جیسے الزامات و القابات نے اس سلسلے کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔
انسانی کمزوریاں ہر شخص میں موجود ہوتی ہیں جنھیں برداشت کرنا انسانی عظمت ہے مگر کمزور وزیراعظم اور کمزور انسان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کمزور معیشت اور بہت ساری دوسری کمزوریوں کے ساتھ بہت جلد ایک کمزور وزیراعظم بھی ہمارے سامنے آنے والا ہے جو اپنے سر پر پریشانیوں کا پہاڑ بھی لاد کر لائے گا۔ نئی حکومت کو ان تمام باتوںسے بچنا پڑے گا جن کے خلاف ماضی میں دھرنے ہوتے رہے، اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے خلاف بھی وہی اقدامات ہوں گے جن کے سہارے ماضی میں نواز شریف کو ناکوں چنے چبوائے گئے، ہاں اتنا فرق ضرور ہوگا کہ پہلے کی نسبت ان اقدامات کا سلسلہ جلدی شروع ہوجائے گا۔