حکومت کون کر رہا ہے
جہاں جائیداد، ملکیت، خاندان، عقیدہ، تیرا اور میرا نہیں ہوگا اور لوگ حقیقتاً آزاد ہوں گے۔
ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت وہی کرتا ہے جو سامنے ہے یا آئے روز جو میڈیا پر تقریر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ عوام کی طرف سے بھی پتھرائو ان ہی پر ہوتا ہے۔ ایک حد تک تو ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ وہی حقیقی حکمرانوں کے نمایندے ہوتے ہیں۔ مگر اصل حکمران وہ ہیں جو عقب میں رہ کر سب کچھ کرواتے ہیں اور وہ ہیں دنیا بھر کے ارب پتی۔ سرمایہ داری بذریعہ امریکی ڈالر، جس کو قانون کے اندر رکھنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، جب کہ چوری کا مال سوئٹزرلینڈ کے علاوہ شمالی امریکا، مغربی یورپ سے قبرص تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکا میں ہزاروں اسکول کے بچے خواہ گولیوں سے مرتے ہی کیوں نہ رہیں، اسلحہ پر کھلے عام استعمال کی پابندی کا قانون بنایا جاتا ہے اور نہ لاگو ہوتا ہے۔ جب کہ عراق اور افغانستان پر حملے کا قانون ایک گھنٹے میں نافذ ہوجاتا ہے اور حملہ بھی ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ جب تک حکمرانوں کے ذاتی مفادات پر کوئی ضرب نہ آئے، اس وقت تک قانون حرکت میں نہیں آتا۔
مغربی سماج کے قانون کی حکمرانی کے ڈھنڈورے کے باوجود اقوام متحدہ کے نمائشی قانون کے علاوہ دنیا بھر میں قبرستان کا سناٹا ہے۔ ہاں پاناما لیکس کی سرنگ میں چراغ ٹمٹما رہا ہے، اور بقول سوروز ''امریکا اس پر تیار نہیں ہے''۔ یہ بات کوئی عام آدمی نے نہیں کہی، بلکہ امریکا کے 10 بڑے سرمایہ داروں میں سے ایک ہے، جو 14 کتابوں کا مصنف ہے اور امریکی یہودی بھی ہے۔
امریکی جریدہ فوربس کے مطابق دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد 1542 ہوچکی ہے جن کے پاس 54 کھرب ڈالر ہیں (پوشیدہ معلوم نہیں) جن میں 81 ارب پتی خواتین ہیں اور ان میں زیادہ امریکی شہری ہیں۔ دنیا کے کل 1542 ارب پتیوں میں 495 امریکا کے ہیں۔ ان میں ہمارے بھوپت ڈاکو، جس کا انتقال رامسوامی کراچی میں ہوا تھا اور انگریزی زبان کے افسانوی روبن ہڈ بھی ہیں، جیسا کہ بل گیٹس سو ارب کما کر پانچ ارب کے پولیو کے قطرے بچوں کو پلا کر جنت کا دروازہ تھوڑا سا کھولنا چاہتا ہے۔ بھارت میں 119 ارب پتی ہیں جن کی دولت 440 ارب ڈالر ہے۔
پاکستان کے بعض دانشور کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک چائے کا ویٹر وزیراعظم بن گیا، مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کیونکر ارب پتی بن گیا۔ پاکستان میں بھی ابھی انتخابات میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کا کاروبار شروع ہوچکا ہے۔ چند پیادے بھی اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اعداد وشمار صیغہ راز ہیں۔ غیر ملکی بینکوں کی طرف خیال نہ جائے تو بہتر ہے، مگر عالمی بینک اور آئی ایم ایف بھی حکمران ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی ارب پتی ہیں، سعودی شاہ سلیمان، دبئی اور ابوظہبی کے حکمرانوں کے علاوہ کئی سعودی شہزادے جنھیں کئی ماہ تک پانچ ستارے کے ہوٹل میں قید رکھ کر وہاں سے رہائی اس وقت ملی جب انھوں نے خطیر رقم سعودی حکو مت کو دی ہے۔
ملیشیا کے تنکو عبدالرزاق، ایرانی سابق صدر رفسنجانی، حال ہی میں سزا پانے والے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف، اٹلی کے سابق صدر بارلسکو نی اور خشسوگی جو دنیا بھر میں امریکی اسلحہ فروخت کرتا ہے اور وہ اس کا سب سے بڑا تاجر ہے، ان کے بیشتر گماشتے جمہوری نظام کے لبادے میں منتخب ہو کر دنیا کی دو تہائی کی آبادی پر حکومت کرتے ہیں۔ نئے آداب سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، بلکہ آپ کی حیثیت کیا ہے؟ 1980 تک کی ہماری اقدار معدوم ہوگئی ہیں۔
9 جولائی 2018 کو روزنامہ ایکسپریس میں رائو منظر حیات اپنے ایک کالم میں رقم طراز ہیں کہ ''میں پنجاب کے کئی سرکاری افسروں کو جانتا ہوں جن کے غیر ملکی اکائونٹ میں اربوں جمع ہیں۔ امریکی سیاست پر اب ارب پتی اور کارپوریشنز کا غلبہ ہے، وہ ارکان کانگریس، امیدواروں اور پالیسی سازوں کو جب چاہیں خرید سکتے ہیں''۔ 11 جولائی 2018 جارج مون بوٹ 'گارجین لندن' میں لکھتے ہیں کہ ''اس عہد کی جمہوریتیں اہم فیصلوں میں تاریخی تاخیر سے کام لیتی ہیں اور رسوائی کی حد تک اس پر آمادہ نہیں ہوتی اور تکلیف نہیں اٹھاتی کہ جب تک اس کے نہایت اہم ذاتی مفادات پر براہ راست چوٹ نہ پڑتی ہو۔''
جب کہ راقم کا کہنا ہے کہ جنگ کا فیصلہ ایک دن میں کر لیتے ہیں، جیسا کہ شام پر میزائل داغنے کا عمل۔ امریکا میں اسی امیدوار کی کامیابی ہوتی ہے جسے زیادہ ارب پتیوں کی حمایت و تعاون حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ انتخابات پر ڈالر لگا کر مزید ڈالر کمانے کی راہیں ہموار کرلیتے ہیں۔ سرمایے کی حکومت ہر جگہ اور ہر وقت جگمگاتی ہے۔
پاکستانی نجی چینل کی ایک رپورٹ اور سوشل میڈیا کے مطابق 2008 میں قاسم آباد، حیدرآباد سے ایک صاحب صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے، ان کے والد پولنگ بوتھ میں داخل ہونا چاہتے تھے، جس پر اے ایس آئی علی حسن سولنگی نے انھیں روک لیا۔ مگر اس کے بعد ہوا یہ کہ ان صاحب کے پالتو بدمعاشوں نے علی حسن سولنگی کو گھر سے اٹھا لیا۔ اس کی دونوں ٹانگیں کلہاڑی سے کاٹیں، پھر دونوں بازو کاٹے، پھر دونوں آنکھیں نکالیں اور جسم پر تیزاب ڈالا۔ اتفاق سے وہ بچ گیا۔ اس نے انٹرویو بھی دیا۔ مگر آج تک کوئی ایف آئی آر کٹی، گرفتاری ہوئی، تحقیق ہوئی اور نہ سزا۔ کیس کو ایسے دبا کر غائب کردیا گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس لیے ہر موقع پر اور ہر جگہ سرمایہ داروں کی حکمرانی ہے۔
ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں جائیداد، ملکیت، خاندان، عقیدہ، تیرا اور میرا نہیں ہوگا اور لوگ حقیقتاً آزاد ہوں گے۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ فوج اور عدلیہ کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ ہر شخص کا دفاع سب مل کر کریں گے اور ہر گلی محلے میں صلح صفائی کی کمیٹیاں قائم ہوں گی۔ یعنی ساری دنیا کے مالک سارے لوگ ہوں گے، اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔
امریکا میں ہزاروں اسکول کے بچے خواہ گولیوں سے مرتے ہی کیوں نہ رہیں، اسلحہ پر کھلے عام استعمال کی پابندی کا قانون بنایا جاتا ہے اور نہ لاگو ہوتا ہے۔ جب کہ عراق اور افغانستان پر حملے کا قانون ایک گھنٹے میں نافذ ہوجاتا ہے اور حملہ بھی ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ جب تک حکمرانوں کے ذاتی مفادات پر کوئی ضرب نہ آئے، اس وقت تک قانون حرکت میں نہیں آتا۔
مغربی سماج کے قانون کی حکمرانی کے ڈھنڈورے کے باوجود اقوام متحدہ کے نمائشی قانون کے علاوہ دنیا بھر میں قبرستان کا سناٹا ہے۔ ہاں پاناما لیکس کی سرنگ میں چراغ ٹمٹما رہا ہے، اور بقول سوروز ''امریکا اس پر تیار نہیں ہے''۔ یہ بات کوئی عام آدمی نے نہیں کہی، بلکہ امریکا کے 10 بڑے سرمایہ داروں میں سے ایک ہے، جو 14 کتابوں کا مصنف ہے اور امریکی یہودی بھی ہے۔
امریکی جریدہ فوربس کے مطابق دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد 1542 ہوچکی ہے جن کے پاس 54 کھرب ڈالر ہیں (پوشیدہ معلوم نہیں) جن میں 81 ارب پتی خواتین ہیں اور ان میں زیادہ امریکی شہری ہیں۔ دنیا کے کل 1542 ارب پتیوں میں 495 امریکا کے ہیں۔ ان میں ہمارے بھوپت ڈاکو، جس کا انتقال رامسوامی کراچی میں ہوا تھا اور انگریزی زبان کے افسانوی روبن ہڈ بھی ہیں، جیسا کہ بل گیٹس سو ارب کما کر پانچ ارب کے پولیو کے قطرے بچوں کو پلا کر جنت کا دروازہ تھوڑا سا کھولنا چاہتا ہے۔ بھارت میں 119 ارب پتی ہیں جن کی دولت 440 ارب ڈالر ہے۔
پاکستان کے بعض دانشور کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک چائے کا ویٹر وزیراعظم بن گیا، مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کیونکر ارب پتی بن گیا۔ پاکستان میں بھی ابھی انتخابات میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کا کاروبار شروع ہوچکا ہے۔ چند پیادے بھی اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اعداد وشمار صیغہ راز ہیں۔ غیر ملکی بینکوں کی طرف خیال نہ جائے تو بہتر ہے، مگر عالمی بینک اور آئی ایم ایف بھی حکمران ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی ارب پتی ہیں، سعودی شاہ سلیمان، دبئی اور ابوظہبی کے حکمرانوں کے علاوہ کئی سعودی شہزادے جنھیں کئی ماہ تک پانچ ستارے کے ہوٹل میں قید رکھ کر وہاں سے رہائی اس وقت ملی جب انھوں نے خطیر رقم سعودی حکو مت کو دی ہے۔
ملیشیا کے تنکو عبدالرزاق، ایرانی سابق صدر رفسنجانی، حال ہی میں سزا پانے والے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف، اٹلی کے سابق صدر بارلسکو نی اور خشسوگی جو دنیا بھر میں امریکی اسلحہ فروخت کرتا ہے اور وہ اس کا سب سے بڑا تاجر ہے، ان کے بیشتر گماشتے جمہوری نظام کے لبادے میں منتخب ہو کر دنیا کی دو تہائی کی آبادی پر حکومت کرتے ہیں۔ نئے آداب سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، بلکہ آپ کی حیثیت کیا ہے؟ 1980 تک کی ہماری اقدار معدوم ہوگئی ہیں۔
9 جولائی 2018 کو روزنامہ ایکسپریس میں رائو منظر حیات اپنے ایک کالم میں رقم طراز ہیں کہ ''میں پنجاب کے کئی سرکاری افسروں کو جانتا ہوں جن کے غیر ملکی اکائونٹ میں اربوں جمع ہیں۔ امریکی سیاست پر اب ارب پتی اور کارپوریشنز کا غلبہ ہے، وہ ارکان کانگریس، امیدواروں اور پالیسی سازوں کو جب چاہیں خرید سکتے ہیں''۔ 11 جولائی 2018 جارج مون بوٹ 'گارجین لندن' میں لکھتے ہیں کہ ''اس عہد کی جمہوریتیں اہم فیصلوں میں تاریخی تاخیر سے کام لیتی ہیں اور رسوائی کی حد تک اس پر آمادہ نہیں ہوتی اور تکلیف نہیں اٹھاتی کہ جب تک اس کے نہایت اہم ذاتی مفادات پر براہ راست چوٹ نہ پڑتی ہو۔''
جب کہ راقم کا کہنا ہے کہ جنگ کا فیصلہ ایک دن میں کر لیتے ہیں، جیسا کہ شام پر میزائل داغنے کا عمل۔ امریکا میں اسی امیدوار کی کامیابی ہوتی ہے جسے زیادہ ارب پتیوں کی حمایت و تعاون حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ انتخابات پر ڈالر لگا کر مزید ڈالر کمانے کی راہیں ہموار کرلیتے ہیں۔ سرمایے کی حکومت ہر جگہ اور ہر وقت جگمگاتی ہے۔
پاکستانی نجی چینل کی ایک رپورٹ اور سوشل میڈیا کے مطابق 2008 میں قاسم آباد، حیدرآباد سے ایک صاحب صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے، ان کے والد پولنگ بوتھ میں داخل ہونا چاہتے تھے، جس پر اے ایس آئی علی حسن سولنگی نے انھیں روک لیا۔ مگر اس کے بعد ہوا یہ کہ ان صاحب کے پالتو بدمعاشوں نے علی حسن سولنگی کو گھر سے اٹھا لیا۔ اس کی دونوں ٹانگیں کلہاڑی سے کاٹیں، پھر دونوں بازو کاٹے، پھر دونوں آنکھیں نکالیں اور جسم پر تیزاب ڈالا۔ اتفاق سے وہ بچ گیا۔ اس نے انٹرویو بھی دیا۔ مگر آج تک کوئی ایف آئی آر کٹی، گرفتاری ہوئی، تحقیق ہوئی اور نہ سزا۔ کیس کو ایسے دبا کر غائب کردیا گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس لیے ہر موقع پر اور ہر جگہ سرمایہ داروں کی حکمرانی ہے۔
ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں جائیداد، ملکیت، خاندان، عقیدہ، تیرا اور میرا نہیں ہوگا اور لوگ حقیقتاً آزاد ہوں گے۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ فوج اور عدلیہ کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ ہر شخص کا دفاع سب مل کر کریں گے اور ہر گلی محلے میں صلح صفائی کی کمیٹیاں قائم ہوں گی۔ یعنی ساری دنیا کے مالک سارے لوگ ہوں گے، اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔