دنیا کی طوالت اور ہمارا سیاسی نظام
یہ بڑا سیدھا سادہ پرامن عمل ہے، اس میں تشدد، نفرتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق دنیا یعنی کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں، چار ارب سال کی طوالت تصورات سے بھی پرے ہے، لہٰذا ہم چار ارب سال کی تاریخ پر غور کرنے کو وقت کا زیاں ہی سمجھتے ہیں لیکن پندرہ بیس ہزار سال کی انسانی تاریخ پر غور کرنا ہماری ضرورت بھی ہے، ہمارا فرض بھی ہے۔
جب ہم انسانوں کی معلوم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ تاریخ نفرتوں، عداوتوں، تعصبات، جنگوں سے بھری نظر آتی ہے اور اس کی ذمے داری ہر دور کے مفکروں، دانشوروں پر آتی ہے کہ انھوں نے انسانوں کو نفرتوں، عداوتوں، جنگوں سے پاک زندگی گزارنے کا کوئی فلسفہ دیا، نہ کوئی راستہ دکھایا۔ ماضی کا انسان علم و آگہی سے محروم تھا، جس کی وجہ سے وہ دنیا کے انسانوں کو ایک بہتر پرامن زندگی گزارنے کا راستہ نہ دکھا سکا، ماضی کے کلچر میں مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی، اس روایت کی وجہ سے دنیا میں جنگوں، خون خرابے کا کلچر عام تھا۔
اب انسان صدیوں کو پھلانگ کر اکیسویں صدی میں آ پہنچا ہے، علم و آگہی اب انسانی معاشروں کی ضرورت بن گئی ہے، دنیا کے ہر ملک میں دنیا کو بہتر اور پرامن بنانے کے خواہش مند بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن وہ بے چین اس لیے نظر آتے ہیں کہ جدید دنیا کے زعما نے دنیا کو چلانے کا اختیار کم ظرف، متعصب، آفاقی وژن کے اندھوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے، جنھیں عرف عام میں ہم سیاستدان کہتے ہیں۔ یہ مخلوق تنگ نظر، مفاد پرست، لڑاکو، متعصب اور کم فہم ہے، اس کی فکر کا مرکز حصول اقتدار، حصول دولت کے علاوہ کچھ نہیں۔ جو سیاست کار حصول اقتدار، حصول دولت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے وہ کسی حوالے سے بھی انسانوں کی اجتماعی بھلائی پر نہیں سوچ سکتا۔
ریڈی ریفرنس کے طور پر ہم اپنے ملک کے سیاستدانوں کی کارکردگی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ ہم بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کی قوموں میں ہم ایک افضل قوم ہیں اور عملی صورتحال یہ ہے کہ عملاً ہم دنیا کی قوموں میں ایک بدتر قوم بنے ہوئے ہیں۔ آج کل ہم انتخابی بخار میں مبتلا ہیں، دنیا کے ہر جمہوری ملک میں انتخابات ہوتے ہیں، ان ملکوں کے سیاستدان عوام کے سامنے اپنی اپنی پارٹیوں کا منشور پیش کرتے ہیں، منشور ایک ایسی دستاویز ہوتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں وہ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لیے کیا کیا اقدام کریں گے۔
یہ بڑا سیدھا سادہ پرامن عمل ہے، اس میں تشدد، نفرتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ جس پارٹی کے منشور کو عوام کی اکثریت پسند کرتی ہے وہ اقتدار میں آتی ہے اور اس کی پہلی ترجیح اپنے پیش کیے ہوئے منشور پر عملدرآمد ہوتی ہے۔ ہر حلقے کے ووٹر منتخب نمایندوں پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ انتخابی وعدوں اور منشور پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہر ملک میں اپوزیشن موجود ہوتی ہے جس کا کام ہم جیسے ملکوں کی اپوزیشن کی طرح بات بے بات پر حکومت کی ٹانگیں کھینچنا نہیں، بلکہ حکومت کی غلطیوں کی پرامن طریقے سے نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل میں سیاسی عداوت، سیاسی دشمنی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں حکمران جماعتیں عموماً پرامن طور پر اپنی ٹرم پوری کرتی ہیں۔
ہم جیسے سیاسی کلچر کے حامل ملکوں کا حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ ہوتے ہیں، مالدار سیاسی جماعتیں بھاری معاوضوں پر شہر کے غنڈہ عناصر کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور الیکشن کے دوران حسب ضرورت ان بدمعاشوں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابی مہم تشدد اور خون خرابے کی نذر ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے ترقی یافتہ ملکوں میں سیاسی جماعتیں منشور پر انتخاب لڑتی ہیں، جس میں تشدد کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوتا، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی غنڈہ عناصر موجود ہوتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے کمالات دکھاتے ہیں لیکن باشعور عوام ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیتے ہیں۔
ان کے برخلاف ہمارے جیسے ملکوں کی انتخابی مہم الزامات اور جوابی الزامات پر مبنی ہوتی ہے، اس مہم میں بے چارہ منشور ایک کونے میں پڑا سڑ رہا ہوتا ہے، البتہ انتخابی وعدوں کی کوئی سرحدیں ہوتی ہیں، نہ حدود و قیود۔ سیاسی رہنما اپنے سیاسی مخالفین کی سات پشتوں تک کو انتخابی میدان میں گھسیٹ لاتے ہیں اور ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ انسانیت منہ چھپائے پھرتی ہے۔ تشدد ہماری انتخابی مہم کا ایک لازمی حصہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سال میں ہمارے کردار میں کچھ تو تبدیلیاں، کچھ تو بہتری آنی چاہیے تھی؟
ہم نے اپنے کالم کا آغاز کرۂ ارض کی عمر کے حوالے سے کیا تھا۔ ہماری زمین یعنی ہماری دنیا چار ارب سال پرانی ہے لیکن کرۂ ارض پر انسانوں کی معلوم تاریخ بارہ پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے، کرۂ ارض پر زندگی فنا ہوتی رہی اور لاکھوں سال کے پراسس میں دوبارہ وجود میں آتی رہی۔ یہ کس قدر افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ انسان مریخ اور دوسرے دور دراز ستاروں کا حال جاننے کے لیے اب تک کئی مشن بھیج چکا ہے لیکن اسے کرۂ ارض کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہزاروں سال سے کرۂ ارض پر بسنے والا انسان طبقاتی استحصال کا شکار ہے، ہر سال لاکھوں انسان، لاکھوں بچے، لاکھوں خواتین بھوک اور بیماری سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ چند ہاتھوں میں اربوں کھربوں کی دولت جمع ہے۔ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور میں طبقاتی استحصال کا خاتمہ شامل نہیں ہونا چاہیے؟
مجھے بڑی خوشی ہے کہ طب کے میدان میں ہمارے ماہر ڈاکٹروں نے دو انسانوں کے ناکارہ دل بدل کر مصنوعی دل لگا دیے۔ طب سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہی ترقی ہونی چاہیے تاکہ انسانیت جدید علوم سے استفادہ کرے، ہماری ترجیح زمینی مسائل ہونے چاہئیں، مریخ پر پہنچنا اچھی بات ہے لیکن چار چھ ہزار سال پہلے انسانی زندگی کا پیٹرن کیا تھا، اس کا پتہ کرنے کے لیے موئن جو دڑو، ہڑپہ جیسے آثار قدیمہ کی تحقیق پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ہم اپنے ماضی کی روشنی میں مستقبل کی صورت گری کرسکیں۔