آٹھ آنے
ہرانسان دوسرے کے لیے ناصح اور مبلغ کا کرداراداکررہاہے۔اپنی کمزوریوں اورکوتاہیوں کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ لائل پور کا ڈویژنل پبلک اسکول ابتدائی ادوارمیں صرف ایک کوٹھی میں محدود تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں بھی، اسکول ایک بہترین مقام حاصل کر چکاتھا۔ذہن میں پرانے اسکول کا دھندلاسا خاکہ موجود ہے۔یہ کوٹھی جیل روڈ کے تقربیاًآخری کونہ میں تھی۔ایک دن،اسکول ٹیچرز نے سب بچوں کی لائن بنوائی۔
قطعاًمعلوم نہیں تھاکہ کہاں جارہے ہیں۔گمان ہے کہ تین چارسوبچے اور بچیاں تھیں۔قطارمیں تھوڑی دور چلے توایک بہت بڑی جگہ آگئی۔اس میں وسیع وعریض گرائونڈاوربڑی بڑی عمارتیں تھیں۔خیال تھاکہ ہم لوگ پیدل چلتے چلتے کسی دوسری دنیا میں آگئے ہیں۔اکثربچوں کاگمان تھاکہ یہ کوئی نیاشہرہے ۔ بے حدخوبصورت اور دیدہ زیب جگہ ہمارے اسکول کی نئی جگہ تھی۔ایک بھرپور عمارت اورحدِنظرتک سبزہ ہی سبزہ۔جن لوگوں نے اسکول بنوایا تھا، اس شہر پر ایک عظیم احسان تھا۔
عجیب بات کرنا چاہتا ہوں۔ اتنے عظیم ترقیاتی منصوبے کے لیے کسی جگہ پرشکریہ کے بینر نہیں لگے ہوئے تھے۔ ہماری موجودگی میں اس کی کوئی افتتاحی تقریب بھی نہیں ہوئی تھی۔ شائدپہلے وقتوں کے سرکاری ملازمین اور سیاستدان کام کی عظمت کوجانتے تھے۔سستی شہرت سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ قریبی دوست، ارشد چوہدری نے ایک دن بتایاکہ یہ فقید المثال اسکول کس کس نے محنت سے بنوایا۔ تمام نام بھول چکا ہوں۔ مگر ان لوگوں کااحسان ہرگزنہیں بھولا۔
جونیئراسکول میں حددرجہ نظم وضبط تھا۔لیڈی ٹیچراور ہیڈمسٹرس دیکھ کرجان نکل جاتی تھی۔طویل قامت مسز خان،ساڑھی پہن کرانتہائی تہذیب سے چلتی ہوئی آتی تھیں توبچے اوربچیوں کوسانپ سونگھ جاتاتھا۔خاموشی سے اپنے کام میں مشغول ہوجاتے تھے۔مگرکن انکھیوں سے نظریں مسزخان پرہی جمی ہوئی تھیں۔ بالوں کاایک بڑاسا جوڑاباندھ کراسکول آتی تھیں،اس سے انکاقد مزید بڑا لگتا تھا۔بنیادی طور پروقاراورتوازن کااستعارہ تھیں۔
یہی حال دوسری ٹیچرزکابھی تھا۔میڈم طلعت ہماری کلاس کوپڑھاتی تھیں۔ دبلی پتلی لیکن انتہائی زبردست خاتون۔ پڑھانے میں انکاکوئی ثانی نہیں تھا۔سوچتاہوں توگمان ہوتاہے کہ یہ بڑے لوگ کسی اورسیارے کی مخلوق تھے۔ بے غرض اوربے لوث فرشتے۔مسزچوہدری جوہماری ہیڈمسٹرس تھیں، ان کا بھی یہی حال تھا۔جونیئرسیکشن کے چارپانچ برس کیسے گزرے، معلوم ہی نہیں ہوا۔ جب 1965ء کی جنگ ہوئی توہم سارے جونیئراسکول میں تھے۔بریک کے وقت کھیلتے ہوئے، اوپرسے فضائی جنگی جہازتیزی سے گزرتے تھے۔
ہلکے نیلے رنگ کے یہ ہوائی جہازپاکستان ائیرفورس کے تھے۔ جب کوئی جہاز فضا کو چیرتا ہوا گزرتا تھا، بچے تالیاں بجانی شروع کردیتے تھے۔ایسے لگتاتھاکہ کوئی کھیل ہورہا ہے۔ ہرگز معلوم نہیں تھاکہ جنگ کیاہوتی ہے۔ ہندوستان کدھر ہے۔ اسکول کے بعداگرہوائی جہاز فضا میں چکرلگا رہا ہوتا تھا، تو اکثرلوگ چھتوں پرکھڑے ہوکر تالیاں بجانی شروع کردیتے تھے۔ جنگ کتنی ظالم ہوتی ہے معلوم ہی نہیں تھا۔ذہن میں کسی کے خلاف کوئی کدورت نہیں تھی۔حیرت انگیزحدتک اچھی زندگی تھی۔
جب سینئرسیکشن گئے توکیمبرج کے فارغ التحصیل اصغرچوہدری پرنسپل تھے۔غالباً67ء کی بات ہے۔کیاانسان تھا۔کالاگائون اورسوٹ میں ملبوس شخص ایک جادوگر نظر آتا تھا۔تعلیمی جادوگر۔بالکل انگریز۔کہتے تھے کہ اچھے اسکول کی چھاپ طلباء پرایسی ہونی چاہیے،کہ صرف چال وڈھال سے ہی انھیں پہچان لیاجائے۔سڑک پرچلتے ہوئے بھی اپنے اسکول کی روایات کاخیال کرناچاہیے۔جہاں کھڑے ہوتے تھے،بچے ان کے اردگردجمع ہوجاتے تھے۔
اس شخص کی طلباء سے اُنسیت دیکھیے۔یہ بھی چیک کرتے تھے کہ بچے کے ناخن ترشے ہوئے ہیں کہ نہیں۔کانوں میں میل تونہیں ہے۔ان کی اہلیہ انگریزتھی۔اکثراسکول میں اپنے بیٹے کے ساتھ سائیکل چلاتی ہوئی نظرآتی تھیں۔بہرحال سینئرسیکشن ایک جہانِ حیرت تھا۔بریک میں اساتذہ تمام طالبعلموں کومیس لے کرجاتے تھے۔وہاں لازم تھاکہ بچے دودھ پیںگے۔ دودھ کی خوشبو آج تک یادہے۔لباس،چال سے لے کرصحت تک کاخیال کیا جاتاتھا۔سائیکل اسٹینڈکے سامنے ایک کینٹین تھی۔بہت بڑاکمرہ نہیں تھا۔چارآنے کی کوک کی بوتل اورشائدچارآنے کاچپس کاپیکٹ ملتا تھا۔
کینٹین،بریک میں طلباء سے لبریز ہوتی تھی۔کان پڑی آوازسنائی نہیں دیتی تھی۔ہربچے کی کوشش ہوتی تھی کہ آٹھ آنے جتنی خطیررقم میں بوتل اورچپس لینے میں کامیاب ہوجائے۔جیسے ہی بریک ختم ہونے کی گھنٹی بجتی تھی،سب واپس کلاسوں میں بھاک کرآجاتے تھے۔ہفتہ میں کئی بار،بریک میں ایک جنگ ہوتی تھی۔دو تین بچے،ایک چھوٹے سے چبوترے پرچڑھ جاتے تھے۔ پھراس کی حفاظت شروع کردیتے تھے۔باقی پانچ چھ بچے اس ٹیلے کوفتح کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے تھے۔ حفاظت کرنے والوں کے پاس ایک ہی ہتھیار ہوتا تھا۔ بیلٹ اُتارکرچابک کی طرح استعمال کرنے لگتے تھے۔
دس منٹ کی جنگ میں ویسے کوئی بھی زخمی نہیں ہوتاتھا۔ایسی لڑائی ہوتی تھی جس میں کوئی بھی فاتح یامفتوح نہیں تھا۔ دس منٹ بعدسب کچھ بھول کر دوبارہ دوست بن جاتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ دلوں میں ایک دوسرے کے لیے صرف اورصرف نفرتیں اورکدورتیں ہیں۔آج کل اگرکوئی کامیاب ہے تواس کی ٹانگیں کھینچنے بلکہ کاٹنے کے لیے ہردوسراانسان تیار ہے۔منافقت اس درجہ ہے کہ احترام اورعزت صرف اور صرف منہ پرہے۔جیسے ہی کسی نے رخ موڑااور اُٹھا فوراً اس کی شدیدبرائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔بہرحال سینئرسیکشن میں قطعاًکوئی ایسامنفی جذبہ موجودنہیں تھا۔
تعلیمی معیارتواپنی جگہ۔مگرہنرکی عزت کروانے کابھی نایاب طریقہ اپنایا گیا تھا۔ہفتہ میں ایک گھنٹے کاخصوصی پیریڈ ہوتا تھا۔اس میں ایجوکیشنل بلاک سے منسلک ایک ورکشاپ میں کام کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔کوئی آری سے لکڑی چیرتاتھااورکوئی لوہے سے کوئی چھوٹاساماڈل بنارہاہوتاتھا۔بالکل اسی طرح کیاریوں میں پودے لگانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ مقصد،اپناکام خودکرنے کی اورہنرکواپنے اندرسمونے کی تربیت تھی۔
کیاریوں میں پودے لگانے کی تربیت کاکم ازکم مجھے بہت فائدہ ہوا۔آج تک جس ضلع یاڈویژن میں گیا ہوں، کسی نئی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہواہوں،ہرجگہ پہلاکام نئے پودے لگوانا ہوتا ہے۔ اسکول کی ابتدائی تربیت نے قدرت کے بے حدنذدیک کردیاہے۔ویسے اب تو ایسے لگتاہے کہ ہرانسان ایک خودروپودا ہوتا ہے۔ اچھی تعلیم اسکوتراش کرخوبصورت درخت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔لیکن اگرانسان معیاری تعلیم حاصل نہ کرسکے توایک جھاڑی میں تبدیل ہوجاتاہے۔جسکانقصان اس کے فائدے سے بہت کم ہے۔
اسکول آنے جانے کے لیے اکثریت بچے سائیکل استعمال کرتے تھے۔ہمارے گھرکاایک ملازم محمدعلی،ملازم نہیں بلکہ فرداپنی سائیکل پراسکول چھوڑنے جاتاتھا۔ کیرئیر پر منوربھائی بیٹھتے تھے اورسائیکل کے ڈنڈے پرمیں بیٹھتا تھا۔والد صاحب کے پاس کارتھی،جس پروہ کچہری جایا کرتے تھے۔ گاڑی میں بیٹھنے کاموقع کم ملتاتھا۔ہاں،جب کسی جگہ جانا ہوتاتھاتوسارے بچے گاڑی کی پچھلی سیٹ پربیٹھ جاتے تھے۔غفارڈرائیورگاڑی چلاتاتھا۔والدصاحب نے پہلی گاڑی خریدی تواسکاسائزقدرے بڑاتھا۔جناح کالونی والے گھرمیں کھڑاکرنے کی جگہ نہیں تھی۔
لہذاوالدصاحب نے گھرسے بہت تھوڑے فاصلے پرایک گیراج لیا ہوا تھا۔ غفارڈرائیوروہاں گاڑی کھڑی کرتاتھااوروہیں سے گھر لے کر آتاتھا۔کچھ کچھ یادہے،شیورلٹ گاڑی تھی،سفیدرنگ کی۔ اسٹارٹ کرنے کابھی عجیب ساطریقہ تھا۔غفارایک بڑے ہینڈل سے گاڑی کے انجن کے سامنے لگے ہوئے کسی پرزے کوگھماتاتھااورایک دومنٹ میں گاڑی اسٹارٹ ہوجاتی تھی۔ اس زمانے میں چابی سے اسٹارٹ ہونے والی گاڑیاں نہیں آئی تھیں۔
بہرحال گاڑی میں سفرکرنے کاکوئی شوق ہی نہیں تھا۔شوق صرف اورصرف ایک تھاکہ کسی طریقے سے ایک ذاتی سائیکل مل جائے۔اُمیدنہیں تھی کہ اسکول میں پڑھتے ہوئے اتنی بڑی تمناپوری ہوگی۔ساتویں کلاس میں تھاتوایک دن والدصاحب نے بلاکرکہاکہ فلاں دکان پرجائو اور سائیکل لے لو۔یقین نہیں آرہاتھا۔اس دکان پرگیااور سہراب سائیکل لی۔اس کے مختلف حصوں پرکاغذکاگتہ چڑھا ہوا تھا۔بڑے شوق سے ہنیڈل پرگھنٹی لگوائی۔جب گھر آرہا تھا تومسلسل گھنٹی بجاتارہا۔جتنی خوشی اپنی سائیکل ملنے پرہوئی تھی،اتنی خوشی1984ء میں ذاتی گاڑی ملنے پربھی نہیں ہوئی۔
اسکول میں حساب کے ٹیچرمشتاق صاحب تھے۔ انتہائی شفیق انسان۔کالے گائون میں ایک لکڑی کافٹا چھپا کر رکھتے تھے۔کوئی طالبعلم غلطی کرتاتھاتوکافی زورسے فٹا ہاتھوں پرمارتے تھے۔ویسے مجھے بغیرغلطی کے بھی مارتے تھے۔ایک دن ہمت کرکے پوچھاتوکہنے لگے کہ تم کلاس میں فسٹ آتے ہو۔حساب بھی ٹھیک سیکھ چکے ہو۔مگرفٹے سے اس لیے مارتاہوں کہ مزیدپڑھو اوربہت زیادہ ترقی کروں۔ یقین فرمائیے۔
اب مشتاق صاحب کی باتیں یادکرتاہوں تو آنکھوں میں بادل آجاتے ہیں۔ہراُستادکی کوشش ہوتی تھی کہ اس کی کلاس کے بچے آگے سے آگے بڑھیں۔ترقی کے میدان میں سب کوپیچھے چھوڑدیں۔یہی ہوا۔اس اسکول سے ہرطرف بہترین اورکامیاب انسان نکلے۔جوجس بھی شعبہ میں گیا،کمال کرگیا۔سول سروس، پولیس، کاروبار، ڈاکٹر، انجینئر،آرکی ٹیکٹ، ہرشعبہ میں ان بچوں نے نام پیدا کیا۔
اب سوچتاہوں توعجیب سالگتاہے۔ہرطرف نفسانفسی، جعلی اوردوھرے معیار،خلوص کامکمل فقدان اورجھوٹ کی نگری نظرآتی ہے۔پیسے کے لیے بھائی بھائی کاگلہ کاٹ رہا ہے۔بچے اپنے والدین کواے ٹی ایم کارڈسمجھتے ہیں۔اچھے دوستوں کاقحط پڑچکاہے۔
ہرانسان دوسرے کے لیے ناصح اور مبلغ کا کرداراداکررہاہے۔اپنی کمزوریوں اورکوتاہیوں کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔پتہ نہیں۔اسکول کازمانہ خواب تھایا اب خواب دیکھ رہاہوں۔حقیقت کیاہے۔معلوم نہیں۔ پبلک اسکول کی کینٹین بھی شائدکوئی وہم تھی،جس میں آٹھ آنے میں ہر چیز مل جاتی تھی۔پیچھے مڑکردیکھتاہوں تووقت کی پگڈنڈی پر ایک سہاناساطلسمی دور تھا،جوگزرگیا،رُکا نہیں یاشائدکبھی آیاہی نہیں!