نواز شریف کس طرح رہا ہوسکیں گے
ابھی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کے فیصلے آنا باقی ہیں۔
ملک کی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں اور سیاسی درجہ حرارت نقطہ ابال پر پہنچ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق وفاق کی 272نشستوں کے لیے 3ہزار 675امیدوار انتخابی معرکے میں حصہ لے رہے ہیں، جب کہ چاروں صوبوں میں صوبائی نشستوں کے لیے 8ہزار 895 امیدوار قسمت آزمائی کے لیے سیاسی میدان میں اترے ہیں۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت درجنوں سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں۔
تبصروں و تجزیوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ عام انتخابات میں کونسی جماعت کتنی نشستوں پر فتح حاصل کریگی، اگلی جمہوری حکومت کس جماعت کی بنے گی؟ ان سوالوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ سیاسی منظرنامے کا حصہ بنا ہوا ہے۔ دلچسپ و منفرد بات یہ ہے کہ موجودہ عام انتخابات ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب ملکی تاریخ میں اپنی آئینی مدت پوری کرنیوالی دوسری جمہوری حکومت کے قائد میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد جیل میں ہے۔
ایون فیلڈریفرنس میں طویل قید اور بھاری جرمانوں کی سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے وطن واپسی کے بعد گرفتاری اور اڈیالہ جیل منتقلی سے سوا دوسال سے ملک کے منظرنامے پر چھائے رہنے والے ایشو پاناما لیکس کا ایک باب اختتام کو پہنچا، ابھی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کے فیصلے آنا باقی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے قائد نواز شریف کی مشکلات کو کم کرے اور انھیں جیل سے رہائی دلائی جائے؟ مبصرین کی نظر میں اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس 3طریقے ہیں۔ اول، مسئلہ کا سب سے آسان و سادہ حل اور بہترین موقع یہی ہے کہ 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات میں اتنی نشستوں پر فتح حاصل کی جائے کہ ن لیگ 2تہائی اکثریت سے حکومت بناسکے جس کے بعد آئین میں جس طرح چاہے ترمیم کرکے اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔
عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ (ن) کو بڑی تعداد میں ووٹ مل گئے اور وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر مسئلہ ہی حل ہوجائیگا اور وہ قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہلی کے بعد جلسوں میں عوام سے 2 تہائی اکثریت دلانے کی اپیل کرتے رہے ہیں اور اب بھی میاں نواز شریف نے اڈیالہ جیل سے بھی پیغام دیا ہے کہ عوام باہر نکلیں، 25 جولائی کو شیر پر مہر لگائیں، اورپاکستان کے مفاد میں ووٹ دیں۔
دوئم، قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی جائیں، اس ضمن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قانونی راستہ اختیار کیا جاچکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو بری کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپیل کو قابل سماعت قرار دیا جاچکا ہے اور اگلی سماعت الیکشن کے بعد ہوگی۔ قانونی ماہرین کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے نتیجے میں ان سزائوں پر نظر ثانی اور ان کی معطلی کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ سنائے گئے فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے بلکہ عدالت نے استغاثہ کے گمان کی بنیاد اور اپارٹمنٹ کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکامی پر سزا سنائی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ہائی کورٹ اس اپیل پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اگر عام انتخابات میں 2تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور قانونی طریقے سے بھی میاں نواز شریف کی سزا معطل نہیں کراسکتی تو پھر ن لیگ کو تیسرا اور آخری آپشن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا۔ نواز شریف کی جیل سے رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانا ہوگی، ملک بھر میں بڑی تعداد میں جلسے و جلوس منعقد کرکے میاں نواز شریف کی حمایت میں ایک بھرپور توانا و موثر آواز بلند کرانا ہوگی، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جو پورے ملک کو متاثر کرے، اگر ہڑتال کی کال دی جائے تو کراچی سے پشاور تک پہیہ جام ہوجائے، تب تو امید پیدا ہوسکتی ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے کوئی راستہ نکالے تاہم اس بات کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چلائی جانیوالی ملک گیر تحریکوں کے حوالے سے تین تحریکیں بہت مشہور ہوئیں۔ ایک 1968ء میں ایوب خان کے خلاف، دوسری 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اور تیسری 1983ء میں ضیاء الحق کے خلاف چلائی جانیوالی ایم آر ڈی تحریک ہے۔
1968ء کی تحریک کو اس لیے کامیاب تحریک کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے عوام نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا اور اسی تحریک کا دباؤ تھا کہ یحییٰ خان کو 1970ء میں انتخابات کرانے پڑے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کوعوامی حمایت حاصل ہوئی لیکن 1977ء کی 9 ستاروں کی تحریک اگرچہ اس حوالے سے کامیاب ہوئی کہ بھٹوکو اقتدار سے الگ کیا گیا، لیکن یہ تحریک اس حوالے سے ناکام ترین تحریک تھی کہ منتخب حکمران کو ہٹا کر فوجی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور تحریک اپنے مقصد یعنی کہ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لیے چلائی جانیوالی تحریک بھی کامیاب نہیں ہوسکی جب کہ 1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ان تحریکوں کے پس منظر، ان کی کامیابی و ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نواز شریف کی رہائی کے لیے تحریک چلائی جائے گی یا نہیں؟ اور اگر تحریک شروع بھی کی گئی تو کیا وہ تحریک کامیاب بھی ہوگی یا نہیں؟
اس وقت نوازشریف جن حالات سے گزر رہے ہیں اپنے سیاسی سفر میں انھیں پہلے کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مبصرین کی رائے میں سخت سزائوں پر مبنی احتساب عدالت کے فیصلے کی قانونی موشگافیاں اپنی جگہ لیکن قانونی ماہرین کی نظر میں انتہائی کمزور فیصلے نے نواز شریف کو مضبوط جواز ضرور فراہم کیا تھا کہ وہ عوام بالخصوص مسلم لیگ ن کے کارکنان کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکال سکیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی وطن واپسی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور کارکنان کو گیارہ سال بعد ایک بار پھر امتحان کا سامنا تھا لیکن لوگ اتنی بڑی تعداد میں ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکے جس کی توقع نواز شریف کو تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کے لیے احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد لیگی کارکنان کی جانب سے جو رد عمل سامنے آیا وہ بھی یقینا حوصلہ افزا نہیں تھا۔ فیصلے کے بعد پارٹی صدر شہباز شریف کی پریس کانفرنس نے بھی لیگی کارکنان کو مایوس کیا جوپارٹی قیادت کی طرف سے سخت رد عمل کی توقع کر رہے تھے۔ اس وقت زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بطور پارٹی صدر شہباز شریف آج بھی احتجاج کرنے کے بجائے مفاہمتی پالیسی پر گامزن رہنے اور کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے سے ایک دن قبل پارٹی کا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے بھی انھوں نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو صرف منشور کے ٹائٹل کا حصہ بنانے پرہی اکتفا کیا۔
اس صورتحال میں لیگی کارکنان تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ اس راستے پہ چلتے ہوئے سخت احتجاج کریں جس کی ترغیب پارٹی قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز دے رہے ہیں یا وہ پارٹی صدر شہباز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سر جھکا کر رد عمل کے لیے مناسب وقت اور سازگار ماحول آنے کا انتظار کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وقت و حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے قائد میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو جیل سے رہائی دلاکر ان کی مشکلات کم کرنے کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے اور اس لائحہ عمل کو کس طرح کامیابی سے ہمکنار کرایا جاتا ہے۔
تبصروں و تجزیوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ عام انتخابات میں کونسی جماعت کتنی نشستوں پر فتح حاصل کریگی، اگلی جمہوری حکومت کس جماعت کی بنے گی؟ ان سوالوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ سیاسی منظرنامے کا حصہ بنا ہوا ہے۔ دلچسپ و منفرد بات یہ ہے کہ موجودہ عام انتخابات ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب ملکی تاریخ میں اپنی آئینی مدت پوری کرنیوالی دوسری جمہوری حکومت کے قائد میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد جیل میں ہے۔
ایون فیلڈریفرنس میں طویل قید اور بھاری جرمانوں کی سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے وطن واپسی کے بعد گرفتاری اور اڈیالہ جیل منتقلی سے سوا دوسال سے ملک کے منظرنامے پر چھائے رہنے والے ایشو پاناما لیکس کا ایک باب اختتام کو پہنچا، ابھی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کے فیصلے آنا باقی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے قائد نواز شریف کی مشکلات کو کم کرے اور انھیں جیل سے رہائی دلائی جائے؟ مبصرین کی نظر میں اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس 3طریقے ہیں۔ اول، مسئلہ کا سب سے آسان و سادہ حل اور بہترین موقع یہی ہے کہ 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات میں اتنی نشستوں پر فتح حاصل کی جائے کہ ن لیگ 2تہائی اکثریت سے حکومت بناسکے جس کے بعد آئین میں جس طرح چاہے ترمیم کرکے اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔
عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ (ن) کو بڑی تعداد میں ووٹ مل گئے اور وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر مسئلہ ہی حل ہوجائیگا اور وہ قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہلی کے بعد جلسوں میں عوام سے 2 تہائی اکثریت دلانے کی اپیل کرتے رہے ہیں اور اب بھی میاں نواز شریف نے اڈیالہ جیل سے بھی پیغام دیا ہے کہ عوام باہر نکلیں، 25 جولائی کو شیر پر مہر لگائیں، اورپاکستان کے مفاد میں ووٹ دیں۔
دوئم، قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی جائیں، اس ضمن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قانونی راستہ اختیار کیا جاچکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو بری کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپیل کو قابل سماعت قرار دیا جاچکا ہے اور اگلی سماعت الیکشن کے بعد ہوگی۔ قانونی ماہرین کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے نتیجے میں ان سزائوں پر نظر ثانی اور ان کی معطلی کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ سنائے گئے فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے بلکہ عدالت نے استغاثہ کے گمان کی بنیاد اور اپارٹمنٹ کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکامی پر سزا سنائی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ہائی کورٹ اس اپیل پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اگر عام انتخابات میں 2تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور قانونی طریقے سے بھی میاں نواز شریف کی سزا معطل نہیں کراسکتی تو پھر ن لیگ کو تیسرا اور آخری آپشن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا۔ نواز شریف کی جیل سے رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانا ہوگی، ملک بھر میں بڑی تعداد میں جلسے و جلوس منعقد کرکے میاں نواز شریف کی حمایت میں ایک بھرپور توانا و موثر آواز بلند کرانا ہوگی، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جو پورے ملک کو متاثر کرے، اگر ہڑتال کی کال دی جائے تو کراچی سے پشاور تک پہیہ جام ہوجائے، تب تو امید پیدا ہوسکتی ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے کوئی راستہ نکالے تاہم اس بات کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چلائی جانیوالی ملک گیر تحریکوں کے حوالے سے تین تحریکیں بہت مشہور ہوئیں۔ ایک 1968ء میں ایوب خان کے خلاف، دوسری 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اور تیسری 1983ء میں ضیاء الحق کے خلاف چلائی جانیوالی ایم آر ڈی تحریک ہے۔
1968ء کی تحریک کو اس لیے کامیاب تحریک کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے عوام نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا اور اسی تحریک کا دباؤ تھا کہ یحییٰ خان کو 1970ء میں انتخابات کرانے پڑے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کوعوامی حمایت حاصل ہوئی لیکن 1977ء کی 9 ستاروں کی تحریک اگرچہ اس حوالے سے کامیاب ہوئی کہ بھٹوکو اقتدار سے الگ کیا گیا، لیکن یہ تحریک اس حوالے سے ناکام ترین تحریک تھی کہ منتخب حکمران کو ہٹا کر فوجی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور تحریک اپنے مقصد یعنی کہ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لیے چلائی جانیوالی تحریک بھی کامیاب نہیں ہوسکی جب کہ 1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ان تحریکوں کے پس منظر، ان کی کامیابی و ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نواز شریف کی رہائی کے لیے تحریک چلائی جائے گی یا نہیں؟ اور اگر تحریک شروع بھی کی گئی تو کیا وہ تحریک کامیاب بھی ہوگی یا نہیں؟
اس وقت نوازشریف جن حالات سے گزر رہے ہیں اپنے سیاسی سفر میں انھیں پہلے کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مبصرین کی رائے میں سخت سزائوں پر مبنی احتساب عدالت کے فیصلے کی قانونی موشگافیاں اپنی جگہ لیکن قانونی ماہرین کی نظر میں انتہائی کمزور فیصلے نے نواز شریف کو مضبوط جواز ضرور فراہم کیا تھا کہ وہ عوام بالخصوص مسلم لیگ ن کے کارکنان کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکال سکیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی وطن واپسی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور کارکنان کو گیارہ سال بعد ایک بار پھر امتحان کا سامنا تھا لیکن لوگ اتنی بڑی تعداد میں ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکے جس کی توقع نواز شریف کو تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کے لیے احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد لیگی کارکنان کی جانب سے جو رد عمل سامنے آیا وہ بھی یقینا حوصلہ افزا نہیں تھا۔ فیصلے کے بعد پارٹی صدر شہباز شریف کی پریس کانفرنس نے بھی لیگی کارکنان کو مایوس کیا جوپارٹی قیادت کی طرف سے سخت رد عمل کی توقع کر رہے تھے۔ اس وقت زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بطور پارٹی صدر شہباز شریف آج بھی احتجاج کرنے کے بجائے مفاہمتی پالیسی پر گامزن رہنے اور کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے سے ایک دن قبل پارٹی کا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے بھی انھوں نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو صرف منشور کے ٹائٹل کا حصہ بنانے پرہی اکتفا کیا۔
اس صورتحال میں لیگی کارکنان تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ اس راستے پہ چلتے ہوئے سخت احتجاج کریں جس کی ترغیب پارٹی قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز دے رہے ہیں یا وہ پارٹی صدر شہباز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سر جھکا کر رد عمل کے لیے مناسب وقت اور سازگار ماحول آنے کا انتظار کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وقت و حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے قائد میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو جیل سے رہائی دلاکر ان کی مشکلات کم کرنے کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے اور اس لائحہ عمل کو کس طرح کامیابی سے ہمکنار کرایا جاتا ہے۔