بڑی شخصیات بڑے معرکے بعض حلقوں میں اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے

عوامی دلچسپی کے پیش نظر ’’بڑی شخصیات کے بڑے معرکوں‘‘ کے حوالے سے خصوصی جائزہ لیا گیا جس کی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔


عوامی دلچسپی کے پیش نظر ’’بڑی شخصیات کے بڑے معرکوں‘‘ کے حوالے سے خصوصی جائزہ لیا گیا جس کی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاسی تاریخ میں مسلسل دوسری مرتبہ جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے جس کے بعد 25 جولائی کو ملک بھر میں عام انتخابات ہورہے ہیں اور سب کی نظریں ان پر لگی ہیں۔ عوام اپنے محبوب قائدین و بڑی سیاسی شخصیات کے انتخابی حلقوں اور ان کی پوزیشن کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ عوامی دلچسپی کے پیش نظر ''بڑی شخصیات کے بڑے معرکوں'' کے حوالے سے خصوصی جائزہ لیا گیا جس کی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔

میاں محمد شہباز شریف (صدر پاکستان مسلم لیگ،ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف قومی اسمبلی کے 4 اور صوبائی اسمبلی کے 2 حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔این اے 3(سواتII-) میں شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے امیدوار شہریار امیر زیب کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ شہریار امیر زیب پہلے مسلم لیگ (ن) میں تھے مگر امیر مقام کے ساتھ مسائل کی وجہ سے انہوں نے چند ماہ قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان کا تعلق سوات کے سابق حکمران خاندان سے ہے اور آپ والی سوات کے پوتے ہیں لہٰذا مقامی قیادت ہونے کے باعث انہیں سوات کے لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار عبدالکریم اس حلقے سے کافی ووٹ حاصل کریں گے۔ ایم ایم اے کا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے حجت اللہ کی پوزیشن میں اچھی ہے۔ تحریک انصاف کے سلیم رحمن کی کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے منحرف رکن علی خان آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے ضلعی صدر بھی رہے ہیں جبکہ سابق ایم پی اے اور پی کے 4 کے امیدوار عزیز اللہ جان کے بھائی بھی ہیں لہٰذا ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثر ہوگا۔شہباز شریف کی جیت میں امیر مقام کا کردار کافی اہم ثابت ہوگا۔ امیر مقام اپنی انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ وہ اسی حلقے کے نیچے صوبائی حلقہ پی کے 4 سے خود بھی الیکشن لڑ رہے ہیں لہٰذا اس حلقے سے شہباز شریف کو اچھی تعداد میں ووٹ ملے گا۔

این اے 132 (لاہور10-)سے میاں محمد شہباز شریف کی پوزیشن مضبوط ہے لیکن تحریک انصاف کے امیدوار چودھری محمد منشاء سندھو اچھی فائٹ لڑیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد شہباز شریف نے کہا تھا کہ منشاء سندھو جس حلقے سے الیکشن لڑیں گے وہ اسی حلقے سے ان کا مقابلہ کریں گے ۔ اسی لیے دونوں ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ نئی حلقہ بندی کے باعث پیپلزپارٹی کی ثمینہ خالد گھرکی کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حلقے سے برابری پارٹی سربراہ جواد احمد بھی حصہ لے رہے ہیں مگر ان کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے۔ شہباز شریف اسی حلقے کی دونوں صوبائی نشستوں پی پی 164 اور پی پی 165 پر بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہاںان کی پوزیشن مضبوط ہے کیونکہ تحریک انصاف کے امیدوار ان چودھری یوسف میو اور یوسف لدھڑ نئے ہیں اور شہباز شریف کے مقابلے میں پاپولر نہیں ہیں۔

این اے 192 (ڈیرہ غازی خان4-) سے شہباز شریف کا مقابلہ پی ٹی آئی کے سردار محمد خان لغاری سے ہوگا جو سابق وزیر مقصود لغاری کے صاحبزادے اورلغاری خاندان سے تعلق رکھنے کے باعث مضبوط امیدوارہیں ۔ اس حلقے میں لغاری اور کھوسہ دو خاندان حکومت کرتے آرہے ہیں، اس مرتبہ یہ دونوں خاندان شہباز شریف کے خلاف متحد ہوگئے ہیں اور سردار محمد خان لغاری کو سپورٹ کررہے ہیں ۔ شہبازشریف کے ساتھ اویس لغاری اور جمال لغاری کھڑے ہیں جبکہ دیگر لغاری سردار تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔ اویس لغاری چونکہ خود بھی دوسرے حلقے سے الیکشن لڑے رہے ہیں لہٰذا ان کی مصروفیت کے باعث شہباز شریف کی مہم موثر طریقے سے نہیں چل رہی۔ اس صورتحال کے پیش نظرشہباز شریف اور سردار محمد خان لغاری میں مقابلہ سخت ہوگا۔ این اے 249 (کراچی غربی2-) کا معرکہ میاں شہباز شریف کی وجہ سے دلچسپ قرار دیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم پاکستان کے اسلم شاہ ان کا بھرپور مقابلہ کریں گے ، کسی کی جیت کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازا وقت ہوگا۔ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک موجود ہے، شہباز شریف جماعت کے سربراہ بھی ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، جو یہاں ووٹ بینک رکھتی ہے نے ان کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے لہٰذا مقابلہ سخت ہوگا۔

عمران خان (چیئرمین پاکستان تحریک انصاف)

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ این اے 35 (بنوں) سے ایم ایم اے کے امیدوار اکرم خان درانی سے ان کا کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ عمران خان کیلئے یہ مقابلہ تمام معرکوں کی نسبت مشکل ہوگا۔ بڑی عمر کا ووٹ اکرم خان درانی جبکہ نوجوان نسل میں عمران خان کی طرف رجحان ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لیڈ صرف سینکڑوں ووٹوں سے ہوگی۔

این اے 53 (اسلام آباد2-)کا معرکہ اہم ہے کیونکہ یہاں عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کررہے ہیں۔ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم موثر چل رہی ہے، جوڑ توڑ جاری ہے جس کے باعث مقابلہ کانٹے دار ہوگا تاہم ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس حلقے سے ایم ایم اے کے امیدوار میاں محمد اسلم بھی اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے۔ این اے 95 (میانوالی 1-)سے عمران خان کی پوزیشن مضبوط ہے تاہم ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے عبید اللہ خان شادی خیل سے ہوگا۔ میانوالی میں تحریک انصاف منظم ہے، یہاں کھلاڑیوں کی بہت زیادہ تعداد ہے کیونکہ یہ عمران خان کا آبائی حلقہ ہے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی عمران خان نے عبیداللہ شادی خیل کو شکست دی تھی۔ اس حلقے میں تحریک لبیک پاکستان کے صاحبزادہ توقیر الحسنین شاہ بھی اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے ۔

این اے 131 (لاہور9-)میں عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سابق وفاقی وززیر خواجہ سعد رفیق کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ خواجہ سعد رفیق 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے ۔ حلقے کے شہری علاقے میں عمران خان جبکہ دیہی علاقے میں سعد رفیق کی پوزیشن مضبوط ہے جس کے بعد صورتحال کافی دلچسپ ہوچکی ہے اور سیاسی پنڈٹ بھی کشمکش کا شکار ہیں۔ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم بہترین ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے حلقے میں کافی ترقیاتی کام کروائے ہیں جبکہ اب ان کی جانب سے گلی گلی ناراض کارکنوں کو منانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے عاصم محمود، ایم ایم اے کے وقار ندیم وڑائچ، برابری پارٹی کے جواد احمد، پاکستان مسلم لیگ کی زیبا احسان و دیگر بھی یہاں سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

این اے 243 (کراچی شرقی2-) میں تحریک انصاف کا زیادہ ووٹ نہیں ہے لیکن چونکہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں تو ان کے حق میں لہر چل سکتی ہے۔ ان کا مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان کے سید علی رضا عابدی کے ساتھ ہوگا جن کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ان کے علاوہ پی ایس پی کے امیدوار محمد مزل قریشی بھی ان کے مد مقابل ہیں جو پہلے بھی اس نشست پر جیت چکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹ بینک،پی ایس پی کی وجہ سے تقسیم ہوا ہے جس کا نقصان دونوں جماعتوں کے امیدواروں کو ہوگا۔ ایم ایم اے کے امیدوار محمد اسامہ رضی خان کی پوزیشن بھی بہتر ہے لہٰذا ابھی اس مقابلے کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔پیپلز پارٹی کی سیدہ شہلا رضا یہاں سے الیکشن لڑ رہی ہیں مگر ان پوزیشن اتنی بہتر نہیں ہے، ان کا نام خواتین کی مخصوص نشستوں میں بھی شامل ہے۔

آصف علی زرداری (شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز)

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 213 (شہید بے نظیر آباد1-) سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے امیدوار سردار شیر محمد رند کے ساتھ ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار محمد عبدالرئوف صدیقی نہ صرف سردار شیر محمد رند کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں بلکہ ان کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی سپورٹ کے بعد سردار شیر محمد رند کی پوزیشن بہتر ہوگئی ہے۔ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹ جبکہ دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے لہٰذا آصف علی زرداری کی پوزیشن ابھی بھی مضبوط ہے۔ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے ان کی بہن ڈاکٹر عذرہ فضل کامیابی حاصل کرچکی ہیں لہٰذا یہ آصف علی زرداری کی ہوم گرائونڈ ہے تاہم مقابلہ دلچسپ ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری (چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز)

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے 3حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ این اے 8 (ملاکنڈ) میں صورتحال کافی دلچسپ ہے۔ یہاں بلاول بھٹو کا مقابلہ ایم ایم اے کے امیدوار، جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر اورسابق سینیٹر گل نصیب خان اور پاکستان تحریک انصاف کے جنید اکبر کے ساتھ ہوگا۔ ان تینوں امیدواروں کا مقابلہ سخت ہوگا اور کسی ایک کی جیت ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

این اے 200(لاڑکانہ1-) سے ایم ایم اے کے مولانا راشد محمود سومروکے ساتھ بلاول بھٹو کا کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ مولانا راشد محمود سومرو سابق سینیٹر خالد محمود سومرو کے صاحبزادے ہیں۔ انہیں جی ڈی اے اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے اور پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے امیدوار حلیمہ بھٹو کی ٹکٹ واپسی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے۔ بلاول بھٹو کی انتخابی مہم ان کی بہن آصفہ بھٹو چلا رہی ہیں، ان کی جانب سے کارکنان کے ساتھ رابطے بڑھائے جارہے ہیں اور وہ ہر کارنر میٹنگ میں بھی شریک ہورہی ہیں جو پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی ہر حال میں یہ نشست جیتنا چاہتی ہے لہٰذا یہ مقابلہ سخت اور دلچسپ ہوگا۔ اس حلقے سے آزاد امیدوار اور شیعہ علماء کونسل کے رہنما مشتاق حسین مشہدی، فریال تالپور سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں لہٰذا اب یہ ووٹ بھی پیپلزپارٹی کو ملے گا۔

این اے246(کراچی جنوبی1-) سے بلاول بھٹو کامقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالشکور شاد اور ایم کیو ایم پاکستان کے محفوظ یار خان سے ہوگا۔اس حلقے میں بلاول بھٹو کی پوزیشن قدرے بہتر ہے تاہم ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ان کے مدمقابل دیگر امیدواروں میں جی ڈی اے کے محمد ارشد، ایم ایم اے کے مولانا نور الحق، مسلم لیگ (ن) کے سیم ضیاء، برابری پارٹی کے جواد احمد و دیگر شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمن (قائد متحدہ مجلس عمل)

متحدہ مجلس عمل کے قائد مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔این اے 38 (ڈیرہ اسماعیل خان1-) سے ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور ، سابق ڈپٹی سپیکر اور پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی اور آزاد امیدوار وقار احمد خان کے ساتھ ہوگا جبکہ آزاد امیدوار مخدوم علی رضا بھی اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے اختر سعید مولانا فضل الرحمن کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں۔ اتحاد کی وجہ سے مولانا کی پوزیشن مضبوط ہے۔ این اے 39 (ڈیرہ اسماعیل خان2-) سے ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے شیخ یعقوب سے ہوگا جبکہ آزاد امیدوار عمر فاروق میاں خیل بھی اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے۔ اس حلقے سے بھی مولانا فضل الرحمن کی پوزیشن مضبوط قرار دی جارہی ہے۔

چودھری پرویز الٰہی (صدرپاکستان مسلم لیگ )

پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری پرویز الٰہی 2قومی اور ایک صوبائی حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔ این اے 65 (چکوال2-) سے ان کانٹے دار مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے محمد فیض ملک کے ساتھ ہوگا تاہم آزاد امیدوار سردار منصور حیات ٹمن بھی انہیں ٹف ٹائم دیں گے ۔ 2013ء کے انتخابات میں محمد فیض ملک نے چودھری پرویز الٰہی کو شکست دی تھی لہٰذا اس حلقے کو چکوال کی سیاست میں اہم قرار دیا جارہا ہے۔این اے 69( گجرات2-) چودھری پرویز الٰہی کا آبائی حلقہ ہے۔ یہاں ان کا کانٹے دار مقابلہ اپنے کزن اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چودھری مبشر حسین سے ہوگا۔ اس معرکے کو چودھری برادران کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں میں یہاں سے چودھری شجاعت حسین الیکشن ہار گئے تھے۔ پی پی 30 سے ان کی پوزیشن مضبوط ہے مگر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ذوالفقار علی وڑائچ کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوگا۔ ذوالفقار علی وڑائچ کوجٹ برادری کا ووٹ ملے گا تاہم کہا جارہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی یہ معرکہ جیتنے کی پوزیشن میں ہیں تاہم فیصلہ 25 جولائی کوہی ہوگا۔

سراج الحق (رہنما متحدہ مجلس عمل)

متحدہ مجلس عمل کے رہنما سراج الحق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 7 (لوئر دیر2-) سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حلقے میں ان کا کانٹے دار مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے محمد بشیر خان کے ساتھ ہوگا۔ یہ بھی شنید ہے کہ تحریک انصاف اس حلقے میں برتری حاصل کرسکتی ہے تاہم حقیقی صورتحال 25 جولائی کو ہی معلوم ہوسکے گی۔عوامی نیشنل پارٹی کے ملک نذیر گجراور پیپلز پارٹی کے سید شاہد احمد جان کے درمیان تیسری پوزیشن کے لیے مقابلہ ہوگا جبکہ دیگر امیدواران میں مسلم لیگ (ن) کی ثوبیہ شاہد، آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالغفار خان، اللہ اکبر تحریک کے محمد خالد اور آزاد امیدوار مبارک خان شامل ہیں۔

شیخ رشید احمد(صدر عوامی مسلم لیگ پاکستان)

عوامی مسلم لیگ پاکستان کے صدر شیخ رشید احمد قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ این اے 60 (راولپنڈی4-) سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی کو سزا کے بعد مقابلہ یکطرفہ ہوگیا ہے۔ این اے 62 (راولپنڈی6-) سے مسلم لیگ (ن) کے دانیال چودھری اور شیخ رشید کے درمیان انتہائی سخت مقابلہ ہوگا۔ دانیال چودھری کے والد چودھری تنویر کافی متحرک ہیں ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے حق میں مختلف دھڑوں کی حمایت حاصل کرلی ہے جس کے بعد دانیال چودھری کی پوزیشن بہت مضبوط ہے تاہم ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

چودھری نثار علی خان (آزاد امیدوار)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منحرف رہنما چودھری نثار علی خان اس مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے 2 قومی اور 2 صوبائی حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔این اے 59 (راولپنڈی3-) سے ان کاکانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے ہوگا۔ راجہ قمرالاسلام کی گرفتاری کے بعد ان کی انتخابی مہم ان کے بچے چلا رہے ہیں جس کے باعث ان کی پوزیشن کمزور ہے لہٰذا اصل مقابلہ چودھری نثار اور غلام سرور خان کے درمیان ہوگا۔ اس حلقے سے چودھری نثار کے کزن و پیپلز پارٹی کے امیدوار چودھری کامران اسلم بھی ان کے مدمقابل ہیں۔ چودھری نثار اسی حلقے کے نیچے دونوں صوبائی حلقوں سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی پی 10سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مختلف دھڑوں کی وجہ سے چودھری نثار کو فائدہ ہوگا۔ پی ٹی آئی نے خواتین کا کوٹہ پورا کرنے کیلئے نوید سلطانہ کو ٹکٹ دیا جبکہ اصل امیدوار محمد افضل، آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور انہیں غلام سرور خان کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی نے این اے 59سے اپنے امیدوار چودھری کامران اسلم کو اس حلقے سے ٹکٹ دینے کے بجائے نئے شامل ہونے والے پرویز اختر مرزا کو ٹکٹ جاری کیا جس کے بعد چودھری کامران اسلم یہاں سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔چودھری نثار کے کزن ہونے کے باعث وہ ان کا ووٹ بینک متاثر کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ قمر الاسلام اس حلقے سے بھی چودھری نثار کے مدمقابل ہیں۔ حال ہی میں لیگی رہنما پرویز رشید نے قمرالاسلام کی انتخابی مہم چلانی شروع کی ہے جس سے کچھ بہتری کا امکان ہے۔ راجہ قمر الاسلام نے 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر مسلم لیگ (ن) جبکہ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ چودھری نثار کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ تقسیم ہوگیا ہے لہٰذا یہ معرکہ انتہائی دلچسپ ہوگا۔ پی پی 12سے پی ٹی آئی کے واثق قیوم عباسی کے ساتھ چودھری نثار کا کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ انہوں نے 2013ء میں بھی چودھری نثار کا سخت مقابلہ کیا تاہم ان کی جیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

این اے 63 (روالپنڈی7-) سے چودھری نثار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے غلام سرور خان کے ساتھ ہوگا اور اسے کانٹے دار مقابلہ قرار دیا جارہا ہے۔ غلام سرور خان اسی حلقے سے چودھری نثار کو ہرا کر 2013ء کے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے مگر اب چودھری نثار کی گلی گلی انتخابی مہم ، مسلم لیگ (ن) کے دھڑوں سمیت دیگر کی حمایت کے بعد ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہوچکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے سردار ممتاز مقابلے دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں۔تحریک انصاف کی انتخابی مہم بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے اور گھر گھر جاکر کارکنوں کو راضی کرنے کا سلسلہ جاری ہے لہٰذا یہ مقابلہ انتہائی دلچسپ ہوگا۔

اسفندیار ولی خان ( صدر عوامی نیشنل پارٹی )

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 (چارسدہ2-) سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔اس حلقے کی صورتحال کافی دلچسپ ہے اور پرانے حریف ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے فضل محمد خان اورایم ایم اے کے مولانا محمد گوہر شاہ کے ساتھ ہوگا۔ بظاہر اسفند یار ولی خان کی پوزیشن مضبوط نظر آرہی ہے مگر صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے ۔ الیکشن 2013ء میں مولانا گوہر شاہ کامیاب ہوئے جبکہ فضل محمد خان دوسرے اور اسفند یار ولی خان تیسرے نمبر پر رہے۔ مولانا گوہر شاہ 2002 ء کے انتخابات میں بھی اسفند یار ولی خان کو شکست دے چکے ہیں۔ اس مرتبہ اسفند یار ولی خان نے ماضی کی نسبت بہترین انتخابی مہم چلائی ہے، تنظیمی اختلافات بھی دور ہوچکے ہیں جس کے باعث ان کی پوزیشن بہتر قرار دی جا رہی ہے۔

مصطفی کمال (سربراہ پاک سرزمین پارٹی)

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 253 (کراچی وسطی1-) سے ان کا مقابلہ ایم کیوایم پاکستان کے اسامہ قادری، پاکستان سنی تحریک کے ثروت اعجاز اورپی ٹی آئی کے اشرف جبار سے ہو گا۔ اس حلقے میں بظاہر مصطفی کمال کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ماضی کے انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتے آئے ہیں مگر حالیہ الیکشن میں وہ اپنی الگ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ وہ کراچی بھر میں ایم کیو ایم پاکستان کو ٹف ٹائم دیں گے۔ اسی حلقے کے نیچے صوبائی حلقہ پی ایس 124سے ان کا مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان کے خواجہ اظہار الحسن ہوگا۔ مصطفی کمال کی پوزیشن یہاں مضبوط ہے تاہم مقابلہ دلچسپ ہوگا۔پی ایس پی کا ابھی ذاتی ووٹ نہیں ہے، اُس نے ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹ بینک توڑنا ہے لہٰذا یہ دلچسپ مقابلہ ہوگا کیونکہ خواجہ اظہار الحسن ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنما ہیں۔ پی ایس 127 سے بھی ان کا مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان ہی کے ساتھ ہے۔ یہاں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار کنور نوید جمیل انہیں ٹف ٹائم دیں گے۔

فاروق ستار (رہنما متحدہ قومی موومنٹ پاکستان)

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں حلقہ این اے 245 (کراچی شرقی4-) سے ان کے مدمقابل اہم امیدواروں میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، متحدہ مجلس عمل پاکستان کے سیف الدین ،پاک سرزمین پارٹی کے ڈاکٹر صغیر احمد ،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے فرخ نیاز تنولی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خواجہ طارق نذیر شامل ہیں۔ عامر لیاقت حسین نے 2002ء جبکہ فاروق ستار نے 2013 ء میں کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے میں دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔ حلقہ این اے247 (کراچی غربی 2-)سے فاروق ستارآزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے عارف علوی اور پاک سرزمین پارٹی کی فوزیہ قصوری سے ہوگا۔جیت کے حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

محمود خان اچکزئی ( چیئرمین پختونخوا ملی عوامی پارٹی )

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ این اے 263 (قلعہ عبداللہ) سکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتہائی حساس حلقہ ہے۔ یہاں امیدواروں کو کھلے عام انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ چار دیواری میں ہائی الرٹ سکیورٹی میں انتخابی مہم چل رہی ہے۔ اس حلقے سے محمود خان اچکزئی کا کانٹے دار مقابلہ ایم ایم اے کے امیدوار صلاح الدین ایوبی کے ساتھ ہوگا۔ محمود خان اچکزئی اس حلقے سے پہلے بھی الیکشن جیت چکے ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) بھی ماضی میں یہاں سے الیکشن جیت چکی ہے۔این اے 265(کوئٹہ2-) سے بھی ان کا کانٹے دار مقابلہ ایم ایم اے کے امیدوار حافظ حمد اللہ سے ہوگا۔ ہزارہ ووٹر زحافظ حمداللہ جبکہ پشتون ، محمود خان اچکزئی کے ساتھ ہیں لہٰذا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ محمود خان اچکزئی کو دونوں حلقوں میں کانٹے دار مقابلے کا سامنا کرنا ہوگا۔

سردار اختر مینگل (سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی)

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل 2 قومی اور ایک صوبائی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 269 (خضدار) سے ان کا سخت مقابلہ آزاد امیدوار سردار ثناء اللہ زہری سے ہوگا۔ یہ دونوں امیدواروں کا آبائی حلقہ ہے۔ سرادر ثناء اللہ زہری سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں، انہوں نے یہاں ترقیاتی کام بھی کروائے جس کے باعث دونوں امیدواروں کی پوزیشن مضبوط اور مقابلہ سخت ہے۔اس حلقے کے نیچے صوبائی حلقہ پی بی 40سے سردار اختر مینگل کا مقابلہ نیشنل پارٹی کے میر شاہ میر بزنجو کے ساتھ ہوگا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت میں یہاں بہت سارے ترقیاتی کام ہوئے ہیں جس کے باعث میر شاہ میر بزنجو کو عوامی سپورٹ حاصل ہے مگر بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے امیدوار نعمت اللہ بزنجو ان کا ووٹ بینک متاثر کریں گے جس کے بعد سردار اختر مینگل اور میر شاہ میر بزنجو میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔

این اے 272 (لسبیلہ،گوادر) سے ان کا مقابلہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال خان اور آزاد امیدوار اسلم بھوتانی سے ہوگا۔ جام کمال خان کا یہ آبائی حلقہ ہے وہ یہاں سے مسلسل کامیابی حاصل کرتے آرہے ہیں جبکہ اسلم بھوتانی صوبائی حلقے پی بی 50 سے ماضی کے انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں لہٰذا ان کی پوزیشن بھی بہتر ہے۔

حافظ حسین احمد (رہنما متحدہ مجلس عمل)

متحدہ مجلس عمل کے رہنما حافظ حسین احمد قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 266 ( کوئٹہ3-) سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ کے ساتھ ان کا کانٹے دار مقابلہ ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے علائوالدین ان کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں جبکہ انہیں بلوچ قبائل کی ہمدردی بھی حاصل ہے۔ دوسری طرف حافظ حسین احمد بھی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ یہاں جے یو آئی (ف) کا کافی ووٹ بینک ہے، ان کے مدارس بھی یہاں ہیں لہٰذا یہ مقابلہ دلچسپ اور کانٹے دار ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں