کچھ رنگ الیکشن کے

پاکستان کے حالیہ اور گذشتہ انتخابات کے کچھ دل چسپ گوشے۔


Rizwan Tahir Mubeen May 12, 2013
پاکستان کے حالیہ اور گذشتہ انتخابات کے کچھ دل چسپ گوشے۔ فوٹو: آن لائن

کام یابیاں، ناکامیاں، گہماگہمی، نعرے ، وعدے اور ریکارڈز سمیت الیکشن کے کتنے ہی رنگ ہیں۔

ہم نے قارئین کی دل چسپی کے لیے ان ہی رنگوں سے یہ صفحات سجائے ہیں۔ حالیہ انتخابات، پاکستان کی انتخابی تاریخ اور دیگر متعلقہ حقائق پر مبنی یہ صفحے آپ کی دل چسپی کا باعث ہونے کے ساتھ معلومات میں اضافہ بھی کریں گے۔

اہل دانش منتخب ایوانوں سے دور رہے!

بہت سے دانش ورانتخابی دنگل میں شکست سے دوچار ہوئے

جمہوری عمل میں اگرچہ باقاعدہ اختیارات ایک منتخب نمائندے کے ہوتے ہیں، لیکن وہ ایک منتخب ایوان کا پابند ہوتا ہے۔ لوگوں کی رائے کے نتیجے میں بننے والی یہ مقننہ ریاست اور عوام کی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ معاشرے کے سب سے اعلیٰ دماغ ان ایوانوں میں جائیں اور قانون سازی سے لے کر منصوبہ بندی تک، تمام فیصلے باہمی مشاورت اور بہت سوجھ بوجھ کے کیے جائیں۔ تاہم ہمارے ایوانوں میں شاذونادر ہی کسی دانش ور کی رسائی ہو سکی ہے، بلکہ انہیں اگر انتخابی دنگل میں اتارا بھی گیا تو کام یابی ان کے بجائے ان کے سیاسی حریفوں کے حصے میں آئی ہے۔ البتہ دانش وروں کو اقتدار کے ایوانوں کی قربت مشاورت کی شکل میں ضرور حاصل رہی، جیسے ایوب خان کے ساتھ حفیظ جالندھری، الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب، جب کہ بھٹو دور میں فیض احمد فیض کو بھی یہ ذمہ داری سونپی گئی، ان کے علاوہ جمیل الدین عالی اور اشفاق احمد بھی ایوان اقتدار کے نزدیک رہے۔ اس کے بعد صوبائی سطح پر سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے فاطمہ ثریا بجیا کو اپنا مشیر بنایا۔ اس کے علاوہ اداکار محمد علی ذوالفقار علی بھٹو کے دوست تھے۔ نواز شریف کے دور میں مشیر ثقافت بھی رہے۔ مصطفی قریشی پیپلزکلچر ونگ کے صدر ہیں۔

1970ء میں پیپلزپارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں جوش وخروش سے جاری تھیں۔ پارٹی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے شاعر عوام حبیب جالب کو پیش کش کی کہ وہ پارٹی میں آجائیں۔ اس حوالے سے محمود علی قصوری خاصے سرگرم رہے اور انہوں نے بھٹو سے کہا،''جالب صاحب چھوٹی موٹی شخصیت نہیں، انہیں کم سے کم قومی اسمبلی کا انتخاب لڑانا ہے۔'' جس پر بھٹو نے کہا کہ آپ قومی اسمبلی کی بات کر رہے ہیں میں انہیں اپنی کابینہ میں اہم وزیر بنائوں گا۔'' جالب صاحب بھی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ انھوں نے مداخلت کی اور کہا کہ میں تو پیپلزپارٹی میں آہی نہیں رہا! اس کے بعد انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فورم سے 1970ء کا انتخاب لڑا۔ ان کا حلقۂ انتخاب لاہور کا صوبائی حلقہ ریلوے کالونی گڑھی شاہو تھا۔ جہاں سے پیپلزپارٹی نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیا۔

معروف ادیب حمید اختر، آئی اے رحمان اور دیگر قد آور شخصیات پیپلزپارٹی کے امیدوار کو جالب صاحب کے حق میں دست بردار کرانے کی درخواستیں کرتے رہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور واضح فرق سے انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد 1990ء میں کراچی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں انہوں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو نواز شریف سے اتحاد کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں نوازشریف کے پاس جانے کے بہ جائے میرے پاس آنا چاہیے تھا۔ اس وقت الطاف حسین کراچی میں ہی مقیم تھے۔ اس واقعے کے اگلے روز ان کی جانب سے بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ''پنجاب میں آپ کی صحیح قدر نہیں کی گئی، میں آپ کو پیشکش کرتا ہوں کہ آپ ہماری طرف سے انتخاب لڑیں!'' لیکن جالب نے ان کی اس پیش کش پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔

اہل دانش کے انتخابی دنگل کے حوالے سے 1977ء کے انتخابات خاصے اہم رہے جب پیپلزپارٹی کی جانب سے ممتاز شاعر جمیل الدین عالی کو کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقے 191 سے میدان میں لایا گیا، لیکن انہیں موجودہ امیر جماعت اسلامی اور نو ستاروں کے متفقہ امیدوار سید منور حسن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ 1997ء میں جمیل الدین عالی متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1977ء کے ہی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی طرف سے حکیم محمد سعید کو بھی ٹکٹ دیا گیا لیکن وہ بھی کام یاب نہ ہوسکے۔

دنیا بھر میں دانش وروں کے علاوہ فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے انتخابی سیاست میں آنے کی ریت بھی نئی نہیں۔ سابق امریکی صدر رونالڈو ریگن بھی فلمی دنیا سے نکل کر پہلے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر اور پھر امریکا کے صدر بنے۔ ہالی وڈ کے ایک اور اداکار آرنلڈ شیوارزنیگر بھی کیلی فورنیا کے گورنر رہے۔ ہندوستان میں فلمی دنیا کے معروف ستارے راج ببر، سنیل دت، شتروگن سنہا، امیتابھ بچن، ریکھا، جیا بچن اور گووندا بھی اس کی مثال ہیں۔ ہمارے ہاں اداکارہ مہناز رفیع قومی اور قدسیہ لودھی پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ ٹی وی کمپیئر خوش بخت شجاعت بھی متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور ایک بار پھر قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ اس سے قبل معروف ٹی وی میزبان طارق عزیز بھی مسلم لیگ کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے۔ گلوکار و اداکار عنایت حسین بھٹی اور قوی خان نے بھی قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخاب لڑا مگر بدقسمتی سے کام یاب نہ ہوسکے۔ 2002ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے 250 سے ممتاز اداکار سید کمال کو میدان میں اتارا لیکن انہیں خاطر خواہ ووٹ حاصل نہ ہوسکے۔ اس سے قبل سید کمال آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں ناکام رہے تھے۔

رواں انتخابات میں این اے 24ڈیرہ اسماعیل خان سے تحریک مساوات کی چئیرمین اور سابق اداکارہ مسرت شاہین، گلوکار ابرار الحق تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ 117 نارووال سے، اداکار ماجد جہانگیر کراچی میں نواز لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ 118 سے، اداکارہ میرا کی والدہ شفقت زہرہ بخاری صوبائی حلقہ دو سو تیراسی ہارون آباد، جب کہ اداکارہ کنول نواز لیگ کی طرف سے مخصوص نشستوں پر امیدوار ہیں۔ قلم کار قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایاز امیر کے کاغذات نام زدگی اگرچہ اپیل کے بعد منظور کیے گئے لیکن انہیں اس بار نواز لیگ کا ٹکٹ نہیں مل سکا، نتیجتاً انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کر دی ہے۔



''ہم نہیں کھیل رہے!''

انتخابی بائیکاٹ کی کتھا

انتخابی عمل اور انتخابات کے ذریعے مقاصد یا کام یابی نہ ملنے کے خدشے کی صورت میں احتجاجاً اس عمل کا ''مقاطعہ'' بھی کیا جاتا ہے، جسے عرف عام میں بائیکاٹ قرار دیا جاتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے احتجاج کی آڑ میں عوامی ندامت سے بچنے کے لیے راہ فرار سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ تاہم اکثر ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ کسی جماعت یا بعض سیاسی قوتوں کو بائیکاٹ کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ریاست کی صورت حال اور بائیکاٹ کرنے والی قوتوں پر ہے کہ ان کا یہ فعل کس قدر موثر اور کارگر ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ چنائو کے اس دنگل میں وسیع انتخاب اس عمل کو اعتباریت بخشتا ہے۔ دوسری طرف اگر اقتدارِاعلی کی گرفت اتنی مضبوط ہو تو بعض اوقات اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یوں تو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کیا جاتا رہا، البتہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے بڑا بائیکاٹ 1977ء میں نظر آتا ہے۔

جب مشہور بھٹو مخالف ''نوستاروں'' کے اتحاد نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حکم راں پیپلزپارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا کر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ حکومت اور متحدہ حزب اختلاف کا یہی وہ نزاع تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور نوے دن میں انتخابات کا وعدہ 8 سال بعد وفا کیا، جس کی نوعیت بھی غیرجماعتی تھی۔ مختلف جماعتوں کے امیدواروں نے اس غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا، لیکن پیپلزپارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے بعد 1993ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی میں فوجی آپریشن کے خلاف قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، البتہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔

2008ء کے انتخابات کے موقع پر حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخابی عمل سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اے پی ڈی ایم (آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس) نامی اتحاد میں پیپلزپارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ مختلف قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں، تاہم پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے اتحاد کے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا، جب کہ اتحاد کے فیصلے کی پاس داری کے نتیجے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پانچ سال کے لیے ایوان زیریں سے باہر رہ گئیں۔ جماعت اسلامی نے اس سے پہلے 1997ء کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔

کچھ قصہ بلا مقابلہ جیتنے کا!

مقابلے کے بغیر میدان مارنے میں پیپلزپارٹی سرفہرست ہے

کسی نشست پر اگر کسی امیدوار کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیدوار موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ امیدوار بلامقابلہ فاتح قرار پاتا ہے۔ ایسی صورت پیدا ہونے کی پہلی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اس نشست پر اس امیدوار یا اس کی جماعت کا اتنا اثر رسوخ ہوتا ہے کہ جسے سب تسلیم کرلیتے ہیں، بسا اوقات بلا مقابلہ فتح کسی دھونس، دھمکی یا کسی قسم کے اوچھے ہتھ کنڈے کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے کہ مخالف امیدوار کو کاغذات نام زدگی داخل ہی نہ کرانے دیے جائیں۔ اس کے علاوہ ایسی فتح کا ایک راستہ یہ بھی نکلتا ہے کہ کسی امیدوار کے مقابلے میں سامنے آنے والے امیدوار یا امیدواران کے کاغذات نام زدگی ہی مسترد ہوجائیں تو ایسی صورت میں رہ جانے والا واحد امیدوار فاتح قرار پاتا ہے، البتہ ایسی صورت کی ایک وجہ احتجاجاً انتخابی عمل کا بائیکاٹ بھی ہوسکتا ہے۔ ان وجوہات سے قطعہ نظر اگر ہم گذشتہ 9 انتخابات کا جائزہ لیں تو اب تک قومی اسمبلی کے کُل 30 امیدوار بغیر کسی مقابلے کے میدان مارنے میں کام یاب رہے ہیں، جن میں سے 20 کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، جب کہ باقی آزاد امیدوار ہیں۔

1970ء کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کی مغربی پاکستان کی نشست این ڈبلیو 21 سے نعمت اﷲ بلامقابلہ کام یاب ہونے والے واحد امیدوار تھے۔ اس کے بعد 1977ء میں سب سے زیادہ یعنی 19 امیدوار بلامقابلہ کام یاب ہوئے اور ان سب کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔ ان میں سے 15کا تعلق سندھ اور4کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ کام یاب ہونے والوں میں این اے154سے حاجی نور محمد خان ، این اے155سے میر مہرہ خان بجارانی، این اے157سے عبدالفتح خان، این اے158سے غلام مجتبیٰ جتوئی، این اے 159 سے سید بشیر احمد شاہ، این اے163سے ذوالفقارعلی بھٹو، این اے 164 سے سردار احمد خان، این اے165 سے ممتاز بھٹو، این اے 166 سے مخدوم محمد زمان عرف طالب المولیٰ، این اے 171سے حاجی نجم الدین خان، این اے 176 سے ملک سکندر خان، این اے 177 سے رئیس علی خان، این اے 178 سے لیاقت علی خان، این اے 180سے رئیس عطا محمد مری، این اے197 سے تاج محمد جمالی، این اے 198 سے میر عبدالنبی جمالی، این اے199سے پرنس محی الدین اور این اے 200 سے میرامان اﷲ گچکی شامل ہیں۔

1985ء کے عام انتخابات جو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے، میں 7 امیدوار بلا مقابلہ کام یاب قرار دیے گئے، جن میں این اے 131 سے ملک سید خان، این اے 154 سے الٰہی بخش سومرو، این اے 161 سے سید بشیر احمد شاہ، این اے 165 سے احمد سلطان چانڈیو، این اے 180سے محمد خان جونیجو، این اے203 سے ظفر اﷲ خان جمالی اور این اے205سے میر عارف جان حسنی شامل ہیں۔ 1990ء کے انتخابات میں این اے27 سے باروز خان اور این اے 34 سے ملک اسلم بلا مقابلہ کام یاب قرار پائے۔ 1993ء میں این اے167 سے پیپلزپارٹی کے مخدوم امین فہیم بلامقابلہ کام یاب ہوئے۔ 1993ء کے عام انتخابات کے بعد سے قومی اسمبلی کاکوئی امیدوار بلامقابلہ کام یاب نہ ہوسکا۔ بلامقابلہ کام یاب ہونے والے دو امیدوار ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو وزارت عظمٰی کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ 2002ء، 1997ء، 1988ء اور 2008ء کے انتخابات میں کوئی امیدوار بلامقابلہ کام یاب نہ ہو سکا۔



وجود زن سے تصویر ''انتخابات'' میں رنگ

پہلی بار خواتین ووٹرز کی علیحدہ گنتی

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 2013کے انتخابات میں رائے دینے والی خواتین کا ریکارڈ رکھا جائے گا، تاکہ ہر حلقے میں ووٹ دینے والی خواتین کی تعداد معلوم ہوسکے۔ مرد اور خواتین ووٹرز کی الگ الگ گنتی کی جائے گی، خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے واقعات کئی بار منظر عام پر آچکے ہیں تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس کی روک تھام کے لیے اقدام کیے ہیں۔

لاہور میں خواتین ووٹرز کی اکثریت

رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی سب سے زیادہ تعداد لاہور میں ہے، جو 19 لاکھ کے لگ بھگ ہے، جب کہ سب سے کم خواتین ووٹر شمالی وزیرستان میں درج ہیں۔

ڈیرہ بگٹی اور جنوبی وزیرستان میں درج خواتین رائے دہندگان کا تناسب 32 فی صد ہے۔ بلوچستان کے علاقے وشک اور جعفر آباد میں درج خواتین ووٹروں کا تناسب 48 فی صد ہے، مٹیاری سندھ میں یہ تناسب 47فی صد ہے۔ بنوں میں رجسٹرڈ ووٹرز 9ہزار 5 سو نو ہیں جن میں خواتین صرف ایک ہزار 937ہیں۔

فاٹا، پہلی بار خواتین ووٹ ڈالیں گی

فاٹا میں پہلی بار 6 لاکھ خواتین ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گی۔ جنوبی وزیرستان کے علاوہ باقی تمام اضلاع میں خواتین کو مقامی جرگوں نے ووٹ ڈالنے کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ مہم میں بھی ان کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ اس سے قبل فاٹا اور قبائلی علاقوں میں عوام کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا اور وہاں کے سارے فیصلے مشیران اور قبائلی سربراہان کرتے تھے لیکن سیاسی اصلاحات کے بعد یہاں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر پہلی بار خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی۔

مختلف حلقوں میں پہلی بار انتخاب لڑنے والی خواتین

اس انتخابات میں بہت سے حلقوں میں پہلی بار خواتین امیدوار سامنے آئی ہیں، جن میں فاٹا سے بادام زری، سندھ کے علاقے تھر سے حاجیانی لانجو اور لیاری، کراچی سے ثنیہ ناز بلوچ شامل ہیں۔

31 سالہ حاجیانی لانجو تھر پار کر کی قومی اسمبلی کے حلقہ 229 سے روایتی سیاست دانوں سے مقابلہ کریں گی۔ اس نشست سے پیپلز مسلم لیگ کے ارباب رحیم اور پی پی پی کے شیر محمد بلالانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل حاجیانی لانجو تھر کی تاریخ میں انتخابی دنگل میں اترنے والی پہلی خاتون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کام یابی تھری عورت کی مظلومیت کے خاتمے کی نوید ثابت ہوگی۔ دوسری طرف لیاری کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون ثنیہ ناز بلوچ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 109 سے امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے پہلی بار کسی خاتون امیدوار کو میدان میں لایا گیا ہے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی امیدوار ہیں۔ وہ پورے لیاری سے بھی پہلی عام خاتون امیدوار ہیں۔ تاہم لیاری سے پیپلپزپارٹی کی چیرپرسن بے نظیر بھٹو الیکشن جیت چکی ہیں۔ ثنیہ بلوچ نے اپنی مدد آپ کے تحت لیاری میں قائم اسٹریٹ اسکول سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد پرائیویٹ انٹر کیا اور اب اسی اسٹریٹ اسکول میں استاد ہیں۔ ان کا مقابلہ نواز لیگ کے سلطان بہادر اور متحدہ کے اظہر اسلام سے ہے۔

قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں جہاں خواتین کے لیے اکیلے گھر سے باہر نکلنا اور ووٹ ڈالنا آسان نہیں وہیں قبائلی علاقوں کی تاریخ میں پہلی بار ایک گھریلو خاتون بادام زری قومی اسمبلی کے حلقہ 44 سے قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ ارنگ سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ بادام زری کے انتخابی منشور میں امن وامان اور ہر شخص کو روزگار اور طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا، ناداروں کی کفالت کے علاوہ علاقے میں یونیورسٹی قائم کیا جانا شامل ہے۔



پہلے نابینا امیدوار علی انور جعفری

صوبائی اسمبلی کے حلقہ 102 سے مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار سید علی انور جعفری شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کے مطابق وہ پاکستان کے پہلے نابینا امیدوار ہیں جو قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں میدان میں ہے۔ 2009ء میں جامعہ کراچی سے تاریخ کے شعبے میں گریجویشن کرنے والے علی انور جعفری زمانۂ طالب علمی ہی سے آئی ایس او اور دیگر تنظیموں کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے۔ اس بار وہ سندھ اسمبلی کی نشست 102کے لیے امیدوار ہیں اور جیت کر پاکستان میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ موجودہ تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں، ان کے بقول دہشت گردی کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں کی جا رہی جیسے کی جانی چاہیے۔ اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جس طرح دہشت گردی اور حالات کے باعث دیگر سیاسی امیدواروں کو خطرہ ہے، بالکل اس ہی طرح وہ بھی احتیاطی تدابیر کے تحت اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اپنے حلقے میں ان کا مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ کے انور رضا نقوی، جماعت اسلامی کے سید اقبال کے علاوہ پیپلزپارٹی کے انصر عباس سے ہے۔ انتخابی نتائج کی امید کے حوالے سے انہوں نے بتایا ہمارا کام ایک موذن کی طرح ہے، ہم اپنا کام کر رہے ہیں باقی نتائج جو بھی ہوں، عوام کو حق ہے جسے چاہیں منتخب کریں۔۔

صدارت کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت

پاکستان کی تاریخ میں عہدہ صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد صرف فاروق احمد خان لغاری واحد شخصیت ہیں جو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے یہ اعزاز 2002ء کے انتخابات میں حاصل کیا۔ اس کے بعد صدر پرویز مشرف نے رواں انتخابات میں ایسی کوشش کی، لیکن ان کے کاغذات نام زدگی مسترد ہوجانے کے بعد ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ البتہ وہ فاروق لغاری کے بعد دوسرے ایسے صدر بن گئے ہیں جن کی سیاسی جماعت انتخابی اکھاڑے میں اتر رہی ہے۔ فاروق لغاری ایک سیاسی صدر تھے اور اپنا ایک حلقہ انتخاب رکھتے تھے، جب کہ پرویزمشرف چوں کہ فوجی صدر تھے اس لیے اگر کاغذات نام زدگی منظور ہوجاتے تب بھی انہیں ممکنہ طور پر کام یابی کے لیے کسی دوسرے سیاسی جماعت کے سہارے کی ضرورت تھی۔

''توبہ'' کے بعد پھر میدان میں۔۔۔!

اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی چارسدہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 7 سے امیدوار ہیں۔ 2002ء میں اسفند یار ولی اور بیگم نسیم ولی نے مذہبی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ہاتھوں شکست کے بعد یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جب ہم اپنی نشست نہیں جیت سکے تو پھر ہمیں پارٹی قیادت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس ہی طرح شیخ رشید احمد نے 2008ء کے انتخابات میں اپنی نشست ہارنے کے بعد دوبارہ ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور شکست کی صورت میں سیاست چھوڑنے کا عندیہ دیا، لیکن اب وہ ایک بار پھر حلقہ 55 سے قومی اسمبلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کے لیے انہیں تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔

''خالی خانہ'' جو رہ گیا

2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ رائے دہندگان کی سہولت کے لیے انتخابی پرچی پر مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ ساتھ ایک عدد خالی خانہ بھی شامل کیا جار ہا ہے تاکہ اگر کوئی بھی امیدوار پسند نہ ہوتو اپنی رائے کا باقاعدہ اظہار کیا جاسکے اور اگر کسی حلقے میں نصف سے زیادہ ووٹ خالی خانے کے حصے میں آجاتے تو اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کیا جاتا، لیکن سیاسی جماعتوں کی سخت مخالفت کے بعد یہ اقدام نہ کیا جا سکا، تاہم اس خیال کو عوامی حلقوں میں خاصی پذیرائی ملی۔

2008ء کے کام یاب 12 ''آزاد''

امیدوار 2013ء میں ''پابند''!

قومی اسمبلی کے بارہ سابق آزاد اراکین ن اور پی پی کے ٹکٹ پر حصہ لیں گے۔ 2008ء میں آزاد حیثیت میں کام یاب ہونے والے رشید اکبر نوانی (بھکر )، صائمہ اختر (جھنگ) عبدالحمید خان خانان خیل (میانوالی) احمر حیات خان (روکڑی) اختر کانجو (لودھراں) عبدالحق (بلوچستان) نواز لیگ جب کہ رانا فاروق سعید خان (فیصل آباد) انجینئر مثان خان ترکئی (صوابی) محبوب اﷲ جان آفریدی (کوہستان) سعید احمد ظفر (ننکانہ صاحب) منظور وٹو (اوکاڑہ) طارق انیس (ناروال) سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ دوسری طرف 2013ء کے انتخابات میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو سب سے زیادہ ٹکٹ نواز لیگ نے 8، تحریک انصاف نے 7 اور پیپلزپارٹی نے 4 ٹکٹ دیے۔

''کام'' میں کیا رکھا ہے

انتخابات میں شریک 4 ہزار 108 امیدواروں میں سے ایک ہزار 226 امیدواروں نے اپنا پیشہ ظاہر کرنا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ 786 امیدوار زراعت سے وابستہ ہیں، 777 کا ذاتی کاروبار، 307 وکیل، 276 زمیں دار، 131 ملازمت پیشہ، 71 ڈاکٹر، 48 پیش امام یا عالم، 48 سماجی کارکن، 41 گھریلو خواتین، 30پراپرٹی ڈیلر، 29 ریٹائرڈ ملازم، 28 مزدور، 22 صحافی، 14 طالب علم، 23 بے روزگار اور 78 امیدوار صرف سیاست داں ہیں۔



پیپلزپارٹی کے سندھ میں کام یاب

نصف امیدوار تبدیل

پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ میں گذشتہ انتخاب میں کام یاب 106 میں سے 56 تبدیل کیے ہیں، جن میں صوبائی کے 73 میں سے 41 جب کہ قومی کے 33 میں سے 15 ہٹا دیے گئے۔ اس بار بہت سے امیدوار ایسے لائے گئے ہیں جن کا ماضی پی پی کی مخالفت پر مبنی رہا ہے۔ جن حلقوں میں امیدوار تبدیل کیے گئے ہیں ان میں کراچی کے علاوہ اندرون سندھ سے گھوٹکی، نوشہرو فیروز، خیر پور، مٹیاری، حیدرآباد، جامشورو، ٹھٹھہ اور سانگھڑ کے مختلف حلقے شامل ہیں۔

6 امیدواروں کی مشترکہ انتخابی مہم

این اے 37 کرم ایجنسی سے کاغذات نام زَدگی جمع کرانے والے چھے مختلف جماعتوں کے امیدواروں نے مشترکہ انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے اور اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ وہ خود میں سے کسی ایک امیدوار کا انتخاب کرکے اس کے لیے مہم چلائیں گے۔ ان امیدواروں میں چار آزاد امیدواروں ابرار حسین، حاجی اصغر خان، زاہد حسین اور رجب علی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ کے ممتاز بھائی اور آل پاکستان مسلم لیگ کے ثقلین عباس شامل ہیں۔ ان امیدواروں کا موقف ہے کہ جب ہم اپنے ذاتی مفاد کے لیے انتخاب نہیں لڑ رہے تو پھر یہ اچھا ہوگا کہ ہم مشترکہ طور پر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں اور لوگوں کو غربت اور بے روزگاری سے نکالنے کے ساتھ علاقے کے امن کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

پانچ صحافی بھی انتخابی دنگل میں۔۔۔

دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرح صحافی بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اشفاق اﷲ حمد اﷲ جان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ 12 سے امیدوار ہیں۔ سابق صوبائی وزیر سرحد شیر زمان سحر کے صاحب زادے اسد زمان سحر پیپلزپارٹی پختونخوا کے حلقے 34 سے امیدوار ہیں، جنرل سیکریٹری صوابی یونین آف جرنلسٹ شاہ ولی حلقہ 31 سے انتخابی میدان میں ہیں۔ شیر اعظم جدون بطور آزاد امیدوار صوابی کے صوبائی حلقہ 36 کے لیے نبرد آزما ہیں، جب کہ صحافی محمد امین حلقہ 31 سے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

پہلی باتصاویر انتخابی فہرستیں

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستیں ووٹرز کی تصاویر کے ساتھ شایع کی گئی ہیں۔ حتمی انتخابی فہرستوں میں 8 کروڑ، 61 لاکھ 89ہزار751 ووٹرز کا اندراج کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں 49.25 ملین ووٹرز کا اندراج کیا گیا، جب کہ سندھ میں 18.96 ملین، بلوچستان میں 3.33 ملین خیبرپختون خوا میں 12.26 ملین، فاٹا میں 1.73 ملین اور اسلام آباد میں 6 لاکھ 26ہزار ووٹرز کا اندراج کیا گیا۔ نادرا کے مطابق انتخابی فہرست کی لمبائی 21 ہزار 900 کلومیٹر طویل ہے۔

قومی اسمبلی کا سب سے وسیع حلقہ

رقبے کے لحاظ سے قومی اسمبلی کا سب سے بڑا رقبہ بلوچستان کا این اے 272 ہے، 12,637 اسکوائر میل پر محیط اس حلقے میں ووٹرز کی تعداد 3,16,766 ہے۔

2008ء میں اس حلقے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے یعقوب بزنجو 61 ہزار سے زاید ووٹ لے کر کام یاب ہوئے، جب کہ ق لیگ کی سابق رکن زبیدہ جلال 33ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں، جب کہ پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر محمد حیدر بلوچ نے ساڑھے 3 ہزار اور نواز لیگ کے عبدالقادر نے ڈھائی ہزار ووٹ لیے۔ رواں انتخابات میں یہاں زبیدہ جلال (نواز لیگ)، میر عبدالرئوف رند (بلوچستان نیشنل پارٹی)، عبدالحمید (جمعیت علمائے اسلام ف) اور گلاب بلوچ (جماعت اسلامی) کے درمیان مقابلہ ہے۔

بیرون ملک پاکستانی حق رائے دہی سے محروم!

2013ء کے انتخابات کے موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ اس بار بیرون ملک موجود پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل جائے گا، جس کے لیے 7 ممالک سعودی عرب، بحرین، عمان، کویت، آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے لیے انتظامات کیے جانے تھے، جب کہ امریکا اور متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانیوں کے لیے بھی معاملات طے ہونا تھے۔ تاہم، اس بار بھی مطلوبہ قانون سازی اور انتظامات نہ ہونے کے سبب یہ معاملہ رہ گیا، گذشتہ حکومت کے آخری دنوں میں اس حوالے سے قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئیں، لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی اور حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ معاملہ پھر قانونی موشگافیوں کی بھینٹ چڑھ گیا یوں اس بار بھی سمندر پار لاکھوں پاکستانی اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے عمل کا حصہ نہ بن سکیں گے۔

قیدیوں کو حقِ رائے دہی کا اختیار

آئین کی رو سے، ملک کے تمام بالغ باشندوں کو ووٹنگ کا اختیار ہے۔ اْن میں جیل میں سزا کاٹنے والے قیدی بھی شامل ہیں۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے قیدیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کے لیے مناسب سہولیات کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری، محمد افضل خان نے کہا کہ ملک کے تمام قیدیوں کو 'پوسٹل بیلٹ' کے ذریعے ووٹنگ کا اختیار دیا جائے گا۔ پاکستان میں ساٹھ سے ستر فی صد ایسے قیدی ہیں جن کے کیسز کا فیصلہ ابھی تک سنایا نہیں گیا اور نہ ہی انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔ تاہم، ایک غیرسرکاری ادارے 'گلوبل فاؤنڈیشن' نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر 89 جیلیں ہیں جن میں 86ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد شناختی کارڈ اور انتخابی فہرستوں میں نام نہ ہونے کے باعث بھی انتخابی عمل سے دور رہ جانے کا خدشہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں