انتخابی گیت اور اشتہارات
2013کے الیکشن میں کس جماعت نے کس طرح سازوآواز اور تشہیر کا سہارا لیا؟
یوں تو ہمارے ہاں شادی بیاہ، عید اور بسنت سمیت ہر تہوار اور موسم کے گیت ہوتے ہیں، جو نہ صرف ان تہواروں کو رونق بخشتے ہیں، بلکہ ان گیتوں کے ذریعے پیارمحبت، امن و آشتی کا پیغام بھی دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔
گیتوں اور نغموں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ان کا دائرہ کار ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ کبھی یہ تہواروں اور موسموں کا رنگ دوبالا کرنے کے لیے استعمال ہوئے تو کبھی فلموں ڈراموں میں جان بھرنے کے لیے۔ کبھی جنگوں میں فوجی جوانوں اور انقلابی تحریکوں میں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تو کبھی انتخابات میں اپنا منشور بہتر طریقے سے عوام تک پہنچانے کے لیے۔ الغرض ہر دور میں گیتوں کی ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا جاتا رہا ہے، بلکہ یہ رائے عامہ ہم وار کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں، جب ایک طرف پاک فوج دشمن کے چھکے چھڑا رہی تھی تو دوسری طرف ملکہ ترنم نور جہاں کے نغمے فوجی جوانوں میں جوش اور ولولہ پیدا کر رہے تھے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ گیتوں کا ایک مقصد عوام کا لہو گرما کے اُنہیں اپنی حمایت پر آمادہ کرنا بھی ہے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔
پاکستان میں انتخابی مہم اختتام پر پہنچنے کے بعد آج انتخابات ہو رہے ہیں اور قوم آئندہ پانچ برسوں کے لیے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس موسم کا ادراک کر تے ہوئے سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے اور اپنا منشور بہتر انداز میں ان تک پہنچانے کے لیے سیاسی نغموں کا سہارا نہ لیا ہو۔ اگرچہ دہشت گردی کی حالیہ لہر انتخابی مہم پر شدید اثر انداز ہوئی لیکن سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنی طرف قائل کرنے اور اُنہیں اپنے حق میں ووٹ کے لیے راضی کرنے کی ہر وہ کوشش کی جو وہ کر سکتے تھے۔ پورا مہینہ ٹیلی ویژن پر وقفے وقفے سے اشتہارات چلتے رہے ، جن میں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کسی ہیرو کی طرح ملک کی خدمت کر تے نظر آئے، تو دوسری طرف ان اشتہاروں کی پیچھے خوب صورت گیت کارکنوں حامیوں کا لہو گرماتے رہے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو1970ء کے انتخابات کے بعد80ء کی دہائی کا اختتام اور پھر 90 کا پورا عشرہ انتخابی گہماگہمی سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جب انتخابی گیتوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ چوں کہ اُس وقت ٹو پارٹی سسٹم اپنے عروج پر تھا، لہٰذا وقت کے تقاضوں کے مطابق ان گیتوں میں پارٹی منشور سے زیادہ مخالف پارٹی پر دشنام ترازیوں کا غلبہ نظر آتا تھا۔ اس دور میں ایک طرف آئی جے آئی اور دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی بیک وقت خوب صورت گیتوں کے ساتھ میدان میں اُتریں۔ ان گیتوں نے عوام میں اس قدر پذیرائی حاصل کی کہ اب یہ رسم ہمارے انتخابات کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ اُس دور میں لوگوں کی دیوانہ وار ان گیتوں میں رغبت کو جماعت اسلامی نے بھی محسوس کیا اور پارٹی ترانے ترتیب دیے۔
2008ء کے انتخابات، چوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ہنگامی بنیادوں پر ہوئے تھے، اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی خاص گیت منظر عام پر نہیں آسکا، سوائے مسلم لیگ ق کے گیتوں کے، جن میں ایک گیت یہ بھی تھا، '' قوم کا اعلان، سب تمہارے ساتھ ہیں''۔ گانے میں آواز، پکچرائزیشن اور موسیقی ہر حوالے سے اچھی تھی، مگر یہ گانا عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا۔ اس کی ایک وجہ تو اُس وقت عوام کی ق لیگ سے ناراضگی تھی اور دوسری وجہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر گایا ہوا گیت '' میں بیٹی ہوں، ذوالفقار کی اور نام ہے میرا بے نظیر'' لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھا۔
حالیہ انتخابات کی اگر بات کی جائے تو تقریباً تمام بڑی جماعتیں اس میدان میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اُتریں۔ یوں لگا جیسے نوے کا عشرہ جدید شکل میں لوٹ آیا ہو۔ اُس دور میں پیپلزپارٹی اپنی انتخابی مہم میں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کی دھواں دار تقریروں کا سہارا لیتی تو دوسری طرف جلسوں اور کارنر میٹنگز میں ''بجاں تیر بجاں۔۔۔'' کی پُرکیف موسیقی جیالوں کو جھومنے پر مجبور کر دیتی۔ بلوچ گلوکارہ شبانہ نوشی کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت اتنا خوب صورت ہے کہ اس نے ہر دور میں پی پی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ صدا بہار گیت پہلی مرتبہ 1987ء میں منظر عام پر آیا اور اب تک اس کے کیسٹ کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس گیت کی عوامی پذیرائی کو بھانپتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اسی دھن پر ایک گیت ترتیب دیا ہے جس کے بول ہیں، '' بولو ایم کیو ایم ۔۔۔ جیتے ۔۔۔ کہو ایم کیوایم۔۔۔''
دسمبر2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے جلسوں کی رونقیں مانند پڑھ گئیں اور وہاں غموں نے ڈیرے ڈال دیے۔ لہٰذا پہلے جہاں ''بجاں تیر بجاں'' پر جیالوں کا رقص ہوا کر تا تھا اب وہاں پرسوز گیت ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں ''میں بیٹی ہوں ذوالفقار کی اور نام ہے میرا بے نظیر'' کارکنوں کو رُلاتا تو 2013ء میں نوراں لعل کی آواز میں یہ گیت، ''آئی تھی جب آئی تھی بھٹو کی بیٹی آئی تھی'' اُن کے زخموں کو کرید تا رہا۔
حالیہ انتخابات میں پارٹی نغموں کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف سرفہرست نظرآئی ہے۔ یہ کہا جائے کہ اس میدان میں کل تک جو مقام پیپلزپارٹی کو حاصل تھا آج وہ تحریک انصاف کے پاس ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اگرچہ تحریک انصاف اپنی 16برس کی سیاسی جدوجہد میں ''ویلکم عمران خان، ویلکم عمران'' کے سوا کوئی قابل ذکر گانا تیار نہیں کر سکی، لیکن حالیہ انتخابات میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں گایا ہوا گیت، ''جب آئے گا عمران، سب کی جان، بڑھے گی اس قوم کی شان، بنے گا نیا پاکستان'' نے پچھلی تمام کسر نکال دی۔ اب تک پارٹی اپنے جلسوں میں ملی و انقلابی نغموں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے دل گرمانے کے لیے ایک پشتو گیت، ''وایا، وایا، دا پختانو سندرے وایا'' کا سہارا لیتی تھی، لیکن اب عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گیت نے اس خلاء کو پُر کر دیا ہے۔ پارٹی کی جانب سے ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات میں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم ''لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' کل تک اقبال بانو کی آواز میں کارکنوں کے حوصلے بڑھا رہی تھی، تو آج راحت فتح علی کی آواز نے اس نظم کو ایک نیا انداز دیا ہے۔ راحت فتح علی تحریک انصاف کے لیے ایک اور گیت، '' صاف چلی شفاف چلی۔۔۔۔ تحریک انصاف چلی'' بھی گا چکے ہیں۔
موسیقی اور سیاسی نغموں کی دوڑ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اگرچہ پہلے بھی اس پارٹی نے اس میدان میں دیگر جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے، لیکن حالیہ انتخابی مہم میں نوجوانوں کی شرکت اور پاپ موسیقی کے بڑھتے رجحان نے اس جماعت کو بھی مجبور کرکیا کہ وہ بھی اپنے سیاسی گیتوں میں جدت لائے۔ ویسے تو اس مقصد کے لیے پارٹی نے مختلف گلوکاروں اور موسیقاروں سے گیت تیار کروائے، لیکن اس مرتبہ خصوصی طور پر شاہد نذیر کی خدمات حاصل کرنے کی اطلاعات آئیں۔ شاہد نذیر نے ''ون پائونڈ فش'' گانے سے شہرت حاصل کی تھی۔ شاہد نذیر کے بقول ن لیگ کے لیے انتخابی گیت انہوں نے خود لکھا اور میاں نواز شریف کی منظوری کے بعد اس گانے کی ریکارڈنگ ہوئی ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نون کا راحت نصرت کی آواز میں بھی ایک انتخابی گیت '' تجھ سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن، تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم'' مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیا جاتا رہا۔ اس گیت کو تیار کرنے والوں نے اس کی خوب صورتی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ راحت نے یہاں بھی اپنے فن کے وہی جوہر دکھائے جو اُنہوں نے پی ٹی آئی کے گیت میں دکھائے۔ گانے کا مرکزی خیال ''امید'' اور آگے بڑھنے کی سوچ تھی۔ اس کی موسیقی میں اتنا اثر ہے کہ سیدھا دل میں اُترتی ہے۔
اگرچہ گذشتہ پانچ برسوں تک پاکستان میں جمہوریت اور عوام کی حکم رانی کی بڑی باتیں ہوتی رہی ہیں، لیکن حالیہ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کے اشتہارات اور انتخابی گیتوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام آج بھی حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے کوسوں دور ہیں اور پارٹیاں آج بھی فرد واحد کے گرد گھوم رہی ہیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کل کی طرح آج بھی بھٹو خاندان کے گرد گھومتی رہی۔ اشتہارات میں صدر آصف علی زرداری کا کہیں ذکر ہوا اور نہ ہی یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ جماعت اپنی پانچ سالہ کارکردگی عوام کے سامنے رکھ کر ووٹ کا مطالبہ کرتی، لیکن محسوس یہ ہوا کہ اس پارٹی کے پاس اب سوائے بھٹو خاندان کا نام استعمال کرنے اور مخالفین کے عیب گنوانے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہی حال پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے، جس کے اشتہارات اور گیت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے گرد گھومتے رہے۔ اشتہارات میں اُن راہ نمائوں کا کہیں ذکر نظر نہیں آیا جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا۔ اس حوالے سے دونوں بڑی جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے اشتہارات قدرے متوازن دکھائی دیے، جن میں اگرچہ عمران خان کو دکھایا جاتا رہا لیکن زیادہ فوکس پارٹی کے نعرے '' تبدیلی'' اور ''نیا پاکستان'' پر تھا۔
''ساتھی ۔۔۔۔مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین'' یہ وہ خوب صورت گیت ہے جو ہمیں ایم کیو ایم کے جلسوں میں سنائی دیا کرتا تھا، لیکن حالیہ انتخابات سے قبل دہشت گردوں کے حملوں نے اس جماعت کی انتخابی رونقوں کو مانند کرکے رکھ دیا۔ نہ ٹیلی ویژن پر پارٹی کے اشتہارات نظر آئے اور نہ ہی گرائونڈ پر ماضی کی طرح کوئی خاص سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ یہی حال عوامی نیشنل پارٹی کا بھی رہا، جس کے جلسوں میں کبھی ''کا خٹک کا یوسف زے یم ۔۔۔ کا مہمند کا افریدے یم'' کے خوب صورت گیت پر کارکنوں کا رقص ہوا کرتا تھا، لیکن اس انتخابی مہم کے دوران یہ جماعت بھی دہشت گردی کی زد میں رہی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے پارٹی ترانوں کی اپنی پُرانی ریت برقرار رکھی اور حالیہ انتخابات کے حوالے سے ایک خوب صورت ترانا ترتیب دیا، جس کے بول ہیں، ''عدل کی ہے پہچان ترازو۔۔۔ مظلوموں کا مان ترازو۔۔۔ تبدیلی کی جسے تمنا۔۔۔ تھام لے ہر انسان ترازو۔۔۔ جیتے گا بھی جیتے گا۔۔۔۔ اس بار ترازو جیتے گا۔'' ماضی کے برعکس امریکا پر تنقید کے بجائے جماعت نے اپنی پوری توجہ انتخابی نشان ''ترازو'' پر رکھی اور ملک میں انصاف کی بالادستی کی بات کرتی رہی۔
اُدھر سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں سندھی گلوکار احمد مغل کا گایا گیت ''جیے سندھ جیے، سندھ وارا جیے، سندھ ٹوپی اجرک وارا جین'' مشترکہ نغمہ جز بن چکا ہے، اور اکثر جلسوں میں پارٹی کارکن اس گیت پر رقص کر تے نظر آتے ہیں۔
انتخابی گیتوں سے قطع نظر گذشتہ چند برسوں میں ملک کی ابتر صورت حال اور سیاست دانوں کے من گھڑت دعوؤں سے بیزاری نے گائیگی میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا ہے۔ ان گیتوں میں ملک کے دگرگوں حالات کا تذکرہ، سیاست دانوں پر کڑی تنقید کے علاوہ نوجوان نسل کو ان کی بددیانتی، وعدہ شکنی اور مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان گیتوں میں لال بینڈ کا '' اُمید سحر'' شہزاد رائے کی آواز اور چاچا واسو کی شاعری پر مشتمل گیت '' اپنے الو کتنے ٹیڑھے اب تک ہوئے نہ سیدھے''، سٹنگ بینڈ کے گیت، '' میں تو دیکھوں گا، تم بھی دیکھو گے'' نے کافی پذیرائی حاصل کی ہے۔
ماضی کے برعکس رواں انتخابی ماحول میں سیاسی گیتوں اور نغموں کی سی ڈیز اور آڈیو کیسٹ کے فروخت میں کمی دیکھنے میں آئی۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے دکان دار اس رجحان سے مایوسی کا شکار نظر آئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں کراچی کی الیکشن مہمات شور شرابے سے بھرپور ہوا کرتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چند ماہ قبل ہی شروع کردیتی تھیں، شہر کی گلیوں اور چوراہوں پر سیاسی جماعتوں کے کارکن کیمپ لگا کر اسپیکروں پر سیاسی گیت اور نغمے عوام کو سنایا کرتے تھے اور جذباتی سیاسی کارکن ان نغموں پر والہانہ رقص کیا کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ صورت حال ماضی کے برعکس رہی۔دکان داروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں سیاسی جماعتیں ہم سے رابطہ کرکے اپنے گیت اور نغموں کی سپلائی اور فروخت کا پوچھتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ہم درد بڑی تعداد میں سیاسی نغموں کی کیسٹیں خریدتے تھے، مگر اس الیکشن کے دوران عوامی رجحان تبدیل نظر آیا۔ عوام کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے گیت اور نغمے مشکلات اور مصائب کے شکار عوام کے ذہنوں کو تبدیل نہیں کرسکیں گے اور سیاسی جماعتیں گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی پر ہی ووٹ پاسکیں گی۔
گیتوں اور نغموں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ان کا دائرہ کار ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ کبھی یہ تہواروں اور موسموں کا رنگ دوبالا کرنے کے لیے استعمال ہوئے تو کبھی فلموں ڈراموں میں جان بھرنے کے لیے۔ کبھی جنگوں میں فوجی جوانوں اور انقلابی تحریکوں میں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تو کبھی انتخابات میں اپنا منشور بہتر طریقے سے عوام تک پہنچانے کے لیے۔ الغرض ہر دور میں گیتوں کی ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا جاتا رہا ہے، بلکہ یہ رائے عامہ ہم وار کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں، جب ایک طرف پاک فوج دشمن کے چھکے چھڑا رہی تھی تو دوسری طرف ملکہ ترنم نور جہاں کے نغمے فوجی جوانوں میں جوش اور ولولہ پیدا کر رہے تھے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ گیتوں کا ایک مقصد عوام کا لہو گرما کے اُنہیں اپنی حمایت پر آمادہ کرنا بھی ہے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔
پاکستان میں انتخابی مہم اختتام پر پہنچنے کے بعد آج انتخابات ہو رہے ہیں اور قوم آئندہ پانچ برسوں کے لیے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس موسم کا ادراک کر تے ہوئے سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے اور اپنا منشور بہتر انداز میں ان تک پہنچانے کے لیے سیاسی نغموں کا سہارا نہ لیا ہو۔ اگرچہ دہشت گردی کی حالیہ لہر انتخابی مہم پر شدید اثر انداز ہوئی لیکن سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنی طرف قائل کرنے اور اُنہیں اپنے حق میں ووٹ کے لیے راضی کرنے کی ہر وہ کوشش کی جو وہ کر سکتے تھے۔ پورا مہینہ ٹیلی ویژن پر وقفے وقفے سے اشتہارات چلتے رہے ، جن میں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کسی ہیرو کی طرح ملک کی خدمت کر تے نظر آئے، تو دوسری طرف ان اشتہاروں کی پیچھے خوب صورت گیت کارکنوں حامیوں کا لہو گرماتے رہے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو1970ء کے انتخابات کے بعد80ء کی دہائی کا اختتام اور پھر 90 کا پورا عشرہ انتخابی گہماگہمی سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جب انتخابی گیتوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ چوں کہ اُس وقت ٹو پارٹی سسٹم اپنے عروج پر تھا، لہٰذا وقت کے تقاضوں کے مطابق ان گیتوں میں پارٹی منشور سے زیادہ مخالف پارٹی پر دشنام ترازیوں کا غلبہ نظر آتا تھا۔ اس دور میں ایک طرف آئی جے آئی اور دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی بیک وقت خوب صورت گیتوں کے ساتھ میدان میں اُتریں۔ ان گیتوں نے عوام میں اس قدر پذیرائی حاصل کی کہ اب یہ رسم ہمارے انتخابات کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ اُس دور میں لوگوں کی دیوانہ وار ان گیتوں میں رغبت کو جماعت اسلامی نے بھی محسوس کیا اور پارٹی ترانے ترتیب دیے۔
2008ء کے انتخابات، چوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ہنگامی بنیادوں پر ہوئے تھے، اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی خاص گیت منظر عام پر نہیں آسکا، سوائے مسلم لیگ ق کے گیتوں کے، جن میں ایک گیت یہ بھی تھا، '' قوم کا اعلان، سب تمہارے ساتھ ہیں''۔ گانے میں آواز، پکچرائزیشن اور موسیقی ہر حوالے سے اچھی تھی، مگر یہ گانا عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا۔ اس کی ایک وجہ تو اُس وقت عوام کی ق لیگ سے ناراضگی تھی اور دوسری وجہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر گایا ہوا گیت '' میں بیٹی ہوں، ذوالفقار کی اور نام ہے میرا بے نظیر'' لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھا۔
حالیہ انتخابات کی اگر بات کی جائے تو تقریباً تمام بڑی جماعتیں اس میدان میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اُتریں۔ یوں لگا جیسے نوے کا عشرہ جدید شکل میں لوٹ آیا ہو۔ اُس دور میں پیپلزپارٹی اپنی انتخابی مہم میں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کی دھواں دار تقریروں کا سہارا لیتی تو دوسری طرف جلسوں اور کارنر میٹنگز میں ''بجاں تیر بجاں۔۔۔'' کی پُرکیف موسیقی جیالوں کو جھومنے پر مجبور کر دیتی۔ بلوچ گلوکارہ شبانہ نوشی کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت اتنا خوب صورت ہے کہ اس نے ہر دور میں پی پی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ صدا بہار گیت پہلی مرتبہ 1987ء میں منظر عام پر آیا اور اب تک اس کے کیسٹ کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس گیت کی عوامی پذیرائی کو بھانپتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اسی دھن پر ایک گیت ترتیب دیا ہے جس کے بول ہیں، '' بولو ایم کیو ایم ۔۔۔ جیتے ۔۔۔ کہو ایم کیوایم۔۔۔''
دسمبر2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے جلسوں کی رونقیں مانند پڑھ گئیں اور وہاں غموں نے ڈیرے ڈال دیے۔ لہٰذا پہلے جہاں ''بجاں تیر بجاں'' پر جیالوں کا رقص ہوا کر تا تھا اب وہاں پرسوز گیت ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں ''میں بیٹی ہوں ذوالفقار کی اور نام ہے میرا بے نظیر'' کارکنوں کو رُلاتا تو 2013ء میں نوراں لعل کی آواز میں یہ گیت، ''آئی تھی جب آئی تھی بھٹو کی بیٹی آئی تھی'' اُن کے زخموں کو کرید تا رہا۔
حالیہ انتخابات میں پارٹی نغموں کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف سرفہرست نظرآئی ہے۔ یہ کہا جائے کہ اس میدان میں کل تک جو مقام پیپلزپارٹی کو حاصل تھا آج وہ تحریک انصاف کے پاس ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اگرچہ تحریک انصاف اپنی 16برس کی سیاسی جدوجہد میں ''ویلکم عمران خان، ویلکم عمران'' کے سوا کوئی قابل ذکر گانا تیار نہیں کر سکی، لیکن حالیہ انتخابات میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں گایا ہوا گیت، ''جب آئے گا عمران، سب کی جان، بڑھے گی اس قوم کی شان، بنے گا نیا پاکستان'' نے پچھلی تمام کسر نکال دی۔ اب تک پارٹی اپنے جلسوں میں ملی و انقلابی نغموں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے دل گرمانے کے لیے ایک پشتو گیت، ''وایا، وایا، دا پختانو سندرے وایا'' کا سہارا لیتی تھی، لیکن اب عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گیت نے اس خلاء کو پُر کر دیا ہے۔ پارٹی کی جانب سے ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات میں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم ''لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' کل تک اقبال بانو کی آواز میں کارکنوں کے حوصلے بڑھا رہی تھی، تو آج راحت فتح علی کی آواز نے اس نظم کو ایک نیا انداز دیا ہے۔ راحت فتح علی تحریک انصاف کے لیے ایک اور گیت، '' صاف چلی شفاف چلی۔۔۔۔ تحریک انصاف چلی'' بھی گا چکے ہیں۔
موسیقی اور سیاسی نغموں کی دوڑ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اگرچہ پہلے بھی اس پارٹی نے اس میدان میں دیگر جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے، لیکن حالیہ انتخابی مہم میں نوجوانوں کی شرکت اور پاپ موسیقی کے بڑھتے رجحان نے اس جماعت کو بھی مجبور کرکیا کہ وہ بھی اپنے سیاسی گیتوں میں جدت لائے۔ ویسے تو اس مقصد کے لیے پارٹی نے مختلف گلوکاروں اور موسیقاروں سے گیت تیار کروائے، لیکن اس مرتبہ خصوصی طور پر شاہد نذیر کی خدمات حاصل کرنے کی اطلاعات آئیں۔ شاہد نذیر نے ''ون پائونڈ فش'' گانے سے شہرت حاصل کی تھی۔ شاہد نذیر کے بقول ن لیگ کے لیے انتخابی گیت انہوں نے خود لکھا اور میاں نواز شریف کی منظوری کے بعد اس گانے کی ریکارڈنگ ہوئی ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نون کا راحت نصرت کی آواز میں بھی ایک انتخابی گیت '' تجھ سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن، تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم'' مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیا جاتا رہا۔ اس گیت کو تیار کرنے والوں نے اس کی خوب صورتی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ راحت نے یہاں بھی اپنے فن کے وہی جوہر دکھائے جو اُنہوں نے پی ٹی آئی کے گیت میں دکھائے۔ گانے کا مرکزی خیال ''امید'' اور آگے بڑھنے کی سوچ تھی۔ اس کی موسیقی میں اتنا اثر ہے کہ سیدھا دل میں اُترتی ہے۔
اگرچہ گذشتہ پانچ برسوں تک پاکستان میں جمہوریت اور عوام کی حکم رانی کی بڑی باتیں ہوتی رہی ہیں، لیکن حالیہ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کے اشتہارات اور انتخابی گیتوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام آج بھی حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے کوسوں دور ہیں اور پارٹیاں آج بھی فرد واحد کے گرد گھوم رہی ہیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کل کی طرح آج بھی بھٹو خاندان کے گرد گھومتی رہی۔ اشتہارات میں صدر آصف علی زرداری کا کہیں ذکر ہوا اور نہ ہی یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ جماعت اپنی پانچ سالہ کارکردگی عوام کے سامنے رکھ کر ووٹ کا مطالبہ کرتی، لیکن محسوس یہ ہوا کہ اس پارٹی کے پاس اب سوائے بھٹو خاندان کا نام استعمال کرنے اور مخالفین کے عیب گنوانے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہی حال پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے، جس کے اشتہارات اور گیت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے گرد گھومتے رہے۔ اشتہارات میں اُن راہ نمائوں کا کہیں ذکر نظر نہیں آیا جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا۔ اس حوالے سے دونوں بڑی جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے اشتہارات قدرے متوازن دکھائی دیے، جن میں اگرچہ عمران خان کو دکھایا جاتا رہا لیکن زیادہ فوکس پارٹی کے نعرے '' تبدیلی'' اور ''نیا پاکستان'' پر تھا۔
''ساتھی ۔۔۔۔مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین'' یہ وہ خوب صورت گیت ہے جو ہمیں ایم کیو ایم کے جلسوں میں سنائی دیا کرتا تھا، لیکن حالیہ انتخابات سے قبل دہشت گردوں کے حملوں نے اس جماعت کی انتخابی رونقوں کو مانند کرکے رکھ دیا۔ نہ ٹیلی ویژن پر پارٹی کے اشتہارات نظر آئے اور نہ ہی گرائونڈ پر ماضی کی طرح کوئی خاص سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ یہی حال عوامی نیشنل پارٹی کا بھی رہا، جس کے جلسوں میں کبھی ''کا خٹک کا یوسف زے یم ۔۔۔ کا مہمند کا افریدے یم'' کے خوب صورت گیت پر کارکنوں کا رقص ہوا کرتا تھا، لیکن اس انتخابی مہم کے دوران یہ جماعت بھی دہشت گردی کی زد میں رہی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے پارٹی ترانوں کی اپنی پُرانی ریت برقرار رکھی اور حالیہ انتخابات کے حوالے سے ایک خوب صورت ترانا ترتیب دیا، جس کے بول ہیں، ''عدل کی ہے پہچان ترازو۔۔۔ مظلوموں کا مان ترازو۔۔۔ تبدیلی کی جسے تمنا۔۔۔ تھام لے ہر انسان ترازو۔۔۔ جیتے گا بھی جیتے گا۔۔۔۔ اس بار ترازو جیتے گا۔'' ماضی کے برعکس امریکا پر تنقید کے بجائے جماعت نے اپنی پوری توجہ انتخابی نشان ''ترازو'' پر رکھی اور ملک میں انصاف کی بالادستی کی بات کرتی رہی۔
اُدھر سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں سندھی گلوکار احمد مغل کا گایا گیت ''جیے سندھ جیے، سندھ وارا جیے، سندھ ٹوپی اجرک وارا جین'' مشترکہ نغمہ جز بن چکا ہے، اور اکثر جلسوں میں پارٹی کارکن اس گیت پر رقص کر تے نظر آتے ہیں۔
انتخابی گیتوں سے قطع نظر گذشتہ چند برسوں میں ملک کی ابتر صورت حال اور سیاست دانوں کے من گھڑت دعوؤں سے بیزاری نے گائیگی میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا ہے۔ ان گیتوں میں ملک کے دگرگوں حالات کا تذکرہ، سیاست دانوں پر کڑی تنقید کے علاوہ نوجوان نسل کو ان کی بددیانتی، وعدہ شکنی اور مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان گیتوں میں لال بینڈ کا '' اُمید سحر'' شہزاد رائے کی آواز اور چاچا واسو کی شاعری پر مشتمل گیت '' اپنے الو کتنے ٹیڑھے اب تک ہوئے نہ سیدھے''، سٹنگ بینڈ کے گیت، '' میں تو دیکھوں گا، تم بھی دیکھو گے'' نے کافی پذیرائی حاصل کی ہے۔
ماضی کے برعکس رواں انتخابی ماحول میں سیاسی گیتوں اور نغموں کی سی ڈیز اور آڈیو کیسٹ کے فروخت میں کمی دیکھنے میں آئی۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے دکان دار اس رجحان سے مایوسی کا شکار نظر آئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں کراچی کی الیکشن مہمات شور شرابے سے بھرپور ہوا کرتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چند ماہ قبل ہی شروع کردیتی تھیں، شہر کی گلیوں اور چوراہوں پر سیاسی جماعتوں کے کارکن کیمپ لگا کر اسپیکروں پر سیاسی گیت اور نغمے عوام کو سنایا کرتے تھے اور جذباتی سیاسی کارکن ان نغموں پر والہانہ رقص کیا کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ صورت حال ماضی کے برعکس رہی۔دکان داروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں سیاسی جماعتیں ہم سے رابطہ کرکے اپنے گیت اور نغموں کی سپلائی اور فروخت کا پوچھتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ہم درد بڑی تعداد میں سیاسی نغموں کی کیسٹیں خریدتے تھے، مگر اس الیکشن کے دوران عوامی رجحان تبدیل نظر آیا۔ عوام کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے گیت اور نغمے مشکلات اور مصائب کے شکار عوام کے ذہنوں کو تبدیل نہیں کرسکیں گے اور سیاسی جماعتیں گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی پر ہی ووٹ پاسکیں گی۔