کس کس کی نظر ہے پاکستان کے انتخابات پر

یورپی یونین کے مبصر کا وفداور دیگر تنظیمیں، جو الیکشن2013 کی شفافیت اور غیرجانب داری کا جائزہ کا لے رہی ہیں

یورپی یونین کے مبصر کا وفداور دیگر تنظیمیں، جو الیکشن 2013 کی شفافیت اور غیرجانب داری کا جائزہ کا لے رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے عام انتخابات2013 پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔

اگرچہ انتخابی عمل کو شفاف اور پرامن رکھنے کے لیے پاکستان میں آزاد الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت موجود ہے، جس کے فاضل اراکین اپنی تمام تر ''توانائیوں'' کے ساتھ انتخابی عمل کو غیرجانب دار اور پرامن بنانے کے لے مصروف ہیں۔ انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی کوششوں سے نہ صرف اندرون ملک بل کہ بیرون ملک بھی کئی ادارے تجزیاتی اور مشاہداتی عمل سرانجام دے رہے۔ چوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد دوسری جمہوری حکومت کو اختیارات کی منتقلی کا عمل نہایت اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا ان تجزیاتی اور مشاہداتی کوششوں کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے ''یورپی یونین مبصر وفد'' کا کردار بہت اہم ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کا مبصر وفد صرف اس صورت میں تشکیل دیا جاتا ہے جب انتخابات والے ملک کی جانب سے جائزہ کے لیے یورپی یونین کو باقاعدہ دعوت نامہ موصول ہو۔

پاکستان کے موجودہ انتخابات میں تجزیے کے دوران یورپی یونین کے وفد کو ''الیکشن سپورٹ گروپ(ESG) '' سمیت کئی بین الاقوامی مخیر اداروں کی معاونت حاصل ہے، جن میں برٹش ہائی کمیشن، نیدرلینڈ سفارت خانہ (پاکستان)، امریکی سفارت خانہ (پاکستان)، ناروے سفارت خانہ (پاکستان)، یورپی کمیشن، ڈپارٹمنٹ برائے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ برطانیہ، انٹرنیشنل فائونڈیشن برائے الیکٹرول سسٹم، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام اور یوایس ایڈ شامل ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن سپورٹ گروپ پاکستان کے موجودہ الیکشن میں حکومت پاکستان کی انتخابی عمل اور طریقۂ کار میں معاونت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ یورپی یونین مبصر وفد کی ڈپٹی چیف ''ہنا رابرٹس'' کے مطابق حالیہ انتخابات میں مبصر وفد اور تجزیاتی سرگرمیوں کے لیے 50 لاکھ یورو سے زاید رقم خرچ کی گئی ہے ۔

یورپی یونین کا موجودہ ''الیکشن آبزرور مشن (EU EMO)'' اقوام متحدہ کے 2005 کے اعلامیہ ''ڈیکلریشن آف پرنسپل انٹرنیشنل آبزرویشن'' کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن آبزرور مشن انتخابی عمل کا تجزیہ ذاتی حیثیت سے بھی کرتا ہے، جس کے دوران مشن صرف پاکستان میں رائج ملکی قوانین کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس دوران مشن اس امر پر بھی توجہ مرکوز رکھتا ہے کہ حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے تحت1976میں عمل پذیر ہونے والے معاہدے (ICCPR)''بین الااقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق' ' (International Covenant on Civil and Political Rights)سے پہلو تہی تو نہیں کررہا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس معاہدے پر 2008میں دستخط کیے تھے جب کہ عملی طور پر اس معاہدے پر عمل درآمد 23 جون 2010سے شروع کیا ہے۔

یورپی یونین کا وفد1997، 2002اور 2008کے عام انتخابات میں بھی پاکستان آچکا ہے ان وفود میں شامل مبصرین نے پاکستان کے انتخابی منظرنامے پر اپنی سفارشات پیش کی تھیں۔ یورپی یونین کے ماہرین کے مطابق ان کی سفارشات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اب تک مثبت پیش رفت کی ہے۔ گذشتہ انتخابات2008کے حوالے سے یورپی یونین مبصر مشن کی جانب سے شائع کردہ حتمی جائزہ رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ ''مجموعی طور پر انتخابی عمل جمہوریت کے بین الااقوامی معیارات کے ہم پلہ نہیں تھا۔''

پاکستان کی وزارت خارجہ کی دعوت پر یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی نو ریاستوں کا بارہ رکنی وفد ''الیکشن آبزرویشن مشن (EOM)'' کی حیثیت سے 3اپریل 2013کو اسلام آباد پہنچا۔ اس وفد کو '' Coreٹیم'' کا نام دیا گیا ہے۔ وفد کی سربراہی جرمنی سے تعلق رکھنے والے چیف مبصرMichael Gahler کررہے ہیں۔ گیارہ بنیادی مبصرین کے ساتھ معاونت کے لیے 52افراد کا خصوصی تربیت یافتہ عملہ بھی ہے، جو پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے انتخابی حلقوں میں سے 52 مختلف مگر اہم مقامات پر اپنی سرگرمیاں تقریباً چھے ہفتے سے جاری ر کھے ہوئے ہے، جس کے بعد وہ اپنی جائزہ رپورٹیں '' Core Team'' کو پیش کرے گا۔ ان خواتین وحضرات کے علاوہ مزید چھیالیس رکنی قلیل مدتی وفد بھی الیکشن والے دن یورپی یونین '' Coreٹیم'' کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے گا۔ ان خدمات میں ووٹوں کی گنتی اور ان کے نتیجے میں نتائج کی تیاری کا جائزہ لینا شامل ہے۔ اس مددگار وفد میں یورپی یونین ممالک کے علاوہ ناروے، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وفد مختلف یورپی یونین ممالک کے اراکینِ پارلیمنٹ اور یورپی یونین ممالک کے سفارت کاروں سے بھی انتخابات کے حوالے سے تاثرات جمع کرے گا۔ اس دوران وفد کو علاقائی تربیت یافتہ افراد کا ساتھ بھی حاصل ہے۔

مجموعی طور پر یورپی یونین مبصر وفد کے اہداف میں انتخابی عمل کے دوران قانونی دائرہ کار اور اس کا درست اطلاق، انتخابی عمل کی انتظام کاری، سیاسی ماحول اور اس دوران انتخابی مہم کے مختلف مراحل ، میڈیا کا کردار، ووٹر رجسٹریشن کا عمل، امیدوار کے اہل ہونے کا عمل، ووٹر کی خواندگی، امیدوار کی انفرادی اور پارٹی کی بنیاد پر انتخابی مہم، انتخابی عمل کے دوران سول سوسائٹی کا کردار، انتخابی تصفیہ طلب مسائل اور خواتین اور اقلیتوں کی انتخابات میں شراکت داری پر جائزہ رپورٹیں شامل ہیں۔ ان تمام جائزہ رپورٹوں کی تیاری کے لیے وفد رائے شماری والے دن اہم پولنگ اسٹیشنز اور انتخابی حلقوں میں اپنی سرگرمیاں بغیر کسی سیاسی یا حکومتی وابستگی کے انجام دینے کا پابند ہے۔

انتخابی عمل کے دوران یورپی یونین مبصر وفد کو کسی بھی قسم کی انتظامی یا سیاسی مداخلت کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی بھی قسم کا انتخابی عمل تبدیل کرنے، بہتر یا خراب کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ وفد صرف انتخابی عمل کا جائزہ اور اس دوران اعدادوشمار جمع کرکے رپورٹیں اور سفارشات مرتب کر نے کا اہل ہے۔ ان رپورٹوں اور ان میں دی گئی سفارشات کی بنیاد پر مکمل، حتمی اور جامع جائزہ رپورٹ یورپی یونین کا مبصر وفد انتخابات کے لگ بھگ دو ماہ بعد عوام، حکومتی اہل کاروں، NGO'sاور بین الااقوامی سطح کے سیاسیات سے تعلق رکھنے والے اداروں کے مطالعے کے لیے پیش کرنے کا پابند ہے۔ گذشتہ انتخابات کے بعد یورپی یونین کے ''الیکشن آبزرور مشن EOM'' نے اپنی حتمی رپورٹ میں الیکشن کے عمل کو مزید بہتر بنانے کے لیے 83 سفارشات تحویز کیں تھیں۔ ان میں دو اہم سفارشات کے مطابق سب سے اہم انتخابی عمل کی جدید اصولوں کی بنیاد پر فریم ورک کی تیاری اور مرکزی انتخابی ادارے کی انتظامی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کرنا شامل تھا۔

یورپی یونین مبصر وفد 2013 میں شامل ماہرین میں مرکزی مبصر جرمنی سے تعلق رکھنے والے Michael Gahler ہیں، جو1999سے یورپی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ مائیکل گیلر2008کے الیکشن میں بھی چیف مبصر کی حیثیت سے پاکستان آچکے ہیں، جب کہ تیونس کے2011کے انتخابات میں بھی اسی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ''ڈپٹی چیف آبزرور'' برطانیہ کی Hannah Robertsگذشتہ انتخابات میں بھی اسی حیثیت میں پاکستان آچکی ہیں۔ دیگر ماہرین میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے Stefan Comanجو انتخابی عمل کے تجزیہ کار ہیں، فن لینڈ کی انسانی حقوق اور نسلی امتیاز کے حوالے سے تجزیہ کارSalome Hirvaskoski، جرمنی کی Antje Graweسیاسی اور ملکی تجزیہ کار، یونان کی Marianna Skopa قانونی امور کی تجزیہ کار، لٹویا کی Inta Laseمیڈیا کی تجزیہ کار، جرمنی کی Kerstin Dokterتجزیہ کاروں کے مابین رابطہ کار، برطانیہ کے Oliver Greenڈپٹی آبزرور رابط کار، سوئیڈن کے Anders Erikssonڈیٹا تجزیہ کار، ڈنمارک کے Peter-Bastian پریس آفیسر اور آسٹریا کے Evan Eberleڈپٹی پریس آفیسر کی حیثیت سے پاکستان میں یورپی یونین مبصر وفد برائے 2013 کے عام انتخابات کے لیے ''Coreٹیم'' کے ساتھ پاکستان میں موجود ہیں۔


انٹرنیشنل فائونڈیشن برائے الیکٹرول سسٹم (IFES)

غیرجانب دار تنظیم ''بین الااقوامی فاوئنڈیشن برائے انتخابی عمل'' یعنی ''انٹرنیشنل فائونڈیشن برائے الیکٹرول سسٹم (IFES)'' دنیا کی پہلی انتخابی معاون تنظیم ہے، جو پاکستان میں ''الیکشن سپورٹ گروپ'' کے سیکٹریٹ کے طور پر کام کرر ہی ہے۔ واضح رہے کہESGنے 2009کے اوائل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 16 تنظیموں کی جانب سے مہیاکردہ معلومات کی بنیاد پر 32سفارشات پیش کی تھیں۔ ان تنظیموں میں یورپی یونین مبصر وفد کی سفارشات کے علاوہ ڈیموکریسی انٹرنیشنل(DI)، برطانیہ کا ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ(DFID)، فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک(FAFEN) ، دی انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹی ٹیوٹ(IRI)، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ(NDI)، پاکستان کولیشن فری فئیر اینڈ ڈیموکریٹک الیکشن (PACFREL)، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار لیجسلیٹوو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانس پیرنسی(PILDAT)، یونائیٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام(UNDP)وغیرہ شامل تھیںIFESکا مشن ہے کہ جمہوریت کے بینر تلے منعقد ہونے والے انتخابی عمل میں حکومتوں کی معاونت کرے۔1987سے اپنے قیام سے لے کر اب تک IEFSدنیا بھر کے ایک سو پینتیس ممالک میں ایسی ہی نوعیت کی خدمات انجام دے چکی ہے۔ یورپی یونین مبصر وفد کو پاکستان کے موجودہ انتخابات میں جائزہ رپورٹوں کی تیاری میں IEFSکی بھرپور معاونت حاصل ہے۔ اس حوالے سے IFESکا سپورٹنگ الیکٹرول ریفارمز برائے پاکستان پروجیکٹ (SERP) کینیڈا کی کینیڈین انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایجنسی کے علاوہ برطانیہ اور یورپی یونین ممالک کے مالی معاونت سے جاری ہے۔ IEFSپاکستان کے انتخابی عمل میں تیکنیکی معاونت کے لیے2002 سے مصروف عمل ہے۔ اس حوالے سے IEFSنے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تربیتی ادارے ''فیڈرل الیکشن اکیڈمی'' کو فعال کرتے ہوئے کئی تربیتی پروگرام منعقد کیے ہیں۔ BRIDGEیعنی ''بلڈنگ ریسورس ان ڈیموکریسی گورنیس اینڈ الیکشن'' کے پلیٹ فارم سے منعقد کیے جانے والے ان کورسوں کے ذریعے 223,000 ہزار اہل کاروں کو تربیت دی گئی ہے، جن میں 211,000 تصدیقی آفیسر، 146الیکشن کمیشن کے افسران، مستقبل کے لیے46 ضلعی ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز اور آٹھ ہزار سے زاید پولنگ ورکر اور دیگر ماتحت عملہ شامل ہے، جو موجودہ انتخابات 2013میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ IEFSنے2006میں یو ایس ایڈ پروگرام کی مدد سے حکومت پاکستان کے ساتھ 9 ملین ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ IFESنے انتخابی عمل میں ووٹروں کی اندراج کے لیے کمپیوٹر آئزڈ الیکٹرول رول سسٹم (CERS) متعارف کرایا ہے۔

الیکشن مانٹیرنگ

دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ سے قبل بین الااقوامی تنظیموں کی جانب سے الیکشن مانٹیرنگ کا عمل خاصا کم تھا۔ تاہم سرد جنگ یعنی1950کی دہائی کے بعد انتخابات کے لیے غیرجانب دار مبصر وفود کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بالخصوص 1990کی دہائی میں ان ممالک میں جہاں حکومتی ڈھانچا کم زور اور انتخابی طریقۂ کار واضح نہیں تھا۔ جمہوری انتخابات کے عمل کو شفاف اور غیرجانب دار بنانے کے لیے مبصر وفود نے تواتر کے ساتھ دورے کیے اور اپنی تجاویز اور سفارشات پیش کیں، جس کے نتیجے میں ان ممالک میں اب بہتر انتخابی کمیشن بن چکے ہیں اور جمہوری حکومت کا قیام عوام کی امنگوں کے مطابق ہورہا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹ، آرگنائزیشن برائے سیکیوریٹی اور تعاون برائے یورپ، یورپی یونین، دولت مشترکہ سیکٹریٹ، کونسل آف یورپ اور افریکن یونین مستقل مزاجی سے الیکشن کیلینڈر کے مطابق اپنی مشاہداتی اور معاون سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ الیکشن کی نگرانی کے بجائے الیکشن میں حکومتوں کی معاونت کرتی ہے۔ کچھ این جی اوز بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثلاً امریکا کے انتخابات میں ''کارٹر سینٹر'' کا کردار اہم ہے جو یونائیٹڈ نیشن الیکٹرول اسسٹنٹ ڈویژن اور نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر امریکی انتخابات اور دیگر ممالک کے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے ازخود نگرانی کرتا ہے اسی طرح یورپ کے لیے ''کانگریس آف دی کونسل آف یورپ''، ''وینس کمیشن'' کی معاونت سے الیکشن مانیٹرنگ کے فرائض انجام دیتی ہے۔ اس دوران کانگریس فرائض کی ادائیگی میں ''کونسل یورپین چارٹر آف سیلف گورنمنٹ'' کے چارٹر کے اصولوں پر چلنے کی پابند ہوتی ہے۔ ایک اور اہم مانٹیرنگ کا ادارہ ''دی گلوبل نیٹ ورک فار ڈومیسٹک مانیٹر '' بھی سرگرم عمل ہے۔

اگر ہم الیکشن مانیٹرنگ تنظیموں کی درجہ بندی کریں تو بین الااقوامی خدمات کے حوالے سے سینٹر فار ڈیموکریسی اور ڈیولپمنٹ افریقہ، الیکٹرول انسٹی ٹیوٹ برائے ڈیموکریسی افریقہ، نیدرلینڈ انسٹی ٹیوٹ برائے کثیرالجماعتی ڈیموکریسی، ورلڈ موومنٹ برائے ڈیموکریسی اور ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ملکوں کے درمیان باہمی تعاون اور اقوام متحدہ کی معاونت سے سرگرم رہنے والی تنظیموں میں ایسوسی ایٹ آف سینٹر ل اور مشرقی یورپ الیکشن آفیشلز، الیکشن سپورٹ گروپ پاکستان، بین الااقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول معاونت، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام، آرگنائزیشن برائے سیکیوریٹی اور تعاون برائے یورپ شامل ہیں۔ حکومتی تعاون یا مالی امداد کے ذریعے الیکشن مانیٹرنگ کی اہم تنظیمیں ویسٹ منسٹر فائونڈیشن برائے ڈیموکریسی، بین الااقوامی مرکز برائے انسانی حقوق اینڈ ڈیموکریٹک ڈیولپمنٹ، بین الااقوامی ری پبلیکن انسٹی ٹیوٹ، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز اور نیشنل انڈومنٹ برائے ڈیموکریسی شامل ہیںاسی طرح اگر ہم ملکی سطح پر ان تنظیموں پر نظر دوڑائیں، جو سال ہاسال تک انتخابی عمل کے طریقے کار پر اپنے اپنے ملک میں مانٹیرنگ میں مصروف رہتی ہیں۔ ان میں ملائیشیا کی Bersih تنظیم، جارجیا میں کاکیشین انسٹی ٹیوٹ برائے امن، ڈیموکریسی اینڈ ڈیولپمنٹ ''، پاکستان میں سٹیزن گروپ برائے الیکٹرول پروسس، روس میں انسٹی ٹیوٹ برائے الیکشن سسٹم ڈیولپمنٹ، اسرائیل میں اسرائیل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ، فلسطین میں الیکشن ریفارمز سپورٹ گروپ، فلپائن میں نیشنل سٹیزن موومنٹ برائے فری الیکشن اور سنگاپور میں تھنک سینٹر جیسی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، جب کہ امریکا میں اتحاد برائے فری اینڈ اوپن الیکشن، انٹرنیشنل انڈومنٹ برائے ڈیموکریسی اور فئیر ووٹ، کینیڈا میں ڈیموکریسی واچ، فئیر ووٹ برائے کینیڈا اور فائونڈیشن برائے ڈیموکریٹک ایڈوانس منٹ اور برطانیہ میں سرگرم الیکٹرول ریفارمز سوسائٹی اور ان لاک ڈیموکریسی شامل ہیں۔

یورپی یونین، تنقید

پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے، جس کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت کے تابع ہے ریاست کا سربراہ صدر اور انتظامی سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے منصب پر عوام کے ووٹوں سے فتح مند سیاست داں کو منتخب کیا جاتا ہے جسے عوام ہی کے منتخب کردہ اراکین پارلیمان منتخب کرتے ہیں، جب کہ صدر مملکت کو پارلیمنٹ براہ راست منتخب کرتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کی اسمبلیوں پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا مجموعی حلقہ انتخاب چاروں صوبوں کے علاوہ فاٹا، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور سابقہ شمالی علاقہ جات گلگت و بلتستان میں منقسم ہے۔

پارلیمان مجموعی طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی کی 342نشستیں ہیں جن میں 60مخصوص نشستیں خواتین کے لیے اور دس غیر مسلموں کے لیے وقف ہیں۔ سینٹ 104ممبران پر مشتمل ہے جن میں سے 92 سینیٹر صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتیں ہیں۔ ہر صوبہ مساوی طور پر 23 سینیٹر منتخب کرتا ہے، جب کہ باقی بارہ سینیٹروں میں سے آٹھ فاٹا اور چار وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ میں 16 خواتین کی مخصوص نشستیں اور چار غیرمسلم سینیٹروں کی نشستیں بھی ہیں۔ جہاں تک صوبائی اسمبلیوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے چاروں صوبوں کی مخصوص نشستوں سمیت صوبائی اسمبلی کے ممبروں کی تعداد 728بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی سو سیا سی جماعتیں رجسٹر ڈ ہیں۔ چناں چہ اگر ہم پاکستان کے معروضی حالات ، سرحدی تنازعات اور ملک میں دہشت گردی کو مدنظر رکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ یورپی یونین کا وفد نہ صرف اپنے حساس کام کے لحاظ سے شدید افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ دوسری طرف یہ وفد بھی ازخود گاہے بہ گاہے میڈیا میں اس تمام صورت حال کے بارے میں اپنے تحفظات پیش کرتا رہا ہے۔ چناں چہ اس صورت حال کی بنیاد پر بہت سے سیاسی اور سول سوسائٹی کے نمائندے حاصل شدہ جائزے ، تبصرے، اعدادوشمار اور مشاہدات کو انتخابی عمل کی درست یا مکمل تصویر کشی قرار نہیں دیتے۔
Load Next Story