غدار ایجنٹ اور سکیورٹی رِسک قرار دینے کا سیاسی چلن بدل رہا ہے

شیربنگال فضل الحق،غوث بخش بزنجو،عطاءاللہ مینگل،ولی خان،بینظیراورالطاف حسین سمیت کئی سیاستدان ان الزامات کا نشانہ بنے.

حالیہ انتخابی مہم میں صرف عمران ایسے سیاستدان ہیں، جنھیں جے یو آئی (ف) یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

''بدقسمتی سے کبھی کبھی ہماری سرکاری، سیاسی،سماجی اور ذاتی قوت برداشت بڑی ضعیف ثابت ہوتی ہے۔حکومت وقت کے ساتھ اختلاف غداری بن جاتا ہے اور سیاسی اور سماجی امور میں رائے کا تصادم وطن دشمنی قرار پا سکتا ہے۔ اس فعل عبث میں حب الوطنی کی ساکھ کے علاوہ اور کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ '' قدرت اللہ شہاب

سیاسی حریف کو غداراورایجنٹ قرار دینے کی قبیح سیاسی روایت کی داغ بیل لیاقت علی خان نے ڈالی، جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد بحیثیت وزیراعظم، حسین شہید سہروردی کو غدار اور ہندوستانی ایجنٹ کہا تھا۔ یہ ''غدار'' سہروردی بعد میں وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے۔ وزیراعظم بھی بنے۔ سیاستدانوں کا ٹھٹھہ اڑانے والے ایوب خان نے اقتدار سنبھالاتو حسین شہید سہروردی کا پرانا مرتبہ بحال کردیا گیا۔وہ ایک بار پھر ''غدار'' قرار پائے۔ ایبڈو کے کالے قانون سے ڈر کرجو اکا دکا سیاستدان سیاست سے بازنہ آئے اور مقدمات کا سامنا کیا ،ان میں حسین شہید سہروردی بھی تھے۔ انھوں نے ایوب دور میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔ 1963ء میں وہ دنیا سے چلے گئے وگرنہ نہ جانے انھیں کتنے اور سنگ گراں عبورکرناتھے۔ حسین شہید سہروردی خود تو ''غدار'' تھے ہی، انھیں ''غداروں''کا مقدمہ لڑنے میں بھی دلچسپی رہی، راولپنڈی سازش کیس میں ملوث''غداروں ''کا مقدمہ بھی انھوں نے لڑا اور فیض احمد فیض نام کے ایک ''ملزم ''نے ''مدح ''کے عنوان سے ان کے لیے سپاسنامہ نظم کیا۔

فیض کے دوست اور معروف براڈ کاسٹرآغا ناصر کے بقول ''شاید یہ فیض کا پہلا اور آخری قصیدہ ہے، جو انھوں نے کسی زندہ شخصیت کی شان میں لکھا۔'' حسین شہید سہروردی کے بعد 1940ء میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال اے کے فضل الحق کے ''غدار'' کہلانے کی باری آئی۔ 1954ء میں جگتو فرنٹ نے مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کو الیکشن میں خوب رگڑا دیا،تین سو دس میں سے تین سو ایک نشستیںاس کے حصے میں آئیں، فضل الحق وزیراعلیٰ بنے، لیکن کچھ عرصے بعد انھیں غدار قرار دے کر حکومت سے فارغ کر دیا گیا اور ''محب وطن'' اسکندر مرزا مشرقی پاکستان کے نگران بن گئے، منصب سنبھالنے پر موصوف نے بیان جاری کیا کہ مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے خطرہ ہے، جبکہ اصل میں پاکستان کو اگر کسی سے خطرہ تھا تو وہ خود اسکندر مرزا تھے۔ کچھ ہی عرصہ میں ''غدار'' فضل الحق کووزیراعظم چودھری محمد علی کی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کردیا گیا۔برسوں بعد حکومت پاکستان نے فضل الحق کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا۔مولانا بھاشانی بھی غداری کے الزام کی زد میں آئے۔

ایوب دور میں بلوچوں پربھی ''عنایت خاص'' رہی۔ خان آف قلات کی گرفتاری سے معاملات بگڑنے کا آغاز ہوا اور پھر غوث بخش بزنجو،عطاء اللہ مینگل، اکبربگتی سمیت کئی بلوچ رہنما پابند سلاسل ہوئے۔لوگوں کو قرآن پر حلف دے کریقین دلایا گیا کہ وہ پہاڑوں سے اترآئیں ، انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا، اس کہے پر عمل کا انھیں گرفتاری کی صورت میںالٹا صلہ ملا۔ ایوب خان بنگالیوں کے بارے میں بڑی پست رائے رکھتے تھے، جس کی غمازی ان کی ڈائریوں سے بھی ہوتی ہے ، اردو بولنے والوں کو تو انھوں نے کہہ ہی ڈالا تھا کہ وہ کہاں جائیں گے، آگے سمندر ہے۔ایوب خان کا یہ فرمانِ عالی شان برسوں بعد ممتاز ادیب انتظار حسین کے کراچی کے حالات پر لکھے گئے ناول کا عنوان بھی ٹھہرا۔

ایسی سوچ کے حامل حکمران کے دور میں قومی یکجہتی کو جو چرکے لگے اس کا نتیجہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں دیکھا۔چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو گلہ رہا ہے کہ غدار صرف چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو کہا جاتا ہے،اور ان سے ہی خود کو محب وطن ثابت کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے، اس بات کو مکمل طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ، کیونکہ ،مشرقی پاکستان تو ملک کا سب سے بڑا حصہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی لیکن سب سے زیادہ غداری کا الزام ادھر کے سیاستدانوں پر لگا، البتہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد غداری کا الزام چھوٹے صوبوں کے رہنمائوں پر لگتا رہا ہے۔ مشرف دور کے بعد تو قوم پرستوں کا یہ شکوہ کسی حد تک دور ہوجانا چاہیے کہ اس دور میں تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواز شریف ہائی جیکرقرار پائے اور جاوید ہاشمی پر فوج میں بغاوت کو ہوا دینے کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ۔

بات مشرقی پاکستان کی ہورہی تھی ، ادھر کے سب سے معروف غدار شیخ مجیب الرحمان تھے، جنھوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں مادر ملت کا ڈٹ کر ساتھ دیا،لیکن بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں انھیں غداراور ہندوستانی ایجنٹ قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا۔ایوب خان کے پائوں تلے سے اقتدار کھسکنا شروع ہوا توشیخ مجیب الرحمان قفس سے مذاکرات کے میز پرپہنچ گئے ۔ستر کی الیکشن مہم میں، جس قدر تناتنی کی سیاسی فضا رہی، اس کی نظیر بعد میں ہونے والے انتخابات میں نہیں ملی۔یہ وہ زمانہ تھا، جب نظریاتی سیاست اپنا وجود رکھتی تھی۔ جماعت اسلامی اگرپیپلز پارٹی کے اسلامی سوشلزم کے نعرے کو خلاف اسلام ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی تو پیپلز پارٹی ، اسے سرمایہ داروں کا ایجنٹ قرار دے رہی تھی۔ ان انتخابات میںمشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان نے اپنے چھ نکات کی بنیاد پرالیکشن میں کلین سویپ کیا۔غدار اور ہندوستانی ایجنٹ اب بنگلہ بندھو بن چکا تھا۔اور اگرالیکشن مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا تو وہ یقینا وزیراعظم بن جاتے۔باقی جو ہوا وہ سب تاریخ ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں سیاسی حریفوں کو غدارقرار دینے کی بے سود مشق صرف فوجی حکمرانوں کے دور میں جاری نہیں رہی بلکہ اس معاملے میں جمہوری حکمران بھی پیچھے نہیں رہے۔ 20دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے حکمران بنے توامید تھی کہ ان کا تعلق چونکہ خود چھوٹے صوبے سے ہے، اس لیے شاید صورت حال میں تبدیلی آئے لیکن افسوس !ایسا نہ ہوسکا۔عطاء اللہ مینگل کے بقول''جب بھٹو صاحب آئے تو ہم سمجھے کہ اب صحیح حکومت آئی ہے، بھٹوصاحب چونکہ خود چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے وہ ہمارے مسائل کو سمجھیں گے یہ ہم نہیں جانتے تھے کہ صرف چھوٹے صوبے سے آنا کافی نہیں، اس کے لیے کچھ اور چیزوں کی بھی ضرورت تھی۔''ذوالفقار علی بھٹونے اپنے دور حکومت میں بلوچستان کی منتخب صوبائی حکومت برطرف کرکے گورنر راج لگایا۔ صوبے میںفوجی آپریشن ہوا۔بلوچستان میں غیرجمہوری اقدام ہوا تو نیپ نے احتجاجاًسرحدحکومت بھی چھوڑ دی۔

بھٹو نے نیپ(نیشنل عوامی پارٹی) پرپابندی لگائی۔اس کے رہنمائوں پر سازش کا الزام لگا۔وہ غدار قرار پائے۔حیدرآباد ٹربیونل کے سامنے انھیں پیشیاں بھگتنا پڑیں ۔سیاسی مبصرین کے خیال میں بھٹو دور میں منتخب صوبائی حکومت کو ہٹانے سے بھٹو حکومت کمزور ہوئی اور بھٹو کے زوال کا بنیادی سبب بھی یہی اقدام بنا۔اسے حالات کی ستم ظریفی جانیے کہ بھٹو دور میں حیدرآباد سازش کیس میں جو بلوچ اور پشتون رہنما ماخوذ ہوئے، ان کی ضیاء دور میں اس مقدمے سے جان چھوٹی ، کیوں کہ اس زمانے میں ڈکٹیٹر صاحب کو سندھ سے غداروں کی تلاش تھی۔ ضیاء الحق نے اپنا بگڑا امیج بہتر بنانا چاہا اور حیدرآباد جاکر جیل میں بلوچ اور پشتون رہنمائوں سے ملے اور ان پر قائم سازش کا مقدمہ بھی واپس لیا۔عطاء اللہ مینگل کو علاج کے لیے باہر بھی بھجوایا۔ضیاء الحق کا سارا زور پیپلز پارٹی ختم کرنے پر تھا،اور انھوں نے سنجیدگی سے اس پارٹی پر پابندی لگانے سے متعلق سوچابھی ۔ضیاء دور میںایم آر ڈی کی تحریک کا زور توڑنے کے لیے مختلف سیاسی رہنمائوں پر الزامات عائد ہوتے رہے۔




قائد اعظم کو مسلمانوں کی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کرنے والے رسول بخش پلیجو جیل میں صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ انھیں ضیاء دور میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے Prisoner of Conscience قرار دیا۔ دوسری طرف ایم آرڈی کی دشمنی میں ضیاء الحق کوجی ایم سید کی جئے سندھ تحریک کو سپورٹ کرنا گوارا رہا۔بھٹودور میں پیپلزپارٹی پر ملک توڑنے کا الزام لگایا گیا، جس کی بازگشت اب بھی سننے کو مل جاتی ہے،درحقیقت اس الزام کا مقصد سانحہ میں ملوث اصل ذمہ داروں سے توجہ ہٹانا تھا، مثلاً یہ بات زور دے کر کی جاتی رہی کہ فوجی آپریشن شروع ہونے پر بھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا، یہ بات انھوں نے ضرور کی۔ اور بالکل غلط کی تھی، لیکن آپریشن کا حکم تو یحییٰ خان نے دیا تھا، اور حیرانی اس پر ہے کہ بھٹو پریہ الزام ان لوگوں کی طرف سے آیا ،جو اس آپریشن میں عملی طور پر شریک تھے، دوسرے بھٹو پر مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کا الزام لگتا ہے، اور درست لگتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ان پر الزام لگاتے ہیں، کیا انھوں نے مینڈیٹ تسلیم کرلیا تھا؟

ایک ٹی وی مذاکرے میں صحافت کے ناموراستاد ڈاکٹر مہدی حسن کے سامنے جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے جب یہ کہا کہ پاکستان اس لیے ٹوٹا کہ مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا گیا تھا تو اس پر ڈاکٹر صاحب سے رہا نہ گیا اور انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو تو کم سے کم یہ بات نہیں کرنی چاہیے ، کہ آپ نے تو اس ضمنی الیکشن میں حصہ لیا تھا، جو یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے امیدواروں کو نااہل قراد دے کر کرائے تھے،اور میاں طفیل نے مجیب کو اقتدار نہ سونپنے کی بات کی تھی، اس بات کا جماعت کے رہنما خاطرخواہ جواب نہ دے سکے۔ ضیاء دورکے خاتمے پر جو نئی صف بندی ہوئی، اس کے تحت اسٹیبلشمنٹ نے ایک انتخابی اتحاد بنوایا ، جس کا مقصد پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ میں نقب لگانا تھا کیوں کہ بینظیر نے اس وقت تک حب الوطنی کا ٹیسٹ پاس نہیں کیا تھا۔ فراڈ الیکشن کے باوجود پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بن گئی تو اسے طوعاً کرہاً اقتدار دیتے ہی بنی، بقول شخصے، پیپلز پارٹی کو حکومت تو ملی ، اقتدارنہیں دیا گیا۔

یہ حکومت اس قدر بے اختیار تھی کہ اسے صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیرخارجہ کے طور پر قبول کرنا پڑا، خزانہ امورکی نگرانی وی اے جعفری کو سونپی گئی،ایک روایت کے مطابق ، وزیراعظم بینظیر ان کے چہرے سے بھی شناسا نہیں تھیں۔ اس سیر پر سواسیر غلام اسحاق خان پوری طاقت سے ایوان صدر میں براجمان۔اس دورمیں بینظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا۔ وزیرداخلہ اعتزازاحسن پر سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دینے کا الزام لگا کر حکومت کو خاصا بدنام کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی بینظیر کے بارے میںجو سوچ تھی وہ سو تھی، لیکن اس دور میں پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے حریف کے طور پر ابھرکر آنے والے نواز شریف بھی بینظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیتے ، اوراس معاملے میں دائیں بازو سے متعلق صحافتی برادری کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ بینظیر دور میں ایم کیو ایم پر جناح پور بنانے کی سازش کا الزام لگا۔ نقشے برآمد کئے گئے۔ اس جماعت کے خلاف آپریشن ہوا ۔

الطاف حسین کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیا گیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار مرزا نے الطاف حسین پر ملک توڑنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا تو اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔اے این پی پر بھی غداری کے الزام لگتے رہے،اس جماعت کے بانی ولی خان نے اس الزام پر جیل بھی کاٹی، لیکن 2008ء کے الیکشن کے بعد ان کے بیٹے اسفند یار ولی کا نام صدر پاکستان کے لیے زیرغور رہنا، بدلتے پاکستان کی خبر دیتا ہے ۔ نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں موجودہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کو بھارت میں متنازع تقریرکرنے پر ایجنسیوں نے گرفتار کیا اور بقول پرویز مشرف سویلین ہونے کے باوجود وزیراعظم، نجم سٹھی کا کورٹ مارشل کرانے پربضد تھے۔ خیر،نواز شریف اور نجم سیٹھی کے بعدازاں تعلقات استوار ہوگئے اور ان کے موجودہ منصب پرتقرری میں نواز شریف کی رضامندی کو بھی دخل تھا۔

نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میںبھارت سے تعلقات بہتر بنانے چاہے اور اس سلسلے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان آئے تو بعض حلقوں نے وزیراعظم پر الزام عائد کیا کہ وہ ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کراپنے کاروباری مفادات کی غرض سے بھارت سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔نواز شریف کے خلاف مہم میں جماعت اسلامی سب سے آگے تھی۔نوازشریف کے بقول، جماعت اسلامی کے ان مظاہروں کے پیچھے، ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ نوازشریف کے خلاف الزام میں کوئی صداقت نہیں تھی، اس لیے یہ بھی سیاستدانوں پر لگنے والے دوسرے بہت سے ایسے الزامات کی طرح اپنی موت آپ مرگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی جماعتوں میں میچورٹی آئی اور انھوں نے حریفوں کو غدار اور ایجنٹ وغیرہ کے القابات سے نوازنا چھوڑدیا۔ گذشتہ انتخابات میںاس آلودگی سے سیاست کافی حد تک بچی رہی ،لیکن بینظیر کی شہادت سے قبل کے دنوں میں جاری انتخابی مہم میں چودھری پرویز الٰہی پیپلز پارٹی کو ملک توڑنے والی جماعت اور بینظیر کوملک اور دین دشمن قرار دیتے رہے، کیسی ستم ظریفی ہے کہ انھیں آگے چل کرپیپلز پارٹی حکومت میں نائب وزیراعظم اور 2013ء کے انتخابات میں سیاسی حلیف بننا تھا۔

موجودہ سیاسی فضا میںگرما گرمی تو بہت ہے، اور مختلف سیاسی جماعتیں حریف جماعتوں کے خوب لتے لے رہی ہیں لیکن کسی رہنما کو ایجنٹ قرار دینا کا فریضہ نمایاں جماعتوں میں سے جے یو آئی(ف)نے ادا کیا ہے، جن کی نظر میں عمران خان یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔اس رویے کو ہرگز صحتمندانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ، لیکن ان کی حب الوطنی کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو کسی ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے۔

غلط فیصلے ڈکٹیٹر بھی کرتے ہیں، اور سیاست دان بھی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ فوجی حکمران غلطی کرنے کے بعد اسے تسلیم نہیں کرتے، تازہ مثال جنرل مشرف ہیں، اکبربگٹی کا قتل ہو، لال مسجد کا واقعہ ہو یا ججوں کی گرفتاری،وہ تمام معلامات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں، دوسری طرف آصف علی زرداری بلوچوں سے ماضی میں ہونے والی زیادتی پر معافی مانگتے ہیں، نواز شریف بلوچستان میں اختر مینگل کی صوبائی حکومت ختم کرنے پرپچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں، اور عمران خان ریفرنڈم میں مشرف کی حمایت پر معافی کے طلبگار ہو کر آئندہ کسی آمر کی حمایت سے توبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اگرکسی سیاسی جماعت پر غداری کا الزام لگا تو یہ بھی دیکھا گیا کہ آگے چل کر اس سیاسی جماعت کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بھی ہوگئے۔

اس ضمن میںپیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کا نام لیا جا سکتاہے، جن کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی رہی لیکن حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان جماعتوں نے جس طریقے سے فوج کا ساتھ دیا ہے، کوئی دوسری سیاسی جماعت اس معاملے میںان کی ہمسرنہیں۔ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے، وہ جس حریف کو غدار اور ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے، بعد میں وہ اس کے ساتھ اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں، میثاق جمہوریت کے سلسلے میں ایسا ہی تو ہوا اور مسلم لیگ ق کا پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بننا تو ابھی کل کی بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں ایشوز کی بنیاد پرسیاست میںحصہ لیں اور کسی کو ایجنٹ اور غدار کہنے کی روش ترک کردیں، اسی میں پاکستان کا بھلا ہے۔
Load Next Story