سیاسی پارٹیوں کے بدلتے رجحانات
پینے کا پانی، بچوں اور عورتوں کے حقوق اور دیگر اہم ایشوز اب پارٹیوں کی ترجیحات نہیں رہے.
کہتے ہیں کہ وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے کیونکہ آنے والے وقت اور زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ خود کو بدلا جائے ورنہ وقت کا ساتھ نہ دینے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ، یوں سیاست بھی وقت کی نائو کے ساتھ ساتھ بہتی ہے اور اس میں مدوجذر آتے رہتے ہیں، وقت کا دھارا اس کا بھی رخ بدلتا رہتا ہے۔
اگر سیاست کو زیر مشاہدہ لایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست کے بھی اپنے ہی رنگ ڈھنگ ہیں ،ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی سیاست میں بہت زیادہ فرق ہے، ترقی یافتہ ممالک اسے ملک وقوم کی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں نعرہ تو ملک و قوم کی ترقی کا لگایا جاتا ہے مگرسیاست کو استعمال حکمرانی اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور پھر سیاست کے ذریعے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد خود کو عوام کا نمائندہ ظاہر کرنے والوں کا رویہ بھی واقعی حکمرانوں جیسا ہی ہوتا ہے ۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں جو طرز سیاست پروان چڑھا ہے اس پر تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا محاورہ پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔ ہمارے سیاستدان عوام کو کہتے کچھ ہیں اور بند کمروں میں کچھ اور ہی طے کئے بیٹھے ہوتے ہیں ، بدقسمتی سے اسی منافقت کو سیاست کا نام دیا گیا ہے بلکہ جو زیادہ شاطرانہ انداز میں چالیں چلتا ہے اسے سیاست کی بساط کا اتنا ہی بڑا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سیاست تو عوام کی خدمت کا نام ہے ، خود کو عوام کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا نام ہے، سیاستدان تو عوام کا چہرہ ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان ایک چہرے کے پیچھے کئی چہرے چھپائے ہوئے ہوتے ہیں اور گاہے بگاہے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی سیاست کا رنگ ڈھنگ بھی کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ پارٹیوں کا وجود انھی سیاستدانوں سے ہے، جب بنیادی اکائی ہی میں بہت سی خامیاں ہو ں تو جو ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے وہ بھی اسی طرز پر ہو گا، ہمارے یہاں کی سیاسی پارٹیاں بھی عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی بدلتی رہتی ہیں اور پارٹی منشور کے ذریعے عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاہم پارٹی منشور میں جہاں ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لئے تبدیلیاں کی جاتی ہیں وہیں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ وقت کے بدلتے تقاضے بھی ہیں، جیسے گزشتہ الیکشن سے قبل آٹے کا شدید بحران تھا اور یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے ملک میں قحط پڑنے والا ہے، میڈیا نے اس مسئلے کو اتنا نمایاں کیا کہ عالمی سطح پر بھی پاکستانی حکومت کی بدانتظامی کے بارے میں باتیں کی جانے لگیں ، بد انتظامی اس لئے کیونکہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم کی کمی ہو جانا حکومت کی بد انتظامی ہی تو تھی ، اس مسئلے کو تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے منشور میں اہمیت دی، چونکہ یہ مسئلہ عارضی تھا اسی لئے آسانی سے حل ہوگیا، اب یہ کسی پارٹی کے منشور کا حصہ نہیں ہے۔
موجودہ الیکشن میں جماعتوں کی سیاسی مہم کے رجحانات میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آئی، سیاسی جماعتیں الیکشن مہم کے لئے الیکٹرانک میڈیا کو خاص طور پر استعمال کر رہی ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات کے دوران یہ رجحان بہت کم تھا ، غالباً اس کی وجہ عوام میں چینلز کی مقبولیت کے علاوہ ان کی بھرمار بھی ہے، تاہم تمام ٹی وی چینلز بڑی پارٹیوں کی خود بھی کوریج کر رہے ہیں کیونکہ اہم سیاستدانوں کے بیانات اور خبریں نشر کرنا ان کی نیوز ڈیمانڈ بھی ہے۔ اس مرتبہ اکثر سیا سی پارٹیوں نے الیکشن امیدواروں سے درخواستیں اخبارات میں اشتہار دے کر وصو ل کیں جبکہ اس سے قبل پارٹی ٹکٹ دینے کا کام خاموشی سے کر لیا جاتا تھا، غالباً اس نئی روایت کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عام لوگ بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح پارٹی الیکشن کی روایت بھی کسی حد تک مضبوط ہوئی ہے۔ گو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے بلامقابلہ پارٹی الیکشن کرائے ہیں مگر اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ آئندہ کے لئے راہ ہموار ہوئی ہے۔
سب سے اہم تبدیلی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نوجوانوں کے ووٹ کے حصول کے لئے مختلف نعرے لگانا اور انھیں ملک میں انقلاب اور تبدیلی کا مرکز و محور قراردینا ہے ، گزشتہ الیکشن میں بھی نوجوانوں کی بات ضرور کی گئی تھی مگر انھیں ہی اصل طاقت قرار نہیں دیا گیا تھا ،اب اس کی وجہ غالباً پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نوجوانوں کو آگے آنے کی دعوت دینا ہے،اسی طرح مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے منشوروں میں مختلف اعلانات کئے ہیں۔
موجودہ الیکشن میں ایک اہم تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ اتحادی سیاست کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے، ہر پارٹی اپنے طور پر الیکشن کے میدان میں اتری ہے، تاہم بعض پارٹیوں جیسے پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ میں محدود پیمانے پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور ہوئی ہے، حتیٰ کہ مذہبی سیاسی پا رٹیاں بھی اس مرتبہ اکیلے ہی میدان میں اتری ہیں، بعض چھوٹی سیاسی مذہبی پارٹیوں نے اگر الائنس بنایا ہے تو اس کا سیاست پر کوئی خاص اثر نظر نہیں آ رہا۔
پینے کا صاف پانی، خاندانی منصوبہ بندی اور مردم شماری ہمارے ملک کے ایسے مسائل ہیں جنھیں تمام پارٹیوں نے نظر انداز کر دیا ہے، پینے کا صاف پانی ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ ہے جو ملک میں مختلف امراض کے پھیلائوکی اصل وجہ ہے، گزشتہ انتخابات میں اس حوالے سے وعدے ضرور کئے جاتے تھے مگر اب کی بار تمام پارٹیوں نے اس مسئلے کا ذکر تک نہیں کیا، بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ملک کے بہت سے مسائل کی اصل وجہ ہے، اسی طرح ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا ضروری ہے، یہ دونوں اقدامات ملک کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے بہت ضروری ہیں مگر ان دونوں اہم مسئلوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اس مرتبہ سیاسی مہم کا ایک بڑا ایشو نئے صوبوں کی تشکیل ہے، ہر پارٹی نعرہ لگا رہی ہے کہ وہ برسراقتدار آ کرملک میں نئے صوبے بنائے گی ، کوئی پارٹی زبان کی بنیاد پر صوبے بنانا چاہتی ہے تو کوئی انتظامی بنیادوں پر ایسا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام بڑی پارٹیاں اس مسئلے کو خوب اچھال رہی ہیں ۔ اسی طرح قومی اداروں کی تشکیل نو کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے اور عوام سے سٹیل ملز ، ریلوے ،واپڈا اور دیگر قومی ادارواں کی بحالی کے وعدے کئے جار ہے ہیں اور جماعتیں سیاسی مہم میں اس نعرے کو خوب برت رہی ہیں۔
گزشتہ چارسال سے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے جس کی وجہ صرف اور صرف سیاسی تھی ، ہر جماعت اپنا من پسندبلدیاتی نظام نافذ کرنا چاہتی تھی یوں چار سال تک الیکشن ہو ہی نہ سکے۔ اب پھر عوام سے بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بھی صرف تین مہینے میں ، حالانکہ جو وعدہ چار سال تک وفا نہ ہو سکا وہ اب اتنی جلدی بھلا کیسے پورا ہو گا۔
دہشت گردی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ یہ دو ایسے مسئلے ہیں جو اس دور میں ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ان دونوں اہم مسئلوں نے باقی تمام مسائل پر فوقیت حاصل کر لی ہے ۔ وطن عزیر جس طرح سے توانائی کے بحران کا شکار ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر پارٹی نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا اعلان کیا ہے، کوئی چند ماہ میں توانائی کا بحران ختم کرنے کا وعدہ کر رہا ہے تو کوئی چند سال میں۔ گزشتہ انتخابات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اتنا شدید نہیں تھا تاہم سابق حکومت نے اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر وہ اس وعدے کو پورا نہ کرسکی اور پانچ سال پورے کر کے ایوان اقتدار سے رخصت ہو گئی اوراب پھر مستقبل میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کر رہی ہے حتٰی کہ دوسری پارٹیوں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کا کریڈٹ بھی خود لینے کی کو شش کر رہی ہے، اس مسئلے کی پیچیدگی اور شدت کی وجہ سے عوام کا یہ سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر فوکس کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہر جماعت اسے اپنے طریقے سے حل کرنے کی بات کر رہی ہے۔
سیاسی مہم میں رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں اورسیاسی نعرے بھی، چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہوتے ہیں مگر اتنا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ملک وقوم کا فائدہ کس میں ہے اور وعدے ایفا کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تا کہ سیاسی پارٹیوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
اگر سیاست کو زیر مشاہدہ لایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاست کے بھی اپنے ہی رنگ ڈھنگ ہیں ،ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی سیاست میں بہت زیادہ فرق ہے، ترقی یافتہ ممالک اسے ملک وقوم کی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں نعرہ تو ملک و قوم کی ترقی کا لگایا جاتا ہے مگرسیاست کو استعمال حکمرانی اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور پھر سیاست کے ذریعے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد خود کو عوام کا نمائندہ ظاہر کرنے والوں کا رویہ بھی واقعی حکمرانوں جیسا ہی ہوتا ہے ۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں جو طرز سیاست پروان چڑھا ہے اس پر تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا محاورہ پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔ ہمارے سیاستدان عوام کو کہتے کچھ ہیں اور بند کمروں میں کچھ اور ہی طے کئے بیٹھے ہوتے ہیں ، بدقسمتی سے اسی منافقت کو سیاست کا نام دیا گیا ہے بلکہ جو زیادہ شاطرانہ انداز میں چالیں چلتا ہے اسے سیاست کی بساط کا اتنا ہی بڑا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سیاست تو عوام کی خدمت کا نام ہے ، خود کو عوام کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا نام ہے، سیاستدان تو عوام کا چہرہ ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان ایک چہرے کے پیچھے کئی چہرے چھپائے ہوئے ہوتے ہیں اور گاہے بگاہے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی سیاست کا رنگ ڈھنگ بھی کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ پارٹیوں کا وجود انھی سیاستدانوں سے ہے، جب بنیادی اکائی ہی میں بہت سی خامیاں ہو ں تو جو ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے وہ بھی اسی طرز پر ہو گا، ہمارے یہاں کی سیاسی پارٹیاں بھی عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی بدلتی رہتی ہیں اور پارٹی منشور کے ذریعے عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاہم پارٹی منشور میں جہاں ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لئے تبدیلیاں کی جاتی ہیں وہیں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ وقت کے بدلتے تقاضے بھی ہیں، جیسے گزشتہ الیکشن سے قبل آٹے کا شدید بحران تھا اور یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے ملک میں قحط پڑنے والا ہے، میڈیا نے اس مسئلے کو اتنا نمایاں کیا کہ عالمی سطح پر بھی پاکستانی حکومت کی بدانتظامی کے بارے میں باتیں کی جانے لگیں ، بد انتظامی اس لئے کیونکہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم کی کمی ہو جانا حکومت کی بد انتظامی ہی تو تھی ، اس مسئلے کو تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے منشور میں اہمیت دی، چونکہ یہ مسئلہ عارضی تھا اسی لئے آسانی سے حل ہوگیا، اب یہ کسی پارٹی کے منشور کا حصہ نہیں ہے۔
موجودہ الیکشن میں جماعتوں کی سیاسی مہم کے رجحانات میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آئی، سیاسی جماعتیں الیکشن مہم کے لئے الیکٹرانک میڈیا کو خاص طور پر استعمال کر رہی ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات کے دوران یہ رجحان بہت کم تھا ، غالباً اس کی وجہ عوام میں چینلز کی مقبولیت کے علاوہ ان کی بھرمار بھی ہے، تاہم تمام ٹی وی چینلز بڑی پارٹیوں کی خود بھی کوریج کر رہے ہیں کیونکہ اہم سیاستدانوں کے بیانات اور خبریں نشر کرنا ان کی نیوز ڈیمانڈ بھی ہے۔ اس مرتبہ اکثر سیا سی پارٹیوں نے الیکشن امیدواروں سے درخواستیں اخبارات میں اشتہار دے کر وصو ل کیں جبکہ اس سے قبل پارٹی ٹکٹ دینے کا کام خاموشی سے کر لیا جاتا تھا، غالباً اس نئی روایت کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عام لوگ بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح پارٹی الیکشن کی روایت بھی کسی حد تک مضبوط ہوئی ہے۔ گو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے بلامقابلہ پارٹی الیکشن کرائے ہیں مگر اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ آئندہ کے لئے راہ ہموار ہوئی ہے۔
سب سے اہم تبدیلی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نوجوانوں کے ووٹ کے حصول کے لئے مختلف نعرے لگانا اور انھیں ملک میں انقلاب اور تبدیلی کا مرکز و محور قراردینا ہے ، گزشتہ الیکشن میں بھی نوجوانوں کی بات ضرور کی گئی تھی مگر انھیں ہی اصل طاقت قرار نہیں دیا گیا تھا ،اب اس کی وجہ غالباً پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نوجوانوں کو آگے آنے کی دعوت دینا ہے،اسی طرح مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے منشوروں میں مختلف اعلانات کئے ہیں۔
موجودہ الیکشن میں ایک اہم تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ اتحادی سیاست کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے، ہر پارٹی اپنے طور پر الیکشن کے میدان میں اتری ہے، تاہم بعض پارٹیوں جیسے پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ میں محدود پیمانے پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور ہوئی ہے، حتیٰ کہ مذہبی سیاسی پا رٹیاں بھی اس مرتبہ اکیلے ہی میدان میں اتری ہیں، بعض چھوٹی سیاسی مذہبی پارٹیوں نے اگر الائنس بنایا ہے تو اس کا سیاست پر کوئی خاص اثر نظر نہیں آ رہا۔
پینے کا صاف پانی، خاندانی منصوبہ بندی اور مردم شماری ہمارے ملک کے ایسے مسائل ہیں جنھیں تمام پارٹیوں نے نظر انداز کر دیا ہے، پینے کا صاف پانی ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ ہے جو ملک میں مختلف امراض کے پھیلائوکی اصل وجہ ہے، گزشتہ انتخابات میں اس حوالے سے وعدے ضرور کئے جاتے تھے مگر اب کی بار تمام پارٹیوں نے اس مسئلے کا ذکر تک نہیں کیا، بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ملک کے بہت سے مسائل کی اصل وجہ ہے، اسی طرح ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا ضروری ہے، یہ دونوں اقدامات ملک کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے بہت ضروری ہیں مگر ان دونوں اہم مسئلوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اس مرتبہ سیاسی مہم کا ایک بڑا ایشو نئے صوبوں کی تشکیل ہے، ہر پارٹی نعرہ لگا رہی ہے کہ وہ برسراقتدار آ کرملک میں نئے صوبے بنائے گی ، کوئی پارٹی زبان کی بنیاد پر صوبے بنانا چاہتی ہے تو کوئی انتظامی بنیادوں پر ایسا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام بڑی پارٹیاں اس مسئلے کو خوب اچھال رہی ہیں ۔ اسی طرح قومی اداروں کی تشکیل نو کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے اور عوام سے سٹیل ملز ، ریلوے ،واپڈا اور دیگر قومی ادارواں کی بحالی کے وعدے کئے جار ہے ہیں اور جماعتیں سیاسی مہم میں اس نعرے کو خوب برت رہی ہیں۔
گزشتہ چارسال سے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے جس کی وجہ صرف اور صرف سیاسی تھی ، ہر جماعت اپنا من پسندبلدیاتی نظام نافذ کرنا چاہتی تھی یوں چار سال تک الیکشن ہو ہی نہ سکے۔ اب پھر عوام سے بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بھی صرف تین مہینے میں ، حالانکہ جو وعدہ چار سال تک وفا نہ ہو سکا وہ اب اتنی جلدی بھلا کیسے پورا ہو گا۔
دہشت گردی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ یہ دو ایسے مسئلے ہیں جو اس دور میں ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ان دونوں اہم مسئلوں نے باقی تمام مسائل پر فوقیت حاصل کر لی ہے ۔ وطن عزیر جس طرح سے توانائی کے بحران کا شکار ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر پارٹی نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا اعلان کیا ہے، کوئی چند ماہ میں توانائی کا بحران ختم کرنے کا وعدہ کر رہا ہے تو کوئی چند سال میں۔ گزشتہ انتخابات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اتنا شدید نہیں تھا تاہم سابق حکومت نے اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر وہ اس وعدے کو پورا نہ کرسکی اور پانچ سال پورے کر کے ایوان اقتدار سے رخصت ہو گئی اوراب پھر مستقبل میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کر رہی ہے حتٰی کہ دوسری پارٹیوں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کا کریڈٹ بھی خود لینے کی کو شش کر رہی ہے، اس مسئلے کی پیچیدگی اور شدت کی وجہ سے عوام کا یہ سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر فوکس کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہر جماعت اسے اپنے طریقے سے حل کرنے کی بات کر رہی ہے۔
سیاسی مہم میں رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں اورسیاسی نعرے بھی، چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہوتے ہیں مگر اتنا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ملک وقوم کا فائدہ کس میں ہے اور وعدے ایفا کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تا کہ سیاسی پارٹیوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔