کوہ قاف کے جن

ہم خلائی مخلوق کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہم خلائی مخلوق سے تعلقات بہتر بنائیں گے،ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کر لیں گے

ہم خلائی مخلوق کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ہم خلائی مخلوق سے تعلقات بہتر بنائیں گے، ان کی ہر بات پر سرتسلیم خم کرلیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کمرے میں بلا کی خاموشی کا راج تھا، سب لوگ سر جھکائے بیٹھے کسی انجانی آواز کا انتظار کر رہے تھے، قالین پر پھولوں کی تہہ بچھائی گئی تھی، سامنے گل دان میں لوبان جلنے سے کمرہ مہک رہاتھا، دو گھریلو خادمائیں دیوار پر عرق گلاب کے چھڑکاؤ میں مصروف تھیں۔ روشنی کا واحد ذریعہ شیشے کے مرتبان میں ایک بڑی شمع تھی جس کی لو سے دیواروں پر لمبے سائے لہرا رہے تھے۔

آج ضرور کچھ عجیب ہونے جا رہا ہے، تابندہ کی آنکھیں بار بار سامنے شیشے کی دیوار کے پار دیکھ رہی تھیں۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لیے تیزی سے کچھ پڑھنے میں مصروف تھی۔ آج کا دن نہایت اہم تھا، کمرے کے دروازے پہ کھڑا خادم '' کاکا'' بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تابندہ کے سامنے دھری پرات میں پانی کے درمیان کچھ گیندے کے پھول تیر رہے تھے۔ تابندہ پھولوں پر کچھ پھینکتی تو کمرے میں ہر طرف تیز روشنی ہو جاتی۔

اچانک ملازم نے نہایت ادب سے تابندہ کو مخاطب کیا اور بولا: بیگم صاحبہ! کالے ہرن، کالے تیتر اور پہاڑی خرگوش کا گوشت آچکا ہے۔

تابندہ نے ہاتھ کے اشارے سے کاکا کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ ملازم کی پھر آواز آئی کہ بیگم صاحبہ سائیں بابا بھی آگئے ہیں۔ فوراََ بھیجو، حکم ملا۔ سائیں بابا کے داخل ہوتے ہی سب کھڑے ہو گئے۔ سائیں بابا نے نعرہ مستانہ بلند کیا ''ہا دل دھڑکا قاتل کا دل دھڑکا''، تابندہ فوراََ اُٹھ کر سائیں بابا کے سامنے جھک گئی، سائیں بابا نے سر پر ہاتھ رکھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے ہونگے کہ ملازم نے پھر مداخلت کی: بیگم صاحبہ آسمان سے بادل کا ایک ٹکڑا تیزی سے زمین کی طرف آ رہا ہے۔ ایک ہی لمحے میں دھمال تھم گیا، تابندہ کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اس کے اور شہرام کے راستے کی تمام بلائیں فنا ہوجائیں گی۔اب کسی بھی ''جنتر منتر''کتاب کی اشاعت سے اس کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔

پاگل وہ بادل نہیں، اڑنے والا قالین ہے، کوہ قاف سے ہامون جن اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ چکا ہے۔ تابندہ نے خونخوار نظروں سے کاکا کی طرف دیکھا۔ خادم تیزی سے گوشت کے تھال سجانے لگے، اُڑنے والا قالین گھر کے عین اوپر آچکا تو شہرام نے تابندہ سے پوچھا کیا یہ منظر اور لوگ بھی دیکھ رہے ہونگے؟ نہیں، یہ صرف ہمیں نظر آ رہا ہے۔ تابندہ نے شہرام کے چہرے پر تاثرات کا بغور جائزہ لیا۔ آپ بیٹھ جائیں، آپ کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ ہامون جن کوہ قاف کے شہنشاہ جنات کا بیٹا ہے اور کوہ قاف کا ولی عہد بھی ہے، صرف میرے کہنے پر اپنے ساتھی جنوں کو لے کر کوئی ایک ہزار سال بعد زمین پر واپس آیا ہے۔ تابندہ کی جذبات سے عاری آواز گویا کسی گھاٹی سے آتی محسوس ہو ئی۔ اور یہ صرف آپ کی مدد کرنے آئیں ہیں۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں ناں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے، اب ان کو جواب ہم نہیں بلکہ یہ دیں گے۔ تابندہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ پھیل گئی؛ وہ کچھ بہت ہی خاص کرنے جا رہی تھی۔

شہرام اپنی اہلیہ کو عقیدت بھری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں، شہرام نے دل ہی دل میں سوچا۔ اس کی مرشد اس کی اہلیہ، وہ کتنا خوش قسمت ہے۔ اتنے میں بالکونی کے سامنے اُڑنے والا قالین آکر ٹھہر گیا۔ شہرام نے تابندہ کے کان میں سرگوشی کی: کیا وہ اندر آگئے ہیں؟ اور کیا میں ان کو دیکھ سکوں گا؟ شاید نہیں۔ تابندہ نے جواب دیا۔ چپ، تابندہ نے سرگوشی کی۔ شہرام دیوار کے ساتھ صوفے پر ڈھیر ہو گیا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، وہ تو بس دیکھ رہا تھا کہ سفید سرائے تک جانے کا بس یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ خلائی مخلوق کے بعد کوہ قاف کے جن بھی اسی کی مدد کو آ چکے۔ کونے میں جلتا آتش دان اچانک بجھ گیا، گویا یہ اعلان تھا کہ ہاموں جن کمرے میں آ چکا ہے۔ تشریف رکھیں، تابندہ نے سامنے دیکھ کر کہا، مگر شہرام کو سامنے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ شہرام سمجھ گیا کوہ قاف والوں کو دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ میں ہزاروں سال بعد زمین پر آیا ہوں، یہ تو بہت بدل گئی ہے۔ یہاں پہلے لوگ بڑے بڑے ہوتے تھے مگر ان کے مکان کچے پکے، مٹی سے بنے ہوتے تھے۔

اب زمین پر لوگوں کے قد چھوٹے ہو گئے ہیں لیکن ان کے مکان بہت بڑے اور اونچے ہو گئے ہیں۔ ایک کونے سے ایک گرج دار آواز آئی۔ جی ایسا ہی ہے تابندہ نے جواب دیا۔ میں نے اس جگہ اترتے ہوئے دیکھا کہ بڑے مکانوں کے اطراف کچی بستیاں ہیں جہاں صرف غربت اور مفلسی ہے۔ غریبوں کے مقابلے میں ہمیں امراء کی تعداد کم نظر آئی، مگر غریب اور امیر میں زمین اور آسمان جتنا فرق ہے۔ غریب رعایا سے بھری بستیاں اور ان کی مشکلات دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے ان کے حکمران اپنی زندگی میں مست اور رعایا کے حالات سے غافل ہیں۔ گزرے زمانے کے حاکم اور وزیر ہمدرد، قناعت پسند اور مہربان ہوا کرتے تھے، آج یوں لگ رہا ہے کہ عام انسان کا دربار میں داخلہ بند ہے اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔


جی ایسا ہی ہے، تابندہ نے جواب دیا۔

ہامون ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ بتاو کیا چاہتے ہو؟ بولو کیا مانگتے ہو؟ ہامون کی بھاری بھرکم آواز سنائی دی۔ آپ کی امی کا کیا حال ہے؟ تابندہ نے ہامون کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ تو بارہ سو سال پہلے وفات پا گئیں تھیں۔ اوہ، بہت دکھ ہوا۔ تابندہ نے افسردگی سے جواب دیا۔ ہمیں صرف پانچ سال کے لیے آپ کی مدد چاہیے۔ کس قسم کی مدد؟ ہامون نے پوچھا۔ ہمیں خلائی مخلوق کے حملوں سے آپ نے بچانا ہے۔ خلائی مخلوق؟ کمرے کے کونے سے ہامون کی پریشان کن آواز ابھری، ہامون کی آواز میں پریشانی دیکھ کر شہرام کے چہرے کا رنگ بھی فق ہو گیا۔ ہم خلائی مخلوق کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ایک اور آواز سنائی دی، یہ کون ہیں؟ سائیں بابا نے پوچھا۔ یہ کوہ قاف کی فوج کے سربراہ فلقموس نانا ہیں۔ ہاں ہمارے پاس ایک تجویز ہے، ہامون کی آواز سنائی دی۔ وہ کیا؟ شہرام نے سوال کرنے کی جرات کر ہی لی۔

آپ ان کی ہر بات مانتے جائیں، باقی خلائی مخلوق کو منت ترلوں سے روکنے کا طریقہ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس لیے میں اپنے ساتھ منتوں اور ترلوں کی ماہر کرنانی چڑیل کو بھی ساتھ لایا ہوں؛ ہامون کی تجویز تو اچھی ہے۔

ہم خلائی مخلوق سے تعلقات بہتر بنائیں گے، ان کی ہر سیدھی بات پر بھی سر تسلیم کر لیں گے۔ شہرام نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔ اب شہرام اور تابندہ کے چہرے پر کچھ اطمینان نظر آنے لگا۔ اب آپ نے میری ایک اور بات بھی ماننی ہے، ہمارے سارے عہدے آپ کے پاس ہونگے اور کام بھی آپ نے کرنا ہے، تابندہ نے پھر ہامون کو مخاطب کیا۔ ہاہاہاہا زیبی ناز، زیبی ناز کمرے میں چاروں طرف خوفناک قہقہوں کی آواٰزیں آنے لگیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟ شہرام نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔ کچھ نہیں، ہامون جن کی آواز آئی، یہ کوہ قا ف میں امور خارجہ کے ماہر شہنشہاہ جنات کے بردارنسبتی پھوپھارپھڑی کی آواز ہے، یہ وزات خارجہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ اور پھر آپ لوگوں کو ریاست ہائے متحدہ جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ وہ سفید بالوں والے گھٹنے ٹیک کر آپ کے دروازے پر آئیں گئے۔

میرے علم میں آیا ہے کہ یہاں پانی اور بجلی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، ہم جلد ہی کوہ قاف سے پورے کے پورے ڈیم اُٹھا لائیں گئے اور یہاں نصب کردیں گے۔ یار آپ کوہ ہمالیہ کو سرکا کر تھوڑا ہماری طرف کر دیں، شہرام نے تجویز پیش کی۔ ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے، ہم سب کچھ بدل دیں گے، سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ ہامون نے پراسرار لہجے میں کہا۔

اب مجھے سفید سرائے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا، میں اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔ شہرام کو پتا چل چکا تھا کہ اگر سفید سرائے جانے کا کوئی راستہ بنا سکتا ہے تو وہ صرف تابندہ اور ان دیکھی مخلوق کی مدد ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story