اونٹ جو کبھی لومڑی تھا
ظاہر ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہ ہو وہ اونٹ ہی ہو سکتی۔
معلوم نہیں کیا ہوگیا تھا،کچھ '' ایسی بات '' بھی تو اڑی نہیں تھی ہمارے گاؤں میں ، کہ قہر خداوندی عرف سوائن فلو یعنی چشم گل چشم کہیں یہاں وہا ں پھر رہا تھا،کیکروں کی چھاؤں میں ہماے دل میں نا گفتنی اور بے وضو قسم کی بہت ساری خرافات جمع ہو گئی تھیں جنھیں ہم اس کے کانوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں کیونکہ سارے گاؤں میں تو یہی ایک مقام تھا کوڑا ڈالنے کے لیے لیکن وہ غائب اپنے سینگوں کی طرح، سن گن یہاں وہاں سے پتہ کیا لیکن کوئی وئیراباؤٹ اس کا معلوم نہیں ہوا، کہیں گاؤں سے باہر بھی نہیں گیا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو گاؤں کی ہوا بہت فرحت بخش ہوتی لیکن ہوا بدستور گندی اور بدبو دار تھی کیونکہ وہ مرکز بدبو '' نافہ'' گاؤں ہی میں موجود تھا،گھر سے پتہ کیا تو اس کی گونگی بہری بقول علامہ بریانی نعمت عظمیٰ بیوی نے منہ کے سوا سارے جسم کے ذریعے بتایا تو بہت کچھ لیکن ہمارے پلے صرف اتنا پڑا کہ گھر میں نہیں ہے ۔
عام طور پر وہ اس طرح انڈرگراؤنڈ تب ہوجاتا ہے جب کسی خطرے کی بوسونگھ لیتا ہے لیکن گاؤں میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی ۔ نہ کسی کا کچھ چوری ہوا تھا نہ ٹوٹا تھا نہ گم ہوا تھا اور نہ پولیس وغیرہ آئی تھی یہاں تک کہ ہوائی فائرنگ بھی نہیں ہوئی تھی جس سے اس کی جان جاتی تھی اور اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ بندوقیں، پستول بڑے کام کی چیزیں ہیں لیکن اگر یہ دھماکا کیے بغیر چلتیں،آخرکار کچھ بچوں کی خدمات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ہے تو گاؤں ہی میں لیکن گھر سے نکلتا نہیں کچھ اور کوشش کرنے پر آخر ہم نے اسے گھر ہی سے برآمد کرلیا، وجہ اس غائب ہونے کی پوچھی تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا ،خطرہ ہے یار خطرہ ۔ اور جب اس نے تفصیل بتائی تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔ اس کے مطابق اس کی ایک ہزار ایک عرفیتوں میں سے ایک عرفیت '' ظریف '' بھی ہے ۔ یوں کہئے کہ جب اس نے خرافات کا آغاز کیا تھا ۔ تو لوگوں نے اسے '' ظریف '' کا خطاب دیا تھا، گویا یہ پرائمری کا زمانہ تھا ۔
ہم نے اس کے لتے لیتے ہوئے کہا مگر وہ تو تم کچی پکی میں تھے او اب خیر سے اس مضمون سے اس مضمون میں پی ایچ ڈی کرچکے ہو بلکہ پورے ضلعے میں ٹاپ بھی کرچکے ہو ۔ بولا ، تمہیں پتہ نہیں کہ میرے دوست کتنے ہیں، اگر کسی نے پرانے کاغذات سے پتہ لگالیا کہ میں ایک زمانے میں ظریف بھی کہلاتا تو ؟ تو کیا ہوجائے گا ؟ ظرافت توکوئی جرم نہیں ہے۔ بولا ، ظرافت تو نہیں لیکن اس کا چچازاد شرافت تو پکا پکا مجرم اور ہسٹری شیٹر ہے، اگر کسی نے سوچ لیا کہ کیا '' شر '' اور کیا '' ظر ' ' '' شر '' نہیں ملتا تو '' ظر '' کو پکڑ لو تو پھر ؟
ہم نے اسے تسلی دی کہ اول تو ایسا ہوگا نہیں شراور ظر یا شرافت میں بہت فرق ہے۔ بولا ، یہ تو تم کہتے ہو نا ۔ وہ لوگ بلکہ ادارے بالکل بھی نہیں سمجھتے جنہوں ایک مرتبہ کسی (SON) کے دھوکے میں (SUN)کو پکڑ لیا تھا اور تھوڑی دیر بعد وہ جب نکلا تو فر فر بول رہا تھا۔ آئی ایم سن آف سن آئی ایم سن آف سن سن سن اور پھر سنناتے ہوئے بھاگ کر آسمان پر پہنچ گیا اور ابھی تک سننا کر آئی ایم سن سن بول رہا ہے ۔
یہ سن آف سن کی کہانی بھی قہر خداوندی کی، ان کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس کی کبھی نہ آنے والی کتاب '' شر البیان '' کا حصہ ہیں اور بقول علامہ بریانی عرف برڈفلو سچ کا ان کہانیوں سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کسی پاکستانی لیڈرکو ہو سکتا ہے ۔ وہ بہت ڈرا سہما اور گھبرایا ہوا تھا، اس لیے ہم نے اسے ڈرپوک بزدل اور نکمے کے تمام مروجہ طعنے دیتے ہوئے اکسا یا لیکن اس کا بھی الٹا اثر ہوا۔ بولا مجھے بزدل، ڈرپوک اور گیدڑ بننا قبول ہے لیکن بعد از مرگ کسی تمغہ بہادری کی بالکل ضرورت نہیں۔ تم نے وہ کہاوت نہیں سنی کہ جان سلامت لے کر بھاگنا بھی آدھی بہادری ہے بلکہ گبر سنگھ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو ڈرگیا وہ بچ گیا ۔ ہم نے کہا تھا گبر سنگھ نے تو کچھ اورکہا تھا، بولا وہ پہلے کہا تھالیکن بعد میں جب ٹھاکر کے جوتوں تلے آگیا تو آخری قول زریں بلکہ ترمیم شدہ قول زریں اس کا یہی ہے جو میں نے بتایا ہے یعنی جو ڈر گیا وہ بچ گیا اور بچ کے اپنے گھر گیا نہ کہ جیل ویسے بھی بزرگوں نے کہا ہے کہ
جب بڑوں میں ہو کھٹ پھٹ
تو اپنی جان بچانے کی فکر کروجھٹ
ہماری تمام ترکوششوں کے باوجود قہر خداوندی کا موقف ذرا بھی نہیں بدلا بلکہ الٹا اس نے ہمیں بھی مشورہ دیا کہ تمہارے بڑوں میں بھی تو اک اشرف نام کا آدمی رہتا ہے اور تمہارے ایک ماموں کا نام لطیف اور دوسرے کا حریف ہے۔ اس لیے ذرا احتیاط سے رہنا اگر پکڑے گئے تو لومڑی ہوتے ہوئے اونٹ ہو جاؤ گے
اس پر ہمیں یاد آیا کہ یہ لومڑی کا قصہ تو ہم نے اسے سنایا تھا اور شاید اسی کہانی پر عمل کرتے ہوئے وہ ڈرا ہوا ہے، اس لیے ہم نے اسے یاد دلایا کہ وہ لومڑی کا قصہ محض لطیفہ تھا ورنہ کہاں لومڑی اورکہاں اونٹ ؟بولا ،جو کہانی تم نے مجھے لومڑی کی سنائی تھی وہ ادھوری تھی۔ پوری کہانی میں نے اسی کتاب شر البیان میں درج کی ہوئی ہے بلکہ کوئی کہانی ادھوری نہیں ہوتی لیکن لوگ اس کے کچھ حصے سناکر کام چلاتے ہیں ورنہ ہر کہانی اگرکوئی چلانے والا ہوتو بہت لمبی چلتی ہے۔ درمیان میں کئی کلائمکس آتے ہیں اورہر کوئی اپنے اپنے مطلب کے کلائمکس پر کہانی ختم کردیتا ہے ورنہ آگے بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔
اب اس بات پر ہماری بحث ہوگئی۔ ہم کہتے تھے کہ کہانی یا لطیفہ کہیں نہ کہیں تو ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کا کہنا تھا کہ کوئی کہانی ختم نہیں ہوتی، اگر کہانی کارچلانا چاہے۔ پھر اس نے ہمیں ایک مثال کے ذریعے سمجھانا شروع کیا۔ بولا ، وہ جو ایک نائی کی کہانی ہے، اس کی مثال لے لو تو ہم نے کہا کونسی تو شروع ہوگیا کہ کسی گاؤں میں کوئی سردار پاس کے گاؤں میں فاتحہ پڑھنے جا رہا تھا۔ نائی جو اس وقت اس کی حجامت بنا رہا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا کیونکہ وہ بھی کچھ سیکھنا چاہتا تھا۔ جاتے ہوئے تانگے میں نائی نے پوچھا ، سردار جی فاتحہ میں کیا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا بس ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے بخشش کی دعا مانگ لیتے ہیں اور مرحوم کے حق میں دوچار جملے بول دیتے ہیں ، چاہے اس میں کوئی بھی صفت نہ ہو لیکن لوگ کوئی نہ کوئی خوبی ڈال دیتے ہیں۔
موقع واردات پر پہنچے تو بیٹھتے ہی نائی اتنا اتاؤلا ہورہا تھا کہ پہلے ہی فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ۔ اب آخر میں مردے کے اندرکوئی خوبی ڈالنا تھی، سو اپنے پیشے کی رعایت سے بولا ، مرحوم کی داڑھی کے بال بہت نرم تھے ۔ اب یہیں پر کہانی کو ختم بھی کیا جا سکتا اور آگے بڑھایا بھی جا سکتا مثلاً کسی نے نائی کو ٹوکا کہ کم بخت مرنے والا مرد نہیں خاتون تھی۔ تب نائی بات بناتے ہوئے بولا ، ہاں مجھے معلوم ہے، مرحومہ خاتون تھی لیکن بہت ہی نیک تھی، اس لیے خدا نے اسے داڑھی بھی عطا فرمائی تھی ۔
اب اس جگہ بھی کہانی ختم کی جاسکتی ہے لیکن چلانی ہو تو ۔ اسے پھر ٹوکا گیا کہ کم بخت عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی ۔ جواب میں نائی اپنی حماقت کا سلسلہ چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں تھا، اس لیے بولا ، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، مرحومہ کے چہرے پر داڑھی نہیں لیکن بزرگ خاتون تھی اس لیے چہرے کے بجائے داڑھی اس کے پیٹ پر تھی ۔ یہاں بھی خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی نہ چاہے تو داڑھی کو کہیں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے اس کی لمبائی اور بالوں کو بھی انکشافات کا ذ ریعہ بنا سکتا ہے۔
مطلب یہ کہ ہرکہانی مکمل بھی نا مکمل ہوتی ہے، اس پر ہم نے لومڑی کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہانی تو اس مقام پر ختم ہو گئی تھی ۔ کہ اگر شاہی کا رندوں مطلب قانون نافذ کرنے والوں نے مجھ پر اونٹ کے بچے کا قانون نافذکردیا تو ؟ اس کے آگے کیا ہو سکتا ہے، قہر خداوندی بولا ، اس کے آگے بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہے، مثلاً لومڑی کی سمجھ میں گیدڑ کی بات آگئی کہ وہ تو لومڑی ہے تو پھرڈر کیسا اورآرام سے جنگل میں پھرنے لگی لیکن قانون نافذ کرنے جواب تھک بھی چکے تھے اور بیزار بھی تھے کہ وہ اونٹ نافذ نہیں کر پائے سو انھوں لومڑی کو دیکھا تو فوراً پکڑ لیا کہ یہ اونٹ ہی بھیس بدلے ہوئے ہے ۔
آگے وہ لے جاکر اس پر قانون نافذ کرنے لگے اور طرح طرح کے ماہرین بلوائے گئے جو '' نافذ '' کرنے میں مہارت رکھتے تھے جن میں ہڈیوں کو توڑنے، موڑنے اور ککوڑنے کے بھی ماہر تھے اور جسم کو باہر سے داغ لگائے بغیر اندر ہی اندر بھنبھوڑ بھی سکتے تھے سو ان ماہرین نے اس پر اپنا اپنا فن نافذکیا تو وہاں نہ لومڑی تھی نہ اونٹ صرف کھال کی گٹھڑی کے اندر مختلف ہڈیوں کا چورا تھا، تب دوسرے ماہرین بلوائے گئے،جو توڑنے کے بجائے جوڑنے کے ماہر تھے، سو انھوں نے ہڈیوں کے اس چورے کو کھال کے اندر ہی اندر دوبارہ '' اسمبل '' کیا، نتیجے میں جو '' چیز '' بن گئی۔
اس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی اور نہ ہی صحیح جگہ پر تھی، ظاہر ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہ ہو وہ اونٹ ہی ہو سکتی، سولومڑی بھی سرکاری کاغذات اور قانون کے نفاذ کے بعد اونٹ بن گئی اور ابھی تک بنی ہوئی ہے لیکن بظاہر ختم ہونے والی یہ کہانی بھی آگے چل سکتی ہے اورہر ہر مرحلے پر '' دی بیگینگ '' کا اطلاق ہوتا ہے اور اس اونٹ نما لومڑی یا لومڑی نما اونٹ سے کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ قانون بھی موجود ہے ، نافذ کرنے والے بھی بقید حیات ہے اور کہانی بھی چل رہی ہے۔ کیا پتہ آگے اسے گائے بھینس یا بھیڑ بکری بنانے کی ضرورت پیش آئے یا بغیر سینگوں کے جانور کی مانگ پیدا ہوجائے ۔
عام طور پر وہ اس طرح انڈرگراؤنڈ تب ہوجاتا ہے جب کسی خطرے کی بوسونگھ لیتا ہے لیکن گاؤں میں ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی ۔ نہ کسی کا کچھ چوری ہوا تھا نہ ٹوٹا تھا نہ گم ہوا تھا اور نہ پولیس وغیرہ آئی تھی یہاں تک کہ ہوائی فائرنگ بھی نہیں ہوئی تھی جس سے اس کی جان جاتی تھی اور اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ بندوقیں، پستول بڑے کام کی چیزیں ہیں لیکن اگر یہ دھماکا کیے بغیر چلتیں،آخرکار کچھ بچوں کی خدمات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ہے تو گاؤں ہی میں لیکن گھر سے نکلتا نہیں کچھ اور کوشش کرنے پر آخر ہم نے اسے گھر ہی سے برآمد کرلیا، وجہ اس غائب ہونے کی پوچھی تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا ،خطرہ ہے یار خطرہ ۔ اور جب اس نے تفصیل بتائی تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔ اس کے مطابق اس کی ایک ہزار ایک عرفیتوں میں سے ایک عرفیت '' ظریف '' بھی ہے ۔ یوں کہئے کہ جب اس نے خرافات کا آغاز کیا تھا ۔ تو لوگوں نے اسے '' ظریف '' کا خطاب دیا تھا، گویا یہ پرائمری کا زمانہ تھا ۔
ہم نے اس کے لتے لیتے ہوئے کہا مگر وہ تو تم کچی پکی میں تھے او اب خیر سے اس مضمون سے اس مضمون میں پی ایچ ڈی کرچکے ہو بلکہ پورے ضلعے میں ٹاپ بھی کرچکے ہو ۔ بولا ، تمہیں پتہ نہیں کہ میرے دوست کتنے ہیں، اگر کسی نے پرانے کاغذات سے پتہ لگالیا کہ میں ایک زمانے میں ظریف بھی کہلاتا تو ؟ تو کیا ہوجائے گا ؟ ظرافت توکوئی جرم نہیں ہے۔ بولا ، ظرافت تو نہیں لیکن اس کا چچازاد شرافت تو پکا پکا مجرم اور ہسٹری شیٹر ہے، اگر کسی نے سوچ لیا کہ کیا '' شر '' اور کیا '' ظر ' ' '' شر '' نہیں ملتا تو '' ظر '' کو پکڑ لو تو پھر ؟
ہم نے اسے تسلی دی کہ اول تو ایسا ہوگا نہیں شراور ظر یا شرافت میں بہت فرق ہے۔ بولا ، یہ تو تم کہتے ہو نا ۔ وہ لوگ بلکہ ادارے بالکل بھی نہیں سمجھتے جنہوں ایک مرتبہ کسی (SON) کے دھوکے میں (SUN)کو پکڑ لیا تھا اور تھوڑی دیر بعد وہ جب نکلا تو فر فر بول رہا تھا۔ آئی ایم سن آف سن آئی ایم سن آف سن سن سن اور پھر سنناتے ہوئے بھاگ کر آسمان پر پہنچ گیا اور ابھی تک سننا کر آئی ایم سن سن بول رہا ہے ۔
یہ سن آف سن کی کہانی بھی قہر خداوندی کی، ان کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس کی کبھی نہ آنے والی کتاب '' شر البیان '' کا حصہ ہیں اور بقول علامہ بریانی عرف برڈفلو سچ کا ان کہانیوں سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کسی پاکستانی لیڈرکو ہو سکتا ہے ۔ وہ بہت ڈرا سہما اور گھبرایا ہوا تھا، اس لیے ہم نے اسے ڈرپوک بزدل اور نکمے کے تمام مروجہ طعنے دیتے ہوئے اکسا یا لیکن اس کا بھی الٹا اثر ہوا۔ بولا مجھے بزدل، ڈرپوک اور گیدڑ بننا قبول ہے لیکن بعد از مرگ کسی تمغہ بہادری کی بالکل ضرورت نہیں۔ تم نے وہ کہاوت نہیں سنی کہ جان سلامت لے کر بھاگنا بھی آدھی بہادری ہے بلکہ گبر سنگھ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو ڈرگیا وہ بچ گیا ۔ ہم نے کہا تھا گبر سنگھ نے تو کچھ اورکہا تھا، بولا وہ پہلے کہا تھالیکن بعد میں جب ٹھاکر کے جوتوں تلے آگیا تو آخری قول زریں بلکہ ترمیم شدہ قول زریں اس کا یہی ہے جو میں نے بتایا ہے یعنی جو ڈر گیا وہ بچ گیا اور بچ کے اپنے گھر گیا نہ کہ جیل ویسے بھی بزرگوں نے کہا ہے کہ
جب بڑوں میں ہو کھٹ پھٹ
تو اپنی جان بچانے کی فکر کروجھٹ
ہماری تمام ترکوششوں کے باوجود قہر خداوندی کا موقف ذرا بھی نہیں بدلا بلکہ الٹا اس نے ہمیں بھی مشورہ دیا کہ تمہارے بڑوں میں بھی تو اک اشرف نام کا آدمی رہتا ہے اور تمہارے ایک ماموں کا نام لطیف اور دوسرے کا حریف ہے۔ اس لیے ذرا احتیاط سے رہنا اگر پکڑے گئے تو لومڑی ہوتے ہوئے اونٹ ہو جاؤ گے
اس پر ہمیں یاد آیا کہ یہ لومڑی کا قصہ تو ہم نے اسے سنایا تھا اور شاید اسی کہانی پر عمل کرتے ہوئے وہ ڈرا ہوا ہے، اس لیے ہم نے اسے یاد دلایا کہ وہ لومڑی کا قصہ محض لطیفہ تھا ورنہ کہاں لومڑی اورکہاں اونٹ ؟بولا ،جو کہانی تم نے مجھے لومڑی کی سنائی تھی وہ ادھوری تھی۔ پوری کہانی میں نے اسی کتاب شر البیان میں درج کی ہوئی ہے بلکہ کوئی کہانی ادھوری نہیں ہوتی لیکن لوگ اس کے کچھ حصے سناکر کام چلاتے ہیں ورنہ ہر کہانی اگرکوئی چلانے والا ہوتو بہت لمبی چلتی ہے۔ درمیان میں کئی کلائمکس آتے ہیں اورہر کوئی اپنے اپنے مطلب کے کلائمکس پر کہانی ختم کردیتا ہے ورنہ آگے بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔
اب اس بات پر ہماری بحث ہوگئی۔ ہم کہتے تھے کہ کہانی یا لطیفہ کہیں نہ کہیں تو ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کا کہنا تھا کہ کوئی کہانی ختم نہیں ہوتی، اگر کہانی کارچلانا چاہے۔ پھر اس نے ہمیں ایک مثال کے ذریعے سمجھانا شروع کیا۔ بولا ، وہ جو ایک نائی کی کہانی ہے، اس کی مثال لے لو تو ہم نے کہا کونسی تو شروع ہوگیا کہ کسی گاؤں میں کوئی سردار پاس کے گاؤں میں فاتحہ پڑھنے جا رہا تھا۔ نائی جو اس وقت اس کی حجامت بنا رہا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا کیونکہ وہ بھی کچھ سیکھنا چاہتا تھا۔ جاتے ہوئے تانگے میں نائی نے پوچھا ، سردار جی فاتحہ میں کیا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا بس ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے بخشش کی دعا مانگ لیتے ہیں اور مرحوم کے حق میں دوچار جملے بول دیتے ہیں ، چاہے اس میں کوئی بھی صفت نہ ہو لیکن لوگ کوئی نہ کوئی خوبی ڈال دیتے ہیں۔
موقع واردات پر پہنچے تو بیٹھتے ہی نائی اتنا اتاؤلا ہورہا تھا کہ پہلے ہی فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ۔ اب آخر میں مردے کے اندرکوئی خوبی ڈالنا تھی، سو اپنے پیشے کی رعایت سے بولا ، مرحوم کی داڑھی کے بال بہت نرم تھے ۔ اب یہیں پر کہانی کو ختم بھی کیا جا سکتا اور آگے بڑھایا بھی جا سکتا مثلاً کسی نے نائی کو ٹوکا کہ کم بخت مرنے والا مرد نہیں خاتون تھی۔ تب نائی بات بناتے ہوئے بولا ، ہاں مجھے معلوم ہے، مرحومہ خاتون تھی لیکن بہت ہی نیک تھی، اس لیے خدا نے اسے داڑھی بھی عطا فرمائی تھی ۔
اب اس جگہ بھی کہانی ختم کی جاسکتی ہے لیکن چلانی ہو تو ۔ اسے پھر ٹوکا گیا کہ کم بخت عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی ۔ جواب میں نائی اپنی حماقت کا سلسلہ چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں تھا، اس لیے بولا ، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، مرحومہ کے چہرے پر داڑھی نہیں لیکن بزرگ خاتون تھی اس لیے چہرے کے بجائے داڑھی اس کے پیٹ پر تھی ۔ یہاں بھی خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی نہ چاہے تو داڑھی کو کہیں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے اس کی لمبائی اور بالوں کو بھی انکشافات کا ذ ریعہ بنا سکتا ہے۔
مطلب یہ کہ ہرکہانی مکمل بھی نا مکمل ہوتی ہے، اس پر ہم نے لومڑی کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہانی تو اس مقام پر ختم ہو گئی تھی ۔ کہ اگر شاہی کا رندوں مطلب قانون نافذ کرنے والوں نے مجھ پر اونٹ کے بچے کا قانون نافذکردیا تو ؟ اس کے آگے کیا ہو سکتا ہے، قہر خداوندی بولا ، اس کے آگے بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہے، مثلاً لومڑی کی سمجھ میں گیدڑ کی بات آگئی کہ وہ تو لومڑی ہے تو پھرڈر کیسا اورآرام سے جنگل میں پھرنے لگی لیکن قانون نافذ کرنے جواب تھک بھی چکے تھے اور بیزار بھی تھے کہ وہ اونٹ نافذ نہیں کر پائے سو انھوں لومڑی کو دیکھا تو فوراً پکڑ لیا کہ یہ اونٹ ہی بھیس بدلے ہوئے ہے ۔
آگے وہ لے جاکر اس پر قانون نافذ کرنے لگے اور طرح طرح کے ماہرین بلوائے گئے جو '' نافذ '' کرنے میں مہارت رکھتے تھے جن میں ہڈیوں کو توڑنے، موڑنے اور ککوڑنے کے بھی ماہر تھے اور جسم کو باہر سے داغ لگائے بغیر اندر ہی اندر بھنبھوڑ بھی سکتے تھے سو ان ماہرین نے اس پر اپنا اپنا فن نافذکیا تو وہاں نہ لومڑی تھی نہ اونٹ صرف کھال کی گٹھڑی کے اندر مختلف ہڈیوں کا چورا تھا، تب دوسرے ماہرین بلوائے گئے،جو توڑنے کے بجائے جوڑنے کے ماہر تھے، سو انھوں نے ہڈیوں کے اس چورے کو کھال کے اندر ہی اندر دوبارہ '' اسمبل '' کیا، نتیجے میں جو '' چیز '' بن گئی۔
اس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی اور نہ ہی صحیح جگہ پر تھی، ظاہر ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہ ہو وہ اونٹ ہی ہو سکتی، سولومڑی بھی سرکاری کاغذات اور قانون کے نفاذ کے بعد اونٹ بن گئی اور ابھی تک بنی ہوئی ہے لیکن بظاہر ختم ہونے والی یہ کہانی بھی آگے چل سکتی ہے اورہر ہر مرحلے پر '' دی بیگینگ '' کا اطلاق ہوتا ہے اور اس اونٹ نما لومڑی یا لومڑی نما اونٹ سے کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ قانون بھی موجود ہے ، نافذ کرنے والے بھی بقید حیات ہے اور کہانی بھی چل رہی ہے۔ کیا پتہ آگے اسے گائے بھینس یا بھیڑ بکری بنانے کی ضرورت پیش آئے یا بغیر سینگوں کے جانور کی مانگ پیدا ہوجائے ۔