شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے تقاضے
ملک کی تاریخ میں آیندہ عام انتخابات کی اہمیت ایک سنگ میل کی سی ہے۔
وطن عزیزکی سیاست اس وقت تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہی ہے۔ ایک جانب عام انتخابات کا زوروشور ہے تو دوسری طرف امیدواروں کے تحفظات اور خدشات موجود ہیں ۔ الیکشن 2018 کی غیر جانبداری اور شفافیت کے حوالے سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ادھر میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے واپسی کے بعد گرفتاری نے فضا کو بوجھل کردیا ہے۔ فہمیدہ سیاسی حلقوں میں اس صورتحال پر گہری تشویش پائی جاتی ہے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو لاحق خطرات کی بو محسوس کی جا رہی ہے۔
نہایت افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ آیندہ انتخابات کی مہم میں جسے پرامن ہونا چاہیے تھا پرتشدد خونیں عنصر شامل ہوگیا ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے انتخابی عمل کو انتہائی خطرناک اور باعث تشویش بنا دیا ہے جس کے لیے نگراں حکمرانوں کو ہر قسم کی مصلحت سے بالاتر ہوکر ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے اور سخت سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انتخابات کے انعقاد سے صرف چند روز قبل پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ملک دشمن شر پسند عناصر پر امن عام انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتے ہیں اور عوام میں انتشار اور ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک دشمن قوتوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جمہوریت کا راستہ روکا جائے، لیکن یہ کوئی غیر متوقع صورتحال نہیں ہے کیونکہ الیکشن کے موقعے پر دہشت گردی کے خدشات کا تذکرہ ملکی میڈیا اور دیگر فورمز پر بار بار ہوتا رہا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ امیدواروں کی فول پروف سیکیورٹی کے معقول انتظامات کیے جاتے۔ افسوس کہ اس کام میں غفلت یا کوتاہی ہوگئی جس کا شرپسند عناصر نے فائدہ اٹھالیا جو ہمیشہ موقعے کی تاک میں رہتے ہیں۔
سیاستدانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر اعلیٰ ظرفی اورکشادہ دلی کا ثبوت دیں اور Sportsman Spirit کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرنے سے مکمل احتراز کریں تاکہ یہ کہنے کی نوبت نہ آئے کہ بقول غالب:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ توکیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگوکیا ہے
ملک کی تاریخ میں آیندہ عام انتخابات کی اہمیت ایک سنگ میل کی سی ہے جس کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن اور نگراں حکمرانوں پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کام میں ذرا سی بھی غفلت کوتاہی یا بھول چوک کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ اداروں اور افراد کو ہر وقت نہایت چوکس اور ہائی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کوکوئی موقع ہاتھ نہ آئے اور وطن عزیزکے تحفظ اور سالمیت پرکوئی آنچ نہ آئے۔
انتخابات 2018 کے حوالے سے قوم کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ یہ انتخابات کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ بہت بڑا معرکہ ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن مرحلہ ہے جس پر جمہوریت کے تسلسل کا دارومدار اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا انحصار ہے۔ وطن عزیز میں 1970 کے انتخابات کے علاوہ اب تک نو (9)انتخابات منعقد ہوچکے ہیں ۔ پہلے عام انتخابات پر کسی نے کوئی انگلی نہیں اٹھائی تھی جب کہ اس کے بعد ہونے والے ہر الیکشن کی شفافیت اور غیر جانبداری مشکوک ہی رہی اور اس کے خلاف سوالات اٹھائے جاتے رہے اور دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے رہے۔
1977 کے الیکشن کے بعد اپوزیشن نے ایک زوردار ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجے میں نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ انجام کار انھیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لاگو ہوگیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا محض کل کی سی بات ہے۔
1985، 1988، 1990، 1993، 1999، 2002 اور 2008 کے انتخابات میں سے کوئی بھی عام انتخابات ایسے نہیں ہیں جن پر دھاندلی کا الزام عائد نہ کیا گیا ہو یا جن کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ یہی حال ملک میں ہونے والے ریفرنڈم اور بلدیاتی انتخابات کا بھی رہا ہے۔ اس کے علاوہ ضمنی انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے مبرا نہیں رہ سکتے۔ درحقیقت انتخابی عمل میں موجود خامیوں اور خرابیوں کی وجہ سے اکثر انتخابات متنازعہ ہی رہے۔ اگر ان خامیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہوتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی، مگر ایسا نہیں کیا جاسکا۔ موجودہ انتخابی عمل میں بھی بعض خامیاں اورکوتاہیاں نظر آرہی ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں الیکشن کمیشن کافی حد تک آزاد اور غیر جانبدار ہونے کے علاوہ مکمل طور پر بااختیار ہے۔ یوں کہنے کو تو ہمارے الیکشن کمیشن کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آئینی اختیارات کا حامل ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے کیونکہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں، بے ضابطگیوں کا سلسلہ انتخابی عمل کے دوران دراز سے دراز تر ہو رہا ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے مخالفین کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں جب کہ بعض علاقوں میں ریٹرننگ افسران کی جانبداری کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں ۔
اس تناظر میں الیکشن کمیشن کے ترجمان کا یہ بیان کہ وہ شکایات کے ازالے کے لیے متعلقہ محکموں کو خطوط تو ارسال کرسکتے ہیں مگر الیکشن کمیشن ایسی سرگرمیوں کو براہ راست روکنے کا اختیار نہیں رکھتا، مایوس کن ہے زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ ہر ضلع مانیٹرنگ افسر کی تقرری کے باوجود ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نہ توکسی قسم کی باز پرس ہو رہی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات کر رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن بااختیار ہونے کے باوجود اپنے اختیارات سے لاعلم ہو یا ان اختیارات کو استعمال نہ کرے تو بھلا پھر عام انتخابات کی شفافیت کیونکر متاثر نہ ہو؟
انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی دفعات 47 اور 48کے تحت لازم ہے کہ تنقید پارٹی پالیسی، پروگراموں اور ماضی کے ریکارڈ اورکاموں تک ہی محدود رہے اور نجی زندگی پر تنقید سے گریزکیا جائے اور توہین آمیز الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔ لیکن انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بعض لیڈر اپنے مخالفین کے خلاف غلط زبان استعمال کر رہے ہیں اور بلاثبوت الزام عائد کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کی جانب سے JUI(F)کے سربراہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور بغیر ثبوت کے الزام تراشی کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں خاموشی کیوں اختیارکی۔ غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی بھی سیاسی رہنما اپنے مخالف کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرے تو الیکشن کمیشن اس کا فوری نوٹس لے تاکہ انتخابی عمل پر عوام کا مکمل اعتماد قائم ہو۔ الیکشن کمیشن کو نہ صرف ذمے دار ہونا چاہیے بلکہ عملی طور پر بھی اس کا واضح طور پر اظہار کرنا چاہیے تاکہ کسی کو بھی اس پر انگلی اٹھانے کی ہمت اور جرأت نہ ہو۔