یہ بھی ہیں عام انتخابات

یہ وہ انتخابات ہیں کہ جس میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر خاموش تماشائی نہیں بلکہ جواب طلبی کر رہا ہے۔

DUBAI:
یہ بھی وہ انتخابات ہیں جن کے انعقاد پر پہلے ہی شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا تھا اور چھ روز قبل 2011 سے بے چین عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے اچھی خبریں نظر نہیں آرہیں ،اس لیے عوام الیکشن کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

عمران خان کو یہ کسی اور کوکہنا چاہیے تھا کیونکہ عوام کا تو صرف یہ کردار ہوتا ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں وہ چاہیں تو کسی کو بھی ووٹ ڈالیں یا گھر بیٹھ کر رات تک تماشا دیکھیں کہ کون جیتا اور کون ہارا کیونکہ عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک ماہ تک رہنماؤں کی جھوٹی تقریریں سنتے، بے بنیاد دعوے دیکھتے ایک دوسرے کے خلاف تقریریں سنتے سنتے کان پک جاتے ہیں کیونکہ انھیں پتا ہے کہ تقریروں پر عمل ہونا نہیں ۔ نئی حکومت سے بھی عوام کو ریلیف ملنا نہیں بس باتیں ہی باتیں ہیں جو وہ سالوں سے سنتے آ رہے ہیں ۔

یہ عوامی کالم اگر 25 جولائی کو عام انتخابات ہوگئے تو ان سے ایک روز پہلے شایع ہوگا کیونکہ انتخابات ملتوی ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر واقعی ہو گئے تو یہ عجیب و منفرد بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور دیگر کا تاثر یہ ہے کہ نگراں حکومتیں جانبدار اور الیکشن کمیشن مکمل بااختیار نہیں یا ماضی کی طرح وہ خود کو منوانا بھی شاید نہیں چاہتے ،کیونکہ ان کے بلاوے پر عمران خان کبھی نہیں آئے اور یہی بہت ہے کہ اپنے وکیل کو انھوں نے بھیج دیا۔

یہ وہ انتخابات ہیں جہاں کاغذات نامزدگی کی منظوری یا مسترد ہونے کے خلاف فیصلوں کا آخری دن 24 جولائی مقرر ہے جس کے اگلے روز الیکشن ہونے ہیں جو نااہل ہوئے وہ صبر کریں گے اور جو اہل قرار پائے وہ حق میں فیصلہ آنے پر بھی سر پکڑ کر بیٹھیں گے کہ ایک دن رہ گیا کیا کریں کیا نہ کریں کیونکہ انتخابی سرگرمیاں 23 جولائی کی رات ختم ہوچکیں تو وہ کیا خاک الیکشن لڑیں ۔ بعض امیدواروں کے معاملات اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت ہیں نہ جانے کیا ہو۔ یہ وہ انتخابات ہیں کہ جن کے لیے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کہہ رہی ہیں کہ وہ دباؤ میں ہیں انھیں الیکشن لڑنے نہیں دیا جا رہا۔

ان کے انتخابی ٹکٹ واپس کرائے گئے اور امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں یہ کون کرا رہا ہے سب جانتے ہیں بولتا کوئی نہیں۔ سابق آئی جی موٹروے ذوالفقار چیمہ نے تو ایکسپریس کے اپنے کالم میں کچھ نشاندہی کر دی ہے اور ایسا کرنے سے روکنے کی بھی استدعا کی ہے پتا نہیں آگے کیا ہوا مگر جانتے سب ہیں۔


یہ وہ انتخابات ہیں جن میں شریک تمام پارٹیوں میں شامل ایک پارٹی کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے جس کا ثبوت ان کی طرف سے نہ ملنے والی کوئی شکایت ہے جب کہ (ن) لیگ، پی پی، مجلس عمل، ایم کیو ایم پاکستان، اے این پی وغیرہ کی وہ شکایات ہیں کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق بنائے گئے ان کے انتخابی بینر، پرچم اور پینا فلیکس اتارے جا رہے ہیں اور انھیں انتخابی مہم چلانے نہیں دی جا رہی۔ یہ وہ انتخابات ہیں جن میں ایک ہفتہ قبل تک دو بڑے دھماکوں میں تقریباً دو سو قیمتی جانیں، دو اہم امیدوار دنیا میں نہیں رہے۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے اور شکایتوں کے باوجود کوئی پارٹی انتخابات کے بائیکاٹ کا نہیں سوچ رہی۔

یہ وہ انتخابات ہیں کہ جس میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر خاموش تماشائی نہیں بلکہ جواب طلبی کر رہا ہے۔ شنید ہے کہ اہم قوتیں انتخابات کا التوا چاہتی ہیں مگر سپریم کورٹ ایسا نہیں چاہتی اور ہر حال میں انتخابات کی خواہاں ہے۔

یہ وہ انتخابات بھی ہیں جن میں دو نئی مذہبی جماعتیں پہلی بار میدان میں ہیں جن کا ووٹ پہلے مسلم لیگ (ن) کو جاتا تھا مگر نواز شریف حکومت نے انھیں ناراض کردیا اور وہ اب تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کے طور پر انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، انتخابی مہم چلا رہی ہیں جنھیں جیت کی کوئی فکر نہیں مگر یہ دونوں مسلم لیگ(ن) کا مذہبی ووٹ توڑنے میں ضرور کامیاب نظر آرہی ہیں۔

یہ وہ انتخابات ہیں جن میں ووٹر امیدواروں کے سامنے آکر پوچھ رہے ہیں کہ انھوں نے پانچ دس سال میں ہمارے لیے کیا کیا ہے کہ انھیں ووٹ دیا جائے۔ لغاری سردار کو اپنے محکوم سے کہنا پڑا کہ ایک ووٹ پر اتنا غرورکہ سردار کے منہ لگ رہا ہے۔ امیدواروں کو انتخابی مہم میں اپنے ووٹروں کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ بنیادی سہولیات تک سے محروم وہ ووٹر جنھیں پینے کا صاف پانی بھی نہ ملے اب اتنی طاقت میں آچکے ہیں کہ اپنے بڑوں، سیدوں اور روحانی اور سیاسی وڈیروں کے سامنے آکر اپنی شکایات سرعام کرنے لگے ہیں۔

سوشل میڈیا مکمل چھایا ہوا ہے جس پرکوئی پابندی بھی نہیں اور اثر انداز بھی ہو رہا ہے مگر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کہیں اور سے بھی سلب ہے۔ نگراں حکومت لاکھ کہے مگر میڈیا آزاد کیوں نہیں ہے۔

یہ انتخابات اس لیے بھی مختلف ہیں کہ اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے بل بوتے پر اور تحریک انصاف کسی اور کے بل بوتے پر انتخابی میدان میں ہے اور وہی چھائے نظر آرہے ہیں مگر پی ٹی آئی کی واضح اکثریت تو نظر نہیں آرہی اور اب دو تہائی اکثریت لینے کا دور بھی گزر چکا ہے۔
Load Next Story