سرمد سندھی اور اس کی یادیں
سرمد نے گانا گانا تو 1975 سے شروع کیا لیکن انھیں شہرت استاد بخاری کے گانے سے 1980 میں ملی۔
کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور اگر کوئی سریلا گانے والا ہو تو پھر سننے والے پر سحر طاری ہو جاتا ہے۔ شاعری اور موسیقی کی دنیا میں سندھ کی سر زمین بڑی زرخیز رہی ہے جہاں پر بڑے بڑے شاعر، ادیب اورگلوکار پیدا ہوئے ہیں ان میں ایک سرمد سندھی بھی ہے جن کی فیملی پنجاب سے سندھ میں آئی تھی اور ضلع خیرپورکے شہر ہریالو میں رہنے لگے۔
اس فیملی کو سندھ کی سرزمین سے بہت پیار تھا اور یہ گھرانہ مذہبی تھا۔ سرمد سندھی کا اصلی نام رحمان مغل تھا لیکن سندھ کی محبت کی وجہ سے انھوں نے سرمد سندھی کہلوانا پسند کیا۔ ان کے والد محمد حیات نے اپنے بیٹے کو پرائمری تعلیم اپنے گاؤں میں دلوائی، خیرپور میرس سے میٹرک اور انٹر پاس کرنے کے بعد انھوں نے سول ٹیکنالوجی میں خیرپورکالج سے ڈپلومہ کا کورس پاس کرنے کے بعد اسے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں سب انجینئر کی نوکری مل گئی اور بعد میں وہ کراچی بلڈنگ اتھارٹی میں جاب کرنے لگے۔ وہ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔
ان کا خاندان مذہبی رحجانات کا حامل تھا ، اس لیے گانے بجانے کی بڑی ممانعت تھی مگر انھیں گانے سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ چپکے چپکے کالج کے پروگراموں میں یا پھر دوستوں کی محفلوں میں گایا کرتے تھے۔ ماچس کی ڈبیہ کو میوزک کا ذریعہ بناتے تھے جب بھی وہ کسی گلوکار کا اچھا گانا سنتے تو اسے گایا کرتے وہ اکثر کالج کے فنکشن میں جب گاتے تو وہاں موجود سننے والوں کی دل میں اپنا گھر بنالیتے۔ ان کی پسند کے گانے والوں میں دو خاص لوگ تھے ایک فقیر عبدالغفور اور دوسرے ڈھول فقیر۔
سرمد نے گانا گانا تو 1975 سے شروع کیا لیکن انھیں شہرت استاد بخاری کے گانے سے 1980 میں ملی اور اس کے بعد وہ سندھ کے لوگوں کے دل اور دماغ پر چھاگئے۔ انھوں نے گانے اور موسیقی کی تربیت باقاعدہ تو نہیں حاصل کی مگر وہ اکثر لال عزیز، شاہد حسین بھٹی اوراس وقت کے مقبول گلوکار منظور سنجرانی سے حاصل کی ۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ استاد ظہور خان کی سنگت میں رہ کر موسیقی کو سنوارا ، اب سرمد کے آواز کی دھوم پورے سندھ میں سنائی دینے لگی جس پر ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر کوثر برڑو نے سرمد کو ریڈیو پر موقع دیا اور وہاں سے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوگیا اور اب اس مقبولیت نے بڑھتے بڑھتے پاکستان ٹی وی کراچی مرکز تک انھیں پہنچایا جہاں پر پروڈیوسر اعجاز علیم عقیلی نے ان کی ایک نعت ریکارڈ کی۔
اس وقت پی ٹی وی پر اسسٹنٹ پروڈیوسر سرسمی بلوچ تھے جو شاعر بھی ہیں وہ پروڈیوسر ہارون رند کے پاس سرمد کو لے گئے جہاں پر سندھ کے مشہور شاعروں کے کلام ان سے گوائے گئے جنھوں نے ٹیلی کاسٹ ہوتے ہی سرمد کو کامیابی کی بلندی پر پہنچادیا اور خاص طور پر شیخ ایاز کا کلام ''رات آئی وئی توں نہ آئیں کہی'' اور سمی بلوچ کا تنھنجی یاد جی وری آویر بے حد مقبول ہوئے اب آڈیو سی ڈی ہاٹ کیک کی طرح بکنے لگیں جس سے کمپنی والوں کو بڑا مالی فائدہ ہوا۔
وہ شاعری کے سلسلے میں بڑے محتاط تھے اور شاعر اور اس کی شاعری دیکھ کر سن کر پھر گاتے تھے۔ اب وہ غزلیں، عوامی گانے، قومی گانے، وایوں، لوک گیت گانے میں مہارت حاصل کرلی۔ لیکن ان کی بڑی مقبولیت انھیں قومی گانے اور لوگ گیتوں میں زیادہ ملی اب انھیں ہر پروگرام میں دعوت دے کر بلایا جاتا تھا اور وہ فرمائشی گانے بھی گاتے تھے مگر اپنی پسند پر قومی گیت ضرور گاتے جس سے سننے والوں کے دل اور دماغ میں گانے اور اس کی آواز سرایت کرجاتی وہ ہمیشہ بے انصافی، ظلم، بربریت کے خلاف شاعری گاکر لوگوں میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ انھیں ہر طبقہ فکرکا فرد ، بچوں سے لے کر عورتوں، بوڑھوں تک سب ہی لوگ پسند کرتے تھے۔
ان کے گانے اور آوازکا انداز باقی گلوکاروں سے بڑا مختلف تھا جب ڈکٹیٹر ضیا الحق نے سندھ میں اپنے ظلم کے پنجے گاڑدیے تو سرمد نے شاعروں کی شاعری کو اپنی آواز بخشی انھیں ڈرایا گیا۔ انھیں سندھ سے اس کے کلچر، زمین، زبان اور رسم و رواج سے بڑا پیار تھا اور وہ اس کا اظہار گاکرکرتے تھا۔ ان کے گانے سن کر نوجوان حب الوطنی کی طرف راغب ہوئے اور ظلم اور نا انصافی سے لڑنے کے لیے جذباتی ہوجاتے تھے۔ سندھ کے بڑے مشہور شاعر تاجل بیوس انھیں سندھ کا دوسرا بیجل سمجھتے تھے۔ بیجل ایک گانے والے تھے جس کی آواز پر اس وقت کے بادشاہ نے اس کی جھولی میں اپنا سر پیش کیا تھا۔ سرمد کی یہ عادت تھی کہ وہ ہربار نئی دھن تیار کرواتے تھے یا پھر خود دھن بناتے تھے۔
انھوں نے اپنی فیملی کو سپورٹ کیا اور کبھی بھی پیسے کی لالچ نہیں کی اور اپنے پرستاروں کے لیے ملنے کے لیے ہر وقت تیار ہوتے تھے ان کا مزاج بڑا ملنسار اور پیار کرنے والا تھا۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ ان کی شادی 1993 میں ہوئی اور وہ ایک بیٹی اور بیٹے کے باپ تھے۔ بیٹا ان کے مرنے کے تین دن بعد پیدا ہوا تھا انھیں اپنے دین سے کافی لگاؤ تھا۔ اپنی والدہ کے ساتھ انھوں نے 1993 میں حج کی سعادت بھی حاصل کی۔
27دسمبر 1996 کا دن آج بھی مجھے یاد ہے محکمہ انفارمیشن محکمہ میں اپنی ڈیوٹی پر تھا کہ مجھے اداکار گلاب چانڈیو کا فون آیا اور ہم کسی کام کے سلسلے میں بات کررہے تھے تھوڑی دیر میں اس کا دوسرا فون بجنے لگا انھوں نے کہاکہ وہ فون سن کر آتے ہیں اور جب آئے تو مجھے کہاکہ یار ایک بری خبر ہے۔ وہ یہ ہے کہ سرمد سندھی کا روڈ ایکسڈینٹ ہوگیا ہے وہ رات بدین کی طرف ایک پروگرام میں گئے تھے جہاں سے واپس آتے ہوئے ان کی گاڑی کسی ٹرالر سے ٹکراگئی تھی۔ سرمد شدید زخمی ہوگئے تھے جنھیں اسپتال لایا گیا مگر وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔
ان کی موت کی خبر پورے سندھ میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ وہ اس وقت گلشن اقبال میں ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے، میں، گلاب چانڈیو، صلاح الدین تنیو اور دیگر دوست سرمد کی رہائش پر گئے جہاں شام کو وہاں فلیٹس کے آگے خالی حصے میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور اس وقت ایمبولینس کے ذریعے انھیں اپنے گاؤں ہریالو لے گئے اور دوسرے دن ان کی تدفین کی گئی۔ جس میں ہزاروں لوگوں اور چاہنے والوں نے شرکت کی۔ جنازہ نماز کے دوران میں نے ایک منظر دیکھا جسے میں کبھی بھول نہیں پاؤںگا سرمد کی زوجہ اتنی رورہی تھی کہ وہاں پر موجود افراد کا دل سینے سے باہر آرہا تھا۔ وہ اوپر سے چھلانگ لگانے کی کوشش کررہی تھیں جسے بڑی کوشش کے بعد اندر کمرے میں لے گئے۔ اس وقت وہ سرمد کے بیٹے کی ماں بننے والی تھی اور دس مہینے پورے ہونے والے تھے اور تیسرے دن انھوں نے ایک بچے کوجنم دیا تھا۔
احمد مغل جو سرمد کے چھوٹے بھائی تھے انھوں نے اپنے بھائی کا خواب پورے کرنے کے لیے گانے کی تربیت لینا شروع کی اور اس وقت وہ اپنے بھائی کی طرح سندھ کے عوام میں بڑے مقبول ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد سرمد کے گھر والوں نے سرمد کی بیوی کی حالت دیکھ کر اس کی شادی احمد مغل سے کروادی کیونکہ اپنے بھائی کے بچوں کی تربیت اور پالنا صحیح طریقے سے کرسکتے تھے اور سرمد کے بچوں کو باپ کی طرح پیار بھی ملا۔ احمد مغل نے بھی اپنے بھائی کا نام برقرار رکھتے ہوئے قومی گیت گائے جس کی وجہ سے سرمد کا نام آج بھی زندہ ہے۔ سرمد پر تین کتابیں چھپ چکی ہیں ان کی بیٹی دنیا کی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم حاصل کر کے حافظ قرآن ہیں۔