’’تبدیلی طالب علم ہی لا سکتے ہیں‘‘
سیاسی و سماجی مسائل پر ایک ماہر تعلیم کی چشم کشا گفتگو
پچھلے دنوں ایک قریبی عزیز کی ناگہانی وفات کے باعث بیرون شہر جانا پڑا۔ وہاں کراچی سے آئے ایک ماہر تعلیم، عبدالّرب خاں سے ملاقات ہوئی جو شہر قائد میں کئی عشرے سے ایک کالج چلاتے پاکستانی نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔
حلقہ احباب میں شاہد بھائی کہلاتے ہیں۔ انہوں نے دوران گفتگو سیاست پاکستان اور حالیہ الیکشن سے لے کر مختف سماجی و تاریخی موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ اس گفتگو کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے بطور ماہر تعلیم ملک و قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ کیا اور حل بھی پیش کیے۔
جب پاکستان قائم ہوا، تو عبدالّرب کے والد جنوبی افریقا میں وسیع کاروبار کررہے تھے مگر اپنے وطن کی محبت میں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان چلے آئے۔ یہاں قدم جمانے کی خاطر انہیں بڑی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مگر وہ بدل ہوکر واپس دیار غیر نہیں گئے۔ ان کا کہنا تھا ''اب جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔'' یہی انمول جذبہ حب الوطنی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوا۔ عبدالّرب نوجوانی میں مشہور طلبہ تنظیم، این ایس ایف (نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے ساتھ منسلک رہے۔ آپ کی گفتگو کے شعور و آگاہی کا سامان لیے ہوئے چیدہ نکات نذر قارئین ہیں۔
الیکشن کی گہما گہمی میں ہر سیاسی جماعت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ معاشرے اور نظام حکومت میں تبدیلی لائے گی۔ اس قسم کی باتیں ہونا اچھی نشانی ہے۔ پاکستان میں رائج حکومتی نظام مٹھی بھر طاقتور افراد کی تخلیق ہے جسے انہوں نے اپنے مفادات پورے کرنے کا ہتھیار بنالیا۔ اس نظام نے کچھ پاکستانیوں کو تو مالا مال کردیا لیکن سترہ اٹھارہ کروڑ پاکستانی ملکی ترقی اور وسائل سے مستفید نہ ہوسکے۔پھر یہ بالادست نظام کرپٹ بھی ہے۔ ثبوت؟وہ یہ کہ پچھلے ستر برس میں حکمران طبقے کی کرپشن ملک وقوم کو چوبیس ہزار ارب روپے کا مقروض بنا چکی۔
حالیہ الیکشن میں تمام بڑی جماعتوں نے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جو طویل عرصے سے ناانصافی اور عدم مساوات پر مبنی حکومتی نظام کا حصّہ ہیں۔ وجہ یہ کہ انہیں جیت کی ضمانت قرار دیا گیا۔ گویا امکان ہے کہ ان امیدواروں کی اکثریت الیکشن جیت کر نئی پارلیمنٹ میں پہنچ جائے۔ہمیں بتایا گیا کہ جو لیڈران کرام حکومت سے لے کر معاشرے میں جاری و ساری نظام بدلنا چاہتے ہیں، وہ اپنی خود اعتمادی اور سخت مزاجی کی بدولت مقصد پانے میں کامیاب رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اردگرد اسی بالادست نظام کے پروردہ افراد موجود ہوں گے۔ کیا وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں گے کہ ان کے مفادات پورے کرنے والے نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے؟ کیا وہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو عملی جامہ پہننے دیں گے؟ مجھے تو یہ کام بہت کٹھن نظر آتا ہے۔ اسی قسم کا تجربہ 1971ء تا 1977ء کے بھٹو دور حکومت میں ناکام ہوچکا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں نوجوان طلبہ و طالبات وہ حقیقی طاقت ہیں جن کی مدد سے ایک محب وطن، باصلاحیت اور دیانت دار لیڈر کرپٹ حکومتی، معاشرتی اور سیاسی نظام بدل پائے گا۔ جو خوش قسمت راہنما اس زبردست طاقت کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب رہا، اس کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں۔وطن عزیز کو درپیش مگر ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بالادست نظام کے خالقوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے نوجوان طلبہ و طالبات کو بتدریج عملی سیاست سے دور کردیا۔ وجہ یہ کہ اس بالادست نظام کو سب سے زیادہ انہی طلبہ سے خطرہ تھا کہ وہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ لہٰذا اس طاقت کو ختم کر دیا گیا۔
دراصل کسی بھی ملک میں نوجوان طلبہ و طالبات سب سے سرگرم، متحرک، جوش و جذبے سے بھرپور انسانی گروہ مانا جاتا ہے۔ نوجوانی میں انسان نڈر اور دلیر ہوتا ہے۔ اس پر ابھی ذمے داریوں کا بوجھ بھی زیادہ نہیں پڑتا۔ لہٰذا نوجوان بلا دھڑک خطرہ مول لیتے ہیں۔ پھر وہ کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ملک و قوم کی خاطر کارہائے نمایاں انجام دینا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ظلم و ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت انہیں شعور دیتی اور حقوق و فرائض سے آشنا کراتی ہے۔
قائداعظم کی دور اندیشی اور حکمت نے نوجوان طلبہ و طالبات میں پوشیدہ طاقت پہچان لی تھی۔ اسی لیے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا، تو قائداعظم نے ہندوستان بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طوفانی اور پے درپے دورے کیے۔ یوں وہ نوجوانوں کو متحرک کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کو اپنا ''ہراول دستہ'' قرار دیا۔قائداعظم کی جدوجہد رنگ لائی اور پورے ہندوستان میں مسلم طلبہ و طالبات آزاد وطن بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ تاریخ سے عیاں ہے کہ 1946ء کے دونوں یادگار الیکشن نوجوان طلبہ کی حیرت انگیز مساعی جمیلہ اور جدوجہد سے ہی جیتے گئے۔ الیکشنوں میں جیت نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کردی۔
1984ء تک پاکستان کے ہر سرکاری و نجی کالج اور یونیورسٹی میں نوجوان طلبہ طالبات سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی تنظیمیں بنا رکھی تھیں جن کے مابین الیکشن کے وقت دلچسپ و سنسنی خیز مقابلہ ہوتا۔ اس طرح نوجوان سیاست کرنے کا ہنر سیکھتے اور جانتے کہ سیاسی سرگرمیوں میں کیونکر حصہ بنا جاتا ہے۔اس زمانے میں ہر کالج و یونیورسٹی میں سیاسی بحث و مباحثہ عام تھا۔ ان مباحثوں کی وجہ سے بھی پاکستانی نوجوانوں میں سیاسی شعور جنم لیتا اور نت نئے خیالات و نظریات سامنے آتے۔ تب اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی ہوتی جس سے نوجوانوں میں صبرو برداشت کی خوبی جنم لیتی۔ وہ اپنی بات دلیل سے دوسرے کو سمجھاتے اور اپنی غلطی ہنسی خوشی تسلیم کرتے۔مذید براں اعلی تعلیمی اداروں میں پاکستان بھر سے نوجوان آتے تھے۔ان کے مابین تال میل سے قومی اتحاد جنم لیتا اور بھائی چارے میں بھی اضافہ ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور میں نوجوان طلبہ و طالبات کی طاقت پھر نمایاں ہوئی۔ اقتدار کے آخری برسوں میں ایوب خان خود کو عقلِ کل سمجھنے لگے اور مطلق العنان حکمران بن بیٹھے۔ (یہ اکثر حکمرانوں کا دیرینہ مرض ہے) اس شخصی آمریت کے خلاف سب سے پہلے نوجوان طلبہ ہی اٹھے اور ملک گیر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا۔ اس طلبہ تحریک میں پھر مزدور، کسان اور دیگر عوام بھی شامل ہوگئے۔ قومی سطح پر ہونے والے تاریخی عوامی احتجاج نے ایوب خان کو گھر جانے پر مجبور کردیا۔
نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام الناس کے اتحاد نے کرپٹ طاقتور افراد کو تشویش میں مبتلا کرڈالا۔ وہ جس بالادست نظام کو تشکیل دے رہے تھے، انہیں اس کی بنیادیں ہلتی نظر آنے لگیں۔ دلچسپ بات یہ کہ بااثر و امیر پاکستانیوں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے ہی ایک سیاست داں، ذوالفقار علی بھٹو نے اس اتحاد میں پوشیدہ طاقت دیکھ لی۔ انہوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا یا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور الیکشن 1970ء میں مغربی پاکستان میں نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام کے اتحاد نے اس زمانے کے کئی نامی گرامی الیکٹ ایبلز کو چاروں شانے چت کر پیپلزپارٹی کو کامیاب کروا دیا۔
بدقسمتی سے بھٹو حکومت سنبھالنے کے بعد اس قیمتی اتحاد کو برقرار نہ رکھ پائے۔اس ناکامی کی بڑی وجہ یہ کہ ان کے اردگردکرپٹ نظام سے تعلق رکھنے والے افراد چھا گئے۔جبکہ پارٹی کے جو رہنما نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام پہ مشتمل عوامی اتحاد کے قریب تھے، انھیں ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ان افراد نے نظام بدلنے کی تمام کوششوں پہ پانی پھیر دیا اور بھٹو نادانستگی میں ان کے بچھائے دامِ فریب میں پھنستے چلے گئے۔ملک انتشار کا شکار ہو گیا اور آخر 1977ء میں حکومت نئے حکمرانوں نے سنبھال لی۔
یہ نئے حکمران سمجھتے تھے کہ طویل عرصہ حکومت کر کے وہ پاکستان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ضروری تھا کہ حزب اختلاف کو کمزور کیا جائے تاکہ وہ ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔یہ مقصد پانے کے لیے ملک میں سرگرم لسانی،نسلی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔مگر حکمران نہیں جانتے تھے کہ وہ آگ کو ہاتھ میں لے رہے ہیں۔دراصل ان سبھی تنظیموں کی سیاست نفرت ودشمنی کے گرد گھومتی تھی۔ان کی باہمی آویزش کے باعث پاکستان میں قتل وغارت کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مخصوص مفادات رکھنے والی ان تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں اپنی طلبہ تنظیمیں قائم کر لیں۔انھوں نے کالجوں و یونیورسٹیوں میں بھی نفرت و فساد کی سیاست کو فروغ دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں سیاسی و سماجی موضوعات پہ بحث ومباحثے کرنے کا کلچر دم توڑنے لگا۔اب معمولی اختلاف پر بھی تنظیموں کے طلبہ ایک دوسرے کو مارنے پیٹنے لگتے۔یوں حکمران اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر نہ صرف طلبہ اور عوام کا زبردست اتحاد توڑنے میں کامیاب رہے بلکہ انھوں نے تعلیمی اداروں میں تشدد وفساد کی سیاست کو فروغ دیا۔اسی بات کو بنیاد بنا کر 1984 میں حکومت نے تعلیمی اداروں سے سیاسی سرگرمیوں کو دیس نکالا دے ڈالا۔یوں نئی سوچ و فکر کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
اس پابندی کے باعث پاکستان بھر میں طلبہ وطالبات سیاسی شعور وآگاہی سے بے خبر ہونے لگے۔وہ نہیں جان سکے کہ بحث ومباحثے کا کلچر کیا ہے اور اختلاف رائے کو کس طرح سلیقے ، تہذیب و شائستگی سے برتا جاتا ہے۔اس کے برعکس معمولی اختلافات پر بھڑک اٹھنا طلبہ کا چلن بننے لگا۔آج بھی یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا میں تو نوجوان طلبہ و طالبات بہت سرگرم ہیں مگر جب عملی سیاست کی بات آئے،تب بہ مشکل ایک فیصد طلبہ اس کے تقاضوں پر پورے اتر پاتے ہیں۔
ماضی میں کئی نوجوان طالب علم اپنے محلّوں میں لوگوں کے مختلف کام ہنسی خوشی انجام دیتے تھے۔کسی کا نلکا ٹھیک کرا دیا تو کبھی بل جمع کروا آئے۔یہی کام کرتے بعض نوجوان سماجی راہنما بن جاتے۔یہ نوجوان عوام کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہوتے۔انہی نوجوانوں میں بہت سے آگے چل کر سیاست دان بن جاتے۔پہلے وہ کونسلر بنتے پھر صوبائی اور قومی سطح پر نمایاں ہوتے۔چونکہ یہ نچلی سطح سے آتے لہذا وہ عوامی مسائل سے آگاہی رکھتے اور انھیں حل کرانے کی خاطر بھاگ دوڑ بھی کرتے۔
نفرت وتقسیم کی سیاست پھیلنے اور تعلیمی اداروں میں سیاسی مباحثوں پہ پابندی سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہت کم نوجوان طلبہ حکومتی دائرہ کار میں داخل ہونے لگے۔ان کی جگہ بالادست نظام سے وابستہ الیکٹ ایبلز نے لے لی۔یہ امیر افراد عموماً عوامی مسائل سے بے خبر ہوتے ۔اسی لیے عوام کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔دوسری سمت ان افراد نے دولت ،اثرورسوخ یا برادری کے بل بوتے پر اپنی پوزیشن اتنی مضبوط کر لی کہ ہر الیکشن پہ سیاسی جماعتیں انہی کی طرف دیکھتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اصل جنگ عوام اور بالادست طبقات کے درمیان ہے۔امرا عوام کو مختلف نسلی،لسانی ،مذہبی، معاشرتی طبقوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے اور یوں انھیں کمزور بناکے اپنے زیردست کر لیا۔عوام کو مگر نوجوان طلبہ اس قید سخت سے رہائی دلوا سکتے ہیں۔پاکستان میں خصوصاً شرط یہ ہے کہ طلبہ وطالبات میں ماضی کی طرح سیاسی وسماجی شعور جنم لے ۔وہ کھرے اور کھوٹے کے مابین تمیز کر سکیں۔وہ پھر عوام کے تمام طبقات کو متحد کر سکتے ہیں۔
کوئی مخلص پاکستانی لیڈر بالادست وکرپٹ نظام تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے حکومت سنبھال کر تمام کالجوں ویونیورسٹیوں میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنا ہوں گی۔اس طرح تعلیمی اداروں میں سیاسی ،سماجی و معاشی موضوعات پہ بحث ومباحثے کا کلچر دوبارہ جنم لے گا۔مل بیٹھنے سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے والے خیالات ونظریات سامنے آئیں گے۔اور یہ جوش وجذبہ بھی پیدا ہو گا کہ ان خیالات کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ پاکستان فلاحی،ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت میں ڈھل سکے۔
حلقہ احباب میں شاہد بھائی کہلاتے ہیں۔ انہوں نے دوران گفتگو سیاست پاکستان اور حالیہ الیکشن سے لے کر مختف سماجی و تاریخی موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ اس گفتگو کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے بطور ماہر تعلیم ملک و قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ کیا اور حل بھی پیش کیے۔
جب پاکستان قائم ہوا، تو عبدالّرب کے والد جنوبی افریقا میں وسیع کاروبار کررہے تھے مگر اپنے وطن کی محبت میں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان چلے آئے۔ یہاں قدم جمانے کی خاطر انہیں بڑی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مگر وہ بدل ہوکر واپس دیار غیر نہیں گئے۔ ان کا کہنا تھا ''اب جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔'' یہی انمول جذبہ حب الوطنی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوا۔ عبدالّرب نوجوانی میں مشہور طلبہ تنظیم، این ایس ایف (نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے ساتھ منسلک رہے۔ آپ کی گفتگو کے شعور و آگاہی کا سامان لیے ہوئے چیدہ نکات نذر قارئین ہیں۔
الیکشن کی گہما گہمی میں ہر سیاسی جماعت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ معاشرے اور نظام حکومت میں تبدیلی لائے گی۔ اس قسم کی باتیں ہونا اچھی نشانی ہے۔ پاکستان میں رائج حکومتی نظام مٹھی بھر طاقتور افراد کی تخلیق ہے جسے انہوں نے اپنے مفادات پورے کرنے کا ہتھیار بنالیا۔ اس نظام نے کچھ پاکستانیوں کو تو مالا مال کردیا لیکن سترہ اٹھارہ کروڑ پاکستانی ملکی ترقی اور وسائل سے مستفید نہ ہوسکے۔پھر یہ بالادست نظام کرپٹ بھی ہے۔ ثبوت؟وہ یہ کہ پچھلے ستر برس میں حکمران طبقے کی کرپشن ملک وقوم کو چوبیس ہزار ارب روپے کا مقروض بنا چکی۔
حالیہ الیکشن میں تمام بڑی جماعتوں نے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جو طویل عرصے سے ناانصافی اور عدم مساوات پر مبنی حکومتی نظام کا حصّہ ہیں۔ وجہ یہ کہ انہیں جیت کی ضمانت قرار دیا گیا۔ گویا امکان ہے کہ ان امیدواروں کی اکثریت الیکشن جیت کر نئی پارلیمنٹ میں پہنچ جائے۔ہمیں بتایا گیا کہ جو لیڈران کرام حکومت سے لے کر معاشرے میں جاری و ساری نظام بدلنا چاہتے ہیں، وہ اپنی خود اعتمادی اور سخت مزاجی کی بدولت مقصد پانے میں کامیاب رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اردگرد اسی بالادست نظام کے پروردہ افراد موجود ہوں گے۔ کیا وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں گے کہ ان کے مفادات پورے کرنے والے نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے؟ کیا وہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو عملی جامہ پہننے دیں گے؟ مجھے تو یہ کام بہت کٹھن نظر آتا ہے۔ اسی قسم کا تجربہ 1971ء تا 1977ء کے بھٹو دور حکومت میں ناکام ہوچکا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں نوجوان طلبہ و طالبات وہ حقیقی طاقت ہیں جن کی مدد سے ایک محب وطن، باصلاحیت اور دیانت دار لیڈر کرپٹ حکومتی، معاشرتی اور سیاسی نظام بدل پائے گا۔ جو خوش قسمت راہنما اس زبردست طاقت کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب رہا، اس کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں۔وطن عزیز کو درپیش مگر ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بالادست نظام کے خالقوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے نوجوان طلبہ و طالبات کو بتدریج عملی سیاست سے دور کردیا۔ وجہ یہ کہ اس بالادست نظام کو سب سے زیادہ انہی طلبہ سے خطرہ تھا کہ وہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ لہٰذا اس طاقت کو ختم کر دیا گیا۔
دراصل کسی بھی ملک میں نوجوان طلبہ و طالبات سب سے سرگرم، متحرک، جوش و جذبے سے بھرپور انسانی گروہ مانا جاتا ہے۔ نوجوانی میں انسان نڈر اور دلیر ہوتا ہے۔ اس پر ابھی ذمے داریوں کا بوجھ بھی زیادہ نہیں پڑتا۔ لہٰذا نوجوان بلا دھڑک خطرہ مول لیتے ہیں۔ پھر وہ کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ملک و قوم کی خاطر کارہائے نمایاں انجام دینا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ظلم و ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت انہیں شعور دیتی اور حقوق و فرائض سے آشنا کراتی ہے۔
قائداعظم کی دور اندیشی اور حکمت نے نوجوان طلبہ و طالبات میں پوشیدہ طاقت پہچان لی تھی۔ اسی لیے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا، تو قائداعظم نے ہندوستان بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طوفانی اور پے درپے دورے کیے۔ یوں وہ نوجوانوں کو متحرک کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کو اپنا ''ہراول دستہ'' قرار دیا۔قائداعظم کی جدوجہد رنگ لائی اور پورے ہندوستان میں مسلم طلبہ و طالبات آزاد وطن بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ تاریخ سے عیاں ہے کہ 1946ء کے دونوں یادگار الیکشن نوجوان طلبہ کی حیرت انگیز مساعی جمیلہ اور جدوجہد سے ہی جیتے گئے۔ الیکشنوں میں جیت نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کردی۔
1984ء تک پاکستان کے ہر سرکاری و نجی کالج اور یونیورسٹی میں نوجوان طلبہ طالبات سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی تنظیمیں بنا رکھی تھیں جن کے مابین الیکشن کے وقت دلچسپ و سنسنی خیز مقابلہ ہوتا۔ اس طرح نوجوان سیاست کرنے کا ہنر سیکھتے اور جانتے کہ سیاسی سرگرمیوں میں کیونکر حصہ بنا جاتا ہے۔اس زمانے میں ہر کالج و یونیورسٹی میں سیاسی بحث و مباحثہ عام تھا۔ ان مباحثوں کی وجہ سے بھی پاکستانی نوجوانوں میں سیاسی شعور جنم لیتا اور نت نئے خیالات و نظریات سامنے آتے۔ تب اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی ہوتی جس سے نوجوانوں میں صبرو برداشت کی خوبی جنم لیتی۔ وہ اپنی بات دلیل سے دوسرے کو سمجھاتے اور اپنی غلطی ہنسی خوشی تسلیم کرتے۔مذید براں اعلی تعلیمی اداروں میں پاکستان بھر سے نوجوان آتے تھے۔ان کے مابین تال میل سے قومی اتحاد جنم لیتا اور بھائی چارے میں بھی اضافہ ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور میں نوجوان طلبہ و طالبات کی طاقت پھر نمایاں ہوئی۔ اقتدار کے آخری برسوں میں ایوب خان خود کو عقلِ کل سمجھنے لگے اور مطلق العنان حکمران بن بیٹھے۔ (یہ اکثر حکمرانوں کا دیرینہ مرض ہے) اس شخصی آمریت کے خلاف سب سے پہلے نوجوان طلبہ ہی اٹھے اور ملک گیر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا۔ اس طلبہ تحریک میں پھر مزدور، کسان اور دیگر عوام بھی شامل ہوگئے۔ قومی سطح پر ہونے والے تاریخی عوامی احتجاج نے ایوب خان کو گھر جانے پر مجبور کردیا۔
نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام الناس کے اتحاد نے کرپٹ طاقتور افراد کو تشویش میں مبتلا کرڈالا۔ وہ جس بالادست نظام کو تشکیل دے رہے تھے، انہیں اس کی بنیادیں ہلتی نظر آنے لگیں۔ دلچسپ بات یہ کہ بااثر و امیر پاکستانیوں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے ہی ایک سیاست داں، ذوالفقار علی بھٹو نے اس اتحاد میں پوشیدہ طاقت دیکھ لی۔ انہوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا یا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور الیکشن 1970ء میں مغربی پاکستان میں نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام کے اتحاد نے اس زمانے کے کئی نامی گرامی الیکٹ ایبلز کو چاروں شانے چت کر پیپلزپارٹی کو کامیاب کروا دیا۔
بدقسمتی سے بھٹو حکومت سنبھالنے کے بعد اس قیمتی اتحاد کو برقرار نہ رکھ پائے۔اس ناکامی کی بڑی وجہ یہ کہ ان کے اردگردکرپٹ نظام سے تعلق رکھنے والے افراد چھا گئے۔جبکہ پارٹی کے جو رہنما نوجوان طلبہ، مزدور، کسان اور عوام پہ مشتمل عوامی اتحاد کے قریب تھے، انھیں ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ان افراد نے نظام بدلنے کی تمام کوششوں پہ پانی پھیر دیا اور بھٹو نادانستگی میں ان کے بچھائے دامِ فریب میں پھنستے چلے گئے۔ملک انتشار کا شکار ہو گیا اور آخر 1977ء میں حکومت نئے حکمرانوں نے سنبھال لی۔
یہ نئے حکمران سمجھتے تھے کہ طویل عرصہ حکومت کر کے وہ پاکستان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ضروری تھا کہ حزب اختلاف کو کمزور کیا جائے تاکہ وہ ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔یہ مقصد پانے کے لیے ملک میں سرگرم لسانی،نسلی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔مگر حکمران نہیں جانتے تھے کہ وہ آگ کو ہاتھ میں لے رہے ہیں۔دراصل ان سبھی تنظیموں کی سیاست نفرت ودشمنی کے گرد گھومتی تھی۔ان کی باہمی آویزش کے باعث پاکستان میں قتل وغارت کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مخصوص مفادات رکھنے والی ان تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں اپنی طلبہ تنظیمیں قائم کر لیں۔انھوں نے کالجوں و یونیورسٹیوں میں بھی نفرت و فساد کی سیاست کو فروغ دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں سیاسی و سماجی موضوعات پہ بحث ومباحثے کرنے کا کلچر دم توڑنے لگا۔اب معمولی اختلاف پر بھی تنظیموں کے طلبہ ایک دوسرے کو مارنے پیٹنے لگتے۔یوں حکمران اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر نہ صرف طلبہ اور عوام کا زبردست اتحاد توڑنے میں کامیاب رہے بلکہ انھوں نے تعلیمی اداروں میں تشدد وفساد کی سیاست کو فروغ دیا۔اسی بات کو بنیاد بنا کر 1984 میں حکومت نے تعلیمی اداروں سے سیاسی سرگرمیوں کو دیس نکالا دے ڈالا۔یوں نئی سوچ و فکر کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
اس پابندی کے باعث پاکستان بھر میں طلبہ وطالبات سیاسی شعور وآگاہی سے بے خبر ہونے لگے۔وہ نہیں جان سکے کہ بحث ومباحثے کا کلچر کیا ہے اور اختلاف رائے کو کس طرح سلیقے ، تہذیب و شائستگی سے برتا جاتا ہے۔اس کے برعکس معمولی اختلافات پر بھڑک اٹھنا طلبہ کا چلن بننے لگا۔آج بھی یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا میں تو نوجوان طلبہ و طالبات بہت سرگرم ہیں مگر جب عملی سیاست کی بات آئے،تب بہ مشکل ایک فیصد طلبہ اس کے تقاضوں پر پورے اتر پاتے ہیں۔
ماضی میں کئی نوجوان طالب علم اپنے محلّوں میں لوگوں کے مختلف کام ہنسی خوشی انجام دیتے تھے۔کسی کا نلکا ٹھیک کرا دیا تو کبھی بل جمع کروا آئے۔یہی کام کرتے بعض نوجوان سماجی راہنما بن جاتے۔یہ نوجوان عوام کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہوتے۔انہی نوجوانوں میں بہت سے آگے چل کر سیاست دان بن جاتے۔پہلے وہ کونسلر بنتے پھر صوبائی اور قومی سطح پر نمایاں ہوتے۔چونکہ یہ نچلی سطح سے آتے لہذا وہ عوامی مسائل سے آگاہی رکھتے اور انھیں حل کرانے کی خاطر بھاگ دوڑ بھی کرتے۔
نفرت وتقسیم کی سیاست پھیلنے اور تعلیمی اداروں میں سیاسی مباحثوں پہ پابندی سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہت کم نوجوان طلبہ حکومتی دائرہ کار میں داخل ہونے لگے۔ان کی جگہ بالادست نظام سے وابستہ الیکٹ ایبلز نے لے لی۔یہ امیر افراد عموماً عوامی مسائل سے بے خبر ہوتے ۔اسی لیے عوام کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔دوسری سمت ان افراد نے دولت ،اثرورسوخ یا برادری کے بل بوتے پر اپنی پوزیشن اتنی مضبوط کر لی کہ ہر الیکشن پہ سیاسی جماعتیں انہی کی طرف دیکھتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اصل جنگ عوام اور بالادست طبقات کے درمیان ہے۔امرا عوام کو مختلف نسلی،لسانی ،مذہبی، معاشرتی طبقوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے اور یوں انھیں کمزور بناکے اپنے زیردست کر لیا۔عوام کو مگر نوجوان طلبہ اس قید سخت سے رہائی دلوا سکتے ہیں۔پاکستان میں خصوصاً شرط یہ ہے کہ طلبہ وطالبات میں ماضی کی طرح سیاسی وسماجی شعور جنم لے ۔وہ کھرے اور کھوٹے کے مابین تمیز کر سکیں۔وہ پھر عوام کے تمام طبقات کو متحد کر سکتے ہیں۔
کوئی مخلص پاکستانی لیڈر بالادست وکرپٹ نظام تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے حکومت سنبھال کر تمام کالجوں ویونیورسٹیوں میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنا ہوں گی۔اس طرح تعلیمی اداروں میں سیاسی ،سماجی و معاشی موضوعات پہ بحث ومباحثے کا کلچر دوبارہ جنم لے گا۔مل بیٹھنے سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے والے خیالات ونظریات سامنے آئیں گے۔اور یہ جوش وجذبہ بھی پیدا ہو گا کہ ان خیالات کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ پاکستان فلاحی،ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت میں ڈھل سکے۔