ممنوع دوا والسارٹان کو تاحال مارکیٹ سے واپس نہیں اٹھایا جا سکا
بد انتظامی کی وجہ سے مذکورہ دواکی مارکیٹ سے ری کال (واپسی)کو یقینی نہیں بنایا جاسکا، ماہرین علم الادویہ
ملک بھر سے ہارٹ فیلیور، ہائی بلڈ پریشر اورفالج سے بچاؤ میں استعمال کی جانیوالی Valsartanدواکوفوری واپس لینے کی ہدایت کے باوجود ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ مذکورہ دوا مارکیٹ سے واپس لی گئی یا نہیں۔
والسارٹان کی مارکیٹ سے واپسی کا لیٹرڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے 8جولائی کواتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرکے دستخط سے جاری کیا تھا تاہم ایکسپریس کے استفسارپرکہ دواکو مارکیٹ سے واپس منگوایا گیا یا نہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ، دوسری جانب سے مریضوں کوبھی اس بات کی تشویش ہورہی ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ مذکور دوا استعمال کی جائے یا نہیں۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر حمید اللہ ملک کاکہنا تھاکہ اسپتال میں مذکورہ دواکی فراہمی عارضی طورپر بند کردی گئی ہے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کومذکورہ دواکے حوالے سے واضح احکام جاری کرنے چاہئیں جو 15دن گزرنے کے بعد بھی جاری نہیں کیے جاسکے، دواؤں کوکنٹرول کرنے والا خود مختار ادارہ ڈریپ انتظامی طورپر مفلوج نظر آرہا ہے، مذکورہ دوا متعدد فارما کمپنیاں بنا رہی ہیں لہذا ڈریپ فوری طورپر دواکے حوالے سے واضح پالیسی کا اعلان کرے بصورت دیگر ڈاکٹر اور مریض دونوں پریشانی کے عالم میں ہیں۔
ایکسپریس کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دواکومارکیٹ سے واپس منگوانے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ٹھوس اقدامات نہیں یہی وجہ ہے کہ23جولائی تک مذکورہ دواکی مارکیٹ سے واپسی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں، ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام دوا کی مارکیٹ سے واپسی کیلیے تذبذب کا شکار ہیں۔ ذمے دار افسران کا کہنا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا انتظامی ڈھانچہ درہم برہم ہونے کی وجہ سے دواکی واپسی یقینی نہیں بنائی جاسکی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے موجودہ قائم مقام سی ای اوجوخودگریڈ19کے افسر ہیں اور وہ اتھارٹی میں ایڈیشنل ڈائریکٹرکی حیثیت سے تعینات ہیں تاہم سابقہ سیاسی حکومت کے ایما پر انھیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں گریڈ 21 کی اسامی پر قائم مقام سی ای اوتعینات کیاگیا تھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس گریڈ20کے مزید3 عہدے بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا نظام درہم برہم ہے، ملک میں دواؤں سے متعلق کوئی نیشنل پالیسی بھی نہیں۔
ماہرین علم الادویہ کا کہنا ہے کہ بد انتظامی کی وجہ سے مذکورہ دواکی مارکیٹ سے ری کال (واپسی)کو یقینی نہیں بنایا جاسکا۔
والسارٹان کی مارکیٹ سے واپسی کا لیٹرڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے 8جولائی کواتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرکے دستخط سے جاری کیا تھا تاہم ایکسپریس کے استفسارپرکہ دواکو مارکیٹ سے واپس منگوایا گیا یا نہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ، دوسری جانب سے مریضوں کوبھی اس بات کی تشویش ہورہی ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ مذکور دوا استعمال کی جائے یا نہیں۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر حمید اللہ ملک کاکہنا تھاکہ اسپتال میں مذکورہ دواکی فراہمی عارضی طورپر بند کردی گئی ہے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کومذکورہ دواکے حوالے سے واضح احکام جاری کرنے چاہئیں جو 15دن گزرنے کے بعد بھی جاری نہیں کیے جاسکے، دواؤں کوکنٹرول کرنے والا خود مختار ادارہ ڈریپ انتظامی طورپر مفلوج نظر آرہا ہے، مذکورہ دوا متعدد فارما کمپنیاں بنا رہی ہیں لہذا ڈریپ فوری طورپر دواکے حوالے سے واضح پالیسی کا اعلان کرے بصورت دیگر ڈاکٹر اور مریض دونوں پریشانی کے عالم میں ہیں۔
ایکسپریس کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دواکومارکیٹ سے واپس منگوانے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ٹھوس اقدامات نہیں یہی وجہ ہے کہ23جولائی تک مذکورہ دواکی مارکیٹ سے واپسی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں، ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام دوا کی مارکیٹ سے واپسی کیلیے تذبذب کا شکار ہیں۔ ذمے دار افسران کا کہنا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا انتظامی ڈھانچہ درہم برہم ہونے کی وجہ سے دواکی واپسی یقینی نہیں بنائی جاسکی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے موجودہ قائم مقام سی ای اوجوخودگریڈ19کے افسر ہیں اور وہ اتھارٹی میں ایڈیشنل ڈائریکٹرکی حیثیت سے تعینات ہیں تاہم سابقہ سیاسی حکومت کے ایما پر انھیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں گریڈ 21 کی اسامی پر قائم مقام سی ای اوتعینات کیاگیا تھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس گریڈ20کے مزید3 عہدے بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا نظام درہم برہم ہے، ملک میں دواؤں سے متعلق کوئی نیشنل پالیسی بھی نہیں۔
ماہرین علم الادویہ کا کہنا ہے کہ بد انتظامی کی وجہ سے مذکورہ دواکی مارکیٹ سے ری کال (واپسی)کو یقینی نہیں بنایا جاسکا۔