جہاز میں

دو دن کے بعد میں واپسی کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر موجود تھا۔


Tariq Mahmood Mian May 12, 2013
[email protected]

اسلام آباد جانے کے لیے ڈولتی ہوئی سرنگ سے جہاز کے اندر داخل ہونے والا میں آخری آدمی تھا۔ میں یہ ریکارڈ کئی بار بنا چکا ہوں۔ اس کی وجہ کبھی آئندہ بتاؤں گا۔ داخل ہوتے ہی سامنے جو پہلا شخص دکھائی دیا وہ کراچی سے منتخب ہونے والا لال ٹوپی والا سینیٹر تھا۔ دیکھتے ہی اطمینان ہوگیا کہ اب یہ سفر محفوظ ہے۔ اور پھر حفاظت سے اسلام آباد پہنچ بھی گیا۔یہاں یک طرفہ سفر کی داستان ختم ہوئی۔ آئیے! اب واپس چلتے ہیں۔

دو دن کے بعد میں واپسی کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ رنگ، خوشبو اور پیراہن۔ ٹرانزٹ لاؤنج میں مسافروں کو دیکھ کے اندازہ ہوگیا کہ کوئی بارات بھی سفر کرے گی۔ جہاز آدھی رات کے بعد روانہ ہونے والا تھا۔ ایک طویل قطار کے آخر میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ میری سیٹ کے گرد فضائی میزبان خواتین کا ایک ہجوم موجود ہے اور انھیں میرا انتظار ہے۔ وہ میری نشست میں ردوبدل کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے کہا کرلو۔

مسئلہ یہ تھا کہ میرے برابر کی سیٹوں پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا اور ان دونوں کی گودوں میں ایک ہی سائز، ماڈل اور شکل کا ایک ایک شیرخوار موجود تھا۔ یوں ایک سائیڈ کی تین سیٹوں پر ہم پانچ لوگ بیٹھے تھے۔ فضائی میزبان نے بتایا کہ یہ حفاظتی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایمرجنسی کے لیے اس سائیڈ پر صرف ایکسٹرا آکسیجن ماسک موجود ہے۔ اس لیے دوسرے بچے کو کسی اور قطار میں بٹھانا ہوگا۔ میں نے کہا میں لے کے بیٹھ جاتا ہوں لیکن میری پیشکش ٹھکرادی گئی۔ مسئلہ بالآخر یوں حل ہوا کہ بہت دور ایک پچھلی قطار سے علامہ اشرفی صاحب کو لاکے میرے ساتھ والی سیٹ میں پھنسا دیا گیا اور بچوں کا باپ ایک بچے کو لے کے علامہ صاحب کی خالی کی ہوئی سیٹ پر چلا گیا۔

بچوں کے باپ کا نام منیر تھا۔ یہ مجھے ایسے معلوم ہوا کہ جہاز کے ٹیک آف کے ہر پانچ منٹ کے بعد ہمارے ساتھ بیٹھی ہوئی زینب پیچھے کی طرف منہ کرکے چلاتی تھی۔ ''اوئے مونی ی ی ر ر ر''۔ اس پر منیر جوابی چیخ مارتا۔ ''آیا زینب'' پھر وہ ترنت اٹھ کے آتا اور اس سے اپنا بچہ تبدیل کرکے واپس چلاجاتا تھا۔ منیر کی جگہ پر جن صاحب کو ہمارے ساتھ بٹھایا گیا تھا مجھے بہت دیر کے بعد معلوم ہوا کہ وہ علامہ اشرفی صاحب نہیں بلکہ کوئی اور ہیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ بھی اتنے ہی خوش خلق، ہنس مکھ اور ماشاء اللہ صحت مند تھے۔ ان کا نام ملک عبدالجبار تھا۔

ہماری سیٹوں کا مسئلہ حل ہوتے ہی جہاز کے ٹیک آف کا اعلان ہوگیا۔اوروں کی طرح میں نے بھی سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا۔ جہازکی بتیاں دھیمی کردی گئی تھیں۔ ہر طرف سکون تھا، اچانک اس خوابناک ماحول میں ایک درد بھری مردانہ چیخ ابھری اورفضا سوگوار ہوگئی۔ مسافر اٹھ اٹھ کے پیچھے کی طرف دیکھنے لگے۔ جانے کون تھا اور کیا دکھ تھا۔ پھر فوراً ہی اگلی چیخ کے ساتھ ہی یہ عقدہ کھل گیا ''ہائے ابا جی۔۔۔۔! اب میرے ساتھ کریلے گوشت کون کھائے گا''۔ وہ شاہکار ڈائیلاگ جو پہلے کتابوں میں پڑھا تھا، آج سننے کو مل گیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی کہ جہاز میں ہمارے سامان کے ہمراہ ایک لاش بھی سفر کر رہی ہے۔ وقفے وقفے سے آنے والی دکھ بھری چیخیں کراچی پہنچنے تک یہ بات یاد دلاتی رہیں۔

اتنے میں فضائی میزبانوں نے سامان خورونوش کا اہتمام شروع کردیا۔ روشنیاں تیز ہوگئیں اور پورا جہاز جاگ اٹھا۔ آگے والے حصے سے اونچے اونچے قہقہے بلند ہونے لگے۔ وہاں زرق برق لباس تھے اور چوڑیاں کھنکتی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں دو ٹولیوں میں تالیوں کی تال پر شادی کے گیتوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ پانچ سات بچے ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے راہداریوں میں دوڑتے پھرتے تھے اور کھانے کی ٹرالیوں سے ٹکراتے تھے تو ٹرالیاں بجتی اور میزبانیں کھنکتی تھیں۔ منیر جب چھٹی بار شیرخوار کو تبدیل کرنے کے لیے آیا تو ایک دوڑتا پھرتا شریر بچہ اسے زور سے چٹکی کاٹ کے نکل گیا۔ اس سے دونوں شیر خوار چلانے لگے۔ جس کے چٹکی کاٹی گئی تھی وہ بھی اور جو زینب کی گود میں تھا وہ بھی۔ شاید دونوں کے آن آف کرنے کا سوئچ ایک ہی تھا۔

کھانے کے نام پر جوکچھ بھی مہیا کیا گیا ملک عبدالجبار صاحب اسے کھانے سے محروم رہے۔ دراصل انھوں نے خود ہی انکارکردیا تھا کیونکہ خود ان کی اپنی قابل رشک صحت کی وجہ سے ان کے سامنے والی ٹرے کھل ہی نہیں سکتی تھی۔ چائے سے فارغ ہوکے میں نے وقت گزارنے کے لیے اپنے موبائل فون کو ''ایئرپلین موڈ'' میں آن کیا اور پہلے سے ڈاؤن لوڈ کیے ہوئے پیغامات پڑھنے لگا۔ میری پچھلی نشست پر جو کوئی بیٹھا تھا اس کا گلا شدید خراب تھا اور وہ بار بار کھانستا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکے جب وہ کھانسا تو یوں لگا کہ جہاز میں بیٹھے بیٹھے ٹرین کا کالا انجن میرے اوپر سے گزر گیا ہو۔ اس زلزلے کی وجہ سے موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے جاگرا۔ اتنے میں وہاں دوڑتے پھرتے بچوں میں سے ایک تیزی سے پلٹ کے آیا اور۔۔۔۔''اوہ۔۔۔۔میرے ابو کا فون۔۔۔۔۔ ''کہہ کے اسے اٹھا کے بھاگ لیا۔

میں اسے پکڑنے کے لیے تیزی سے اٹھا تو پیٹ پکڑ کے واپس گرگیا۔ سیٹ بیلٹ ابھی تک بندھی ہوئی تھی۔ بہرحال اس کے بعد میں دیر ادھر سے ادھر دوڑتا پھرا۔ کئی جگہ اس سے ملتے جلتے بچے بھی تلاش کرلیے لیکن موبائل ریکور نہ ہوسکا۔ میری تگ و دو یوں بھی ادھوری رہ گئی کہ اچانک جہاز کو شدید جھٹکے لگنے لگے۔ گھنٹی بجی اور اعلان ہوا کہ کوئی ایئرپاکٹ آگئی ہے اس لیے فوراً سیٹ پر جاکے بیلٹ باندھ لیں۔ میں دائیں بائیں سیٹوں کے کنارے پکڑتا ہوا، ڈولتا جھولتا واپس اپنی جگہ پر آگیا۔

کراچی کی سڑکوں پر میں چار بار اپنا موبائل گن پوائنٹ پر چھنوا چکا ہوں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ ہوائی جہاز میں بھی میرے ساتھ یہ واردات ہوگئی۔ متواتر جھٹکے لگنا بند ہوئے تو پاس سے گزرتی ہوئی ایک ایئرہوسٹس کو ملک عبدالجبار صاحب نے اشارے سے روکا اور پوری بتیسی نکال کے پوچھا۔۔۔۔۔ ''کیوں باجی کیا ہوا تھا؟ کیا جہاز کچے میں اتار دیا تھا؟'' اس پر وہ پیر پٹختے ہوئے آگے بڑھ گئی۔حالانکہ اسے اس بات پر ہنسنا چاہیے تھا۔

منیر سولہویں بار بچہ بدلنے آیا تو اعلان ہوا کہ ہم اب لینڈ کرنے والے ہیں۔ میں نے غور کیا تو اس وقت تک ان شیر خواروں کی تبدیلی کے دوران سات بار ان کے بوٹ میری گود میں گرچکے تھے۔ چار بار میں نے خود انھیں واپس پہنایا۔ تین بار فیڈر میری گود میں گرا اور دو بار ان کی چسنی۔ ایک بار تو پتہ نہیں میری قمیض پر کیا گرا تھا کہ بعد میں منیر ایک گیلے کپڑے سے اسے کافی دیر تک صاف کرتا رہا۔

ہاں تو میرے محبوب قارئین! بالآخر یہ سفر تمام ہوا۔ اس برزخ کا دروازہ کھلا تو سب تیزی سے باہر نکلے۔ آسمان کی طرف دیکھ کے اطمینان بھری آہ بھری۔۔۔۔۔اور جب آگے بڑھے تو جی دھک سے رہ گیا۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ ویسا ہی شہر تھا، ویسا ہی عالم تھا۔ وہی پرانا پاکستان تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں