الیکشن 2013ء کے روشن پہلو
دو تین برس قبل مجھے مسجد قرطبہ کے پہلو میں بہتے ہوئے دریائے الکبیر کو بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے.
الیکشن 2013ء کی گہما گہمی، سیاسی لیڈروں کے تیز و تند بیانات، وعدوں کے ڈریم ہاؤس اور لا اینڈ آرڈر کے مسائل اپنی جگہ اور بلا شبہ ان پہلوؤں پر بہت کچھ مزید لکھا بھی جا سکتا ہے لیکن مجھے اس صورتِ حال کے جس پہلو سے سب سے زیادہ دلچسپی ہے وہ روشنی اور اُمید کی وہ کرنیں ہیں جو ان بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہی ہیں ممکن ہے کچھ لوگوں کے نزدیک میرا یہ تأثر خوش فہمی یا بصارت کی خرابی پر مبنی ہو کہ مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ احباب پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے اور اس ضمن میں کچھ مخصوص نوعیت کے عالمی تجزیوں پر ایمان بالغیب رکھنے کے آشوب میں مبتلا ہیں بقول اشفاق احمد مرحوم یہ وہ لوگ ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کے خاتمے اور شکست و ریخت کی باتیں کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئی نئی فیکٹریوں اور پلاٹوں کی رجسٹریاں بھی ہمہ وقت جیبوں یا بریف کیسوں میں رکھتے ہیں میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں فطرتاََ ایک رجائیت پسند انسان ہوں اور کسی معاشرے کی زبوں ترین حالت میں بھی رب کائنات کو علیٰ کلِ شئی قدیر سمجھتا ہوں اور ہمیشہ گلاس کے اُس نصف حصے کو دیکھتا ہوں جو بھرا ہو ا ہے۔ سو میں اس الیکشن کے متوقع روشن پہلوؤں پر بات کرنے سے پہلے اپنی ایک پرانی نظم کی چند لائنیں دہرانا چاہتا ہوں کہ یہ میرے نزدیک وطنِ عزیز کے کم از کم 95% لوگوں کے ذہنی روّیئے کی ترجمان ہیں وہ اپنی اس سوچ کو لفظوں کا روپ دینے میں شائد بوجوہ دِقت محسوس کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اُن کے دلوں کی آواز یہی ہے کہ
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیؤں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
یہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے
رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا
اس وقت میں اس میں صرف اتنا ہی اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سُورج کہیں اور سے نہیں بلکہ یہیں سے نکلے گا اور اُس کی کرنیں اپنے وجود اور ہونے کا اظہار کرنا شروع بھی کر چکی ہیں۔ جیسا کہ میں نے ابتداء میں عرض کیا ہے کہ میں اپنے دعویٰ کی وضاحت میں انتخابی تجزیئے اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت اور اُن کی متوقع سیٹوں کے حوالے سے بات نہیں کروں گا کہ یہ تماشہ تو پوری قوم گزشتہ ایک ماہ سے صبح و شام دیکھ رہی ہے اور بظاہر بیشتر تجزیہ نگار اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ان انتخابات میں کسی پارٹی کو ایسی واضح اکثریت نہیں مل سکے گی کہ وہ باقیوں سے بے نیاز ہو کر اپنی حکومت قائم بھی کرے اور چلا بھی سکے سو آئندہ حکومت بھی سیاسی جوڑ توڑ اور کچھ لو کچھ دو کے اصول پر ہی بنے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ''عوام '' کے لیے عملی طور پر اس الیکشن میں بھی خوشی کی کوئی خبر نہیں ہے ۔ جب کہ میرے خیال میں اگر اس صورتِ حال کو ایک مختلف زاویے سے دیکھا جائے تو اس میں خوشی کی بہت سی خبریں اور روشن پہلو موجود ہیں صرف اس کے لیے وہ آنکھ چاہیئے جو علامہ اقبال کے پاس تھی اور جس کی وساطت سے انھوں نے اپنی بصارت اور بصیرت کو ہم آمیز کرتے ہوئے کہا تھا
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
دو تین برس قبل مجھے مسجد قرطبہ کے پہلو میں بہتے ہوئے دریائے الکبیر کو بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے علامہ صاحب نے اپنی اس عظیم نظم کے آٹھویں اور آخری بند میں ایک بہت غور طلب، فکر انگیز اور امید افزا شعر کچھ یوں لکھا ہے کہ ۔
آبِ روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
تو میر ے خیال میں آج ہماری قوم بھی ایک ایسے ہی ''اور'' زمانے کا خواب دیکھ رہی ہے جو اُسے ہجوم سے ایک قوم کی شکل میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اس خواب کا تعبیر بردار بھی ہو گا جس کی بنیاد پر ہم نے یہ وطنِ عزیز حاصل کیا تھا برادرم ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا کیا باکمال مصرعہ ہے کہ
''ہجوم سے تو کبھی کارواں، بنا ہی نہیں''
دیکھا جائے تو ہجوم اور قافلے میں بنیادی فرق، منزل، راستے اور رہنماؤں کے تعین اُن کے معیار اور مسافروں کے ڈسپلن سے ہی عبارت ہوتا ہے۔ ہمارے اہلِ کارواں جو جمہوریت کے سفر پر زور و شور سے رواں دواں ہیں کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ راستے، منزل اور رہنماؤں کے انتخاب، معیار اور متعلقہ قوانین کی پابندی اور پاسداری کے حوالے سے وہ ''ہجوم'' اور ''قافلے'' کے درمیانی علاقے میں کہیں بھٹک رہے ہیں موجودہ الیکشن کی سب سے بڑی خوبی اور روشن پہلو یہی ہے کہ اس نے اس درمیانی Grey Area کو پہلے کی نسبت بہت صاف اور واضح کر دیا ہے اگرچہ میڈیا کا عمومی کردار سنسنی خیزی اور لڑائی جھگڑا کروانے والوں کا ہی رہا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کو عوامی شعور کی بیداری اور معاملات سے متعلقہ Awareness کو اُجاگر کرنے میں میڈیا نے بہت حد تک ایک مثبت رول بھی انجام دیا ہے اور آج آپ کو گلیوں محلوں اور کھیتوں کھلیانوں میں لوگ پہلے کی نسبت زیادہ واضح اور باشعور انداز میں باتیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔
جہاں تک جمہوری عمل کی طرف پیش رفت کا تعلق ہے تو اُس کے حوالے سے بھی کچھ مثبت تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں اگرچہ عوام میں تعلیم کی سطح اور معاشی آذادی اور Empowerment کی صورتحال اب بھی وہی ہے بلکہ شائد اُس سے بد تر ہے جو گزشتہ انتخابات کے موقع پر تھی لیکن اس دوران میں جس طرح سے نوجوان نسل نے ملکی معاملات، ووٹ کی اہمیت اور سیاسی عمل میں عام آدمی کی شمولیت کی معنویت کو محسوس اور پیش کیا ہے وہ ایک بہت ہی حوصلہ افزا صورتحال ہے اُن کی اس بیداری اور اپنی اور اپنے ووٹ کی اہمیت کے احساس نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جسے اگر بوتل سے نکلے ہوئے جن سے تشبیہ دی جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
ایک اور خوش آئند بات میڈیا پر عوام اور رائے عامہ کا Cross Check ہے کہ اب جو اینکر حضرات مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقریباََ پیشہ ور نمائندوں کو سامنے بٹھا کر اُن کے ساتھ ایک بلی چوہے کا سا کھیل کھیلا کرتے تھے اور وہ نام نہاد نمائندے جن کا کام زیادہ زور سے بول کر دیگر شرکاء پر الزام تراشی اور اپنی جماعت کے ہر اقدام اور عمل کی وکالت کرنا ہوتا تھا اُن کے بارے میں بھی اب عوامی ردّعمل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس ''نُورا کُشتی'' کو اب اُسی طرح سے دیکھتے ہیں جیسے وہ WWF والوں کے مار دھاڑ سے بھرپور نام نہاد مقابلوں کو دیکھتے ہیں میرے نزدیک عام آدمی کے ذہن کی یہ وسعت ہمارے مستقبل کے لیے ایک روشن دریچے کی طرح ہے جہاں سے تازہ ہوا اور روشنی ایک ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔
ان انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں اگر یہ خیریت سے اور ممکنہ حد تک ایمانداری اور غیر جانبداری سے ہو گئے (جس کی قوی امید ہے) تو آئندہ جو بھی حکومت، جس طرح سے بھی بنے گی اُس کو کُھل کھیلنے کی وہ آذادی کبھی نہیں مل سکے گی جو انھیں قیامِ پاکستان سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں حاصل رہی ہے اگر ہماری قوم نے اس امید افزا تبدیلی کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کوئی وجہ نہیں آئندہ چند برسوں میں پاکستان سچ مچ وہ ملک نہ بن جائے جو اس کا مقصد بھی ہے اور منزل بھی (آمین)