آج پانچ سال پورے ہوئے
ایک روز جسٹس محمد حسن سندھڑ کا ٹیلیفون آیا کہ کیا یہ تم نے کالم نویسی شروع کر دی ہے.
ابتدا یوں ہوئی کہ بغیر سفارش، تعارف اور کالم نویسی کی سابقہ ہسٹری کے میرا ایک مضمون جو میں نے جاوید اقبال کو ملنے والے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کی تقریب میں پڑھنے کے لیے لکھا تھا، ایک بڑے اخبار کو بھی بھیج دیا جو اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپ گیا۔ محترم ایڈیڑکی اس نوازش کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ مضمون کا عنوان ''بیورو کریٹ کارٹونسٹ'' تھا جو کسی مغالطے یا مبالغے کی لغزش سے پاک تھا اور انیس سال بعد بھی میں اس عنوان میں ترمیم کی گنجائش نہیں پاتا۔ بہرحال اس کالم کی اشاعت سے تحریک پا کر مزید کالم لکھے جو چھپتے رہے۔
ایک روز جسٹس محمد حسن سندھڑ کا ٹیلیفون آیا کہ کیا یہ تم نے کالم نویسی شروع کر دی ہے یا تمہارا کوئی ہم نام ہے۔ جج صاحب میرے سیشن جج رہ چکے تھے اور مجھ پر شفقت فرماتے تھے۔ میں نے اقبال جرم کے علاوہ کالم کے ساتھ آئندہ تصویر بھی چھپوانے کا وعدہ کر لیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے تواتر سے لکھنا شروع کر دیا بلکہ جو پہلا کالم بمع تصویر چھپا اس کا عنوان تھا ''تصویر میں کیا رکھا ہے'' اور اس میں ثابت کیا کہ بڑے لکھاریوں کا تو نام ہی سند کا درجہ رکھتا ہے، اسی لیے پوسٹ کارڈ جس پر ''مرزا غالب دلی'' لکھا ہوتا تھا، گلی محلے اور مکان نمبر کے بغیر ہی اسد اللہ خاں غالب کو وصول ہو جاتا تھا۔ یہاں روزانہ ڈیڑھ سو لکھاری کالم نویسی کرتے ہیں، کون کسی کو جانتا اور پہچانتا ہے اور کتنوں کو پڑھا بھی جاتا ہے۔ تو جناب یہ کالم نویسی کا ایک دور تھا جس کا عرصہ تقریباً چودہ سال تک رہا جو تین کتابوں میں محفوظ ہو گیا۔
مئی 2008ء میں بعض وجوہات کی بنا پر میں نے کسی دوسرے اخبار میں اپنے کالم چھپوانے کا سوچا۔ میں نے مشورے کے لیے اپنے دوست جاوید چوہدری کو ٹیلیفون کیا۔ اس نے بغیر کسی توقف کے مجھے کہا کہ ایکسپریس ایک معیاری روزنامہ ہے، میں عباس اطہر سے تمہارا ذکر کرنے لگا ہوں۔ پندرہ منٹ بعد ان سے وقت لے کر بتاتا ہوں تم ان کے علاوہ اور کسی سے نہ ملو۔ میں نے عباس اطہر کا نام ''اِدھر ہم اُدھر تم'' والی مشہور اخباری سرخی کے حوالے سے سن رکھا تھا۔ چند روز کے بعد یہیں ان کے کمرے میں بیٹھا ان سے چائے پی رہا تھا تو انھوں نے کہا کہ یہ ہماری دوسری ملاقات ہے۔
میں نے تصحیح کی کہ نہیں یہ پہلی ملاقات ہے۔ وہ مسکرائے اور بولے پہلی ملاقات میں آپ نے بحیثیت ایڈیشنل کمشنر لاہور مجھے اپنے دفتر میں کئی سال قبل چائے پلائی تھی، پھر وضاحت کی کہ میں رحمت علی رازی سے سفارش کروا کے اپنے ذاتی کام سے آپ کے پاس آیا تھا۔ میں نے پوچھا کام جائز تھا۔ کہنے لگے جائز تھا اور آپ نے کر دیا تھا۔ ان کی خواہش تھی میں ہفتے میں دو کالم لکھوں۔ میں نے کہا ایک لکھوں گا۔ میرا پہلا کالم روزنامہ ایکسپریس میں 12 مئی 2008ء کو بعنوان ''عفریت گہرا سمندر اور دوراہا'' شائع ہوا۔ اسی روز میں نے شام کے وقت ان کے دفتر میں تیسری بار چائے پی اور عجب حسن اتفاق ہے جس روز یہ کالم چھپ رہا ہے 12 مئی ہے لیکن سن 2013ء ہے اور عباس اطہر اپنے دفتر میں نہیں، اب کچھ عرصہ تک ہم اِدھر ہیں اور وہ اُدھر ہمیشہ کے لیے۔
عباس اطہر مرحوم طویل علالت کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر 6 مئی کی صبح خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی طویل صحافتی زندگی میں جو اتار چڑھاؤ آئے ان میں قید و بند کی صعوبتیں، جلا وطنی اپنی جگہ لیکن ان کے رگ و پے میں بھٹو فیکٹر کسی منطق و دلیل کو مانے بغیر تادم آخر قائم رہا جس پر ان سے کوئی جیت سکتا تھا نہ ان کے خیالات پر بحث میں ان سے بھٹو کی محبت میں رخنہ ڈال سکتا تھا۔ ان کی بھٹو فیملی سے محبت ان کا ایسا اثاثہ تھا جس میں وہ کسی کو چھیڑ چھاڑ کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔ یہ بہرحال ان کی ذاتی سوچ تھی جس پر بحث یا تنقید کا وقت گزر چکا۔
ان کی علالت کے طویل عرصہ میں اخبار کی انتظامیہ کا رویہ اور طرز عمل قابل تحسین رہا کہ ان کے علاج اور مراعات کے حوالے سے کسی قسم کی کمی نہ ہوئی۔ یہ دراصل شاہ جی کی صحافتی جدوجہد، قربانیوں اور اپنے مشن کا ثمر تھا جو دوسرے اداروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ خود شاہ جی نے بھی ادارے میں پورے خلوص نیت کا مظاہرہ کیا اور اخبار کا معیار بلند کرنے میں پوری تندہی سے کام کیا۔ مجھ سے پہلی ہی ملاقات میں جسے خود انھوں نے دوسری قرار دیا، انھوں نے میرا مرہون احسان ہونے کا جس طرح انکشاف اور اظہار کیا ان کے کھرے انسان ہونے کی دلیل ہے ۔ وہ روز وفات 6 مئی 2013ء تک گروپ ایڈیٹر کے منصب پر متمکن رہے۔
مجھے کالم نویسوں کی برادری میں داخل کرنے والوں میں جاوید اقبال اور اطہر مسعود ہیں۔ اس پر قائم رکھنے میں جسٹس محمد حسن سندھڑ کی ٹیلیفون کال تھی، ایک اخبار سے دوسرے کی طرف رجوع کرنے میں جاوید چوہدری کا مشورہ جب کہ روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر کا پہلی ملاقات کو دوسری قرار دیتے ہوئے مرہون احسان ہونے کا انکشافی اقرار جو اس زمانے میں بہت کم لوگ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ شاہ جی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ دیکھیے مجھے آپ کے اخبار میں کالم لکھتے ہوئے آج پانچ سال ہو گئے ہیں۔
ایک روز جسٹس محمد حسن سندھڑ کا ٹیلیفون آیا کہ کیا یہ تم نے کالم نویسی شروع کر دی ہے یا تمہارا کوئی ہم نام ہے۔ جج صاحب میرے سیشن جج رہ چکے تھے اور مجھ پر شفقت فرماتے تھے۔ میں نے اقبال جرم کے علاوہ کالم کے ساتھ آئندہ تصویر بھی چھپوانے کا وعدہ کر لیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے تواتر سے لکھنا شروع کر دیا بلکہ جو پہلا کالم بمع تصویر چھپا اس کا عنوان تھا ''تصویر میں کیا رکھا ہے'' اور اس میں ثابت کیا کہ بڑے لکھاریوں کا تو نام ہی سند کا درجہ رکھتا ہے، اسی لیے پوسٹ کارڈ جس پر ''مرزا غالب دلی'' لکھا ہوتا تھا، گلی محلے اور مکان نمبر کے بغیر ہی اسد اللہ خاں غالب کو وصول ہو جاتا تھا۔ یہاں روزانہ ڈیڑھ سو لکھاری کالم نویسی کرتے ہیں، کون کسی کو جانتا اور پہچانتا ہے اور کتنوں کو پڑھا بھی جاتا ہے۔ تو جناب یہ کالم نویسی کا ایک دور تھا جس کا عرصہ تقریباً چودہ سال تک رہا جو تین کتابوں میں محفوظ ہو گیا۔
مئی 2008ء میں بعض وجوہات کی بنا پر میں نے کسی دوسرے اخبار میں اپنے کالم چھپوانے کا سوچا۔ میں نے مشورے کے لیے اپنے دوست جاوید چوہدری کو ٹیلیفون کیا۔ اس نے بغیر کسی توقف کے مجھے کہا کہ ایکسپریس ایک معیاری روزنامہ ہے، میں عباس اطہر سے تمہارا ذکر کرنے لگا ہوں۔ پندرہ منٹ بعد ان سے وقت لے کر بتاتا ہوں تم ان کے علاوہ اور کسی سے نہ ملو۔ میں نے عباس اطہر کا نام ''اِدھر ہم اُدھر تم'' والی مشہور اخباری سرخی کے حوالے سے سن رکھا تھا۔ چند روز کے بعد یہیں ان کے کمرے میں بیٹھا ان سے چائے پی رہا تھا تو انھوں نے کہا کہ یہ ہماری دوسری ملاقات ہے۔
میں نے تصحیح کی کہ نہیں یہ پہلی ملاقات ہے۔ وہ مسکرائے اور بولے پہلی ملاقات میں آپ نے بحیثیت ایڈیشنل کمشنر لاہور مجھے اپنے دفتر میں کئی سال قبل چائے پلائی تھی، پھر وضاحت کی کہ میں رحمت علی رازی سے سفارش کروا کے اپنے ذاتی کام سے آپ کے پاس آیا تھا۔ میں نے پوچھا کام جائز تھا۔ کہنے لگے جائز تھا اور آپ نے کر دیا تھا۔ ان کی خواہش تھی میں ہفتے میں دو کالم لکھوں۔ میں نے کہا ایک لکھوں گا۔ میرا پہلا کالم روزنامہ ایکسپریس میں 12 مئی 2008ء کو بعنوان ''عفریت گہرا سمندر اور دوراہا'' شائع ہوا۔ اسی روز میں نے شام کے وقت ان کے دفتر میں تیسری بار چائے پی اور عجب حسن اتفاق ہے جس روز یہ کالم چھپ رہا ہے 12 مئی ہے لیکن سن 2013ء ہے اور عباس اطہر اپنے دفتر میں نہیں، اب کچھ عرصہ تک ہم اِدھر ہیں اور وہ اُدھر ہمیشہ کے لیے۔
عباس اطہر مرحوم طویل علالت کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر 6 مئی کی صبح خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی طویل صحافتی زندگی میں جو اتار چڑھاؤ آئے ان میں قید و بند کی صعوبتیں، جلا وطنی اپنی جگہ لیکن ان کے رگ و پے میں بھٹو فیکٹر کسی منطق و دلیل کو مانے بغیر تادم آخر قائم رہا جس پر ان سے کوئی جیت سکتا تھا نہ ان کے خیالات پر بحث میں ان سے بھٹو کی محبت میں رخنہ ڈال سکتا تھا۔ ان کی بھٹو فیملی سے محبت ان کا ایسا اثاثہ تھا جس میں وہ کسی کو چھیڑ چھاڑ کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔ یہ بہرحال ان کی ذاتی سوچ تھی جس پر بحث یا تنقید کا وقت گزر چکا۔
ان کی علالت کے طویل عرصہ میں اخبار کی انتظامیہ کا رویہ اور طرز عمل قابل تحسین رہا کہ ان کے علاج اور مراعات کے حوالے سے کسی قسم کی کمی نہ ہوئی۔ یہ دراصل شاہ جی کی صحافتی جدوجہد، قربانیوں اور اپنے مشن کا ثمر تھا جو دوسرے اداروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ خود شاہ جی نے بھی ادارے میں پورے خلوص نیت کا مظاہرہ کیا اور اخبار کا معیار بلند کرنے میں پوری تندہی سے کام کیا۔ مجھ سے پہلی ہی ملاقات میں جسے خود انھوں نے دوسری قرار دیا، انھوں نے میرا مرہون احسان ہونے کا جس طرح انکشاف اور اظہار کیا ان کے کھرے انسان ہونے کی دلیل ہے ۔ وہ روز وفات 6 مئی 2013ء تک گروپ ایڈیٹر کے منصب پر متمکن رہے۔
مجھے کالم نویسوں کی برادری میں داخل کرنے والوں میں جاوید اقبال اور اطہر مسعود ہیں۔ اس پر قائم رکھنے میں جسٹس محمد حسن سندھڑ کی ٹیلیفون کال تھی، ایک اخبار سے دوسرے کی طرف رجوع کرنے میں جاوید چوہدری کا مشورہ جب کہ روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر کا پہلی ملاقات کو دوسری قرار دیتے ہوئے مرہون احسان ہونے کا انکشافی اقرار جو اس زمانے میں بہت کم لوگ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ شاہ جی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ دیکھیے مجھے آپ کے اخبار میں کالم لکھتے ہوئے آج پانچ سال ہو گئے ہیں۔