جالب نے الیکشن لڑا تھا
جالب صاحب کوٹھی کے اندر داخل ہوئے تو وسیع لان میں بھی لوگ جمع تھے
آج خلاف توقع میاں محمد علی قصوری کی کوٹھی کے باہر بہت مجمع تھا، حبیب جالب اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پنجاب کے صدر کے گھر پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر حیران تھے کہ ایک آواز ان کو سنائی دی ''بھٹو صاحب آئے ہوئے ہیں'' جالب صاحب یہ سن کر مطمئن سے ہوگئے اور سوچا کہ بھٹو صاحب اپنا کوئی مقدمہ میاں صاحب سے Discuss کرنے آئے ہوں گے۔
جالب صاحب کوٹھی کے اندر داخل ہوئے تو وسیع لان میں بھی لوگ جمع تھے،جالب صاحب کو دیکھ کر احمد رضا قصوری نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ''جالب صاحب! میاں صاحب تو پیپلزپارٹی میں آگئے اب آپ کب آئیں گے''؟ جالب صاحب یہ سن کر احمد رضا قصوری کی طرف مڑے اور غصے میں کہا ''کیا کہتے ہو! یہ نہیں ہوسکتا'' جالب صاحب کی آواز سن کر میاں محمود علی قصوری کمرے سے باہر آئے اور جالب صاحب کو پکڑ کر اندر کمرے میں لے گئے، کمرے میں ذوالفقار علی بھٹو بیٹھے ہوئے تھے،
میاں صاحب نے بھٹو صاحب سے کہا''بھٹو صاحب! جالب صاحب نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں، لہٰذا ان کے لیے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ہونا چاہیے'' یہ سن کر بھٹو صاحب بولے ''قصوری صاحب! جالب میرا دوست ہے، آپ اس کی سفارش کیوں کررہے ہیں، میں انھیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑاؤں گا، ان کے جلسوں میں تقریر کروں گا ،انھیں مرکزی وزیر بناؤں گا انھیں... جالب صاحب نے بھٹو صاحب کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا ''جناب! میں تو آپ کی پارٹی میں نہیں آرہا'' یہ الفاظ کمرے کی فضاء میں ابھرے اور تاریخ میں ثبت ہوگئے۔
میاں محمود علی قصوری، حبیب جالب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے، جنرل ایوب کے دور میں بننے والے مقدمات میں جالب صاحب کی طرف سے عدالتوں میں پیش ہوتے تھے، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حبیب جالب انکار کردے گا، ادھر وقت کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک شاعر اتنی بڑی پیشکش کو ٹھکرا دے گا، جالب کا انکار سن کر بھٹو صاحب کا چہرہ اتر سا گیا اور وہ یہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلے گئے ''OK! Discuss with Qasuriبات ختم ہوگئی مگر بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ جالب پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائے، میاں محمود علی قصوری نے پورا زور لگالیا گھر آئے، بھابی صاحبہ سے کہا کہ جالب کو سمجھاؤ، مگر بظاہر سادہ مزاج نظر آنے والا حبیب جالب اپنے فیصلوں میں کسی رو رعایت کا قائل نہیں تھا اور جالب نے قصوری صاحب سے کہا ''قصوری صاحب! کبھی سمندر بھی دریاؤں میں گرے ہیں! آپ نے نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر کنویں میں چھلانگ لگا دی ہے۔''
قصوری صاحب کے ساتھ چھوڑنے پر نیب کے ساتھی بڑے افسردہ تھے، مشرقی پاکستان سے پروفیسر مظفر احمد (نیب کے صوبائی صدر) نے ولی خان صاحب کو فون کیا اور پوچھا ''جالب تو نہیں گئے؟'' ولی خان نے بتایا ''نہیں وہ نیب چھوڑ کر نہیں گئے''
اور میں سوچتا ہوں کہ اگر جالب صاحب اس وقت پیپلزپارٹی میں چلے جاتے، قومی اسمبلی کے ممبر بن جاتے، مرکزی وزیر بن جاتے تو ان کی کہانی وہیں ختم ہوجاتی اور جو عزت، جو احترام ، جو پیار،جو مقام آج (بیس سال انتقال کو ہوگئے) انھیں حاصل ہے وہ کہاں ہوتا۔
یہ واقعہ ہے پاکستان کے یادگار الیکشن1970کا ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، بھٹو جدھر اشارہ کردیتے وہ امیدوار جیت جاتا تھا، پورے مغربی پاکستان میں بھٹو، بھٹو ہورہی تھی کہ ایسے میں خالص نظریاتی بنیادوں پر قائم نیشنل عوامی پارٹی نے پنجاب اسمبلی کے لیے حبیب جالب کو ٹکٹ دے کر الیکشن میں کھڑا کردیا، جالب صاحب کا حلقہ انتخاب لاہور کا علاقہ گڑھی شاہو تھا جس میں ریلوے کالونی بھی آتی تھی، یہ علاقہ مجموعی طورپر مزدوروں اور غریب محنت کش لوگوں کا علاقہ تھا،
جالب صاحب کو پارٹی کے صدر خان عبدالولی خان نے ایک میگا فون دیا اور جالب صاحب اپنے حلقہ انتخاب میں دن رات اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیدل چل کر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ پیپلزپارٹی نے حبیب جالب کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کیاہواتھا، یہ کوئی چوہدری محمدعلی تھا، جو اپنے انتخابی جلسوں میں صرف اتنی سی تقریر کرتا تھا ''میرا نام چوہدری محمد علی ہے، مینوں بھٹو صاب نے کھڑا کیتا اے'' اور دوسری طرف حبیب جالب تھا جس کے لیے ہندوستان سے اداکار بلراج ساہنی(مشہور فلم روٹی کے ہیرو) نے اپیل کی کہ جالب صاحب کے مقابلے میں پیپلزپارٹی اپنے امیدوار کو Withdrawکرالے یہاں بھی آئی اے رحمان، عبداﷲ ملک، حمید اختر،عباس اطہر اوردیگر ترقی پسند حضرات نے ایسے ہی بیانات دیے مگر تاریخ میں جو لکھا جانا تھا اسے ہوکر رہنا تھا۔
بھٹو صاحب کی جماعت پیپلزپارٹی کے سامنے کھڑے ہوئے امیدوارجلسے نہیں کرپاتے تھے مگر حبیب جالب کی کارنر میٹنگز اور چھوٹے چھوٹے جلسوں کے خلاف پیپلزپارٹی کے کارکن کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں کرتے تھے در اصل وہ کارکن حبیب جالب کے ہی محبتی تھے، اور ان کا احترام کرتے تھے۔
الیکشن ہوئے، نتائج آئے اور عوام کا شاعر حبیب جالب صرف 750ووٹ حاصل کرسکا، آئی اے رحمان اور حمید اختر غالباً عبداﷲ ملک بھی تھے اور عباس اطہرمرحوم بطور چیف رپورٹر نئے اخبار روزنامہ آزاد میں شامل تھے، آزاد اخبارنے جالب صاحب کے انتخابی نتیجے کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی ''سیاست جیت گئی، شاعر ہار گیا'' کراچی ٹیلی ویژن پر سید محمد تقی تبصرہ کررہے تھے ''حبیب جالب کا ہارنا بڑے دکھ کی بات ہے'' میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گڑھی شاہو، ریلوے کالونی کے حلقے سے ہی حبیب جالب کے ساتھ قومی اسمبلی کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر معروف مزدور رہنما عظیم انسان مرزا ابراہیم بھی کھڑے ہوئے تھے اور وہ بھی ہار گئے تھے دراصل مرزا ابراہیم اور حبیب جالب کا پیپلزپارٹی کے سامنے اپنے نظریات پر ڈٹ کر کھڑے رہنا بڑا واقعہ ہے۔
حبیب جالب نے پیپلزپارٹی میں شامل نہ ہونے کے اپنے فیصلے کو نظم بند کیا تھا کہ کسی جماعت میں لوگوں کا اژدھام دیکھ کر راستہ تبدیل نہیں کیاجاتا، ملاحظہ فرمائیں۔
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں
کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم
ہوا کو دیکھ کے جالب مثال ہم عصراں
بجا یہ زعم ہمارا، نہیں بدلتے ہم