کچھ باتیں کچھ یادیں
عمران خان بھی آخرکارسورج گرہن کےاثرات کی لپیٹ میں آ گئے،صحت اورسیاست کےحوالےسےاہم ترین تاریخ 15,12,11اور19,18مئی ہیں۔
میری زندگی میں دو شخصیتوں کی بہت اہمیت ہے جنھوں نے میری پوری زندگی کو بدل ڈالا اور مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس کے بارے میں نہ کبھی سوچا تھا نہ کوشش کی نہ پلاننگ۔ میری زندگی کے اس غیر معمولی دور کی ابتدا 80 کی دہائی کے آخر سے ہوتی ہے، جب کچھ دوستوں کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے قریب ہوا۔
یہ مارچ 92 کی ایک شام تھی جب ایک سیاسی جلوس کا اختتام ہو رہا تھا، سینئر صحافی منو بھائی بھی اس جلوس میں شامل تھے۔ منو بھائی سے غائبانہ تعارف تو بچپن سے ہی ان کے کالموں کے ذریعے حاصل تھا، ویسے بھی وہ اس علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں میں رہتا تھا اور آتے جاتے ان کے گھر کے قریب سے گزرنا ہوتا تھا جس پر ان کے نام کی تختی لگی ہوتی۔ منو بھائی کو اس حوالے سے اپنا تعارف کراتے ہوئے ایک تحریر شدہ کاغذ انھیں دیا جو پیش گوئیوں پر مشتمل تھا جو انھوں نے اگلے روز پورا کا پورا چھاپ دیا۔
اگلے روز حامد میر صاحب سے ملاقات تھی جن کی فرمائش بریکنگ نیوز کی تھی چنانچہ ان کے ہنڈا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلبرگ روانہ ہو گئے جہاں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اجمل خٹک مرحوم سے ملاقات طے تھی۔ اس ملاقات کے شروع ہوتے ہی اجمل خٹک صاحب نے کہا کہ نقوی صاحب آج تو آپ پورے پاکستان میں مشہور ہو گئے۔
یہ بات بالکل صحیح تھی کہ ایک راہ چلتے گمنام شخص کو راتوں رات مشہور کر دینا ان کی ہی خوبی تھی جو آج کل بالکل ہی ناپید ہے۔ خود غرضی، نفسا نفسی اس دور میں بھی تھی لیکن آج کل جو حال ہے اللہ ہی سب کو بچائے، حسد اور لالچ نے ہمارے معاشرے کو بری طرح سے گھیر رکھا ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کی بات کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔
بے لوث اور بے غرض مدد اس دور کا خاصا تھا۔ منو بھائی ہوں یا شاہ جی عباس اطہر صاحب راہ چلتوں کی مدد کرنا ان کی ہابی تھی۔ اگر کسی نو آموز میں کوئی خوبی دیکھتے جو خود اس کے علم میں بھی نہ ہوتی تو اس کی گرومنگ کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ جب منو بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں زندگی کے دوراہے پر کھڑا تھا کہ کس طرف اور کدھر جاؤں۔ وہ جو کہتے ہیں جسے اپنے چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جاتے ہیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی منو بھائی کے کالموں میں چھپنے والی پیش گوئیوں کی جس میں ایک پیش گوئی مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں تھی ۔ جب وہ لاہور آئے تو مجھے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ آپ کے پاس وقت ہے، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ملاقات ہوئی۔ پھر وہ پارٹی کے لوگوں کے سامنے بتانے لگے کہ منو بھائی کے کالم میں نقوی صاحب کی میرے بارے میں پیش گوئی چھپی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جلا وطنی اتنے سالوں اتنے مہینوں اور دنوں میں ختم ہو گی۔ یہ پیش گوئی والدہ نصرت بھٹو صاحبہ نے دمشق میں مجھے بھیجی تھی۔ جب میں جلا وطنی ختم کر کے لاہور پہنچا تو ہم نے حساب لگایا تو میری جلا وطنی عین اس دن ختم ہوئی جس کی نقوی صاحب نے پیش گوئی کی تھی۔
پیش گوئیاں کرتے ہوئے مجھے 22 سال ہو رہے ہیں۔ نواز شریف اور بینظیر کی تمام حکومتیں میری دی ہوئی پیش گوئیوں پر گئیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ایک کم گو ''انٹرو ورٹ'' آدمی کو کس طرح قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے بغیر کسی کوشش کے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا جس کی انسان صرف آرزو ہی کر سکتا ہے۔ جب کہ اس علم کے حصول میں نہ میں نے کوئی کوشش کی نہ پڑھا اور نہ ہی کوئی میرا استاد تھا۔ بغیر کسی کوشش اور خواہش اور منصوبہ بندی کے قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے مجھے اس طرف دھکیل دیا اور وسیلہ منو بھائی کو بنایا جن کی بصیرت نے میرے اندر وہ چیز دیکھ لی جس سے میں خود لاعلم تھا۔
شاہ جی نے 1995ء میں صداقت اخبار کا آغاز کیا جس میں دنیائے صحافت کے بڑے نام جمع ہو گئے تھے۔ منو بھائی نے مجھے بھی لکھنے کو کہا ۔ میں نے بہانہ بنانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ اصرار رہا کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔ عزت کا معاملہ تھا، بھرم رکھنا تھا، سو ناچار لکھنا پڑا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور صداقت اخبار بھی کچھ عرصے بعد بند ہو گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ تجربہ اچھا تو لگا لیکن تھا بہت مشکل۔ پیش گوئیاں پہلے بھی چھپ رہی تھیں، اب وہ شاہ جی کے کالم کنکریاں میں چھپنے لگیں، جب وہ نوائے وقت میں تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد عباس اطہر صاحب ایکسپریس میں آ گئے۔ جناب عبدالقادر حسن نے کہا کہ ہمیں پیش گوئیاں دو چھاپنے کے لیے لیکن نصیحت کی کہ بہتر ہے کہ خود کالم لکھو۔
اب پھر کالم لکھنے پر زور تھا۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ شاہ جی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے میں ہم نیوز ایڈیٹر بننا صحافت کی معراج سمجھتے تھے لیکن بعد میں جا کر پتہ چلا کہ اصل چیز تو کالم نگار بننا ہے۔ سوچا چار و ناچار اس بھاری پتھر کو پھر سے چومنا پڑا جس کو مشکل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ شاہ جی کے اصرار اور محبت بھرے دباؤ نے آخر کار اس ناچیز کو بھی کالم نگار بنا ہی دیا۔ ایکسپریس اخبار کو جوائن کیے شاہ جی کو ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن میں ان کے آفس پہنچا تو جناب عبدالقادر حسن صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے ان دونوں محترم حضرات نے آپس کی گفتگو کے دوران جو الفاظ میرے کالموں کے بارے میں استعمال کیے وہ آج بھی میرے لیے باعث فخر ہیں جنھیں میں وقتاً فوقتاً دہراتا رہتا ہوں کہ ایک صحافت کا امام دوسرا کالم نگاری کا امام۔
میرے کالم کا عنوان ''دریچہ افلاک'' بھی شاہ جی نے خود ہی تجویز کیا۔ انھوں نے نصیحت کی چاہے کتنا بڑا تعلق دوستی ہو نظریے پر کبھی کمپرومائز نہ کرنا۔ ہمیشہ سچ لکھنا اور سچ لکھتے ہوئے کبھی نہ ڈرنا چاہے جان ہی خطرے میں پڑ جائے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی غرض کے پوری زندگی ٹیلنٹ کو پروموٹ کرتے رہے جو خود غرضی لالچ اور نفسانفسی کے اس دور میں ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین بات ہے۔ ایک جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے انسان کا اچانک بستر مرگ پر چلے جانا، میرے لیے ایک اذیت ناک تجربہ تھا جس نے ہفتوں مہینوں راتوں کو بے چین رکھا۔ ہر دور میں انسان بننا ہی بڑا مشکل رہا ہے لیکن شاہ جی تو اس سے بڑھ کر ایک بڑے انسان تھے۔ ایک سلام جو انھوں نے ہی لکھا وہ پیش خدمت ہے۔
سلام! سلام!
وہ بے چاروں کا چارہ گر تھا
اس کے ماتھے پر سورج چمکتا تھا
سلام! سلام!
٭...عمران خان بھی آخر کار سورج گرہن کے اثرات کی لپیٹ میں آ گئے، ان کی صحت اور سیاست کے حوالے سے اہم ترین تاریخ 15,12,11 اور 19,18 مئی ہیں۔
یہ مارچ 92 کی ایک شام تھی جب ایک سیاسی جلوس کا اختتام ہو رہا تھا، سینئر صحافی منو بھائی بھی اس جلوس میں شامل تھے۔ منو بھائی سے غائبانہ تعارف تو بچپن سے ہی ان کے کالموں کے ذریعے حاصل تھا، ویسے بھی وہ اس علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں میں رہتا تھا اور آتے جاتے ان کے گھر کے قریب سے گزرنا ہوتا تھا جس پر ان کے نام کی تختی لگی ہوتی۔ منو بھائی کو اس حوالے سے اپنا تعارف کراتے ہوئے ایک تحریر شدہ کاغذ انھیں دیا جو پیش گوئیوں پر مشتمل تھا جو انھوں نے اگلے روز پورا کا پورا چھاپ دیا۔
اگلے روز حامد میر صاحب سے ملاقات تھی جن کی فرمائش بریکنگ نیوز کی تھی چنانچہ ان کے ہنڈا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلبرگ روانہ ہو گئے جہاں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اجمل خٹک مرحوم سے ملاقات طے تھی۔ اس ملاقات کے شروع ہوتے ہی اجمل خٹک صاحب نے کہا کہ نقوی صاحب آج تو آپ پورے پاکستان میں مشہور ہو گئے۔
یہ بات بالکل صحیح تھی کہ ایک راہ چلتے گمنام شخص کو راتوں رات مشہور کر دینا ان کی ہی خوبی تھی جو آج کل بالکل ہی ناپید ہے۔ خود غرضی، نفسا نفسی اس دور میں بھی تھی لیکن آج کل جو حال ہے اللہ ہی سب کو بچائے، حسد اور لالچ نے ہمارے معاشرے کو بری طرح سے گھیر رکھا ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کی بات کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔
بے لوث اور بے غرض مدد اس دور کا خاصا تھا۔ منو بھائی ہوں یا شاہ جی عباس اطہر صاحب راہ چلتوں کی مدد کرنا ان کی ہابی تھی۔ اگر کسی نو آموز میں کوئی خوبی دیکھتے جو خود اس کے علم میں بھی نہ ہوتی تو اس کی گرومنگ کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ جب منو بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں زندگی کے دوراہے پر کھڑا تھا کہ کس طرف اور کدھر جاؤں۔ وہ جو کہتے ہیں جسے اپنے چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جاتے ہیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی منو بھائی کے کالموں میں چھپنے والی پیش گوئیوں کی جس میں ایک پیش گوئی مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں تھی ۔ جب وہ لاہور آئے تو مجھے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ آپ کے پاس وقت ہے، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ملاقات ہوئی۔ پھر وہ پارٹی کے لوگوں کے سامنے بتانے لگے کہ منو بھائی کے کالم میں نقوی صاحب کی میرے بارے میں پیش گوئی چھپی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جلا وطنی اتنے سالوں اتنے مہینوں اور دنوں میں ختم ہو گی۔ یہ پیش گوئی والدہ نصرت بھٹو صاحبہ نے دمشق میں مجھے بھیجی تھی۔ جب میں جلا وطنی ختم کر کے لاہور پہنچا تو ہم نے حساب لگایا تو میری جلا وطنی عین اس دن ختم ہوئی جس کی نقوی صاحب نے پیش گوئی کی تھی۔
پیش گوئیاں کرتے ہوئے مجھے 22 سال ہو رہے ہیں۔ نواز شریف اور بینظیر کی تمام حکومتیں میری دی ہوئی پیش گوئیوں پر گئیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ایک کم گو ''انٹرو ورٹ'' آدمی کو کس طرح قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے بغیر کسی کوشش کے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا جس کی انسان صرف آرزو ہی کر سکتا ہے۔ جب کہ اس علم کے حصول میں نہ میں نے کوئی کوشش کی نہ پڑھا اور نہ ہی کوئی میرا استاد تھا۔ بغیر کسی کوشش اور خواہش اور منصوبہ بندی کے قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے مجھے اس طرف دھکیل دیا اور وسیلہ منو بھائی کو بنایا جن کی بصیرت نے میرے اندر وہ چیز دیکھ لی جس سے میں خود لاعلم تھا۔
شاہ جی نے 1995ء میں صداقت اخبار کا آغاز کیا جس میں دنیائے صحافت کے بڑے نام جمع ہو گئے تھے۔ منو بھائی نے مجھے بھی لکھنے کو کہا ۔ میں نے بہانہ بنانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ اصرار رہا کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔ عزت کا معاملہ تھا، بھرم رکھنا تھا، سو ناچار لکھنا پڑا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور صداقت اخبار بھی کچھ عرصے بعد بند ہو گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ تجربہ اچھا تو لگا لیکن تھا بہت مشکل۔ پیش گوئیاں پہلے بھی چھپ رہی تھیں، اب وہ شاہ جی کے کالم کنکریاں میں چھپنے لگیں، جب وہ نوائے وقت میں تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد عباس اطہر صاحب ایکسپریس میں آ گئے۔ جناب عبدالقادر حسن نے کہا کہ ہمیں پیش گوئیاں دو چھاپنے کے لیے لیکن نصیحت کی کہ بہتر ہے کہ خود کالم لکھو۔
اب پھر کالم لکھنے پر زور تھا۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ شاہ جی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے میں ہم نیوز ایڈیٹر بننا صحافت کی معراج سمجھتے تھے لیکن بعد میں جا کر پتہ چلا کہ اصل چیز تو کالم نگار بننا ہے۔ سوچا چار و ناچار اس بھاری پتھر کو پھر سے چومنا پڑا جس کو مشکل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ شاہ جی کے اصرار اور محبت بھرے دباؤ نے آخر کار اس ناچیز کو بھی کالم نگار بنا ہی دیا۔ ایکسپریس اخبار کو جوائن کیے شاہ جی کو ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن میں ان کے آفس پہنچا تو جناب عبدالقادر حسن صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے ان دونوں محترم حضرات نے آپس کی گفتگو کے دوران جو الفاظ میرے کالموں کے بارے میں استعمال کیے وہ آج بھی میرے لیے باعث فخر ہیں جنھیں میں وقتاً فوقتاً دہراتا رہتا ہوں کہ ایک صحافت کا امام دوسرا کالم نگاری کا امام۔
میرے کالم کا عنوان ''دریچہ افلاک'' بھی شاہ جی نے خود ہی تجویز کیا۔ انھوں نے نصیحت کی چاہے کتنا بڑا تعلق دوستی ہو نظریے پر کبھی کمپرومائز نہ کرنا۔ ہمیشہ سچ لکھنا اور سچ لکھتے ہوئے کبھی نہ ڈرنا چاہے جان ہی خطرے میں پڑ جائے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی غرض کے پوری زندگی ٹیلنٹ کو پروموٹ کرتے رہے جو خود غرضی لالچ اور نفسانفسی کے اس دور میں ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین بات ہے۔ ایک جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے انسان کا اچانک بستر مرگ پر چلے جانا، میرے لیے ایک اذیت ناک تجربہ تھا جس نے ہفتوں مہینوں راتوں کو بے چین رکھا۔ ہر دور میں انسان بننا ہی بڑا مشکل رہا ہے لیکن شاہ جی تو اس سے بڑھ کر ایک بڑے انسان تھے۔ ایک سلام جو انھوں نے ہی لکھا وہ پیش خدمت ہے۔
سلام! سلام!
وہ بے چاروں کا چارہ گر تھا
اس کے ماتھے پر سورج چمکتا تھا
سلام! سلام!
٭...عمران خان بھی آخر کار سورج گرہن کے اثرات کی لپیٹ میں آ گئے، ان کی صحت اور سیاست کے حوالے سے اہم ترین تاریخ 15,12,11 اور 19,18 مئی ہیں۔