ووٹ نعرے کی بنیاد پر نہیں کارکردگی کی بنیاد پر دیجیے

ووٹ انہیں دیں جو آپ جیسا ہو،آپ کے حلقے میں مہمان بن کر ووٹ کےلیے نہ آتا ہو بلکہ جیتنے کے بعد آپ لوگوں کے درمیان رہے

عقیدہ، ذات برادری کے زیر اثر آ کر ووٹ مت دیں بلکہ ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر دیں۔ فوٹو: فائل

الیکشن 2018 کا غلغلہ ہے، آج پولنگ کا دن آن پہنچا، ہر پارٹی کارکن یوں اپنے لیڈر کی صفائیاں پیش کرتے ہوئے دوسرے کی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہوئے اپنی چرب زبانی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے وہ نعرے مار رہا ہے جو ستر سال سے سن سن کر کان پک گئے ہیں مگر نعرے اگلنے والی یہ زبانیں بدزبانی اور بدتہذیبی کی آمیزش کے ساتھ بس چلی جارہی ہیں اور عوام ہیں کہ شب و روز یہ تماشے بس دیکھے جارہے ہیں؛ نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی راہ جہاں ذات برادری پیر، ملک، خان نے کہہ دیا بس اہل علاقہ پر ان کا کہا پتھر کی لکیر ہوگیا۔

[poll id="1441"]

میرا تعلق خیبرپختونخوا کے دور دراز قصبے سے ہے جہاں گیس نہیں، بجلی آٹھ آٹھ گھنٹے نہیں آتی، اگر آئے تو وولٹیج کم، کہ نہ فریج چلے نہ پنکھے، پانی والی موٹر کئی بار جل گئی۔

کنویں کے پانی خشک، پینے کے صاف پانی کی تنگی، کوسوں دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔

کوئی انڈسٹری نہیں، کارخانے نہیں، لوگ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے شہروں میں روزگار کے لئے جاتے ہیں، غربت کی شرح دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے، بے روزگاری میں یہاں کے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔

سیاحتی طور پر بھی کوئی ایڈوانٹیج نہیں، صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں آئے دن بم دھماکوں اور ذرائع ابلاغ کے فقدان کی وجہ سے سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے، یہاں پر لوگ یا تو زراعت کے ساتھ جڑے ہیں یا پھر سیاحتی مقام پر قائم چھوٹے ہوٹل یا دکانیں مقامی افراد کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔ سیاحت کی صنعت ملکی معیشت کو نہ صرف دوام دیتی ہے بلکہ اس سے زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے لیکن دہشت گردی، سستی، عدم دلچسپی کے باعث یہ صنعت پنپ نہ سکی، غیر ملکی سرمایہ کار اور سیاح بھی یہاں کا رخ نہیں کرتے جس کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں سیاحت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور مقامی افراد کے کاروبار بھی تباہ ہورہے ہیں ان علاقوں میں غربت کی شرح دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔

دور دراز کے قصبوں میں تعلیمی اداروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں پرائمری کے بعد لڑکیوں کا سکول نہیں، .کچی نوکری سے وابستہ باپ اپنی تیرہ چودہ سالہ جوان بچی کو اپنی مزدوری چھوڑ کر روزانہ گارڈ کے طور پر کیسے ساتھ جا سکتا ہے؟ یا پھر تن تنہا بچی کو ڈرائیور کے ساتھ یا پیدل سکول کیسے بھیجے؟یہی وجہ ہے کہ یہاں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے اور کم عمری میں بیاہے جانے کی روایت بہت زیادہ ہے۔


سیوریج کا کوئی نظام نہیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت لیٹرین اور غسل خانے تعمیر کرتے ہیں مگر جا بجا گندے پانی کے جوہڑ اور مکھیاں مچھر، ہیضے اور مہلک بیماریوں کا باعث بن کر کئی قیمتی جانوں کا ضیاع بنتے ہیں نکاسی آب کے لیے پختہ نالیاں اور پختہ گلیاں 2018 میں بھی اک دیوانے کا خواب ہے۔

پھر کچھ کہو، تو شاہ کے وفادار آجاتے ہیں ایسا نہ کہو، ویسا نہ کہو، .بیٹری کے پنکھے چلا کر، . اپنے لیڈروں کے گن گانے والوں کو فقط اتنا کہنا ہے کہ نعرے، وعدے، دعوے سے یہ پاپی پیٹ نہیں بھرتے۔ ستر سال ہوگئے، اب تو شخصیت پرستی کے حصار سے نکلو۔ نعرے لگاتے ہوئے اگر اپنا نہیں سوچتے تو اپنے آنے والی نسلوں کا تو سوچو، کیا انھیں بھی اپنی جیسی گلی سڑی مفلس زدہ زندگی دان کرنا چاہتے ہو، آخر کیوں؟ اور کب تک یہ نیند کے انجکشن لگا کر بے سدھ ہو کر اپنی بنیادی ضروریات سے منہ موڑتے رہو گے؟ جاگتے کیوں نہیں، اپنے حق کے لیے بولتے کیوں نہیں؟

ووٹ انہیں دیں، جو آپ جیسا ہو، آپ کے حلقے میں مہمان بن کر ووٹ کے لیے نہ آتا ہو، بلکہ برسر اقتدار آنے کے بعد آپ لوگوں کے درمیان رہے، لوگوں کے مسائل خود سنے انھیں حل کرے۔


تعلیم، لوڈشیڈنگ، پینے کے صاف پانی کے لیے منہ زبانی نعرے نہ مارتا ہو بلکہ عملی اقدام کرتا ہوا، سڑکوں پر آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہو۔ اس کے بچے بھی آپ کے بچوں کے ہی سکول میں پڑھیں اس کے گھر کی خواتین بھی سرکاری ہسپتال میں لائن میں کھڑی ہو کر پرچی بنوائیں، سرکاری لینڈ کروزر میں نہ گھومتا ہو، پروٹوکول کا شیدائی نہ ہو عام آدمی ہو، آپ کی طرح میری طرح، ہمارے مسائل پر جس کا دل تڑپے اور ایوان ہلا دے۔

ووٹ دیتے وقت صرف اتنا خیال رکھیں کہ آپ جس پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں کیا یہ وہی پارٹی ہے جس نے آپ کو بارہا مایوس کیا، تو پھر اسے ووٹ اس بار کیوں دے رہے ہیں؟ یہ سوال دوسروں سے نہیں خود سے کیجیے دوسرا سیاسی قائدین کو بت بناکر مت پوجیں۔

تعلیم، صحت، صفائی، پینے کے صاف پانی پر جس کا ایجنڈا واضح اور مستحکم ہو اور جو اس حوالے سے کام کرنا جانتا ہو ووٹ کا اصل حقدار بھی وہی ہے۔

اگر یہ اپنے بنائے گئے منشور کے مطابق کام نہیں کرتے تو انھیں مکمل مسترد کر دیں۔ عقیدہ، ذات برادری کے زیر اثر آ کر ووٹ مت دیں بلکہ ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر دیں۔

اپنے شعور سے سوال کیجیے کہ ان ستر سالوں میں یکے بعد دیگرے جو حکمران آئے، کیا اب بھی انھیں ہی ووٹ دیں گے؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ اس بار کسی نئے لیڈر کو آزمایا جائے، نئی قیادت کو سامنے لایا جائے جو اس ملک وقوم کی ترقی کے لئے کے لیے صرف منشور پیش نہ کرے بلکہ ان منشور پر عملی طور پر بھی بہترین کارکردگی دکھائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story