کیا تبدیلی آئے گی
جس ملک میں جاگیردارانہ فکر کا ورثہ قائم ہو وہاں شخصی سحر کو اہمیت دی جاتی ہے
علم البروج کے مطابق 25جولائی ذہنی توانائی کے اعتبار سے ایک بھرپور دن ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں جاگیردارانہ ذہنیت کی جانب سے ووٹر کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اس کے باوجود اگر پاکستانی ووٹر نے صرف اپنے دل یا دماغ یا دونوں کی بات سنی تو اگلے چند ہی دنوں میں ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔
جس ملک میں جاگیردارانہ فکر کا ورثہ قائم ہو وہاں شخصی سحر کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن کیا ہمارا عام شہری اپنے ووٹ کی قدر و قیمت پہچانتے ہوئے کارکردگی کی بنیاد پراس کا استعمال کریگا یا چاند تارے توڑ کر لانے کے وعدے کرنے والوں کے فریب میں آجائے گا؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی منتخب ہوتے ہیں جو زیادہ بڑی بولی لگانے والوں کے ہاتھوں بہ خوشی ''فروخت'' ہوجاتے ہیں۔ جو پیسے کے بل پر ایسے منتخب نمایندوں کی وفاداریاں تبدیل کروا سکتے ہیں ، کیا ان کے لیے انتخاب ایک بے حیثیت مشق سے زیادہ کوئی اہمیت رکھتا ہے؟ اس سے صرف یہ خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری عمل کے لیے احتساب ناگزیر ہے۔
آج حالات نارمل نہیں، ہر جانب بے یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ مستونگ، پشاور اور بنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے خدشات کو بڑھا دیا ہے اور حالات کا منظر نامہ مزید دھندلاگیا ہے۔ انتخابی نتائج کی پیش گوئی ایک پیچیدہ کام ہے، بالخصوص پاکستان میں تو یہ دشواری مزید بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی انتخابی مہم کے یکساں مواقعے نہ ملنے اور قبل از الیکشن دھاندلی جیسے الزامات عائد کررہی ہیں۔ ن لیگ تو ایسے لوگوں کا باقاعدہ نام لے رہی ہے۔ اگر وہ اپنے مؤقف میں اتنے ہی سچے ہیں تو کیوں باقاعدہ شکایات درج نہیں کرواتے؟ اور اگر یہ الزامات ثابت نہیں ہوتے تو انھیں بہتان تراشی کے قانونی نتائج بھگتنے چاہییں۔ ''ناموافق'' انتخابی نتائج آنے کی صورت میں، احتجاج کا دروازہ کھلا رکھنے کے لیے، پہلے ہی سے انتخابی عمل میں دھاندلی کا واویلا مچانا پرانا حربہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی مہم میں رکاوٹ کے حوالے سے بلاول کی شکایات کا فوری نوٹس لے کر پنجاب کی نگراں حکومت کو فوری طور پر حقائق سے آگاہ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
ن لیگ گزشتہ برس سے صرف نواز شریف کی نااہلی اور بعدازاں ہونے والی سزا کے باعث ہی مشکلات کا شکار نہیں، اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں۔ ابتدائی مشکل تو یہ رہی کہ اس کے منتخب ارکان اور مضبوط انتخابی امیدواروں کی دیگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص تحریک انصاف میں شمولیت کی لہر اٹھی۔ جنوبی پنجاب پی ٹی آئی کے ہاتھ میں آچکا ہے۔ ن لیگ میں گروہ بندی ہمیشہ سے رہی، اب پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سب کے سامنے آگئے ہیں۔ نواز شریف اور مریم کی محاذ آرائی نے تین دہائیوں تک اس پارٹی کے وفادار رہنے والے چوہدری نثار جیسے لیڈر کو بھی اختلاف پر مجبور کردیا۔
بعض معروف سروے رپورٹس میں اب تک ن لیگ کی کامیابی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، روایتی فہم اور زمینی حقائق سمیت ہر بات 25جولائی کو عیاں ہو جائے گی۔
ن لیگ سے راستے جدا کرکے دیگر پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنے والے منتخب ارکان اپنے آزادانہ حامی حلقے رکھتے ہیں ان کے لیے پارٹی کی حیثیت ثانوی ہے۔ برادری، موروثیت، قبائلی اور دیگر سماجی بنیادوں پر اپنے مضبوط حلقے رکھنے والے یہ ارکان جب ایک سے دوسری سیاسی جماعت کا رُخ کرتے ہیں تو اپنا ووٹ بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کے مضبوط سیاسی قلعے پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ممکن نہیں، اس کا کٹّر حامی کچھ بھی ہوجائے اسی جماعت کو ووٹ دے گا۔
پنجاب کے انتخابی میدان میں غیر جانب دار ووٹر کے لیے تحریک انصاف ن لیگ کا نعمل البدل بن کر سامنے آئی ہے۔ اپنے سو روزہ ترقیاتی اور اصلاحاتی ایجنڈے میں عمران خان نے تعلیم، صحت اور بنیادی حقوق تک عام آدمی کی رسائی اور ایک ایسے پاکستان کا وعدہ کیا ہے، جس میں سبھی لیڈروںکا احتساب ہوگا۔ 9جولائی کو انھوں نے ''روڈ ٹو نیا پاکستان'' کی رونمائی بھی کردی جس میں اقتدار ملنے کے بعد پاکستان کو فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا وعدہ دہرایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے منشور کی تفصیلات سے یہ ایک ایسی جماعت ظاہر ہوتی ہے جو اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں، مساوات اور منصفانہ سماج کے لیے کھڑی ہونے کو تیار ہے۔
بلاول پورے ملک میں اپنی جماعت کی بقا کے لیے کوشاں ہیں، لیکن اس کے برعکس زرداری نے یقینی بنایا ہے کہ پی پی پی دیہی سندھ تک محدود رہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے باوجود دیہی سندھ کا ووٹ پی پی پی کو ملے گا، یہ زرداری نہیں بلاول کو ملنے والا ووٹ ہوگا، جو رفتہ رفتہ بے نظیر کے انداز میں سیاسی منظر پر ابھر رہے ہیں۔
ایک حالیہ سروے میں پنجاب کے انتخابی ''میدانِ جنگ'' میں قومی اسمبلی کی اضلاع کے اعتبار سے نشستوں کے بارے میں بیان کیے گئے سرسری اندازے کچھ یوں ہیں:1) راولپنڈی(اٹک، چکوال، جہلم)کی 13مجموعی نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 4، پی پی پی 1، آزاد امیدوار 2۔ لاہور (قصور، شیخوپورہ) کی 24نشستوں میں پی ٹی آئی 12، ن لیگ 12۔ تین نشستوں پر متحدہ مجلس عمل بھی کام یاب ہوسکتی ہے۔
خیبر پختون خوا کی قومی اسمبلی کی کل 39 نشستوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی 23، ن لیگ 4، ایم ایم اے 4، پیپلز پارٹی 3، اے این پی 2اور آزاد امیدواروں 3نشستوں پر کامیاب ہوں گے۔ مجموعی طور تحریک انصاف کو 90سے 95اور ن لیگ کو 50سے 60نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ پیپلز پارٹی 35سے 36نشستیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے گی اور 20سے 25 آزاد امیدوار کام یاب ہوں گے۔ سیاست دان سب سے زیادہ آسانی سے فروخت ہونے والی جنس ہے، حساب کتاب کچھ غلط بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ بعض امیدوار بہ آسانی خریدے جاسکتے ہیں۔
معلق پارلیمنٹ کی بات اتنی غلط بھی نہیں۔ ن لیگ کی ساٹھ اور پیپلز پارٹی کی 36نشستیں اور ان دونوں کی مخصوص ، بالواسطہ نشستوں میں آزاد امیدوار بھی شامل کرلیجیے تو کھیل بن سکتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ غیرقانونی دولت کتنی دور تک مار کرتی ہے۔ کیا کوئی لمحے بھر کے لیے بھی یقین کرسکتا ہے کہ ''دستیاب'' سیاست داں حکومت سازی کے لیے ''فروخت'' ہونے سے انکار کردیں گے؟ اس صورت حال میں 14سے 15نشستیں لینے والی جماعت کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے نواز شریف اور زرداری کا متحد ہونا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے عمران خان انتخابی معرکہ مار کر بھی یہ جنگ ہارسکتے ہیں ۔
اس تناظر میں یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ تحریک انصاف کم از کم 110نشستوں پر کام یاب ہو تاکہ مخصوص نشستوں ، آزاد امیدواروں کے مطلوبہ نمبر، پی ایس پی اور جی ڈی اے کے قابل خرید امیدواروں میں سے بچ جانے والوں کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان ایک اتحادی حکومت قائم کریں۔ شفافیت کے لیے نگراں حکومت کی مدت میں نوے روز تک اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ منتخب ہونے والوں کا بھی کڑا احتساب ہو، تبھی ملک میں حقیقی تبدیلی رونما ہوسکے گی۔
(تفصیلات کے لیے راقم کا ''انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے'' کے عنوان سے شایع ہونے والا کالم ملاحظہ کیجیے)
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
جس ملک میں جاگیردارانہ فکر کا ورثہ قائم ہو وہاں شخصی سحر کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن کیا ہمارا عام شہری اپنے ووٹ کی قدر و قیمت پہچانتے ہوئے کارکردگی کی بنیاد پراس کا استعمال کریگا یا چاند تارے توڑ کر لانے کے وعدے کرنے والوں کے فریب میں آجائے گا؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی منتخب ہوتے ہیں جو زیادہ بڑی بولی لگانے والوں کے ہاتھوں بہ خوشی ''فروخت'' ہوجاتے ہیں۔ جو پیسے کے بل پر ایسے منتخب نمایندوں کی وفاداریاں تبدیل کروا سکتے ہیں ، کیا ان کے لیے انتخاب ایک بے حیثیت مشق سے زیادہ کوئی اہمیت رکھتا ہے؟ اس سے صرف یہ خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری عمل کے لیے احتساب ناگزیر ہے۔
آج حالات نارمل نہیں، ہر جانب بے یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ مستونگ، پشاور اور بنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے خدشات کو بڑھا دیا ہے اور حالات کا منظر نامہ مزید دھندلاگیا ہے۔ انتخابی نتائج کی پیش گوئی ایک پیچیدہ کام ہے، بالخصوص پاکستان میں تو یہ دشواری مزید بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی انتخابی مہم کے یکساں مواقعے نہ ملنے اور قبل از الیکشن دھاندلی جیسے الزامات عائد کررہی ہیں۔ ن لیگ تو ایسے لوگوں کا باقاعدہ نام لے رہی ہے۔ اگر وہ اپنے مؤقف میں اتنے ہی سچے ہیں تو کیوں باقاعدہ شکایات درج نہیں کرواتے؟ اور اگر یہ الزامات ثابت نہیں ہوتے تو انھیں بہتان تراشی کے قانونی نتائج بھگتنے چاہییں۔ ''ناموافق'' انتخابی نتائج آنے کی صورت میں، احتجاج کا دروازہ کھلا رکھنے کے لیے، پہلے ہی سے انتخابی عمل میں دھاندلی کا واویلا مچانا پرانا حربہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی مہم میں رکاوٹ کے حوالے سے بلاول کی شکایات کا فوری نوٹس لے کر پنجاب کی نگراں حکومت کو فوری طور پر حقائق سے آگاہ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
ن لیگ گزشتہ برس سے صرف نواز شریف کی نااہلی اور بعدازاں ہونے والی سزا کے باعث ہی مشکلات کا شکار نہیں، اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں۔ ابتدائی مشکل تو یہ رہی کہ اس کے منتخب ارکان اور مضبوط انتخابی امیدواروں کی دیگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص تحریک انصاف میں شمولیت کی لہر اٹھی۔ جنوبی پنجاب پی ٹی آئی کے ہاتھ میں آچکا ہے۔ ن لیگ میں گروہ بندی ہمیشہ سے رہی، اب پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سب کے سامنے آگئے ہیں۔ نواز شریف اور مریم کی محاذ آرائی نے تین دہائیوں تک اس پارٹی کے وفادار رہنے والے چوہدری نثار جیسے لیڈر کو بھی اختلاف پر مجبور کردیا۔
بعض معروف سروے رپورٹس میں اب تک ن لیگ کی کامیابی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، روایتی فہم اور زمینی حقائق سمیت ہر بات 25جولائی کو عیاں ہو جائے گی۔
ن لیگ سے راستے جدا کرکے دیگر پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنے والے منتخب ارکان اپنے آزادانہ حامی حلقے رکھتے ہیں ان کے لیے پارٹی کی حیثیت ثانوی ہے۔ برادری، موروثیت، قبائلی اور دیگر سماجی بنیادوں پر اپنے مضبوط حلقے رکھنے والے یہ ارکان جب ایک سے دوسری سیاسی جماعت کا رُخ کرتے ہیں تو اپنا ووٹ بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کے مضبوط سیاسی قلعے پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ممکن نہیں، اس کا کٹّر حامی کچھ بھی ہوجائے اسی جماعت کو ووٹ دے گا۔
پنجاب کے انتخابی میدان میں غیر جانب دار ووٹر کے لیے تحریک انصاف ن لیگ کا نعمل البدل بن کر سامنے آئی ہے۔ اپنے سو روزہ ترقیاتی اور اصلاحاتی ایجنڈے میں عمران خان نے تعلیم، صحت اور بنیادی حقوق تک عام آدمی کی رسائی اور ایک ایسے پاکستان کا وعدہ کیا ہے، جس میں سبھی لیڈروںکا احتساب ہوگا۔ 9جولائی کو انھوں نے ''روڈ ٹو نیا پاکستان'' کی رونمائی بھی کردی جس میں اقتدار ملنے کے بعد پاکستان کو فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا وعدہ دہرایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے منشور کی تفصیلات سے یہ ایک ایسی جماعت ظاہر ہوتی ہے جو اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں، مساوات اور منصفانہ سماج کے لیے کھڑی ہونے کو تیار ہے۔
بلاول پورے ملک میں اپنی جماعت کی بقا کے لیے کوشاں ہیں، لیکن اس کے برعکس زرداری نے یقینی بنایا ہے کہ پی پی پی دیہی سندھ تک محدود رہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے باوجود دیہی سندھ کا ووٹ پی پی پی کو ملے گا، یہ زرداری نہیں بلاول کو ملنے والا ووٹ ہوگا، جو رفتہ رفتہ بے نظیر کے انداز میں سیاسی منظر پر ابھر رہے ہیں۔
ایک حالیہ سروے میں پنجاب کے انتخابی ''میدانِ جنگ'' میں قومی اسمبلی کی اضلاع کے اعتبار سے نشستوں کے بارے میں بیان کیے گئے سرسری اندازے کچھ یوں ہیں:1) راولپنڈی(اٹک، چکوال، جہلم)کی 13مجموعی نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 4، پی پی پی 1، آزاد امیدوار 2۔ لاہور (قصور، شیخوپورہ) کی 24نشستوں میں پی ٹی آئی 12، ن لیگ 12۔ تین نشستوں پر متحدہ مجلس عمل بھی کام یاب ہوسکتی ہے۔
خیبر پختون خوا کی قومی اسمبلی کی کل 39 نشستوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی 23، ن لیگ 4، ایم ایم اے 4، پیپلز پارٹی 3، اے این پی 2اور آزاد امیدواروں 3نشستوں پر کامیاب ہوں گے۔ مجموعی طور تحریک انصاف کو 90سے 95اور ن لیگ کو 50سے 60نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ پیپلز پارٹی 35سے 36نشستیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے گی اور 20سے 25 آزاد امیدوار کام یاب ہوں گے۔ سیاست دان سب سے زیادہ آسانی سے فروخت ہونے والی جنس ہے، حساب کتاب کچھ غلط بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ بعض امیدوار بہ آسانی خریدے جاسکتے ہیں۔
معلق پارلیمنٹ کی بات اتنی غلط بھی نہیں۔ ن لیگ کی ساٹھ اور پیپلز پارٹی کی 36نشستیں اور ان دونوں کی مخصوص ، بالواسطہ نشستوں میں آزاد امیدوار بھی شامل کرلیجیے تو کھیل بن سکتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ غیرقانونی دولت کتنی دور تک مار کرتی ہے۔ کیا کوئی لمحے بھر کے لیے بھی یقین کرسکتا ہے کہ ''دستیاب'' سیاست داں حکومت سازی کے لیے ''فروخت'' ہونے سے انکار کردیں گے؟ اس صورت حال میں 14سے 15نشستیں لینے والی جماعت کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے نواز شریف اور زرداری کا متحد ہونا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے عمران خان انتخابی معرکہ مار کر بھی یہ جنگ ہارسکتے ہیں ۔
اس تناظر میں یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ تحریک انصاف کم از کم 110نشستوں پر کام یاب ہو تاکہ مخصوص نشستوں ، آزاد امیدواروں کے مطلوبہ نمبر، پی ایس پی اور جی ڈی اے کے قابل خرید امیدواروں میں سے بچ جانے والوں کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان ایک اتحادی حکومت قائم کریں۔ شفافیت کے لیے نگراں حکومت کی مدت میں نوے روز تک اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ منتخب ہونے والوں کا بھی کڑا احتساب ہو، تبھی ملک میں حقیقی تبدیلی رونما ہوسکے گی۔
(تفصیلات کے لیے راقم کا ''انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے'' کے عنوان سے شایع ہونے والا کالم ملاحظہ کیجیے)
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)