عوام کے شعور کا امتحان

اس دن پورے پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ بہت سے رہنماؤں کو نظر بند کیا گیا

tauceeph@gmail.com

ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 11ویں انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیم ان انتخابات کی شفافیت پر تشویش کا اظہارکر رہی ہے ۔ ملک 1947ء میں آزاد ہوا، عوام کو اپنے حکمرانوں کو براہ راست منتخب کرنے کا حق 23 سال بعد 1970ء میں ملا ۔ 1970ء سے منعقد ہونے والے 10 انتخابات میں سے ایک کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ نتائج کے خلاف تحریک چلی اور مارشل لاء لگ گیا۔

ایک انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے ۔ چار انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی جماعتیں اپنے اقتدارکی مدت پوری نہیں کر پائیں۔ ان حکومتوں کو صدور نے برطرف کیا۔ 2008ء اور 2013ء میں منتخب ہونے والی جماعتیں اپنی آئینی مدت تو پوری کرسکیں مگر ان کے وزرائے اعظم برطرف کردیے گئے۔ اب 25 جولائی کے انتخابات کے موقعے پر عوام پر زبردست ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ 2008ء کے انتخابات کے بعد آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے ذریعے عوام کو ریاستی امورکے بارے میں جاننے کا حق حاصل ہوا ہے۔ ایک خود مختار الیکشن کمیشن قائم ہوچکا ہے۔

جس کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ انتخابات سے 90 دن قبل منتخب حکومتیں اپنی مدت پوری ہونے پر رخصت ہو چکی ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ ان حکومتوں کے قیام کے لیے پہلے مرحلے میں وفاق میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کا اتفاق ، دوسرے مرحلے میں پارلیمانی کمیٹی کا اتفاق اور عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی ہے۔

یہی طریقہ کار صوبوں کی نگراں حکومتوں کے لیے بھی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے انتخاب بھی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق یا عدم اتفاق کی صورت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے سے منسلک ہے ۔ اس دفعہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ کمیشن نے دو مہینے قبل سرکاری محکموں میں تقرریوں وتبادلوں پر پابندی لگادی تھی ۔

سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل پر تمام ضروری تقرریوں اور تبادلوں کو الیکشن کمیشن کی پیشگی اجازت سے مشروط کیا، یوں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ نگراں حکومتوں کے قیام کے بعد وفاق اور صوبوں کی بیوروکریسی کو تبدیل کیا گیا۔ تمام وفاقی وزارتوں کے سیکریٹری تبدیل ہوئے۔ صوبوں میں چیف سیکریٹری اور آئی جی سمیت اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایچ او کے عہدے تک افسران تبدیل ہوئے۔ یوں پہلی دفعہ نظری طور پر ایک مکمل غیر جانبدار انتظامیہ وجود میں آئی مگر بعد کے واقعات نے عوام کے ذہنوں میں کچھ شبہات پیدا کر دیے۔

ملک میں دہشت گردوں نے پھر اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ طالبان نے ایک دفعہ پھرعوامی نیشنل پارٹی کو نشانہ بنایا۔ پشاورکے جلسے میں ہارون بلور شہید کردیے گئے۔ بنوں میں پختون خواہ میں اکرم درانی کے جلوس پر حملہ ہوا ۔ بلوچستان کے شہر مستونگ میں خودکش حملے میں قیامت صغریٰ مچ گئی۔ بلوچ عوامی پارٹی کے سراج رئیسانی سمیت ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خانہ بدوش تھے۔

یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اہم قومی رہنماؤں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے مالاکنڈ میں نیا انتخابی جلسہ منسوخ کردیا۔ سیاستدانوں کی سیکیورٹی واپس لینے کے نتائج سامنے آنے لگے اور 2013ء کے انتخابات کی طرح مخصوص سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کا نشانہ بنیں۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور کالعدم مذہبی تنظیمیں آزادی سے اپنے جلسے منعقد کرتی رہیں، یوں محسوس ہونے لگا کہ روشن خیال سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی پھیلا کر عوام سے رابطہ سے روکا جا رہا ہے، لاہور شہرکوکنٹینر لگا کر بند کردیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت سے سزا پانے کے بعد سزا کاٹنے کے لیے اس دن لاہور آئے تھے۔


اس دن پورے پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ بہت سے رہنماؤں کو نظر بند کیا گیا۔ اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے والوں پر آنسو گیس استعمال کی گئی۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کرنے پر حیرت کا اظہار کیا اور تمام گرفتار شدہ کارکنوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔

سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں پر پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول زرداری اور سابق صدر آصف زرداری بھی خاموش نہ رہے۔ پہلے انھوں نے یہ سوال کیا کہ ان سیاسی کارکنوں کی گرفتاری ، پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولوںکے استعمال کا کیا جواز تھا ؟ ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس دن پنجاب کی نگراں حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے جانے لگے اور جنرل ضیاء الحق کے دورکی یاد تازہ ہوگئی ۔ اس انتخابی مہم کے دوران بعض سرکاری محکموں کا کردار بھی اہم بن گیا۔ بعض ناقدین نے کہنا شروع کیا کہ ان سرکاری محکموں کے اہلکار پولیٹیکل انجنیئرنگ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ اس پولیٹیکل انجنیئرنگ کی بناء پر کئی امیدواروں نے اپنی جماعتوں کے ٹکٹ واپس کردیے ہیں اور آزاد امیدوار بن گئے۔

انتخابی مہم میں آزادئ صحافت کا معاملہ بھی سامنے آیا ۔ بعض نے الزام لگایا کہ انھیں ایک خاص قسم کے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کا نوٹس آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے لیا۔ غیر ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بھرپور رپورٹیں شایع کیں مگر اس تمام صورتحال کے باوجود انتخابی مہم جاری رہی۔ اگرچہ اس دفعہ ماضی جیسا جوش و خروش نہیں دیکھا گیا۔

اس کی ماہرین مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کو انتخابات سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے مگر پاکستانی ذرایع ابلاغ پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیزکا کہنا ہے کہ عمران خان نے تو دھرنوں کے ذریعے انتخابی مہم کئی سال پہلے شروع کردی مگر 20 کے قریب ٹی وی چینلز رات 8:00 بجے سے 12:00 بجے تک ٹاک شوز کے ذریعے ہر معاملے پر سیاسی مباحثہ منعقد کرتے ہیں، یوں عوام کو ہر جماعت کے مؤقف کا بخوبی علم ہے ۔

سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والی محقق فلک نازکا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے ابلاغ کے عمل کو انتہائی تیزکر دیا ہے۔ امراء سے لے کر نچلے متوسط طبقے کے نوجوان تک سب اسمارٹ فون کے ذریعے فیس بک ، واٹس ایپ اور ٹویٹر سے منسلک ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد ٹویٹر پرتبصرے پڑھتے ہیں اور تبصرے کرتے ہیں۔ یوں ہرکوئی سیاسی جماعتوں سے مکمل واقف ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک جامع ضابطہ اخلاق بنایا ہے۔ انتظامیہ اس ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہے۔ یوں پینافلیکس کے سائز سے لے کر جلوس جلسوں کے لیے پیشگی منظوری تک لازمی ہے۔

اس بناء پر پہلے جیسی گہما گہمی کا کوئی جواز نہیں ہے مگرکچھ مبصرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ آج منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایک کمزور سیاسی ڈھانچہ وجود میں آئے گا اور سویلین کے لیے راستہ محدود ہوجائے گا۔ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو غیر معمولی اختیارات دیے گئے ہیں جس سے انتخابی عمل کے دوران سویلین اور غیر سویلین ذمے داریوں میں ابہام پیدا ہوگا۔

ایچ آر سی پی نے کالعدم مذہبی تنظیموں کی انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت دے کر انھیں قانونی جواز فراہم کرنا قرار دیا ہے۔ انتخابی مہم میں مذہب کے استعمال کے منفرد نتائج برآمد ہونگے، مگر آج پاکستان کے عوام کے شعورکا امتحان ہے۔ عوام ایسی جماعتوں کو منتخب کریں جو پارلیمنٹ کی بالادستی اور شفاف نظام کو یقینی بنائیں اور جمہوریت کے ثمرات نچلے طبقات تک منتقل کرنے میں سنجیدہ ہوں ۔ عوام آج اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے جمہوری نظام کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ اس ملک کا مستقبل جمہوری نظام سے ہی منسلک ہے، یہ گیارہواں انتخاب ایک منفرد انتخاب ثابت ہوگا۔
Load Next Story