ووٹ کا خط ووٹروں کے نام
یہ غریب لوگ میری طاقت کو استعمال کرنے کی خواہش کے باوجود اپنی غربت سے مجبور ہوجاتے تھے
میں کاغذ کا ایک پرزہ ہوں ۔ میرا نام ووٹ ہے اور میرا حسب نسب جمہوریت سے جڑا ہوا ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی سے میں ساری دنیا میں سفرکرتا ہوں ۔کبھی ایشیا، کبھی افریقا اورکبھی مغربی دنیا میں، غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہر جگہ میرا استقبال کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مجھ سے ان کا مستقبل وابستہ ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں جوکاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوں، بڑے بڑے راجوں مہاراجوں سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں اور ایک عام آدمی کو ایسی قوت بخشتا ہوں جس سے وہ بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو شکست دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر باشعور شہری اس دن کا انتظار کرتا ہے جب اس کے یہاں انتخابات ہوں ۔
آج 25 جولائی ہے، پاکستانی مردوں اور عورتوں کی زندگی کا ایک تاریخی دن ۔ آج تمہاری اور میری ملاقات ہوگی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کچھ کاہلی برتیں اور آج کا دن سونے یا تفریح میں گزار دیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خود پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر ظلم کریں گے۔ جیسا کہ میں نے ابھی اوپرکی سطروں میں کہا کہ میں دیکھنے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوں، جس پر تم سوچ سمجھ کر مہر لگاؤ گے تو تمہارے روزمرہ کے مسائل حل ہونے کا راستہ کھلتا ہے۔ تمہارے بچوں کی تعلیم، افراد خانہ کی صحت، روزگار، پکے گھر اور امن و امان کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ ہرگز نہ کرنا کہ آج کے دن کو چھٹی کی طرح مناؤ ۔ تم اپنے ساتھ اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ اس سے بڑی نا انصافی نہیں کرسکتے۔
آج میں تمہیں کچھ اپنے بارے میں بتاؤں ۔ میری پیدائش 1788ء میں امریکی مدبرین کے ہاتھوں ہوئی۔ 1789ء میں امریکیوں نے اپنے الیکٹوریل کالج کے ذریعے جارج واشنگٹن کو اپنا پہلا صدر منتخب کیا۔ میں امریکا میں بہت سے مرحلوں سے گزرا۔کبھی صرف سفید فام مردوں کو ووٹ دینے کی اجازت تھی اورکبھی ان میں سے بھی وہ ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرسکتے تھے جو جائیداد رکھتے ہوں ۔
1830ء تک چند سیاہ فام مردوں کو اس شرط پر ووٹ دینے کی اجازت ملی اگر وہ غلام نہیں آزاد ہوں، عورتیں خواہ سفید فام ہوں یا سیاہ فام انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ ووٹ ڈالیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس سے میں بہت غمزدہ ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے خیال میں میری طاقت میں سب کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ عورتوں کے اندر بھی یہ احساس شدت سے اجاگر ہو رہا تھا کہ انھیں مساوی شہری نہیں سمجھا جا رہا۔
1840ء میں یعنی اب سے 178 برس پہلے سیاسی شعور رکھنے والی کچھ سفید فام عورتوں نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد شروع کی۔ حقوق کی اس مہم میں سیاہ فام عورتیں بھی شامل ہوگئیں ۔ ووٹ کے طور پر میری حیثیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی جمہوریت میں میرے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بعض ریاستوں میں یہ شرط عائد کردی گئی کہ کوئی بھی ایسا سفید فام یا سیاہ فام مرد ووٹ نہیں ڈال سکتا جو خواندہ نہ ہو۔ اس زمانے میں بہت کم لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے، اس لیے لاکھوں اور کروڑوں لوگ ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہوگئے۔
میں کاغذ کا ایک پرزہ ...جمہوریت کو ان تمام مرحلوں سے گزرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ عورتوں کی بالغ حق رائے دہی کی تحریک بہت مشکل مرحلوں سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی ۔ اس میں کئی جان سے گئیں، کچھ نے جیل کاٹی اور کچھ توہین اور تذلیل کے مرحلوں سے گزریں۔ میرا دل ان کے لیے خون کے آنسو روتا تھا لیکن میں خود ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا جب تک کہ وہ ہمت سے آگے بڑھ کر اپنے حق کے لیے جدوجہد نہ کریں۔ 1878ء میں امریکی آئین میں ترمیم کے لیے ایک ایکٹ پیش ہوا کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا جائے لیکن وہ منظور نہ ہوسکا ۔
نیوزی لینڈ کی عورتوں کو دنیا میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی اورکوئی بات نہیں ہوسکتی تھی، اس کے بعد عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کا راستہ کھل گیا اور یکے بعد دیگر مختلف امریکی ریاستوں میں عورتیں ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد ہوئیں۔ 1920ء میں یہ حق تمام سفید فام اور سیاہ فام امریکی عورتوں کو حاصل ہوگیا، اس کے بعد برطانیہ اور آئرلینڈ میں 1928ء اور 1944ء میں فرانس کی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔ 1964ء تک امریکی کانگریس میں انتخابی ٹیکس کا روڑا غریب امریکی سفید فام، سیاہ فام مرد اور عورت کی راہ میں اٹکایا گیا تھا۔
یہ غریب لوگ میری طاقت کو استعمال کرنے کی خواہش کے باوجود اپنی غربت سے مجبور ہوجاتے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا ٹیکس اداکر سکیں۔ اس ٹیکس کو 1964ء میں امریکی کانگریس نے قلم زد کردیا جس کے بعد ہر امریکی سفید فام اور سیاہ فام مرد اور عورت ووٹ ڈالنے کے لیے بالکل آزاد ہوگئے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خوشحال اور برسراقتدار طبقات غریب کے ووٹ سے کس قدر خوف کھاتے ہیں ۔
تمہیں اپنے بارے میں یہ تفصیلات بنانے کا سبب یہ ہے کہ تم لوگوں کو اندازہ ہوسکے کہ ترقی یافتہ اور خوش حال سماج سے تعلق رکھنے والے بھی کس کس طرح کوشش کرتے ہیں کہ مزدور اور مجبور طبقات کوکسی نہ کسی بہانے ووٹ ڈالنے سے روکا جاسکے۔
اس نہایت اہم بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج 25 جولائی کو تم میں سے ہر پاکستانی مرد اور ہر عورت اپنے اپنے علاقے میں ووٹ ڈالنے کا مقدس فریضہ ضرور انجام دے۔ اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہوکہ تمہاری گندی گلیاں صاف ہونی چاہئیں،پینے کا صاف پانی تمہارا اور تمہارے خاندان کا بنیادی انسانی حق ہے، اگر تم اپنے بچوں کی تعلیم، اپنے خاندان کی صحت، سڑکوں اور گلیوں کی صفائی، اسکولوں کالجوں اور پولی ٹیکنیک کی تعمیر کو اہمیت دیتے ہو، اگر تمہاری نظر میں روزگار کے باعزت ذرایع کا حصول اور خوشحالی کی طرف سفر تمہاری نظر میں اہمیت رکھتا ہے تو تم آج کے دن کو ضایع نہ کرو۔ اپنے گھروں سے نکلو اور اپنے پسندیدہ نمایندے کو ووٹ دو تاکہ اپنی تقدیر تم اپنے ہاتھوں سے بدل سکو ۔
تم میں سے وہ لوگ جو خواندہ ہیں وہ اخباروں کے ذریعے اور وہ لوگ جو صرف ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے خبریں سن سکتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ انتخابی نتائج کو چرانے کی تیاریاں بڑے سلیقے سے کی گئی ہیں۔ ایسے حالات میں گھر میں بیٹھے رہنا اور تقدیرکی شکایت کرنا، اپنے اور اپنی نسلوں کے ساتھ ظلم کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ سوال کیے جا رہے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے کر قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی سہولت دینا کس طرح جائز ہے۔ یہ بات کھلم کھلا کہی جارہی ہے کہ ان عناصر کے پارلیمنٹ تک پہنچ جانے کے بعد اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کسی شک و شہبے کے بغیر نشانے پر آئیں گے۔ اس سے الیکشن کمیشن کی جانبداری پر کتنے سوال اٹھیں گے اور عالمی برادری میں پاکستان کی کیا ساکھ اور حیثیت رہ جائے گی۔
ملک میں وہ فضا بنادی گئی ہے جس میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں رہا ہے۔ ووٹ ، ووٹر اور غیر جانبدار لوگوں کو صاف نظر آرہا ہے کہ آزادی تحریر و تقریرکا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ عوام کے پسندیدہ امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔ غرض ہر وہ کام دن کی روشنی میں ہو رہا ہے جو رات کے اندھیرے میں بھی کرتے ہوئے خوف آنا چاہیے۔
میں ایک ووٹ ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر طرف افواہوں کی دھند ہے۔ دہشت کی فضا عام گلی محلوں پر طاری کردی گئی ہے تاکہ وہ جان کے خوف سے گھروں سے باہر نہ نکلیں اور یوں تم میرا جائز استعمال کرنے سے باز رہو۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج 25 جولائی کو ہر بالغ پاکستانی مرد اور عورت سے یہ التجا کرتا ہوں کہ وہ باہر نکلے اور مجھے بلیٹ باکس کے سپرد کرکے اپنا قومی فرض پورا کرے۔ یہ نہ ہو کہ میں چرا لیا جاؤں اور تم اگلے پانچ برسوں تک کف افسوس ملتے رہو۔ یہ درست ہے کہ نتیجہ 26 جولائی کو آئے گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمہاری تقدیر کا فیصلہ 25 جولائی کو اسی وقت ہوگا جب تم ووٹ کو، یعنی مجھے بیلٹ باکس کے سپرد کرو گے اور پھر اپنی اس امانت کی حفاظت کرو گے۔ 25 جولائی 2018ء ایک تاریخی دن ہے اس کی اہمیت کو سمجھو اوراپنا فرض ادا کرو۔