الیکشن 2018 … عوام کوکیا ملے گا
شہباز شریف جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا پسندکرتے ہیں
الیکشن 2018ء کا دنگل سج گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالیہ الیکشن ماضی کے تجربات سے مختلف ہوں گے؟ کیا ان نتائج کے بعد بننے والی قومی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں کسی بھی مثبت تبدیلی کی اہلیت رکھتی ہیں؟ کیا نئی اسمبلیوں میں پہنچنے والے سیاستدان ملک میں کوئی اسی تبدیلی لانے میں کامیاب رہیں گے جس سے ایک عام پاکستان کی زندگی میں بھی تبدیلی آئے، ملک سے غربت اور مفلسی کا خاتمہ ہو۔ برابر ی کی بنیاد پر انصاف ملے، روزگار ملے، ایک عام آدمی کو اس بات کا احساس ہو اْس کی زندگی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
اس وقت تین بڑی جماعتیں انتخابی دوڑ میں شریک ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت تحریک انصاف کو اپنی کامیابی کی امید ان امیدواروں پر جنھیں زباں عام میں ایلکٹریبلزکہا جا رہا ہے جو چند ماہ تک کسی اور جماعت کے منشور کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے حلق خشک کیا کرتے تھے اوراپنے قائد کی شان میں ایک لفظ کی بیحرمتی پر چراغ پا ہو جایا کرتے تھے یہ وہ ہی پنچھی ہیں جو ہواؤں کار خ تبدیل ہوتے ہی یا اشاروں پر اپنی پناہ گاہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ وہ کامیاب ''سیاسی گھوڑے'' ہیں اِن کی پیٹ پر کوئی بھی سوار ہو یہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔
اس وقت الیکشن دوڑ میں سرفہرست تحریک انصاف ہے، جس کے بارے میں میڈیا کے لہروں اور ایک مخصوص ذہین رکھنے والے اینکر پرسنز نے انتخابات سے قبل ہی عمران خان کو نوید سنا دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے مقابلے میںعمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کے آیندہ سربراہ ہیں، لیکن یہ الگ بات ہے کہ انتخابات کے کیا نتائج آتے ہیں اس کے بعد حکومت بنانے میں کس طرح کے مراحل سامنے آئیں گے وہ ایک الگ بحث ہے۔ اس دوڑ میں دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن ہے جس نے پنجاب میں بھر پور مہم چلائی ہے سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سابق صدر نواز شریف اپنی جواں ہمت بیٹی کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔ آج کی تاریخ تک نواز شریف کا وطن واپس آنے کا فیصلہ سیاسی طور پر درست نظر آتا ہے۔
شہباز شریف جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا پسندکرتے ہیں لہٰذا انھوں نے الیکشن مہم کے اس اہم موڑ پر برسوں سے قائم اس رشتے اور تعلق کو خراب نہیں کیا۔ نواز شریف کی لند ن سے واپسی پر وہ پنجاب میں بھر پور احتجاجی ماحول پیدا کرسکتے تھے انھوں نے کسی بھی احتجاجی مہم سے خود کو دور رکھ کر ''بڑوں'' کو یہ پیغام بھی دیا کہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی عمل پیرا نہیں ہے انھوں نے نواز شریف کے بیانیے سے بھی خود کا علیحدہ رکھا ہوا ہے۔ شہباز شریف یقینا وزیراعظم کی دوڑ سے باہر رہیں لیکن ان کی نظریں آج بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ہی ہے مگران کی یہ خواہش شرمندہ تعبیر ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ نواز شریف کے بیانیے سے خود کو علیحدہ کرکے شہباز شریف نے سیاسی غلطی کی ہے یا سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔
الیکشن کے دوڑ میں تیسری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کی قیادت بلاول بھٹوکر رہے ہیں انتخابی دوڑ میں وہ سب سے کمزور گھوڑے پر سوار ہیں۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹوکے نام پر ووٹ مانگنے پر مجبور ہے۔ وفاق میںپانچ سال اور صوبہ سندھ میں دس سال ان کی حکوت رہی۔ اپنی کارکر دگی کی بنیاد پر ووٹ مانگے کی بجائے پیپلز پارٹی کے پاس ''جئے بھٹو'' کے نعرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ دس برس کی خراب طرز ِ حکمرانی نے اس پارٹی کو اپنے ہی گھر سندھ کو کھنڈر بنا دیا ہے اس کی وجہ بے انتہا کرپشن، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور غیر جمہوری و غیر اخلاقی رویے ہیں۔
سندھ بھر میںحکومتی رٹ کا یہ عالم رہا کہ شعبہ صحت میں ایمرجنسی لگانے کے باوجود صحت کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ناقص ادویات کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال نے تو انسانی زندگیاں بچانے کی شرح میں کمی اورگنوانے کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا سندھ میں دس سالہ اقتد کیسا رہا ؟ اس کے لیے انسانی ترقی کی بنیادی اقدارکا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ سالانہ کھربوں روپے کے بجٹ اور پانچ برسوں میں بالخصوص تقریباً 800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ختم کرنے والی حکومت سندھ صوبہ کے عوام کو صحت، تعلیم، صفائی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کر سکی ہے۔
بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ 52 فیصد، ہے بلوچستان کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبرپختونخوا میں 32 اورپنجاب میں سب سے کم، یعنی صرف 19 فیصد ہے غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے، جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ کراچی سے کشمور تک سندھ میں گورننس کی بدترین حالت ہے۔
سندھ کا سیاسی منظرنامے میں کوئی تبدیل نہیں آئی وہی موروثی سیاست اور کرپشن کا راج ہے۔ ایک عام آدمی سمجھتا ہے کہ انتخابی عمل میں اربوں روپوں کے خرچ کے بعد بھی ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی نہیں۔ سیاست کے گندے انڈے ایک ٹوکری سے دوسر ی ٹوکری میں ڈال دیے گئے ہیں نا چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی سوچ۔ بس تبدیل ہوا ہے تو سیاسی جماعتوں کا انتخابی نشان تبدیل ہوا ہے۔ شیر اور تیر پر لڑنے والے اب بلے اور جیپ کے نشان پر انتخاب لڑرہے ہیں۔ ایک فرسودہ سسٹم ہے جو ستر برس سے جمہوریت اور انتخابات کے نام پر جاری ہے اور ناجانے کب تک وطن عزیز میں یہ کھیل جاری رہے گا۔