میرے عزیز ہم وطنو یومِ حساب آگیا
بُرے لوگوں کو وہ اچھے لوگ منتخب کرتے ہیں جو ووٹ نہیں ڈالتے
٭ میرے عزیز ہم وطنو ! السلام وعلیکم، صبح ہوگئی ہے، گھروں سے نکل کر ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ تمام بھائیوں، بہنوں، بزرگوں اور دوستوں سے اتنا کہنا ہے کہ اب اُن سب کا یومِ حساب آگیا ہے جنہوں نے عوام کے نام پر، عوامی وسائل کو صرف اور صرف اپنے لیے استعمال کیا اور عوام دربدرکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔آج اُن کو بھی جواب دینا ہے جو ملک و قوم کے سچے عاشق اورخادم ہونے کے دعوے کرتے کرتے اپنی چالوں اور شعبدہ بازیوں سے سارا ملک لُوٹ کر لے گئے۔
میرے دوستو! زندگی میں ایک بار وہ موقع مل رہا ہے جو روزانہ یا ماہانہ بلکہ سالانہ بھی نہیں ملتا، 5 سال انتظار کرنا پڑا ہے کہ گزشتہ برسوں میں تکالیف، پریشانیوں، دُکھوں اورمصائب کی شدت سے خستہ حال ہوئے اپنے لبادے کو اتارکر قومی جذبے اور حب الوطنی کا اُجلا لباس پہن لیا جائے اور''عوامی نمایندوں'' کے رُوپ میں چُھپے اُن عناصرکو وہ سب کچھ لوٹا دیا جائے جو انھوں نے ہمیں دیا۔
آج تھوڑی سی تکلیف سہنے کا وقت ہے کیونکہ کچھ مسافت طے کرکے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر چھوٹی سی مہر لگاکر بہت سی تکالیف سے ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی ہے۔ آج اُن لوگوں کو بھی ہمیشہ کے لیے اپنے دِلوں سے رخصت کرنا ہے جو صرف عام انتخابات کے موقعے پر ہی نظر آتے ہیں اور پھر ڈھونڈے بھی نہیں مِلتے بلکہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنے اپنے عالیشان محلات کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ''ڈھونڈوگے اگر مُلکوں مُلکوں، مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم'' گنگناتے رہتے ہیں اور عوام کو تصور میں لاکر اپنے چہروں پر طنزیہ ہنسی سجا لیتے ہیں۔
انھیں تو برسوں سے یہ یقین ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی قوم کے نادان ووٹر اچھے دنوں کی آس، مسائل و مصائب ختم ہونے کی امید اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا موسم آنے کے آسرے پر پھر ہمیں منتخب کریں گے اور یہ ہماری مرضی ہوگی کہ ہم ایوانوں میں جاکر اُن کے لیے کچھ کریں یا نہ کریں۔
آج اُن نام نہاد جمہوریت پسند عناصرکا بوریا بستر گول کرنے کا وقت ہے جوقومی خزانہ خود پر اور اپنوں پر تو کُھل کرخرچ کرتے رہے لیکن عوام کی خواہشات ، غریبوں کی ضروریات اور بے سہاروں کی فریاد پر اُن کے کانوں پر جوں رینگی نہ اُن کے بے حِس دِلوں میں کوئی عوامی درد پیدا ہُوا۔ وہ عوامی خدمت کے نعرے مارتے رہے لیکن صرف اپنی ہی خدمت کرتے رہے۔
ہم سب کو مِل کر اپنے ووٹ کی طاقت سے ہر اُس شخص کو اقتدار کے ایوانوں میں جانے سے روکنا ہے جس نے اپنی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات سے عوام کوگھروں سے نکل کر احتجاج کرنے پر مجبورکیا ۔ ہمیں اُن عناصرکو ہر صورت ''عوامی نمایندے'' کی حیثیت سے ملنے والی سہولتوں سے محروم رکھنا ہے جنہوں نے ملک بھرکے عوام کو اُن کے بنیادی حقوق اور اہم سہولتوں سے محروم رکھا۔
ہمیں دہشتگردوں کے سرپرستوں، سہولت کاروں اور بے گناہوں کا خون بہانے والوں کے ہمدردوں کو بھی ووٹ کی طاقت سے زیر کرنا ہے۔ اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال انتہا پسندی کے عفریت کو بھی قابو میں لانے میں یقینی طور پر مددگار ثابت ہوگا۔
اُن لوگوں کو لگامیں ڈالنا بہت ضروری ہے جو عوام کو روزگار دینے، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں لوگوں کے گھروں تک پہنچانے اور ملک کے ہرگلی کوچے میں امن وآشتی کا ماحول مہیا کرنے کے ''دوغلے'' دعوے کرتے کرتے اقتدار اور اختیارکی مستی میں اتنے بدمست ہوگئے کہ عوام سے کیا گیا ہر وعدہ بھول گئے اور ایسے بھولے کہ برسوں یاد نہ رہا کہ اپنے لوگوں کوکچھ دینا بھی تھا۔ اب، آپ ووٹ کا صحیح استعمال کرکے اُن کو سب کچھ یاد دلادیں۔
دوستو! یاد ہے نا، ہم قطاروں میں لگ کرگیس، بجلی، ٹیلیفون، پانی کے بِل جمع کراتے رہے اور ٹیکسوں سے ثمرات اُن کو ملے جنھیں عوام اور ملک کا کبھی درد تھا، ہے نہ ہوگا۔ اقتدارکے ایوانوں میں برا جمان ہوکر اور عوامی وسائل کو ہڑپ کرکے بھی جن لوگوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، اب انھیں اُن کے کیے کا پھل دینے کا وقت آگیا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اختیارات سے دامن بھرا ہونے کے باوجود 5 سال عوام کے لیے ''کچھ'' نہ کر سکے اور اب پھر عوام کے لیے ''سب کچھ'' کرنے کا نعرہ مارکر انتخابی میدان میں کُود پڑے ہیں۔ اِنہیں ان کی ''عوام دشمن'' حرکتوں، ''فریبی'' نعروں، ''غریب دشمن'' پالیسیوں اور عوام کی خدمت کے نام پر عوامی وسائل اور قومی خزانے کی ''لُوٹ مار'' کا مزہ چَکھانا بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اِس عظیم مقصد میںکامیابی جب مِلے گی جب ہر کوئی پولنگ اسٹیشن تک جائے گا اور ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کرے گا۔
حضرت علی ؓ کا مشہور قول ہے کہ ''طاقت، اقتدار اور اختیارملنے سے لوگ مقبول نہیں ہوتے بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں''۔ یقیناً 2013ء میں جو لوگ ''عوامی خدمت'' کے دعوے اور وعدے لے کر ایوانوں میں پہنچے وہ بے نقاب ہی تو ہوئے ہیں، یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ایسا تو ہر بار ہوتا ہے۔
اِس بار انتخابی سیاہی کی ایک لکیر اپنے انگوٹھے پر لگاکر سیاست کے نام پر منافقت کرنے والوں اور قومی دولت لُوٹنے والوں کو ناقابل فراموش سبق سکھایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے اہم کام گھر سے نکلنا ہے۔
اگر ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے گھر سے نکلے تو یقین جانیے کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے غیر جمہوری عناصرکو قومی سیاست اور ایوانوں سے نکالنے میں بڑی مدد ملے گی ۔
چلتے چلتے انتخابات (Election) کے حوالے سے بڑے لوگوں کی کچھ باتیں نذر قارئین ہیں
٭ بُرے لوگوں کو وہ اچھے لوگ منتخب کرتے ہیں جو ووٹ نہیں ڈالتے۔
٭ اگر آپ کے پاس ملک و قوم کی ترقی کا وژن ہے تو ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔
٭جس کو آپ نے ووٹ دیا ہے، اُس کا ہارنا شکست نہیں ہے بلکہ اصل شکست تو یہ ہے آپ ووٹ ہی نہ دیں۔
٭ ووٹ ضرور دیں! کیونکہ یہ آپ کا حق، آپ کا فرض اور آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
٭ آپ کا ووٹ انفرادی طور پرکسی امیدوارکو ہی منتخب نہیں کرتا بلکہ پالیسیوں کا بھی انتخاب کرتا ہے۔
٭ عوام کو ووٹ کے حق سے صرف ایک ہی قوت روک سکتی ہے اور وہ خود عوام ہیں۔
عام انتخابات کے حوالے سے ہی کسی شاعر نے ووٹروں کوکیا خوب نصیحت کی ہے کہ
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کردے
اداس چہرے گلاب کردے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کردے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا !
جودل کا موسم سہانا کردے
وطن سے غربت روانہ کردے
جو آستینوںکے سانپ مارے
جو بم دھماکے فسانہ کردے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
جو دست ِ قاتل کو کاٹ ڈالے
جو دِیں فروشوں کا دَم نکالے
جو ماؤں بہنوں کا ہو محافظ
جو وحشیوں کو لگام ڈالے
تم ایسے رہبرکو ووٹ دینا
جو دشمنوں سے نہ خوف کھائے
جسے ہمیشہ خدا کا ڈر ہو
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
خدا کرے وہ بہار آئے
جو قرض سارے اتار جائے
میرے وطن کے نصیب میں بھی
سکون، راحت، قرار آئے
خداکرے کہ میرے وطن پر
گھٹائیں رحمت کی روز برسیں
میرے وطن کا مِلے نہ ویزا
یہ اہل یورپ بھی کچھ تو ترسیں
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا !
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا!
میرے دوستو! زندگی میں ایک بار وہ موقع مل رہا ہے جو روزانہ یا ماہانہ بلکہ سالانہ بھی نہیں ملتا، 5 سال انتظار کرنا پڑا ہے کہ گزشتہ برسوں میں تکالیف، پریشانیوں، دُکھوں اورمصائب کی شدت سے خستہ حال ہوئے اپنے لبادے کو اتارکر قومی جذبے اور حب الوطنی کا اُجلا لباس پہن لیا جائے اور''عوامی نمایندوں'' کے رُوپ میں چُھپے اُن عناصرکو وہ سب کچھ لوٹا دیا جائے جو انھوں نے ہمیں دیا۔
آج تھوڑی سی تکلیف سہنے کا وقت ہے کیونکہ کچھ مسافت طے کرکے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر چھوٹی سی مہر لگاکر بہت سی تکالیف سے ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی ہے۔ آج اُن لوگوں کو بھی ہمیشہ کے لیے اپنے دِلوں سے رخصت کرنا ہے جو صرف عام انتخابات کے موقعے پر ہی نظر آتے ہیں اور پھر ڈھونڈے بھی نہیں مِلتے بلکہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنے اپنے عالیشان محلات کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ''ڈھونڈوگے اگر مُلکوں مُلکوں، مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم'' گنگناتے رہتے ہیں اور عوام کو تصور میں لاکر اپنے چہروں پر طنزیہ ہنسی سجا لیتے ہیں۔
انھیں تو برسوں سے یہ یقین ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی قوم کے نادان ووٹر اچھے دنوں کی آس، مسائل و مصائب ختم ہونے کی امید اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا موسم آنے کے آسرے پر پھر ہمیں منتخب کریں گے اور یہ ہماری مرضی ہوگی کہ ہم ایوانوں میں جاکر اُن کے لیے کچھ کریں یا نہ کریں۔
آج اُن نام نہاد جمہوریت پسند عناصرکا بوریا بستر گول کرنے کا وقت ہے جوقومی خزانہ خود پر اور اپنوں پر تو کُھل کرخرچ کرتے رہے لیکن عوام کی خواہشات ، غریبوں کی ضروریات اور بے سہاروں کی فریاد پر اُن کے کانوں پر جوں رینگی نہ اُن کے بے حِس دِلوں میں کوئی عوامی درد پیدا ہُوا۔ وہ عوامی خدمت کے نعرے مارتے رہے لیکن صرف اپنی ہی خدمت کرتے رہے۔
ہم سب کو مِل کر اپنے ووٹ کی طاقت سے ہر اُس شخص کو اقتدار کے ایوانوں میں جانے سے روکنا ہے جس نے اپنی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات سے عوام کوگھروں سے نکل کر احتجاج کرنے پر مجبورکیا ۔ ہمیں اُن عناصرکو ہر صورت ''عوامی نمایندے'' کی حیثیت سے ملنے والی سہولتوں سے محروم رکھنا ہے جنہوں نے ملک بھرکے عوام کو اُن کے بنیادی حقوق اور اہم سہولتوں سے محروم رکھا۔
ہمیں دہشتگردوں کے سرپرستوں، سہولت کاروں اور بے گناہوں کا خون بہانے والوں کے ہمدردوں کو بھی ووٹ کی طاقت سے زیر کرنا ہے۔ اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال انتہا پسندی کے عفریت کو بھی قابو میں لانے میں یقینی طور پر مددگار ثابت ہوگا۔
اُن لوگوں کو لگامیں ڈالنا بہت ضروری ہے جو عوام کو روزگار دینے، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں لوگوں کے گھروں تک پہنچانے اور ملک کے ہرگلی کوچے میں امن وآشتی کا ماحول مہیا کرنے کے ''دوغلے'' دعوے کرتے کرتے اقتدار اور اختیارکی مستی میں اتنے بدمست ہوگئے کہ عوام سے کیا گیا ہر وعدہ بھول گئے اور ایسے بھولے کہ برسوں یاد نہ رہا کہ اپنے لوگوں کوکچھ دینا بھی تھا۔ اب، آپ ووٹ کا صحیح استعمال کرکے اُن کو سب کچھ یاد دلادیں۔
دوستو! یاد ہے نا، ہم قطاروں میں لگ کرگیس، بجلی، ٹیلیفون، پانی کے بِل جمع کراتے رہے اور ٹیکسوں سے ثمرات اُن کو ملے جنھیں عوام اور ملک کا کبھی درد تھا، ہے نہ ہوگا۔ اقتدارکے ایوانوں میں برا جمان ہوکر اور عوامی وسائل کو ہڑپ کرکے بھی جن لوگوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، اب انھیں اُن کے کیے کا پھل دینے کا وقت آگیا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اختیارات سے دامن بھرا ہونے کے باوجود 5 سال عوام کے لیے ''کچھ'' نہ کر سکے اور اب پھر عوام کے لیے ''سب کچھ'' کرنے کا نعرہ مارکر انتخابی میدان میں کُود پڑے ہیں۔ اِنہیں ان کی ''عوام دشمن'' حرکتوں، ''فریبی'' نعروں، ''غریب دشمن'' پالیسیوں اور عوام کی خدمت کے نام پر عوامی وسائل اور قومی خزانے کی ''لُوٹ مار'' کا مزہ چَکھانا بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اِس عظیم مقصد میںکامیابی جب مِلے گی جب ہر کوئی پولنگ اسٹیشن تک جائے گا اور ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کرے گا۔
حضرت علی ؓ کا مشہور قول ہے کہ ''طاقت، اقتدار اور اختیارملنے سے لوگ مقبول نہیں ہوتے بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں''۔ یقیناً 2013ء میں جو لوگ ''عوامی خدمت'' کے دعوے اور وعدے لے کر ایوانوں میں پہنچے وہ بے نقاب ہی تو ہوئے ہیں، یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ایسا تو ہر بار ہوتا ہے۔
اِس بار انتخابی سیاہی کی ایک لکیر اپنے انگوٹھے پر لگاکر سیاست کے نام پر منافقت کرنے والوں اور قومی دولت لُوٹنے والوں کو ناقابل فراموش سبق سکھایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے اہم کام گھر سے نکلنا ہے۔
اگر ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے گھر سے نکلے تو یقین جانیے کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے غیر جمہوری عناصرکو قومی سیاست اور ایوانوں سے نکالنے میں بڑی مدد ملے گی ۔
چلتے چلتے انتخابات (Election) کے حوالے سے بڑے لوگوں کی کچھ باتیں نذر قارئین ہیں
٭ بُرے لوگوں کو وہ اچھے لوگ منتخب کرتے ہیں جو ووٹ نہیں ڈالتے۔
٭ اگر آپ کے پاس ملک و قوم کی ترقی کا وژن ہے تو ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔
٭جس کو آپ نے ووٹ دیا ہے، اُس کا ہارنا شکست نہیں ہے بلکہ اصل شکست تو یہ ہے آپ ووٹ ہی نہ دیں۔
٭ ووٹ ضرور دیں! کیونکہ یہ آپ کا حق، آپ کا فرض اور آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
٭ آپ کا ووٹ انفرادی طور پرکسی امیدوارکو ہی منتخب نہیں کرتا بلکہ پالیسیوں کا بھی انتخاب کرتا ہے۔
٭ عوام کو ووٹ کے حق سے صرف ایک ہی قوت روک سکتی ہے اور وہ خود عوام ہیں۔
عام انتخابات کے حوالے سے ہی کسی شاعر نے ووٹروں کوکیا خوب نصیحت کی ہے کہ
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کردے
اداس چہرے گلاب کردے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کردے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا !
جودل کا موسم سہانا کردے
وطن سے غربت روانہ کردے
جو آستینوںکے سانپ مارے
جو بم دھماکے فسانہ کردے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
جو دست ِ قاتل کو کاٹ ڈالے
جو دِیں فروشوں کا دَم نکالے
جو ماؤں بہنوں کا ہو محافظ
جو وحشیوں کو لگام ڈالے
تم ایسے رہبرکو ووٹ دینا
جو دشمنوں سے نہ خوف کھائے
جسے ہمیشہ خدا کا ڈر ہو
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
خدا کرے وہ بہار آئے
جو قرض سارے اتار جائے
میرے وطن کے نصیب میں بھی
سکون، راحت، قرار آئے
خداکرے کہ میرے وطن پر
گھٹائیں رحمت کی روز برسیں
میرے وطن کا مِلے نہ ویزا
یہ اہل یورپ بھی کچھ تو ترسیں
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا !
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا!