توازن

خیبرپختونخواہ کے ایک جیدمذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ سیاسی مخالفین کو"یہودی"کہتے ہیں۔


راؤ منظر حیات July 26, 2018
[email protected]

KARACHI: ملک کی قسمت کافیصلہ ہو گیا ہے۔دیکھاجائے توایک نیاسیاسی نظام جنم لے رہا ہے۔سدابادشاہی توخالق کی ہی ہے۔مگردنیاوی حکمران بھی بے حداہم ہیں۔ انھوں نے ہی بائیس کروڑ لوگوں کی قسمت کاجزوی فیصلہ کرناہے۔ان پرنگاہ مرکوز رکھنا اَزحد ضروری ہے۔

ایک نکتہ سامنے لاناچاہتاہوں۔آپ سے اس پرفیصلہ صادرکرواناچاہتاہوں۔وہ یہ کہ ہمارے قومی سطح کے سیاستدان یامستقبل کے ہونے والے حکمران یاماضی کے برگزیدہ لوگ، ایک دوسرے کے متعلق کیالغوگفتارکااستعمال کررہے ہیں۔ مستندترین زمینی خداؤں کاباطن ان کی زبان کے ذریعے لوگوں کے سامنے آرہاہے۔کون ساایساادنیٰ لفظ یاجملہ ہے جویہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کررہے۔کون ساگند ہے جس سے یہ اپنے مخالف کی کردارکشی نہیں فرما رہے۔

گزارش ہے کہ لوگ اپنے سرکردہ افرادکوہرطریقے سے نقل کرتے ہیں۔عام آدمی کی اخلاقیات کااصل معمار قوم کے رہنماہوتے ہیں۔مانیں یانہ مانیں۔ لوگ عام آدمی سے کبھی متاثرنہیںہوتے۔اس کی عادات، اخلاقیات اور طرزِ عمل کوقطعاًنہیں اپناتے۔صرف اورصرف مقتدرطبقہ ہی اس اہمیت کاحامل ہوتاہے کہ لوگ اس کی روش اورزبان کو اپنائیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سفیدپوش آدمی کا معاشرے پرکسی قسم کاکوئی اثرنہیںہوتا۔وہ توایک شناختی کارڈہے۔دنیامیں آیا،روزگارکی تلاش میں ذلیل ہوا، شادی ہوئی،اولادہوئی اورپھردنیاسے واپسی۔نہ کوئی نام اور نہ ہی مرنے کے بعدکسی قسم کااخلاقی سرمایہ۔اس کے برعکس، اہمیت توان رہنماؤں کی ہے،جنکے پاس حکومت ہوتی ہے یا الیکشن کے بعدجانے والی ہے۔

کسی بھی سیاسی رہنما پر ذاتی تنقید نہیں کر رہا۔ غیرمتعصب طریقے سے گزارش پیش کرتاہوں۔ایک بھی قومی سطح کاسیاستدان نہیں جواپنی زبان سے غلاظت نہیں پھیلارہا۔ایسے ایسے جملے کہے گئے کہ سنکریقین ہی نہیں آتاکہ یہ انسان ہوش وحواس میں ہے یا اس کے برعکس معاملات ہیں۔

لاہورسے تعلق رکھنے والے جیدسیاستدان نے مخالفین اورایک جماعت کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کو"بے غیرت"کہہ ڈالا،بات یہاں نہیں رکتی۔ موصوف نے عوام کودوحصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک "غیرت مند" جوان کی پارٹی کوووٹ دیگااوردوسرا"بے غیرت" جومخالف سیاسی حریف کوووٹ ڈالے گا۔درست ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس بات کانوٹس لیا۔مگرکیاایک انسان کا بازاری پن صرف ایک جملے سے ظاہرنہیں ہوگیا۔کیایہ جملہ اس اخلاقی گراوٹ کو ظاہرنہیں کرتاجو لوگ بڑی خوبصورتی سے اندر چھپا کر رکھتے ہیں۔بہترین کپڑوں سے اپنے وجود کو چند گھنٹوں کے لیے چھپاتولیتے ہیں۔ مگر ذہنی گراوٹ کاتوکوئی علاج نہیں۔یہ تو مشکل مواقع پر اصل صورت میں باہرآتی ہے۔اس باربھی یہی ہورہا ہے۔

بالکل اسی طرح خیبرپختونخوا کے سابقہ وزیراعلیٰ نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کے متعلق جو ہرزہ سرائی کی وہ بھی بے حد مشکل ہے۔انکایہ کہناکہ جس گھرپرمخصوص پارٹی کاجھنڈا لگاہوتاہے اس گھرکاتعلق بالاخانے سے ہوتا ہے۔بے حدتکلیف دہ بیانیہ ہے۔مجھے کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی دلچسپی نہیں۔مگرسیاسی اختلاف کواتنابڑھاوادے ڈالنا، کہ اگلے کے خاندان تک کوگالیاں دینا،کسی بھی اعتبار سے شرفاء کاشیوہ نہیں۔حکمرانوں کو تو ادراک ہی نہیں کہ ہر "براالفاظ"پلٹ کرواپس آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس معاشرے میں توخیربرائی سو فیصد واپس اسی گھرمیں آتی ہے جہاں سے معاملہ شروع ہوتا ہے۔

خیبرپختونخواہ کے ایک جیدمذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ سیاسی مخالفین کو"یہودی"کہتے ہیں۔ہربات پر دوسروں کو"کافر"،"لادین"،اور"غیرمسلم"قراردے دیتے ہیں۔ کمال ہے کہ دنیاوی مراعات سے شرابوریہ مذہبی رہنمااپنے مخالفین کوجس طرح لتاڑتے ہیں۔وقت آنے پرانھی کے سامنے کام کروانے یامیٹھی میٹھی وزارتیں لیتے،اس طرح معصوم بن جاتے ہیں کہ خداکی پناہ۔اپنے علاوہ ہرایک کو غیرمسلم قراردیکریہ کیاثابت کرناچاہتے ہیں۔کم ازکم طالبعلم توسمجھنے سے قاصرہے۔کوئی دینی بات نہیں کرنا چاہتا۔ مگر سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے یہ ہرگراہوا لفظ منہ سے نکالنانیکی سمجھتے ہیں اوراگرانھیں غلطی سے کچھ کہہ دیا جائے تویہ آسمان سرپراُٹھالیتے ہیں۔مجھے مذہبی علماء سے دلی عقیدت ہے۔مگرمذہب کوسیاست کے لیے استعمال کرنامحترم بات نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سربراہان جوفرماتے ہیں وہ بھی غورطلب ہے۔اپنے مخالفین کوگدھاکہنا۔انھیں انسانوں کی صف سے نکال کرجانورسے تشبیہہ دینابالکل غیرمناسب ہے۔آپ جتنے بڑے منصب پرہیں،مقبولیت کے تخت طاؤس پربراجمان ہیں،کم ازکم،انھیں تو اپنے منصب کی پاسداری کرنی چاہیے۔بالکل اسی طرح پنجاب کے سابقہ وزیراعلیٰ،ایک عجیب لہجے میں سیاسی مخالفین کومخاطب کرتے ہیں۔بے سروپااوراکھڑئے ہوئے القاب استعمال کرکے مخالفین کی ذاتی تحقیرفرماتے ہیں۔الزام خان،یوٹرن کا بادشاہ، چور،ڈاکواوردیگرادنیٰ الفاظ ہرگزہرگزادا نہیں ہونے چاہیے۔

نجی محفلوں میں جومرضی کہیں۔مگرجلسے اورجلوسوں میں کبھی احساسِ ذمے داری کادامن قطعاًنہیں چھوڑناچاہیے۔یہ کہنا کہ پیٹ چاک کرکے پیسے نکلواؤں گا۔سڑکوں پر گھسیٹونگا۔ میری نظرمیں یہ مناسب فقرے نہیں ہیں۔اس سے پہلے کہ تحریرکوسمیٹوں۔ریحام خان کی کتاب پڑھنے کااتفاق ہوا۔ قطعاًاس خاتون کونہیں جانتا۔جاننا بھی نہیں چاہتا۔ مگر جس طرح کی کتاب انھوں نے تحریرفرمائی ہے،وہ حددرجہ متنازعہ فعل ہے۔خلوت کی باتیں توشرفاء مرتے دم تک سینے میں چھپاکررکھتے ہیں۔اس سے آگے کچھ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ قلم کی اپنی ایک توقیرہوتی ہے۔

گالیاں نماالفاظ کے علاوہ درجنوں ایسے جملے ہیں جنھیں قلمبندکرسکتاہوں۔پھرشرم آتی ہے۔بہرحال یہ ہے ہمارے سابقہ اورمستقبل کے حکمران،ان کی سوچ اوران کی زبان۔ بالکل عرض نہیں کررہاکہ سیاسی میدان میں مخالفین کے لیے سخت زبان نہ استعمال کی جائے۔مگرسخت زبان اوربازاری زبان میں حددرجہ فرق ہوتاہے۔الفاظ کوجس قالب میں ڈھالیں، وہ ڈھل جاتے ہیں۔سیاسی میدان کے کھلاڑیوں کوتولفظوں کی دنیاکابادشاہ ہوناچاہیے۔جیسے جوش ملیح آبادی کے سامنے اردوزبان کی تمام تراکیب ہاتھ باندھ کرکھڑی ہوتی تھیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے لیڈروں کواپنی زبان اوربیان پر کنٹرول ہوناچاہیے۔کیاکہناہے اورکیا نہیں کہنا،بخوبی علم ہوناچاہیے۔مگریہاں توآپ جتنی بازاری تقریرکرتے ہیں، دشمنوں کوغلیظ گالیاں دیتے ہیں۔لوگ زیادہ تالیاں بجاتے ہیں۔خوش ہوتے ہیں کہ واہ،دیکھا ہمارا لیڈر کتنا تگڑا ہے۔

زہرسے بجھی ہوئی زبان یہاں شائدایک مثبت بات سمجھی جاتی ہے۔مگریادرکھیے۔عام لوگوں کے کرداراوراخلاق کی تربیت دراصل حکمران کرتے ہیں۔ صرف اورصرف مقتدر طبقہ کرتاہے۔اگروہ اس کو برا نہیں گردانتے توعام آدمی کی زبان میں بھی وہی تلخی اور غلاظت عودکرآئیگی،جوانکے حکمرانوں کاخاصہ ہے۔نتیجہ یہ، ایک طرف توہم نازیباالفاظ کے اسیربن جاتے ہیں تودوسری طرف نوجوان نسل میں بھی وہی رویہ منتقل کردیتے ہیں۔وہ بھی اسی لب ولہجہ میں بولناشروع کردیتے ہیں۔یقین نہ آئے تواردگردعام لوگوں کی لفظی تراکیب پرغورکیجئے۔آپکوبتدریج گراوٹ شدت سے نظر آئیگی۔یہ دراصل ہمارے سیاسی رہنماؤں کی عطااوردین ہے۔اس سے کیسے مفرحاصل کیاجائے۔اسکاکوئی بھی سادہ طریقہ کم ازکم میرے سامنے نہیں ہے۔

عجیب اَمریہ بھی ہے کہ جن سیاسی رہنماؤں نے ملک حاصل کیا۔انگریزوں کی غلامی سے نکال کرایک نیاوطن دیا۔ان میں سب سے سرکردہ شخص قائداعظمؒ نے کبھی اپنے بدترین سیاسی مخالف کے متعلق بھی ادنیٰ بات نہیں کی۔ مگر بابائے قوم کویہاں عملی طورپرکون پوچھتاہے۔صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔کسی کواندازہ نہیں ہورہاکہ شدت پسندی کی ایک بنیادنازیبازبان ہے۔پورامعاشرہ شدیدعدم توازن کاشکار ہے۔ معاشرتی، سماجی،اقتصادی،مالیاتی،خاندانی اور روایتی توازن کسی مقام پرنظرنہیں آتا۔الیکشن تو ختم ہو گئے۔مگرمتنازعہ الفاظ کایہ جوہڑتواگلے کئی سالوں تک ہماری روح کوخراب سے خراب تر کرتارہیگا۔اب اس عجیب سے معاشرے میں توازن کون لے کرآئیگا!سمجھ نہیں آتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں