چاپلوسی کا کلچر
چاپلوسی کا یہ کلچر تقویت پکڑ لے تو پھر عملی طور پر یہ اوپر سے لے کر نیچے تک معاشرے پر اپنا اثر دکھاتا ہے۔
پاکستانی سماج کے مجموعی سیاسی، سماجی ، معاشی، قانونی ، اخلاقی معاملات پر نظر ڈالیں تو ہمیں کئی طرح کی بیماریاں غالب نظر آتی ہیں ۔ ان بیماریوں میں ایک بڑی بیماری خوشامدی اور چاپلوس کلچر بھی ہے ۔اگرچہ یہ کوئی نئی بیماری نہیں اور نہ ہی صرف ہمارے جیسے معاشروں میں موجود ہے۔
دنیا کے ہر معاشرے میں اس مرض کی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔مگر جب ہم اپنے سماج کی طرف گہرائی سے نظر ڈال کر صورتحال کا تجزیہ یا اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو بگاڑ میں موجود موذی بیماریوں میں ایک بیماری خوشامد اور چاپلوسی کا کلچر بھی ہے ۔
آپ جس شعبہ کی طرف نظر ڈالیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہم بس کسی کو یا تو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اس کی خوشنودی کے حصول کو اپنی اصل طاقت سمجھتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ادارے یا سماج مربوط اور منظم نہ ہو تو وہاں افراد کی اہمیت کم ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں ہم افراد کو فتح کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چاپلوسی یا خوشامد کا یہ کلچر ان کی ذاتی زندگیوں میں سود مند ثابت ہوگا۔
چاپلوسی کے کلچر میں سب سے بڑا مرض یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے سامنے وہ سچ بیان کرتے ہیں جو وہ سننا چاہتا ہے ۔ایسی صورت میں اصل سچ کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے سچ کو پیش کرکے دوسروں کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ۔
ہم نے مجموعی طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ اگر کسی بھی میدان میں ہمیں آگے بڑھنا ہے تو چاپلوسی کے کلچر کو اپنی بڑی طاقت بنانا ہے اور یہ ہی فتح یا کامیابی کی کنجی ہے ۔جب ہماری سوچ میں چاپلوسی کا یہ کلچر تقویت پکڑ لے تو پھر عملی طور پر یہ اوپر سے لے کر نیچے تک معاشرے پر اپنا اثر دکھاتا ہے ۔اس کا نتیجہ معاشرے میں مختلف قسم کی سیاسی ، سماجی اور اخلاقی برائیوں کے نتیجے میں سامنے آتا ہے ۔کیونکہ ہمارے سامنے طاقت کا حصول اہم ہوتا ہے اور ایک ہی وقت میں بہت کچھ فتح کرنے کا جنون بھی ہوتا ہے تو ہم وہ طور طریقے اختیار کرتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوتے ہیں یا ان کی مدد سے لوگوں کی حمایت اور قربت حاصل ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے میں خوشامد اور چاپلوسی کا کلچر کیسے پیدا ہوتا ہے او رکیونکر یہ طاقت پکڑ کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ بنیادی طور پر سماج میں اصل سوال سماج کی تشکیل کا ہوتا ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کیسے اپنے سماج کی سیاسی ، علمی ، فکری ، اخلاقی تربیت کرتے ہیں ۔کیونکہ سماج کی تشکیل ایک مربوط اور منظم تربیتی نظام سے جڑی ہوتی ہے ۔ سماج میں کوشش کی جاتی ہے کہ وہ عناصر جو رائے عامہ بناتے ہیں یا سوچ اور فکر کے مباحث کو طاقت دیتے ہیں وہ اس انداز سے معاشرے کی تشکیل کے عمل کو آگے بڑھائیں کہ ہمیں مثبت طرز عمل دیکھنے کو ملے ۔اس میں خاص طور پر ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اول تو تعلیم ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں اور اگر تعلیم دی جارہی ہے تو اس میں تربیت کا فقدان غالب ہوگیا ہے۔
یہ جو ہمیں معاشرتی سطح پر آمرانہ مزاج ، ڈکٹیٹر شپ یا سخت مزاجی یا دوسروں کی رائے کو قبول نہ کرنا او رمحض اپنی بات کو سچ سمجھنا اس کے پیچھے بھی یہ ہی خوشامدی کلچر ہے ۔ ہم جب تک برے کو برا نہیں کہیں گے یا کسی کی غلطی پر محض داد دینے کو ہی اپنی ذمے داری سمجھیں گے تو پھر یہ امر آمرانہ سوچ اور فکر کو ہی طاقت فراہم کرتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو خوشامدی کلچر ہے وہ تیزی سے اپنی وفاداروں کو بھی تبدیل کرتا ہے کیونکہ اس کلچر کے حامل لوگ عملی طور پر طاقت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں جن افراد کی وہ خوشامد کررہے ہیں وہ اپنی حیثیت کھو رہے ہیں یا کمزور ہورہے ہیں تو وہ بھی اپنا قبلہ بدلنے میں تاخیر نہیں کرتے ۔
اس وقت جس تیزی سے ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں لوگ اپنی پارٹیاں تبدیل کررہے ہیں اس میں بھی جہاں مفاد کا کلچر ہے وہیں خوشامدی سیاست کا عمل دخل بھی زیادہ ہے ۔کل تک یہ لوگ نواز شریف کے گیت گارہے تھے اور اب یہ ہی لوگ عمران خان کے گیت گائیں گے اور اس سے قبل یہ ہی لوگ جنرل مشرف اور چوہدری برادران کے گیت گاتے رہے ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں بھی خود قیادت بھی ایسے ہی خوشامدیوں پر مبنی کلچر اور افراد کو پسند کرتی ہے جو بس ان کے وفادار بھی رہیں اور ان کی تعریف و توصیف کے گن بھی گاتے رہیں۔ یہ ہی حال کچھ ہماری بیوروکریسی کا بھی بن گیا ہے جہاں وہ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے قانون کی حکمرانی سے زیادہ افراد کی تابعداری کرکے ان کو بھی خوش کرتے ہیں اور اپنے لیے بھی محفوظ راستہ تلاش کرتے ہیں۔
عمومی طور پر دلیل دی جاتی ہے کہ سماج کے مجموعی رویوں کی تشکیل میں والدین، استاد، علمائے کرام ، اہل دانش ، سیاست دان یا راہنماکلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو ان سب فریقین میں بھی خوشامدی کلچر بالادست نظر آتا ہے۔یہ طبقہ یا فریقین جو کچھ کررہے ہیں وہی سماج میں ہمیں دیکھنے کو بھی مل رہا ہے ۔ نئی نسل سمجھتی ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ وہی ہے جو ہمارے بڑوں نے اختیار کیا ہوا ہے ۔
اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ہم عملی طور پر سماج کی تشکیل کے عمل میں اپنا کردار ادا نہ کریں نہ تو خوشامدی کلچر ختم ہوگا اور نہ ہی سماج ایک مہذب معاشرے کی شکل میں سامنے آسکے گا۔ آپ کو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کون اپنا سچ بول رہا ہے اورکون کس کا سچ بول رہا ہے ۔ کیونکہ یہاں حکمرانوں کی حکمرانی سے زیادہ لوگوں کو اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہوتی ہے ۔ یہ لوگ حکمران یا طاقت ور طبقات کے ایسے قلابے ملاتے ہیں کہ خود ان کے اپنے ضمیر بھی ملامت کرتے ہونگے ۔مگر مسئلہ ضمیر کے جاگنے یا ملامت کا نہیں ان کے سامنے بس طاقت ور لوگوں کو خوش کرکے اپنے معاملات کو درست کرنا ہوتا ہے ۔