آئی ایم ایف ناگزیر
آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مطلب کمرکسنا ہے۔
لاہور:
معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، ہر ماہ قرضے کی بڑی ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں، باہر سے بڑے پیمانے پر اشیا خریدی جا رہی ہیں، ملکی مصنوعات کی بیرونی طلب پر سوالیہ نشان ہے، سرمایہ کاری بھی صرف چین کر رہا ہے، اب اگر فوری طور پر قرضے نہیں لیے گئے تو چار سے پانچ ماہ کے اندر غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے نیچے آ جائیں گے جہاں سے ڈیفالٹ کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آئے گی ،کیونکہ فارن ایکس چینج کی آمد اور انخلا میں 3 ارب ڈالرکا فرق ہے، اس لیے بہت ہوا تو موجودہ صورتحال میں نومبر نکل سکے گا اور پھر دیوالیہ کا خطرہ۔
اس لیے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بیرونی شعبے کے تباہ کن حالات سے نمٹنا ہو گا، مالی سال 2017-18ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالرکی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے سب سے زیادہ پائیدار اور فائدہ کن راستہ برآمدات کو بڑھانا ہے لیکن برآمدی شعبے کو اس خسارے کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کے لیے وسیع تر اصلاحات کی ضرورت ہیں ، سب سے بڑی پریشانی بجلی گیس کی ہے، توانائی کی قلت نے پیداواری لاگت بڑھا کر ایکسپورٹ کو غیرمسابقتی بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، بجلی گیس وافر مقدار میں قابل برداشت نرخوں پر فراہم کرنے میں برسوں لگیں گے، پھر ٹیکس نظام کا بھی مسئلہ ہے، اسے ٹھیک کرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔
انفرا اسٹرکچر مسائل الگ ہیں، اب صرف وہ طریقہ رہ گیا ہے جس سے وقتی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور وہ ہے روپے کی بے قدری، یہی آپشن نگراں حکومت نے استعمال کیا مگر بڑے پیمانے پر بے قدری کے باوجود محض 2 سے 3 ماہ تک ایکسپورٹ 2 ارب ڈالرکی حد کو عبورکر سکی اور اس کے بعد جون میں پھر سے 2 ارب ڈالر سے نیچے آ گئی، اس لیے مزید فائدے کے لیے روپے کی قدر مزید گرانا ہو گی، اس آپشن کے زیادہ استعمال سے ملک میں افراط زرکی شرح مسلسل بڑھے گی، حالات ہاتھ سے نکل گئے تو ہائپر انفلیشن پوری معیشت کو کھا جائے گا، ملک میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل سکتی ہے، لوگ تھوڑی سے چیز خریدنے کے لیے پیسے کے تھیلے بھرکر لائیں گے، یہ ناقابل تصور ہے اور اسے کوئی حکومت افورڈ نہیں کر سکتی۔
اسٹیٹ بینک کے پاس ان حالات سے نمٹنے کا واحد حل سود کی شرح بڑھا کر مانیٹری پالیسی سخت کرنا ہے، انتظامی اقدامات کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ درآمدات پر ڈیوٹیاں لگائی جا سکتی ہیں مگرکب تک، ان اقدامات سے بھی معیشت سست روی کا شکار ہو کر بالآخر کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی اور اس کا نتیجہ بھی بالآخر ہائی انفلیشن اور بیروزگاری کی صورت میں نکلے گا، اس لیے چارو ناچار لینا قرض ہی پڑے گا اور اس کے لیے سب سے زیادہ آسان آپشن آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے قرض مہنگا ملے گا، گرے لسٹنگ، ابترسیاسی حالات اور دیگر مسائل کی وجہ سے کمرشل قرضہ لینا ناممکن ہے، اس لیے بانڈ، سکوک بیچنے کا بھی موقع نہیں،کوئی دوست ملک بھی ایسی امداد نہیں کرسکتا جیسی آئی ایم ایف کرسکتا ہے کیونکہ بات دو تین ارب ڈالر کی نہیں اس سے زیادہ کی ہے مگر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے اس کے ساتھ ایک پروگرام بھی ہوگا جسے ماننا ہی پڑے گا یعنی ایک اور کڑوا گھونٹ۔
آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مطلب کمرکسنا ہے ، یہ کفایتی پروگرام کے ساتھ بجلی گیس مہنگی اور سبسڈی ختم کرنے کی بات کرے گا ٹیکس نیٹ میں توسیع کا ہدف بھی دیا جائے گا یعنی جہاں سے چلے تھے وہیں آن کھڑے ہوئے ، پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟
اخراجات سے زیادہ حکومتی آمدن اس مسئلے کا حل ہے تاکہ حکومت مالیاتی مسائل معیشت سمیت دیگر شعبوں کو ترقی دینے کے لیے خرچ کرسکے، موجودہ بد ترین حالات میں پاکستان کو قرض لینا پڑے گا ، نئی حکومت کو حلف اٹھانے کے فوری بعد اس ایشو پر فوکس کرنا پڑے گا، دیکھنا یہ ہے کہ قرضے کن شرائط پر اورکس پروگرام کے تحت لیے جاتے ہیں، بھاری قرضے، ٹیکس نظام میں نقائص، غیراہدافی سبسڈی، بجلی وگیس کے مسائل، انفرا اسٹرکچر معاملات، ایکس چینج ریٹ، پانی کی قلت اور دیگر ایسے ہی ایشوز اس پروگرام کا حصہ ہوںگے کیونکہ ملکی معیشت کے یہی چیدہ چیدہ مسائل ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ معیشت راتوں رات ٹھیک نہیں کرسکتی، معاشی نموکی شرح میں اضافے کا مطلب لوگوں کا معیار زندگی بلند ہونا نہیں، جب اشیا وخدمات کی قیمتیں بڑھیں تو معیشت کا حجم بھی بڑھ جائے گا، اسی کوجی ڈی پی میں اضافہ یا معاشی ترقی بھی کہا جا سکتا ہے مگر یہ ترقی مہنگائی کی قیمت پر حاصل ہوگی جس کے نیچے آبادی کا بڑا طبقہ دبا ہوا ہو گا، یہ ترقی ملک کے اندر امیرو غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو بھی واضح کرتی ہے، حقیقی ترقی پیداوار میں اضافہ ہے جو ڈیمانڈ اور لوگوں کے پاس زیادہ پیسے کی عکاس ہے، پیداوار میں اضافہ فیکٹریوں کا پہیہ زیادہ تیزی سے چلنے اور زمین کا زیادہ رزق اگانے کی جانب اشارہ ہے، اس پیداواری توسیع میں زیادہ لیبرکی کھپت ہوگی جو بیروزگاری کا خاتمہ اور غربت میں کمی کا باعث ہوتی ہے، ملک کو اس معاشی ترقی کا انتظار ہے مگر یہ راتوں رات ممکن نہیں، اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا اور یہ مانیٹری سے زیادہ بجٹری اقدامات سے ممکن ہوگی، میٹروٹرین جیسے مہنگے اور غیرپیداواری منصوبوں کے بجائے مختصرمدتی کثیرجہتی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کرنسی ریٹس میں بطور پالیسی چھیڑ چھاڑ کے بجائے پیداواری لاگت میں کمی لانے پر غورکیا جانا چاہیے، اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضوں پر نظررکھنے کے بجائے آمدن بڑھانے پر انحصار کرنا ہوگا، باہر کے بجائے اندر دیکھاجائے یعنی ملکی وسائل کو استعمال میں لانے کے بارے میں سوچا جائے، زیادہ فائدہ دینے والے طویل مدتی منصوبے بھی معیشت کو دیرپا ترقی دینے کے لیے انتہائی ضروری ہیں خاص طور پر ڈیمز، یہ معاملات ایسی حکمت عملی کو اپنائے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتے جوترجیحات پر مبنی ہو اور ان ترجیحات کا انحصار ضرورت پر ہوگا اور اس مقصد کے لیے ایک پختہ سوچ کی حامل حکومت چاہیے جس کے پیش نظر عوام کی خدمات کرنا ہو سبزباغ دکھانا نہیں۔
معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، ہر ماہ قرضے کی بڑی ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں، باہر سے بڑے پیمانے پر اشیا خریدی جا رہی ہیں، ملکی مصنوعات کی بیرونی طلب پر سوالیہ نشان ہے، سرمایہ کاری بھی صرف چین کر رہا ہے، اب اگر فوری طور پر قرضے نہیں لیے گئے تو چار سے پانچ ماہ کے اندر غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے نیچے آ جائیں گے جہاں سے ڈیفالٹ کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آئے گی ،کیونکہ فارن ایکس چینج کی آمد اور انخلا میں 3 ارب ڈالرکا فرق ہے، اس لیے بہت ہوا تو موجودہ صورتحال میں نومبر نکل سکے گا اور پھر دیوالیہ کا خطرہ۔
اس لیے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بیرونی شعبے کے تباہ کن حالات سے نمٹنا ہو گا، مالی سال 2017-18ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالرکی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے سب سے زیادہ پائیدار اور فائدہ کن راستہ برآمدات کو بڑھانا ہے لیکن برآمدی شعبے کو اس خسارے کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کے لیے وسیع تر اصلاحات کی ضرورت ہیں ، سب سے بڑی پریشانی بجلی گیس کی ہے، توانائی کی قلت نے پیداواری لاگت بڑھا کر ایکسپورٹ کو غیرمسابقتی بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، بجلی گیس وافر مقدار میں قابل برداشت نرخوں پر فراہم کرنے میں برسوں لگیں گے، پھر ٹیکس نظام کا بھی مسئلہ ہے، اسے ٹھیک کرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔
انفرا اسٹرکچر مسائل الگ ہیں، اب صرف وہ طریقہ رہ گیا ہے جس سے وقتی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور وہ ہے روپے کی بے قدری، یہی آپشن نگراں حکومت نے استعمال کیا مگر بڑے پیمانے پر بے قدری کے باوجود محض 2 سے 3 ماہ تک ایکسپورٹ 2 ارب ڈالرکی حد کو عبورکر سکی اور اس کے بعد جون میں پھر سے 2 ارب ڈالر سے نیچے آ گئی، اس لیے مزید فائدے کے لیے روپے کی قدر مزید گرانا ہو گی، اس آپشن کے زیادہ استعمال سے ملک میں افراط زرکی شرح مسلسل بڑھے گی، حالات ہاتھ سے نکل گئے تو ہائپر انفلیشن پوری معیشت کو کھا جائے گا، ملک میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل سکتی ہے، لوگ تھوڑی سے چیز خریدنے کے لیے پیسے کے تھیلے بھرکر لائیں گے، یہ ناقابل تصور ہے اور اسے کوئی حکومت افورڈ نہیں کر سکتی۔
اسٹیٹ بینک کے پاس ان حالات سے نمٹنے کا واحد حل سود کی شرح بڑھا کر مانیٹری پالیسی سخت کرنا ہے، انتظامی اقدامات کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ درآمدات پر ڈیوٹیاں لگائی جا سکتی ہیں مگرکب تک، ان اقدامات سے بھی معیشت سست روی کا شکار ہو کر بالآخر کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی اور اس کا نتیجہ بھی بالآخر ہائی انفلیشن اور بیروزگاری کی صورت میں نکلے گا، اس لیے چارو ناچار لینا قرض ہی پڑے گا اور اس کے لیے سب سے زیادہ آسان آپشن آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے قرض مہنگا ملے گا، گرے لسٹنگ، ابترسیاسی حالات اور دیگر مسائل کی وجہ سے کمرشل قرضہ لینا ناممکن ہے، اس لیے بانڈ، سکوک بیچنے کا بھی موقع نہیں،کوئی دوست ملک بھی ایسی امداد نہیں کرسکتا جیسی آئی ایم ایف کرسکتا ہے کیونکہ بات دو تین ارب ڈالر کی نہیں اس سے زیادہ کی ہے مگر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے اس کے ساتھ ایک پروگرام بھی ہوگا جسے ماننا ہی پڑے گا یعنی ایک اور کڑوا گھونٹ۔
آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مطلب کمرکسنا ہے ، یہ کفایتی پروگرام کے ساتھ بجلی گیس مہنگی اور سبسڈی ختم کرنے کی بات کرے گا ٹیکس نیٹ میں توسیع کا ہدف بھی دیا جائے گا یعنی جہاں سے چلے تھے وہیں آن کھڑے ہوئے ، پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟
اخراجات سے زیادہ حکومتی آمدن اس مسئلے کا حل ہے تاکہ حکومت مالیاتی مسائل معیشت سمیت دیگر شعبوں کو ترقی دینے کے لیے خرچ کرسکے، موجودہ بد ترین حالات میں پاکستان کو قرض لینا پڑے گا ، نئی حکومت کو حلف اٹھانے کے فوری بعد اس ایشو پر فوکس کرنا پڑے گا، دیکھنا یہ ہے کہ قرضے کن شرائط پر اورکس پروگرام کے تحت لیے جاتے ہیں، بھاری قرضے، ٹیکس نظام میں نقائص، غیراہدافی سبسڈی، بجلی وگیس کے مسائل، انفرا اسٹرکچر معاملات، ایکس چینج ریٹ، پانی کی قلت اور دیگر ایسے ہی ایشوز اس پروگرام کا حصہ ہوںگے کیونکہ ملکی معیشت کے یہی چیدہ چیدہ مسائل ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ معیشت راتوں رات ٹھیک نہیں کرسکتی، معاشی نموکی شرح میں اضافے کا مطلب لوگوں کا معیار زندگی بلند ہونا نہیں، جب اشیا وخدمات کی قیمتیں بڑھیں تو معیشت کا حجم بھی بڑھ جائے گا، اسی کوجی ڈی پی میں اضافہ یا معاشی ترقی بھی کہا جا سکتا ہے مگر یہ ترقی مہنگائی کی قیمت پر حاصل ہوگی جس کے نیچے آبادی کا بڑا طبقہ دبا ہوا ہو گا، یہ ترقی ملک کے اندر امیرو غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو بھی واضح کرتی ہے، حقیقی ترقی پیداوار میں اضافہ ہے جو ڈیمانڈ اور لوگوں کے پاس زیادہ پیسے کی عکاس ہے، پیداوار میں اضافہ فیکٹریوں کا پہیہ زیادہ تیزی سے چلنے اور زمین کا زیادہ رزق اگانے کی جانب اشارہ ہے، اس پیداواری توسیع میں زیادہ لیبرکی کھپت ہوگی جو بیروزگاری کا خاتمہ اور غربت میں کمی کا باعث ہوتی ہے، ملک کو اس معاشی ترقی کا انتظار ہے مگر یہ راتوں رات ممکن نہیں، اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا اور یہ مانیٹری سے زیادہ بجٹری اقدامات سے ممکن ہوگی، میٹروٹرین جیسے مہنگے اور غیرپیداواری منصوبوں کے بجائے مختصرمدتی کثیرجہتی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کرنسی ریٹس میں بطور پالیسی چھیڑ چھاڑ کے بجائے پیداواری لاگت میں کمی لانے پر غورکیا جانا چاہیے، اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضوں پر نظررکھنے کے بجائے آمدن بڑھانے پر انحصار کرنا ہوگا، باہر کے بجائے اندر دیکھاجائے یعنی ملکی وسائل کو استعمال میں لانے کے بارے میں سوچا جائے، زیادہ فائدہ دینے والے طویل مدتی منصوبے بھی معیشت کو دیرپا ترقی دینے کے لیے انتہائی ضروری ہیں خاص طور پر ڈیمز، یہ معاملات ایسی حکمت عملی کو اپنائے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتے جوترجیحات پر مبنی ہو اور ان ترجیحات کا انحصار ضرورت پر ہوگا اور اس مقصد کے لیے ایک پختہ سوچ کی حامل حکومت چاہیے جس کے پیش نظر عوام کی خدمات کرنا ہو سبزباغ دکھانا نہیں۔