عمران خان دلوں میں اُتریں گے یا دلوں سے اُتریں گے

دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان عوام کے دلوں سے اترتے ہیں یا پھر قوم کی امیدوں پر کھرے اترتے ہیں

عمران خان کو وزیراعظم بننے پر ماضی کے تمام وزرائے اعظم کی نسبت کہیں زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

پاکستان میں حالیہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑدیئے ہیں۔ پی ٹی آئی وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تو حکومت بنا ہی رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گڑھ صوبہ پنجاب میں بھی اس کی پوزیشن مستحکم ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کے خلاف کسی بھی صورت فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کریں گی۔

اس تمام تر صورتحال سے قطع نظر تحریک انصاف کی حکومت کو بہت سے دوسرے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں؛ اور بلاشبہ عمران خان نے بھی متوقع کامیابی کے پیشِ نظر بہت سے دعوے اور وعدے کیے جن پرعملدرآمد ہونا باقی ہے۔

(ن) لیگ کے دورِ اقتدار میں پی ٹی آئی نے جس طرح حکومت کو آڑے ہاتھوں لیے رکھا، نئی حکومت کو بھی بہت سے سوالات و اقدامات مثلاً انتخابات 2013 میں ہونے والی مبینہ دھاندلی سے لے کر 126 روزہ دھرنے تک، جھوٹی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے سے لے کر فوج کی زیرِ نگرانی ہونے والی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر تنقید اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو ریلو کٹا کہنے تک، وقت کے وزیراعظم کو ''اوئے نوازشریف'' اور شاہد خاقان عباسی کو کٹھ پتھلی اور چوہا کہنے تک، پاناما لیک اسکینڈل سے لے کر نوازشریف اور ان کے خاندان کے جیل جانے تک، زرداری نواز بھائی بھائی کا نعرہ لگانے سے لے کر خود دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کو اپنی جماعت میں جمع کرنے تک، اور بالآخر انتخابات 2018 میں پاکستان کی تقریباً تمام جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات وغیرہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے اپنے بیانات میں یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کو ایک سازش کے تحت امریکا کی جنگ میں جھونک دیا گیا جس سے نکلنا ہوگا، نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں بلاشبہ نہ صرف ہماری افواج کے ہزاروں جوان اور بے گناہ شہری شہید ہوئے بلکہ مالی طور پر بھی اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن امریکا آج بھی ''ڈُومور'' کا حکم صادر کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتا اور ہماری ان قربانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان پر کوئی بھی پابندی لگانے سے گریز نہیں کرتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت امریکا کا جو چہرہ اب سامنے آیا ہے، وہ ماضی کی نسبت بہت ہی مختلف ہے۔ عمران خان ملکی داخلی معاملات سے امریکا کو کس طرح باہر نکال پھینکیں گے؟ دہشت گردی کی اس پرائی جنگ کو کس طرح ختم کیا جائے گا؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں۔ اس کے ساتھ عمران خان کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہ اقدامات پاک امریکا تعلقات پر کس طرح اثرانداز ہوں گے اور اگر امریکا کے ساتھ ماحول دوستانہ و سازگار نہ ہوا تو یہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا یا اس کے دُور رس منفی نتائج بھگتنے ہوں گے۔

یقیناً نئی حکومت کو ملک و قوم کا مفاد مدِنظر رکھتے ہوئے ملکی خارجہ پالیسی کو ذمہ دارانہ طریقے سے چلانا ہوگا تاکہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھا جائے؛ اور امریکا سمیت عالمی برادری کو باور کرانا ہوگا کہ پاکستان نہ صرف اپنے ملک بلکہ پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور پڑوسی ممالک میں قیام امن پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔


عمران خان نے اپنی جماعت کی کامیابی کے بعد جو پہلا خطاب کیا، اس میں انہوں نے بھارت جیسے سخت و روایتی دشمن ملک کو امن کا پیغام دے کر نہ صرف پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیا بلکہ بھارت میں بسنے والے امن کے خواہاں عوام کے دل بھی جیت لیے۔ تاہم بھارت کو ایک قدم کے بدلے دو قدم بڑھنے کا عندیہ دینے والےعمران خان کو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی سب سی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر کے حل کےلیے بہترین حکمت عملی سے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ لیکن اگر ماضی کے ورق پلٹے جائیں تو کشمیریوں کو ان کی امنگوں کے تحت حق خود ارادیت دلانا اتنا آسان نہیں جس کی توقعات کی جاتی رہی ہیں۔ بہرحال، حکومت کےلیے یہ مسئلہ بھی ایک چیلنج بن کر سامنے آئے گا۔

بہت سے چیلنجوں کے ساتھ نئی حکومت کو ایک بہت بڑے آگ کے دریا سے گزرنا ہوگا؛ اور وہ ہے دہشت گردی پر قابو پانا اور اسے ختم کرنا۔ پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور جس کے باعث عوام، سیاستدان، پاک فوج کے جوانوں اور اعلیٰ افسران سمیت ہزاروں افراد اب تک جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ اور پشاور تو ایک وقت میں برما، عراق، شام اور فلسطین کی سی صورتحال پیش کررہے تھے۔ آئے روز لسانیت، فرقہ پرستی اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور سب سے بڑھ کر راہزنی (اسنیچنگ) جیسی وارداتیں عوام کےلیے درد سر بنی ہوئی تھیں۔ لیکن پھر 2013 کے بعد حالات تبدیل ہوتے نظر آئے۔ پاک فوج نے شدت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے جن کی بدولت تخریب کاری کی ان وارداتوں میں واضح کمی نظر آئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک سے اب بھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔

حالیہ انتخابات سے چند روز قبل ہی مستونگ واقعے میں سراج رئیسانی سمیت سیکڑوں افراد کی شہادت، پشاور میں ہارون بلور، بنوں میں اکرم خان درانی پر دو بار قاتلانہ حملوں میں شہادتیں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں کہ ضرب عضب اور ردالفساد جیسے بڑے آپریشنز جاری رہنے چاہئیں۔

ملک میں پی آئی اے، اسٹیل مل اور پاکستان ریلویز سمیت کم و بیش 124 سرکاری ادارے ہیں۔ یہ تعداد نئی حکومت کی توجہ کی منتظر ہے کیوں کہ عمران خان نے ہمیشہ قومی اداروں میں کرپشن، بے قاعدگیوں، من پسند افراد کی تعیناتیوں اور ان تمام وجوہ کی بنا پر اداروں کی زوال پذیری پر آواز اٹھائی۔ اب ان پر عملدرآمد کا وقت آن پہنچا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں قائم اداروں سے کرپٹ افراد کی نشاندہی اور انہیں عہدوں سے برطرف کرنا، سزا دلانا، ادارے کی مینجمنٹ بہتر کرنا اور نئی مینجمنٹ کے ذریعے اداروں کو ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا کرنا یقیناً جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

فاٹا اور اس سے ملحق علاقوں میں برسوں سے خیموں میں مقیم دہشت گردی کے مارے عام اندرونی مہاجرین یا آئی ڈی پیز بھی نئی حکومت کی توجہ کے مستحق ہیں۔ ان خیموں میں شہدا کی بیوائیں بھی ہیں تو یتیم بچے بھی شامل ہیں۔ یہ منتظر ہیں کہ کوئی ان کے آنسو پونچھے اور انہیں عزت سے اپنے گھروں کو واپس روانہ کرے۔ گزشتہ حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ خدارا ان کی بھی خبر لیجیے۔

قوم نے تحریک انصاف کو امید کی آخری کرن سمجھ کر بھاری مینڈیٹ سے کامیاب کرایا ہے اور اب عمران خان کے کاندھوں پر بھاری مینڈیٹ کے ساتھ بھاری ذمہ داریاں بھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیراعظم روایتی سیاستدانوں کی فہرست میں اپنا نام شامل کروا کرعوام کے دلوں سے اترتے ہیں یا پھر نئے عزم و حوصلے کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے قوم کی امیدوں پر کھرے اترتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story