اورعوام جیت گئے
بم دھماکے،خود کش حملے اورٹارگٹ کلنگ عوام کو پولنگ اسٹیشنوںسے دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
بم دھماکے،خود کش حملے اورٹارگٹ کلنگ عوام کو پولنگ اسٹیشنوںسے دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔11مئی کوبزرگوں،خواتین اور نوجوانوں نے ہر قسم کے خوف وہراس کی پرواہ کیے بغیر بڑی تعداد میں باہر نکل کر جمہوریت دشمن عناصرکے عزائم کو خاک میں ملادیا۔یوں پاکستان کی تاریخ کے دسویں عام انتخابات انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بہرحال منعقد ہوگئے ۔یہ اس خطے کے عوام کی اجتماعی دانش ہے،جومذہبی شدت پسندی کاشکارہونے کے بجائے صوفیاء کی تحمل، برداشت اور رواداری کی تعلیمات پرعمل پیراہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی سبب تھاکہ 1947میںانھوں نے جید اور سقہ علماء کی مخالفت کے باوجود جدیدتعلیم یافتہ اور ماڈرن طرز حیات کے حامل محمدعلی جناح کی قیادت میں منظم ہونے کو ترجیح دی۔ قیام ِپاکستان کے بعد بھی انھوں نے اسی روایت کو جاری رکھااور جب بھی انھیں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا آزادانہ موقع ملاتو انھوں نے مذہبی شدت پسند عناصر کے بجائے Left to Centreیا Right to Centreقسم کی جماعتوں کو حق حکمرانی دیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق11مئی کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ٹرن آوٹ 60فیصد کے لگ بھگ رہا۔اس کے علاوہ انتخابات سے قبل لگائے گئے اندازے بھی کم وبیش صحیح ثابت ہوئے۔اندازہ یہ تھاکہ مسلم لیگ(ن)اکثریتی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئے گی،جب کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہوںگی۔یہ بھی خیال تھا کہ تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کی بڑی جماعت کے طورپرسامنے آئے گی اور سندھ کی دونوںمقبول جماعتوں کی سابقہ حیثیت برقراررہے گی۔جب کہ بلوچستان میں حسب سابق بکھرے ہوئے مینڈیٹ کی توقع کی جارہی تھی،جو درست ثابت ہوئی ہے۔ گو کہ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں واضح اکثریت لینے کے ساتھ دیگر تین صوبوں میں بھی چند نشستیں لے کرقومی جماعت کے طورپر سامنے آئی ہے،مگرملک کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی رجحانات بھی سامنے آئے ہیں، جس سے صوبوں کے درمیان سیاسی تقسیم مزید گہری ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی سطح پر مخلوط حکومت کا قیام بعید از قیاس نہیں ہے۔جب کہ صوبائی سطح پر پنجاب میں مسلم لیگ(ن)بلاشرکت غیر ے حکمران بن گئی۔ سندھ میں ایک بار پھرتوقع ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم مخلوط حکومت قائم کریں گی۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں پھر جوڑتوڑ ہوں گے اور سرداروں اور بااثرخاندانوں کی برتری قائم رہے گی۔لہٰذایہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں صوبائی یاقومیتی بنیادوں پر تقسیم میں کسی قسم کی کمی واقع ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہواہے۔یہاںیہ دیکھناہوگا کہ وفاقی حکومت وفاق اور صوبوںکے علاوہ صوبوں کے درمیان تعلقات میں کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اگر اس مرحلہ پر وفاقی حکومت نے کسی قسم کے ایڈونچر کی کوشش کی یا صوبوںمیں من پسند حکومت قائم کرنے کی کوشش یا ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو حالات کشیدہ ہوسکتے ہیںاور قومی تشخص متاثرہونے کے خدشات پیداہوسکتے ہیں۔اس لیے وفاق میں قائم ہونے والی حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ دیگر قومی امورپرتوجہ دینے کے ساتھ صوبوں کے ساتھ تعلقات کوخوشگوار بنانے کی بھی کوشش کرے گی۔ویسے بھی اٹھارویں آئینی ترمیم نے صوبوں کے اختیارات میں جو اضافہ کیا ہے،اس کے بعد وفاق کی صوبوںکے معاملات میں مداخلت کاراستہ تقریباً بند ہوگیاہے۔اس لیے صوبوں میںاکثریتی جماعتوں کو حکومت سازی اور اپنے وسائل کو استعمال کرنے کا اختیارحاصل ہونا چاہیے۔
انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی کارکردگی،نگراں دور میں پیدا ہونے والے بعض حالات اور میڈیاکے کردار کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔کیونکہ ان تینوںایکٹروںکے انتخابی عمل پر خاصے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔دسمبر2012 میں معروف عالم دین ڈاکٹرطاہر القادری کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے اور انھوں نے انتخابی عمل میں بعض خامیوں اورخرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی درستی کے لیے دھرنوںکا اعلان بھی کیا۔ابتداء میں انھیں خاصی پذیرائی ملی،لیکن ان کے رویے غیر متوازن اور مبہم ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں ایک عمومی تاثریہ پیدا ہوا کہ وہ کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر انتخابات کے التواء کے ایجنڈے پر عمل پیراہیں۔جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت گہناتی چلی گئی۔لہٰذاجس تبدیلی کی توقع پروہ پاکستان تشریف لائے تھے،وہ پوری نہیں ہوسکی۔مگر انتخابی عمل میں جن خامیوںاور کمزوریوںکی انھوں نے نشاندہی کی تھی،انھیں وقت نے درست ثابت کیا۔
اس مرتبہ انتخابات سے قبل آئین کی شقوں 62اور 63کا خاصا چرچارہا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے ان شقوں کے بارے میں کوئی واضح پالیسی ترتیب نہیں دی۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ ریٹرننگ افسران نے امیدواروں سے بینک قرضوں کی تفصیلات ،انکم ٹیکس کے گوشواروں اور یوٹیلٹی بلوںکے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بجائے ان کی ذاتی زندگی سے متعلق سوالات کرکے اس پہلے مرحلے کو انتہائی مضحکہ خیز بنادیا۔اس کے علاوہ وہ تمام لوگ جوٹیکس اور قرضوں کے نادندہ تھے اوروہ تمام افراد جن پر جعل سازی کے الزامات تھے،انتخابی عمل کا بے دھڑک حصہ بن گئے اوراسکروٹنی کا عمل دھراکا دھرارہ گیا۔یوں انتخابی عمل کی شفافیت کے بارے میں بعض سنجیدہ سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔اس کے بعد جس انداز میں بعض غیر ریاستی عناصر نے تین سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی اور نگراں حکومت ان جماعتوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ،اس نے بھی انتخابی عمل کی غیر جانبداری کو متاثرکیا۔
انتخابات کے دن کے لیے کیے گئے اقدامات میں بھی ماضی کے مقابلے میں کئی سقم سامنے آئے ہیں۔پریزائڈنگ افسران کے لیے گریڈ17یا اس سے اوپر کا گزیٹیڈ افسرہونا لازمی ہوتا ہے، مگر اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر نان گزیٹیڈ افسران کی تقرری کی گئی۔بلکہ ٹیلی ویژن رپورٹس کے مطابق چپڑاسیوں اور خاکروبوں کاپولنگ افسران مقررکیا جانا،الیکشن کمیشن کی غیر سنجیدگی اور بے عملی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ 1970 سے1997 کے دوران ہونے والے عام انتخابات کے موقعے پر ملک میں موبائل فون کی سہولیات موجود نہیں تھیں۔مگر اس کے باوجود الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسران کے ذریعے پولنگ اسٹاف کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہواکرتاتھا۔ پریزائڈنگ افسران کو تین بجے شب ضلع یا تحصیل کے کسی مرکزی مقام پر بلایا جاتاتھا۔ جہاں انھیں بیلٹ پیپر سمیت دیگرسامان مہیا کیا جاتاتھا،جو پولیس کی نگرانی میں پولنگ اسٹیشن پر فجر کے وقت پہنچ جاتے تھے۔جب کہ پولنگ اسٹیشن پر ضروریات کی فراہمی ایک روز قبل مکمل کرلی جاتی تھی۔لیکن اس مرتبہ انتخابی سامان کی ترسیل میں جس اندازمیں تاخیر ہوئی اور بعض حلقوں میں دوپہرتک پولنگ شروع نہ ہوسکی۔اس صورتحال نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں۔ اسی طرح سہ پہر چار بجے الیکشن کمیشن نے پولنگ کے اوقات میں ایک گھنٹے کا اضافہ کیا۔لیکن یہ فیصلہ بھی پولنگ اسٹاف تک بروقت نہیں پہنچ سکا ،جس کی وجہ سے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ 5بجے روک دی گئی،جس نے ووٹروں کی پریشانی میں اضافہ کیا۔اسی طرح کراچی کے حلقہ 250کے بعض پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ عملہ اورسامان دوپہر تک نہیں پہنچ سکا۔ایک بڑے شہر میں جہاں فاصلے گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں طے ہوتے ہیں،اس قدر تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔اس حلقے کے ان پولنگ اسٹیشنوں کے لیے پولنگ کے دورانیہ میں تین گھنٹے کا اضافہ کیا گیا،اس فیصلہ کی اطلاع بھی پولنگ عملہ تک بروقت نہیں پہنچ سکی،جس کی وجہ سے اس حلقے کے بہت سے ووٹر ووٹ کا حق استعمال کیے بغیر واپس جانے پر مجبورہو گئے،جب کہ بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پرامن وامان کے مسائل بھی پیدا ہوئے ۔
ایک اور سنگین مسئلہ یہ بھی سامنے آیا کہ ایک نیوزچینل نے پہلا نتیجہ پانچ بج کر ایک منٹ پر نشرکیا۔بیشک یہ ایک پولنگ اسٹیشن کانتیجہ تھا۔ لیکن کسی پولنگ اسٹیشن پر اس قدر تیزی سے نتیجہ کا اعلان سمجھ سے باہرہے۔ میں1977 سے 1993 تک ہر انتخاب(عام ،ضمنی اور بلدیاتی) میںبطور پریذائڈنگ افسرخدمات انجام دے چکاہوں۔میرے تجربے کے مطابق وقت مقررہ یعنی پانچ بجے پولنگ ختم ہوجانے کی صورت میںکتنی بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کیا جائے ، گنتی اور نتیجے کی تیاری میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔محسوس یہ ہوا کہ متذکرہ بالا پولنگ اسٹیشن پر پولنگ چار بجے بندکرکے گنتی شروع کردی گئی تھی، جوالیکشن کمیشن کی جانب سے طے کردہ پولنگ دورانیہ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔جس پر توجہ دینے اورمناسب کارروائی کی ضرورت ہے۔
بہرحال 11مئی کو انتخابات کی کامیابی کا سہرا عوام کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے شدت پسند عناصر کی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بہت بڑی تعداد میں باہر نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔لیکن الیکشن کمیشن اورنگراں حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔مگر ان انتخابات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت سے سیاسی حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا کلچر اور روایت پڑرہی ہے،جس کے آیندہ مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور نگراں حکومت کی کمزوریوںکو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں اپنی نظر مستقبل پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بہتری کی طرف بڑھ سکیں۔