پرائمری اسکول کے دروازے پر

میں شہر میں اپنے پرائمری اسکول کی نئی عمارت کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ حلقہ 105کا پولنگ اسٹیشن تھا۔


Asghar Abdullah May 13, 2013
[email protected]

میں شہر میں اپنے پرائمری اسکول کی نئی عمارت کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ حلقہ 105کا پولنگ اسٹیشن تھا۔ ووٹ دینے والوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں ۔میں بھی اپنی قطارمیں کھڑا ہو گیا۔ یہ اسکول کی دوسری منزل کا برآمدہ تھا۔ قطار بڑی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔ وقت گزاری کے لیے میںاِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نظر اسکول سے متصل نارمل ایلیمنٹری انسٹی ٹیوٹ کے سرسبز گراونڈ میں اُس درخت پر پڑی اور میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ برسوں بعد بعد اس درخت کو اپنے مقام پر یوںقائم دائم دیکھ کر ، جہاں بے پایاں مسرت کا احساس ہوا ، وہاںوہ ساری یادیں بھی تازہ ہو گئیں ، جو اس درخت سے وابستہ تھیں۔

بہت سال پہلے مسلم اسکول کی پرانی عمارت سے آکے ، ہماری دسویں کی کلاس نے یہیں اس شجر سایہ دار تلے پناہ لی تھی ۔ ہمارے اسکول ٹیچر سجاد صاحب نے کہا، ''آج ہم یہیں بیٹھیں گے، اور پڑھیں گے ۔'' چند روز بعد ، نارمل ایلیمنٹری انسٹی ٹیوٹ کے چند کمرے عبوری طور پر مسلم اسکول کو دیدے گئے ۔ اتفاق سے جو کمرہ ہماری کلاس کے حصے میں آیا ، وہ اس درخت کے عین سامنے تھا۔ اب یہ درخت ، ایک طرح سے ہمارا 'ہم جماعت' بن گیا تھا، کیونکہ، روزانہ ایک دو پیریڈ اس درخت کے نیچے ضرور ہوتے تھے ۔خاص طورپر سہیل صاحب کا ریاضی کا پیریڈ اور سجاد صاحب کا کیمسٹری کا پیریڈ۔ آناً فاناً اس درخت تلے لگنے والی کلاس کے کتنے ہی ہم جماعت چہرے نظروں میں گھوم گئے ، احمد ندیم، عتیق احمد رضا ، طاہر مہدی ، شاہد ڈار ، عامر محمود ، جعفر اقبال، افتخار احمد، حسن مثنیٰ اور نعیم محمود، جہاں بھی ہوں ، خوش رہیں۔

مسلم اسکول ، گجرات شہر کا ایک قدیم اسکول ہے۔ شہر کے وسط میں اس کی پرانی عمارت ، شیشیانوالہ دروازہ کے اندر محلہ مسلم آباد میں واقع تھی ، جہاں اسے چہار طرف سے نئے پرانے، اُونچے نیچے مکانات اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے ۔ یہ عمارت قدیم طرز ِتعمیر کا نمونہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی سرخ اینٹوں کی موٹی موٹی دیواریں، باہر گلیوں اور برآمدوں میں کھلتے ہوئے سرخی مائل لکڑی کے پُراسراردروازے ، وسطی ہال کی اُونچی چھت پر عین وسط میں ٹین کی دبیز چادر کے دو مخروطی روشندان ، تین اطراف میں گلی کی سطح سے چارفٹ اُوپر برامدے ، اور اُن برآمدوں میں گول گول سفید ستونوں کی قطار ۔

اسکول سے چھٹی ہوتے ہی اسکول کے اردگرد کی گلیوں میں بچوں کی چیخ پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ، کہیں کرکٹ ، کہیں فٹ بال اور کہیں آنکھ مچولی۔ یہاں تک کہ شام ڈھلنے لگتی تھی ۔ قریب کی مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہوتی ، حی علی الصلواہ ، حی الصلواہ۔ یکلخت گلی کا شور تھم جاتا تھا ،بڑے بوڑھے مسجد کی طرف رواں دواں تو بچے لپک کر گھروں کی طرف۔ اسکول کے سامنے ہی ہمارا گھر تھا۔پہلی سے دسویں جماعت تک ، صبح ہو یا شام ، ادھر قدم گھر سے باہر رکھا ، ادھر اسکول آ گیا ، اور پھر سارا دن اسکول اور ہم ساتھ ساتھ ۔ 1980میں دسویں جماعت کے امتحان میںصرف 6 ماہ باقی تھے ، جب ایک روز یہ دن بھر کا ساتھ چھوٹ گیا ۔ایک صبح اسمبلی میں ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب نے اعلان فرمایا کہ '' ہم اسکول عمارت کا مقدمہ ہار گئے ہیں۔ عدالتی حکم آ چکاہے ۔لہٰذا، آج ہمیں یہاں سے روانہ ہونا ہے ۔ یہ بڑا سوگوار دن تھا۔ تمام ٹیچر ز پر اضطراب طاری تھا۔

طلبہ حیران و پریشان تھے ۔ کورٹ آرڈر کیا ہوتا ہے ، اس کی سنگینی کا پہلی بار اندازہ ہوا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم مقدمہ ہار کس طرح گئے ۔ اسکول کی یہ عمارت کسی اور کی کیونکر ہو گئی ۔صرف یہ معلوم ہوا کہ کوئی شیخ صاحب ہیں ، جو اس عمارت کے مالک ہیں ۔ بعد میں پتہ چلا کہ شیخ صاحب نے عمارت آگے فروخت دی ۔ کئی سال تک عمارت کا ڈھانچہ تصویر استعجاب بنا کھڑا رہا ، ماضی کے کسی مزار کی طرح ، ویران ، تنہا اور اداس ۔ پھر ، ایک روز عمارت کا ڈھانچہ گرانے والے بھی آ گئے ۔اور اب تو ملبہ اٹھایا جاچکا ۔ جہاں پہلے کبھی اسکول تھا ، اب صرف آٹھ فٹ اونچی نو تعمیر شدہ چار دیواری ہے ، اور ایک طرف لوہے کا چھوٹا سا زنگ آلود دروازہ ۔ کبھی کبھی جب میں گجرات اپنے آبائی گھر کی چھت سے پرانے اسکول کی جگہ یہ ویران احاطہ دیکھتا ہوں تو دل بہت اُفسردہ ہوتا ہے ۔ سوچتا ہوںکہ عدالتی فیصلے سے پہلے یہاں کتنی گہما گہمی تھی ، اور اب کیسا سناٹا ہے۔

''آپ کا شناختی کارڈ ؟'' پولنگ ایجنٹ نے کہا ۔ میری باری آ گئی تھی ۔ میں نے شناختی کارڈ نکال کر دیا۔ انگوٹھے پر سیاہی کا نشان لگا ، اور اب میرے ہاتھوں میں بیلٹ پیپر تھا ۔ ووٹ کاسٹ کرکے میں پرائمری اسکول کی عمارت سے باہر آیا، تویادیں ایک بار پھر ہجوم کررہی تھیں ۔میٹرک کے بعد زمیندار ڈگری کالج میں آگئے ۔ یہاں پنجاب یونیورسٹی میں ، ہیلے کالج آف کامرس اور یونیورسٹی لا کالج میں آ گئے۔ اس عرصہ میں جب بھی گجرات گیا یہی معلوم ہوا کہ مسلم اسکول کے طلبہ کو ابھی تک اپنی بلڈنگ نہیں ملی اور وہ بدستور نارمل ایلیمنڑی انسٹی ٹیوٹ میں پناہ گزیں ہیں۔ یہ جان کر بڑا دُکھ ہوتا تھا۔ بظاہر مسلم ہائی اسکول کو اپنی بلڈنگ ملنے کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی ۔ تمام اُمیدیں دم توڑ چکی تھیں۔

لیکن پھر اچانک مُلک میں ناقابل ِیقین تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں۔نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ پنجاب میں گجرات کے چوہدری پرویزالٰہی کی حکومت قائم ہوگئی ۔ اب مسلم اسکول کے پاس اپنی بلڈنگ تھی ۔ مسلم اسکول کا بن باس آخر ِ کار ختم ہو گیا۔ نارمل ایلیمنڑی انسٹی ٹیوٹ سے متصل آج یہاں مسلم اسکول کی یہ عالی شان بلڈنگ کھڑی تھی ، جہاں ابھی میں ووٹ کاسٹ کر کے آیا تھا۔سا ل ہا سال گزر گئے ہیں۔ لیکن آج نارمل ایلیمٹری انسٹی ٹیوٹ کی گراونڈ میں یہ درخت دیکھ کر یوں لگا کہ کل کی بات ہے ۔ آج ہم یہاں آئے ہیں، اس درخت کے نیچے بیٹھے ہیں،اورسہیل صاحب کہہ رہے ہیں کہ کل تک ہمارے اسکول کو چند کمرے مل جائیں گے، تو یہ درخت کے سامنے والا کمرہ دسویں کلاس کا کمرہ ہوگا۔ دوپہر ہو چکی تھی ۔میں پھر پرائمری اسکول کی نئی عمارت کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا ۔اب مُڑ کر ہم جماعت درخت کو دیکھنے کی تاب نہیں تھی ۔برادرم زاہد مسعود کی نظم '' پرائمری اسکول کے دروازے پر'' یاد آئی اور آتی چلی گئی ،

آؤ

تمہیں اُس دوپہر کی کہانی سنائیں

جسے

کلاس روم کے چارٹ پر

شہتوتوں اور بیروں کے رنگوں سے لکھا گیا

میری انگلیوں نے گرد کے حصار کو دونیم کیا

میں نے

آنکھیں کھول کر خلا میں راستہ بنایا

سورج

مجھے یہ بتانے کے لیے جھکی شاخوں میں اُتر آیا

کہ

پیاس میرے ہونٹوں پر اپنا زہر ُاتارنے والی ہے

میں نے

سبز رنگ میں چھپی ٹھنڈک کو سانسوں میں لپیٹا

اور

آنکھوں سے بنائے راستے پر پھول اُگانے لگا

ہوا

میرے لباس کے رُخ پر چلتی رہی

اور

شام نے گرے ہوئے سارے پتے اُٹھا کر جھولی میں ڈال لیے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں