پیپلز پارٹی کیوں ہاری چند تاثرات
ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا ’’پیپلز پارٹی نے اپنے جن محسنوں سے بے وفائی کی ہے۔۔۔
ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''پیپلز پارٹی نے اپنے جن محسنوں سے بے وفائی کی ہے، اُس کا نتیجہ ہم گیارہ مئی کو انشاء اللہ دیکھ لیں گے۔ ایک عبرت کی صورت۔'' عبرت کا سامان لیے اور چار بار اقتدار میں رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی گیارہ مئی کے انتخابات میں شکست کھا چکی ہے۔ خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو اِس کا صفایا ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے جتنے بھی وفاقی وزراء تھے، اکثریت شکست کا نشان ماتھے پر سجائے گھروں کو روانہ ہو چکی ہے۔ پارٹی کے ''جلسوں'' میں ظہور نہ کرنے والے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب حسبِ معمول نہ جانے کہاں ہیں؟ یہ منظر سابق اہلِ حَکم کے لیے مقامِ عبرت نہیں؟ اللہ اکبر: یہ دن ہیں جو لوگوں پر پھیر پھیر کر لائے جاتے ہیں، تاکہ وہ آزمائے جائیں۔
گیارہ مئی کو ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں ویسے تو پنجاب، جو کبھی بھٹو مرحوم کی بنائی گئی پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، میں پیپلز پارٹی کا ستھراؤ پڑ گیا ہے لیکن حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے اشارے اور اشیر واد سے بننے والے دونوں سابق وفاقی وزرائے اطلاعات و نشریات جناب قمر زمان کائرہ اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی بُری طرح ہار گئے۔ قمر زمان کائرہ کو مسلم لیگ نون کے چوہدری جعفر اقبال اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی نواز شریف ہی کی پارٹی کے چوہدری ارمغان سبحانی نے بڑے مارجن کے ساتھ شکست سے دوچار کیا ہے۔ گجر نے گجر کو واضح طور پر ہرا دیا۔ قمر زمان کائرہ صاحب گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت میں دو بار وفاقی وزیرِ اطلاعات اور ایک مرتبہ وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ سابق وزیرِ اعظم گیلانی کی کابینہ میں بھی رہے اور راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی وزارت کا قلم دان سنبھالے رہے۔
مضبوط وزیر خیال کیے جاتے تھے اور پیپلز پارٹی حکومت کے بہترین ترجمان بھی۔ چہکتے بھی خوب تھے۔ وزیرِ اطلاعات ہونے کے ناتے وہ ملک بھر میں میڈیا کی آنکھ کا مرکزہ بنے رہے۔ اِس پس منظر میں اُنھیں اپنی ذات کا لوہا منوانے اور اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لاتعداد مواقعے میسر آئے لیکن اِس سب کے باوجود وہ شکست کھا گئے۔ اُن کے حلقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کائرہ کی شکست کی بڑی وجہ یہ بنی ہے کہ اُنھوں نے اپنے ووٹروں پر اپنے گھر کے سارے دروازے بند کر دیے۔ انھوں نے اپنے حلقے میں اگر سرکاری نوکریاں تقسیم بھی کیں تو وہ بھی اپنی برادری اور بہت ہی قریبی لوگوں میں۔ قمر زمان کائرہ اپنی وزارتوں کو تو خوب نبھاتے رہے لیکن اپنے حلقے اور ووٹروں کے مسائل پر توجہ دینے سے قاصر رہے۔ اِس غفلت اور نظر اندازی کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا، اُسے بروقت بھرنے کی قطعی کوشش نہ کی گئی۔ واقفانِ حلقہ کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی اُنھیں لے ڈوبا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جناب قمر زمان کائرہ کی ''بیڑی میں بٹے'' ڈالنے میں جُورا میتھی ایسے قریبی لوگوں نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انتخابات نے جناب کائرہ اور محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو شکست و بربادی کے ایک ہی ہار میں پرو دیا۔ کائرہ صاحب کی طرح ڈاکٹر صاحبہ بھی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دو مختلف قسم کی وفاقی وزارتوں پر براجمان رہیں۔ اُنھیں درمیان میں ایک بار آنسو بہا کر اپنی وزارت بھی بچانا پڑی۔ حیرت ہے کہ وہ نوجوان چوہدری ارمغان سبحانی سے کیونکر شکست کھا گئیں؟ میرے ذاتی علم میں ہے کہ کوبے چک کی فردوس عاشق اعوان صاحبہ اُن وزراء اور ارکانِ قومی اسمبلی میں سے ایک تھیں جو باقاعدہ ہر ہفتے مسلسل دو روز اپنے حلقے میں اپنے ووٹروں سپورٹروں میں گزارتی تھیں، اُن کے مسائل سُنتیں، مصائب کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں اور سرکاری نوکریاں بھی تقسیم کرتیں۔ حلقے میں بہت سے ترقیاتی کام بھی کروائے جو ہر بینا کو نظر آتے ہیں۔
سبحانی صاحب کے ہاتھوں اُن کی شکست سب کو حیران کر گئی ہے۔ دراصل ڈاکٹر صاحبہ کا الیکشن کے آخری روز اپنے ایک حلقے (وہ بیک وقت دو حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہی تھیں) میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونا اُن کی پانچ سالہ محنتوں پر پانی پھیرنے کا موجب بن گیا۔ بہ حیثیتِ مجموعی ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے خلاف عوامی بے زاری کی ہوا نے بھی اُنھیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے ارمغان سبحانی صاحب کی جیت میں اُن کے والدِ گرامی چوہدری اختر وریو (مرحوم) اور چچا عبدالستار (ایک زمانے میں دونوں رکنِ اسمبلی بھی رہے) کے گہرے سیاسی اثرو رسوخ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال میں بھی پیپلز پارٹی کی شکست نوشتۂ دیوار بن چکی تھی۔ یہاں ٹکٹوں کی تقسیم میں پیپلز پارٹی نے جس نالائقی اور نخوت کا ثبوت دیا، اُس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یہ پارٹی زمین بوس ہو جاتی۔
غلام عباس صاحب ایسے جیالے کی مثال ہی ملاحظہ کر لیجیے۔ غلام عباس وہ صاحب ہیں جو واقعی معنوں میں گزشتہ چالیس برسوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت کی ''غلامی'' کا جُوا گلے میں ڈالے قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ جناب بھٹو سے وفا نبھانے اور پیپلز پارٹی کے عشق میں مبتلا ہو کر وہ ضیائی دَور میں برسوں لاہور کے شاہی قلعے میں محبوس و مقید رہے اور پیٹھ پر کوڑے بھی برداشت کیے لیکن اب جب موقع ٹکٹوں کی تقسیم کا آیا تو اِنہی غلام عباس صاحب کو پارٹی کے عظیم لوگوں نے مسترد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس سفاک فیصلے میں پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر جناب منظور احمد وٹو کا ہاتھ نمایاں تھا۔ اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ منظور احمد وٹو صاحب کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صدر بنایا گیا تو پنجاب بھر کے اصل جیالوں نے کس قدر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وٹو صاحب کو یہ عہدہ تفویض کیا جانا بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتخابی لُیٹا ڈبونے کا باعث بن گیا ہے۔ وٹو صاحب خود بھی تو ہار گئے ہیں۔
گجرات اور گوجرانوالہ میں چوہدری احمد مختار اور جناب نذر گوندل ایسے سابق وفاقی وزراء کا بُری طرح ہار جانا بھی پیپلز پارٹی کے لیے شدید ''نموشی'' کا باعث بنا ہے۔
ضلع نارووال سے پیپلز پارٹی کے بڑے ہی طاقتور اور مضبوط امیدوار چوہدری طارق انیس صاحب بھی جیت نہیں سکے ہیں۔ وہ جناب یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی وزیرِ مملکت برائے ہاؤسنگ رہے۔ اسلام آباد میں اِس وزارت کے ایک بڑے افسر ایک بار اُن کے ہاتھوں پِٹے بھی کہ اِن صاحب نے طارق انیس صاحب کے سرکاری فنڈز کے اجرا میں سدِ راہ بننے کی بے مزہ کوشش کی تھی۔ چوہدری طارق انیس صاحب اپنے حلقے (نمبر 116) میں ووٹروں کے لیے سوئی گیس بھی لے گئے اور وہاں ریجنل پاسپورٹ آفس بھی چالو کیا۔ لوگ بظاہر اُن سے خوش بھی تھے اور مرعوب بھی۔ یوں اُنھیں اگر اپنی جیت کا یقینِ کامل تھا تو یہ اتنا بے جا بھی نہ تھا لیکن گیارہ مئی کا سورج غروب ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے چوہدری طارق انیس کے اقتدار اور مسلسل کامیابیوں کا آفتاب بھی غروب ہو گیا، حالانکہ ایک وقت میں اُن کے گھر میں بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے چار اراکین تھے۔ گیارہ مئی کو چوہدری طارق انیس صاحب مسلم لیگ نون کے جناب دانیال عزیز، جو این آر بی کے سابق سربراہ اور سابق وفاقی وزیر چوہدری انور عزیز کے صاحبزادے ہیں، کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کی شکست نے تو سب کو حیران کر رکھا ہے۔
پیپلز پارٹی میں کوئی ہے، جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت، جو اِس منظر سے عبرت حاصل کر سکے؟ اڈیالہ جیل میں پھانسی پر جُھول جانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور لیاقت باغ میں دہشت گردوں کے بموں کا لُقمہ بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کبھی اِس شکستِ فاش کا خواب دیکھا ہو گا؟
گیارہ مئی کو ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں ویسے تو پنجاب، جو کبھی بھٹو مرحوم کی بنائی گئی پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، میں پیپلز پارٹی کا ستھراؤ پڑ گیا ہے لیکن حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے اشارے اور اشیر واد سے بننے والے دونوں سابق وفاقی وزرائے اطلاعات و نشریات جناب قمر زمان کائرہ اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی بُری طرح ہار گئے۔ قمر زمان کائرہ کو مسلم لیگ نون کے چوہدری جعفر اقبال اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی نواز شریف ہی کی پارٹی کے چوہدری ارمغان سبحانی نے بڑے مارجن کے ساتھ شکست سے دوچار کیا ہے۔ گجر نے گجر کو واضح طور پر ہرا دیا۔ قمر زمان کائرہ صاحب گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت میں دو بار وفاقی وزیرِ اطلاعات اور ایک مرتبہ وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ سابق وزیرِ اعظم گیلانی کی کابینہ میں بھی رہے اور راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی وزارت کا قلم دان سنبھالے رہے۔
مضبوط وزیر خیال کیے جاتے تھے اور پیپلز پارٹی حکومت کے بہترین ترجمان بھی۔ چہکتے بھی خوب تھے۔ وزیرِ اطلاعات ہونے کے ناتے وہ ملک بھر میں میڈیا کی آنکھ کا مرکزہ بنے رہے۔ اِس پس منظر میں اُنھیں اپنی ذات کا لوہا منوانے اور اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لاتعداد مواقعے میسر آئے لیکن اِس سب کے باوجود وہ شکست کھا گئے۔ اُن کے حلقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کائرہ کی شکست کی بڑی وجہ یہ بنی ہے کہ اُنھوں نے اپنے ووٹروں پر اپنے گھر کے سارے دروازے بند کر دیے۔ انھوں نے اپنے حلقے میں اگر سرکاری نوکریاں تقسیم بھی کیں تو وہ بھی اپنی برادری اور بہت ہی قریبی لوگوں میں۔ قمر زمان کائرہ اپنی وزارتوں کو تو خوب نبھاتے رہے لیکن اپنے حلقے اور ووٹروں کے مسائل پر توجہ دینے سے قاصر رہے۔ اِس غفلت اور نظر اندازی کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا، اُسے بروقت بھرنے کی قطعی کوشش نہ کی گئی۔ واقفانِ حلقہ کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی اُنھیں لے ڈوبا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جناب قمر زمان کائرہ کی ''بیڑی میں بٹے'' ڈالنے میں جُورا میتھی ایسے قریبی لوگوں نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انتخابات نے جناب کائرہ اور محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو شکست و بربادی کے ایک ہی ہار میں پرو دیا۔ کائرہ صاحب کی طرح ڈاکٹر صاحبہ بھی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دو مختلف قسم کی وفاقی وزارتوں پر براجمان رہیں۔ اُنھیں درمیان میں ایک بار آنسو بہا کر اپنی وزارت بھی بچانا پڑی۔ حیرت ہے کہ وہ نوجوان چوہدری ارمغان سبحانی سے کیونکر شکست کھا گئیں؟ میرے ذاتی علم میں ہے کہ کوبے چک کی فردوس عاشق اعوان صاحبہ اُن وزراء اور ارکانِ قومی اسمبلی میں سے ایک تھیں جو باقاعدہ ہر ہفتے مسلسل دو روز اپنے حلقے میں اپنے ووٹروں سپورٹروں میں گزارتی تھیں، اُن کے مسائل سُنتیں، مصائب کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں اور سرکاری نوکریاں بھی تقسیم کرتیں۔ حلقے میں بہت سے ترقیاتی کام بھی کروائے جو ہر بینا کو نظر آتے ہیں۔
سبحانی صاحب کے ہاتھوں اُن کی شکست سب کو حیران کر گئی ہے۔ دراصل ڈاکٹر صاحبہ کا الیکشن کے آخری روز اپنے ایک حلقے (وہ بیک وقت دو حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہی تھیں) میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونا اُن کی پانچ سالہ محنتوں پر پانی پھیرنے کا موجب بن گیا۔ بہ حیثیتِ مجموعی ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے خلاف عوامی بے زاری کی ہوا نے بھی اُنھیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے ارمغان سبحانی صاحب کی جیت میں اُن کے والدِ گرامی چوہدری اختر وریو (مرحوم) اور چچا عبدالستار (ایک زمانے میں دونوں رکنِ اسمبلی بھی رہے) کے گہرے سیاسی اثرو رسوخ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال میں بھی پیپلز پارٹی کی شکست نوشتۂ دیوار بن چکی تھی۔ یہاں ٹکٹوں کی تقسیم میں پیپلز پارٹی نے جس نالائقی اور نخوت کا ثبوت دیا، اُس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یہ پارٹی زمین بوس ہو جاتی۔
غلام عباس صاحب ایسے جیالے کی مثال ہی ملاحظہ کر لیجیے۔ غلام عباس وہ صاحب ہیں جو واقعی معنوں میں گزشتہ چالیس برسوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت کی ''غلامی'' کا جُوا گلے میں ڈالے قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ جناب بھٹو سے وفا نبھانے اور پیپلز پارٹی کے عشق میں مبتلا ہو کر وہ ضیائی دَور میں برسوں لاہور کے شاہی قلعے میں محبوس و مقید رہے اور پیٹھ پر کوڑے بھی برداشت کیے لیکن اب جب موقع ٹکٹوں کی تقسیم کا آیا تو اِنہی غلام عباس صاحب کو پارٹی کے عظیم لوگوں نے مسترد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس سفاک فیصلے میں پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر جناب منظور احمد وٹو کا ہاتھ نمایاں تھا۔ اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ منظور احمد وٹو صاحب کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صدر بنایا گیا تو پنجاب بھر کے اصل جیالوں نے کس قدر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وٹو صاحب کو یہ عہدہ تفویض کیا جانا بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتخابی لُیٹا ڈبونے کا باعث بن گیا ہے۔ وٹو صاحب خود بھی تو ہار گئے ہیں۔
گجرات اور گوجرانوالہ میں چوہدری احمد مختار اور جناب نذر گوندل ایسے سابق وفاقی وزراء کا بُری طرح ہار جانا بھی پیپلز پارٹی کے لیے شدید ''نموشی'' کا باعث بنا ہے۔
ضلع نارووال سے پیپلز پارٹی کے بڑے ہی طاقتور اور مضبوط امیدوار چوہدری طارق انیس صاحب بھی جیت نہیں سکے ہیں۔ وہ جناب یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی وزیرِ مملکت برائے ہاؤسنگ رہے۔ اسلام آباد میں اِس وزارت کے ایک بڑے افسر ایک بار اُن کے ہاتھوں پِٹے بھی کہ اِن صاحب نے طارق انیس صاحب کے سرکاری فنڈز کے اجرا میں سدِ راہ بننے کی بے مزہ کوشش کی تھی۔ چوہدری طارق انیس صاحب اپنے حلقے (نمبر 116) میں ووٹروں کے لیے سوئی گیس بھی لے گئے اور وہاں ریجنل پاسپورٹ آفس بھی چالو کیا۔ لوگ بظاہر اُن سے خوش بھی تھے اور مرعوب بھی۔ یوں اُنھیں اگر اپنی جیت کا یقینِ کامل تھا تو یہ اتنا بے جا بھی نہ تھا لیکن گیارہ مئی کا سورج غروب ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے چوہدری طارق انیس کے اقتدار اور مسلسل کامیابیوں کا آفتاب بھی غروب ہو گیا، حالانکہ ایک وقت میں اُن کے گھر میں بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے چار اراکین تھے۔ گیارہ مئی کو چوہدری طارق انیس صاحب مسلم لیگ نون کے جناب دانیال عزیز، جو این آر بی کے سابق سربراہ اور سابق وفاقی وزیر چوہدری انور عزیز کے صاحبزادے ہیں، کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کی شکست نے تو سب کو حیران کر رکھا ہے۔
پیپلز پارٹی میں کوئی ہے، جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت، جو اِس منظر سے عبرت حاصل کر سکے؟ اڈیالہ جیل میں پھانسی پر جُھول جانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور لیاقت باغ میں دہشت گردوں کے بموں کا لُقمہ بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کبھی اِس شکستِ فاش کا خواب دیکھا ہو گا؟