تہذیب کا مدفن

فیض صاحب نے جاں کے زیاں کے احساس کے ساتھ جس بے بسی کے اظہار میں کہا تھا۔۔۔

khanabadosh81@gmail.com

فیض صاحب نے جاں کے زیاں کے احساس کے ساتھ جس بے بسی کے اظہار میں کہا تھا، ''جو راہ گزرتی ہے مقتل سے ہو کے گزرتی ہے''... راوی بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں جب ٹرین ہی رسل و رسائل کا واحد شریفانہ ذریعہ تھی، اس ذریعے سے بعض ادیبوں کو اگست جیسے جھلستے ہوئے مہینے میں کوئٹہ آنا پڑا تو اِس پُردر شعر میں اپنے یوسفی صاحب نے مقتل کی جگہ 'سبی' کا لفظ ڈال کر اسے پُرلطف بنا دیا تھا۔

یہ ہماری بے انتہا بدقسمتیوں میں سے ایک بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی خوبیوں سے زیادہ خرابیوں کی تشہیر سے جانے گئے۔ چاکرووگہرام جیسے بلوچ بادشاہوں کا مسکن، ہانی و شہ مرید جیسے عشاق کے اس وطن کی وجہ شہرت بھی ایشیا کا گرم ترین خطہ ہونا ٹھہری ، ورنہ ہر سال بہار کے آغاز میں منعقد ہونے والا کیٹل شو، جو اب سبی میلے کا روپ دھار چکا، اس کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہونا چاہیے ۔بلکہ اصل حوالہ تو اس کے عین عقب میں واقع وہ تہذیب بنتی ہے، جسے نوعِ انسانی کی قدیم ترین تہذیب کی دریافت کا دعویٰ ہے۔

سبی سے بولان کی طرف بڑھتے ہوئے کوئی پندرہ کلومیٹر بعد اگر بائیں جانب مڑجائیں(بائیں جانب ہی تو منزل ہے!) تو اس عظیم تہذیب کے مرقد کی جانب سفر آغاز ہوتا ہے ، جسے 'مہرگڑھ ' کہتے ہیں۔ وہ مہرگڑھ جس کی دریافت نے اس خطے کی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا، جس نے بلوچوں کی نسلی تاریخ کے بخیے ادھیڑ دیے، جس نے ہمیں دنیا بھر میں معتبر بنایا...ہم نے اسے اپنی روایتی قبائلی جنگوں کی نذر کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عظیم تہذیبی وادی ، خوابوں کا قبرستان بن کر رہ گئی۔

ہم چونکہ خدا کی منتخب کردہ مخلوق ہیں، اس لیے محض فخر کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ہمارے قابلِ فخر کارناموں کی دریافت اُن کافروں کے ذمے ٹھہری جو اس خدمت پہ معمور کیے گئے ہیں۔سو،ہمارے سبھی مؤرخ انگریزوں کی اسی قیاسی تاریخ پہ تکیہ کیے رہے کہ جس میں کبھی ہم عربوں کے عزیز قرار پائے، کبھی سامی النسل قرار دیے گئے، کبھی بحیرہ کیسپین سے نکلے ہوئے جتھے بتائے گئے، کبھی کوہِ البرز کی چوٹیوں سے دھکیلے گئے۔ بھلا ہو اس فرنچ ماہر آثار قدیمہ جوڑے کا جس نے سن ستر کی دَہائی میں یہاں آکر اس عظیم تہذیب کے نقوش ڈھونڈے ،جس نے ہماری جڑوں تک رسائی سہل بنا دی۔

1974 سے 1986 تک یہاں ہونے والے کام نے ہماری برسوں کی تاریخ پر محض لکیر ہی نہ پھیری بلکہ ہماری تہذیب کا اصل، خالص اور صاف ستھرا مہذب چہرہ نکال کر پیش کر دیا۔ ہم پر یہ منکشف ہوا کہ ہم یہاں کوئی گیارہ ہزار سال سے آباد ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد نے یہاں نسلِ انسانی کی اولین تہذیب کی بنیاد رکھی۔ دنیا جب گندم کی دریافت سے واقف نہ تھی، ہم یہاں باضابطہ گندم اُگا رہے تھے، وہ بھی بیلوں کے ذریعے ابتدائی ہَل چلا کر۔ انسان ابھی غاروں سے نہ نکلا تھا، اور ہم نے یہاں ہوا دار مکان بنا کر رہنا شروع کر دیا تھا۔ضرورتِ حوائجہ سے فراغت کے لیے غسل خانے تعمیر کیے جا چکے تھے۔ کیا منقش نقش و نگار بنائے جا رہے تھے، دنیا کے ابتدائی 'ڈینٹل سرجن' یہاں موجود تھے ۔

آپ ذرا تصور کیجیے اگر یہ ساری دریافتیں کسی ترقی یافتہ سماج میں ہوتیں تو کیا ہوتا؟ دنیا بھر میں ہاہاکار مچ جانی تھی۔ دنیا بھر سے ماہرین جمع ہوتے، سمینارزہو رہے ہوتے، ورکشاپس ہوتیں، ریسرچ اسٹڈیز ہوتیں اور دنیا بھر کے اسکالرز اس پر تحقیق میں جت جاتے۔ لیکن یہاں کیا ہوا؟فرانس کا یہ جوڑا دس سال بعد پھر واپس آیا۔ 1997 سے 2000 تک ،جو کچھ وہ سمیٹ سکتے تھے، سمیٹا اور چل دیے...پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔


پاکستان کی شاید ہی دس فیصد آبادی اس عظیم الشان دریافت سے واقفیت رکھتی ہو۔ خود بلوچستان میں ایسے دس فیصد لوگ بھی نہیں جو زندگی میں ایک بار یہاں جا سکے ہوں، یا انھیں اس میں کوئی دلچسپی بھی ہو۔ اجڑے ہوئے دیاروں کے متمنی ہم چند دیوانے اپنے آباکی یہ میراث دیکھنے نکل پڑے۔اس مختصر سہ رکنی قافلے میں میرے علاوہ ہمارے گائیڈ، روس سے آرکیالوجی کی ڈگری لینے والے بلوچستان میں علم آثارِ قدیمہ کے واحد ماہر رضا بلوچ سمیت، ان تھک سیاسی جدوجہد والے قافلے کے تازہ دم سپاہی اور رَشین پلٹ کامریڈ سعید کرد شامل تھے۔سبی میلے سے ہوتے ہوئے واپسی پہ اس سہ رکنی قافلے نے مختصر مباحثے کے بعد گاڑی کا رخ مہرگڑھ کی طرف موڑ دیا۔

مرکزی روڈ سے الگ ہوتے ہی پہاڑوں سے گھری یہ سر سبز وادی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ یہیں سے رند اور رئیسانی قبائل کی وسیع و عریض 'سلطنتوں'کا آغاز ہوتا ہے۔ تاحدِ نظر قدرت کا بے پایاں حسن اور اس کے عین پہلو میں واقع کچے گھرندوے اور جھگیاں یہاں کی سیاسی بے حسی اور جبر کا عکس دکھاتے ہیں۔ میں چونکہ پہلی بار مہر گڑھ کی جانب رواں تھا، لیکن مسلسل جاری قبائلی تصادم کے باعث اس کے انجام سے آشنا، اس لیے میرے وہم و گمان میں اس کا ایک نقشہ کچھ یوں تھا کہ ایک ایسی عظیم الشان تہذیبی نقوش کی حامل بستی جس کے محض آثار اب باقی رہ گئے ہیں۔

دریائے ناڑی کے پُل کے عقب میں دُور سے ہی قلعہ نما قدیم آثار دکھائی دیتے ہیں۔ رضا بلوچ نے گاڑی وہیں روک لی۔ کچھ ہی فاصلے پر واقع چند گھروں کے بیچ یہ کوئی قدیم قبرستان ہے۔ جہاں ایک بے نام و نشان مقبرے کی نشانیاں ،کسی زمانے میں عمارت کی شان وشوکت کا پتہ دیتی ہیں۔ لیکن دریائے ناڑی کے عینِ لب ساحل واقع ہونے کے باعث اب اس کے معدوم ہونے کا خدشہ اس قدر ہے کہ آنے والی کوئی بھی تیز برسات اسے ملیامیٹ کر سکتی ہے۔ اس کی کھوکھلی ہوتی ہوئی بنیادیں بتا رہی تھیں کہ یہ اس کی آخری تصاویر ہوں گی جو ہمارے کیمروں میں محفوظ ہوئیں۔

دریائے ناڑی کے اس پُل کو عبور کر کے آگے روانہ ہوں تو کوئی سنگِ میل راستے کا پتہ دیتا ہے، نہ منزل کاکوئی سراغ۔ حالانکہ مہرگڑھ کی اصل بستی یہاں سے محض پندرہ منٹ کی ڈرائیو پہ ہے، لیکن مہرگڑھ کا بورڈ شوران جانے والے موڑ پہ دکھائی دیتا ہے اور وہ بھی معکوس راہ کی نشاندہی کرتے ہوئے۔ اس بورڈ پہ اعتبار کر کے ہم کوئی دس،پندرہ کلومیٹر آگے چلے گئے، بالآخر 'مجاہدین' کے نام سے معروف یہاں کی مقامی فورس نے راستہ روکا اور اصل مقام کی نشاندہی کی۔ ہمیں واپس اسی راہ سے گزر کر بیس، بائیس کلومیٹر کا سفر کرنا پڑا۔ اس مرکزی راستے سے ہٹ کر جب گاڑی نے مشرق کی جانب کچے راستے پر سفر شروع کیا تو کافی عرصہ پہلے یہاں کا دورہ کرنے والے ماہر آثار قدیمہ رضا بلوچ نے راہ آشنائی کا دعویٰ کیا تو میں مارے اشتیاق کے گاڑی کے شیشوں سے چاروں اَور نظر دوڑانے لگا، پر بستی کا نام و نشان تھا کہ ندارد!

بالآخر کوئی پانچ، سات منٹ کے کچے راستے کے سفر کے بعد ،جہاں سے آگے سڑک ختم ہو جاتی تھی،گاڑی روک دی گئی تو میں نے بے تابی سے پوچھا''مہرگڑھ کہاں ہے؟'' ساتھیوں نے سامنے چند ٹیلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ،''یہ رہا آپ کا مہر گڑھ!'' تو مجھے پورا یقین تھا کہ وہ میرا مذاق اڑا ہے ہیں۔ ان کی مسلسل سنجیدگی اور اصرار پہ جب ہم ان ٹیلوں کی اَور بڑھے تو کیفیت کچھ یوں تھی کہ جیسے کسی جنگ کے بعد کوئی اپنے جلے ہوئے خیموں کی طرف بڑھے۔ جوں جوں قدم آگے بڑھتے گئے، بوجھل ہوتے چلے گئے۔ دل بھاری گیا۔ پلکیں تھیں کہ چھلکنے کو بے تاب ہوئی جاتی تھیں۔ چند گز کے فاصلے پر واقع ان تین ٹیلوں پہ سوائے قدیم برتنوں کے ٹکڑوں اور ٹھیکریوں کے ایسا کچھ نہ تھا، جس سے اس کے 'مہرگڑھ' ہونے کی گواہی مل سکے۔ ہم جو عظیم الشان تہذیبی بستی کے نقوش دیکھنے نکلے تھے، تہذیب کے قبرستان میں کھڑے ہوئے تھے۔

راوی بتاتے ہیں کہ رند اور رئیسانی کا اس زمین کی ملکیت پر تنازعہ ہوا۔ سبی میں بلوچوں کی سلطنت قائم کرنے والے چاکررند کی اولاد نے پوری بستی پہ بلڈوزر پھیر دیے۔ ایک خونی تصادم کا آغاز ہوا۔ جس کی مد میں پانچ سال بلوچستان کو جی بھر کے لوٹنے والے رئیسانی نے آخری ایام میں وفاقی حکومت سے اَسی کروڑ روپے حاصل کیے۔

مجھے لگا کہ جیسے یہ بچے کھچے ٹیلے ہمیں اپنے وجود پہ تادیر برداشت کرنے کو تیار نہ ہوں۔ یہاں بکھری ہوئی اجداد کی باقیات (کچھ ٹھیکریاں) اٹھا کر جب ہم نے جیب میں رکھیں، تو ان ٹیلوں کی استہزائیہ ہنسی میں اپنے کانوں میں واضح محسوس کی۔ بوجھل دل کے ساتھ واپس ہوئے تو بادلوں میں گھرے سرمگیں بولان کی پہاڑیوں پہ ہوتی رم جھم ،اپنے دل پہ گرتے اشکوں کے بوندوں کا عکس لگی۔ میں چاہ کر بھی دوستوں کو یہ مشورہ نہ دے پایا کہ ہر وہ اہلِ دل جو اپنے بزرگوں کی مردہ شکل دیکھنے کا یارا نہیں رکھتا، اسے مہرگڑھ نہیں جانا چاہیے۔
Load Next Story