امریکا کے چونچلے
پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان میں ایک میلے کا سا سماں تھا، میڈیا سے لے کر ہر شہرگلی محلے تک الیکشن کی کمپین۔۔۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان میں ایک میلے کا سا سماں تھا، میڈیا سے لے کر ہر شہرگلی محلے تک الیکشن کی کمپین زوروشور سے چل رہی تھی، عمران خان اٹھارہ فٹ اوپر سے گرے اور گرتے ہوئے نہ اڑنے کے باوجودیوتھ انھیں سپرمین ہی مانتی ہے،لاکھوں کا خیال ہے کہ شیر جیسی طاقت صرف نواز شریف کی ہے اور کئی سال بعد پاکستان میں کسی بھی حکومت کا کئی سال بعد اپنی ٹرم پوری کرنے کی وجہ سے لوگوں کو زرداری صاحب سے ابھی بھی امید ہے، پاکستان بھر میں کئی ہفتوں سے الیکشن کی چاند رات چل رہی تھی، جس کی عید مئی گیارہ کو ہوئی۔
الیکشن ہوگئے اور اب لوگوں کو امید ہے کہ شاید نئی بننے والی حکومت کے آنے سے پاکستان میں بھی عام لوگوں کے لیے چیزوں میں انصاف ہو پائے گا، پاکستان میں سب سے برا حال لاء اینڈ آرڈر کا ہے، کوئی بھی ملک امیر ہو یا غریب وہاں سب سے ضروری چیز ہے قانون کی بالادستی، تعلیم بعد میں، ملک چلانے کے لیے تعلیم سے زیادہ لاء اینڈ آرڈر ضروری ہے... چائنا میں تعلیم کم ہے لیکن سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا ملک قانون کے نفاذ میں سب سے زیادہ سخت ہے... ہمارے یہاں لاء اینڈ آرڈر سڑک پر پانچ سو روپے سے لے کر کورٹ میں پچاس لاکھ روپے تک سیل پر لگا ہوا ہے جس کی جتنی حیثیت ہے وہ لاء اینڈ آرڈر تول کر خریدلے، لیکن اب لوگوں کو امید ہے کہ ہمارے یہاں بھی انصاف ہوگا۔
کئی ایسے مسئلے جن میں انصاف ملنے میں لوگوں کے حساب سے بہت وقت لگا جیسے سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سر عام مارے جانے کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے اورجس کا نوٹس حکومت نے بھی لیا ہو، اس کیس میں بھی انصاف مانگنے کے لیے جن پر تشدد ہوا ہے ان کے گھر والوں کو فیس بک پیج بناکر عام لوگوں سے گڑ گڑاکر مدد مانگنی پڑتی ہے کہ ہمیں انصاف دلاؤ یا پھر کراچی میں پولیس کے ایک بڑے اہل کار کے بیٹے کو سڑک پر ایک چھوٹے سے جھگڑے میں قتل کردیاجاتاہے... ہماری قوم امریکا سے بہت متاثر ہے کسی چیز پر میڈ ان امریکا کا ٹیگ لگ جائے تو چار سو روپے کی شرٹ چار ہزار کی اور پچاس روپے کا برگر پانچ سو روپے کا ہوجاتاہے، لیکن کئی لوگ یہ نہیں جانتے کہ امریکا کے کورٹس کا حال پاکستان سے بھی برا ہے، سیالکوٹ کے بھائیوں جیسے کئی کیس پاکستان کے کورٹس میں کھینچے جارہے ہیں ۔ امریکا میں پچھلے پانچ مہینے سے ایک کورٹ کیس چرچے میں تھا، سی این این، ایچ ایل این، سی بی سی جیسے سارے بڑے چینلز ایک کیس کو لائیو دکھاتے رہتے... یہ ہے جو ڈی آئرس کا کیس... یہ کیلی فورنیا میں رہنے والی ایک عام سی امریکن لڑکی تھی جو کبھی ویٹرس کی تو کبھی فوٹو گریفری کی جابس کرتی، پچیس سال کی لڑکی جس کی زندگی میں ہر چیز عام تھی سوائے اس کے بوائے فرینڈ کے۔ وہ بوائے فریڈ جس کی اچھی نوکری، دیکھنے میں معقول اور جوڈی آئرس جیسی بیشتر لڑکیوں کے لیے بہترین ہسبینڈ میٹریل۔
جو ڈی آئرس کے بوائے فرینڈ ٹریوس الیگر بنیڈرا جوڈی سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے جس کا جو ڈی کو ان کے ساتھ دو ہزار چھ سے دو ہزار آٹھ تک یعنی دو سال تک ڈیٹ کرنے کے بعد اندازہ ہوا۔
جو ڈی جون چار2008کو ٹریوس کے گھر ARIZONAپہنچی اور رات وہیں رہنے کے بعد اگلے دن دوپہر کو ٹریوس کو چھبیس بار چھرے سے گھائل کرکے تین بار گولی مار کر اور پورا گلا ذبح کرکے ماردیا، جو ڈی کو وہاں آتے جاتے کسی نے نہیں دیکھا اور وہ چھ گھنٹے دور کیلی فورنیا اپنے گھر واپس چلی گئی لیکن اس کی بد قسمتی کہ وہ نیا کیمرہ جوٹریوس نے خریدا تھا وہ کھلا رہ گیا اور پورے واقعے کی کئی تصویریں اس سے کھنچ گئیں۔
ٹریوس کے گھر کی تلاشی میں وہ کیمرہ مل گیا اور ایک ہفتے میں پولیس کو پتہ چل گیا کہ قتل جوڈی نے کیا ہے اور اس کو گرفتار بھی کرلیاگیا، ا ب کسی کے حساب سے بھی اس کیس کا فیصلہ کرنا بہت آسان ہے لیکن نہیں 2008 سے 2012 دسمبر تک پولیس صرف تفتیش ہی کرتی رہی جس میں قتل کب؟ کیوں؟ کیسے ہوا پر غور کرتی رہی۔
2جنوری2013کو یہ کیس شروع ہوا اور پھر ہر روز اس کیس کوٹی وی پر لائیو دکھایا جانے لگا، ہمارے والد کے دوست مشہور ٹی وی آرٹسٹ طلعت حسین کہتے ہیں کہ اگر چھ دن روزانہ گدھے کو بھی ٹی وی پر دکھائیں اور ساتویں دن وہ نہ آئے تو لوگ کہیںگے ''ارے آج گدھا نہیں آیا''...بس جوڈی بھی ہمارے لیے وہی گدھا بن گئی... جو ڈی کے کیس کو روزانہ ٹی وی پر دیکھنے سے ہمیں بھی اس کورٹ کیس کی لت لگ گئی اور ہمیں اندازہ ہوا کہ امریکا میں انصاف ملنا کتنا مشکل ہے۔
کیس شروع ہوا جس میں دو ہفتے تک کورٹ یہ ڈسکس کرتارہا کہ جوڈی کا بچپن کیسے گزرا؟ اس نے کہاں کہاں نوکری کی، کتنا کمایا، ان کے پرانے ایمپلائرز، اسکول کے دوست جیسے لوگوں کو لاکر کورٹ کا وقت ضایع کرنے کا پورا موقع دیاگیا جب دو مہینے تک کیلی فورنیا اور ایری زونا کے ہر بیکار شخص کو کٹہرے میں بلاکر ہر طرح کا سر پیر سے اتار کر سوال پوچھ لیاگیا تو پھر جوڈی کو کٹہرے میں بلایاگیا جو اٹھارہ دن تک ان کی زندگی کا ہر دن کیسے گزرا تفصیل سے بتاتی رہیں۔
ٹریوس کی کرائم سین کی تصویریں SEARCH کرکے کوئی بچہ بھی آسانی سے بتاسکتاہے کہ اس شخص کو نہایت بے رحمی سے ماراگیاہے، سیلف ڈیفنس یا اتفاقیہ نہیں، امریکن ایکسپرٹس بھی مانتے ہیں کہ سیلف ڈیفنس میں حملہ کرنے والا دو یا تین گھاؤ سے زیادہ نہیں مارتا لیکن امریکن کورٹ کے جج اور جیوری کو ان تصویروں کا ثبوت کافی نہیں لگا اور پانچ مہینوں تک یہ کیس روزانہ امریکا کے چینلز پر اور خبروں میں جگہ بناتارہا۔
مئی2013کے پہلے ہفتے تک جوڈی آئرس کیس ٹی وی پر دیکھنے اور کئی دوسرے ریفرنس کیسز سامنے آنے پر ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ امریکا کی بہترین جیوڈشری سسٹم کا جتنا نام ہے اتنا ہی یہاں بھی گھپلا ہے۔
مشہورکھلاڑی اوجمے سمن کچھ سال پہلے اپنی بیوی کو مارنے اور ہر ثبوت خلاف ہونے کے باوجود بری ہوگئے، اس طرح کیس انتھونی نامی خاتون جنھوںنے اپنی تین سالہ بچہ کو ماردیا تھا... جیوری کے فیصلے کی وجہ سے بچ گئیں۔
مئی آٹھ کو جوڈی آئرس کیس کا فیصلہ ہوناتھا جس کا انتظار پورا امریکا ٹی وی کے سامنے بیٹھاکررہاتھا...شام ساڑھے چار بجے جوڈی کا فیصلہ سنایاگیا اور جیوری نے انھیںGuiltyقرار دے دیا۔
جوڈی آئرس گلٹی ہیں ہمیں2008یعنی کرائم کے ایک ہفتے بعد سے پتہ تھا لیکن امریکن جیوڈیشری سسٹم نے پہلے تفتیش میں پانچ سال اور پھر کورٹ کیس میں پانچ مہینے ضایع کیے، لیکن عجیب سی بات ہے کہ امریکن عوام یا میڈیا کسی نے یہ نہیں کہاکہ اتنا وقت کیوں لگایا جب کیس صاف ہے۔
جوڈی کے کیس سے ہم نے یہ بات جانی ہے کہ امریکا میں ہر چیز کے کئی چونچلے ہیں چاہے وہ وزٹ ویزا ہو، یونیورسٹی میں داخلہ یا پھر ایک سیدھا اور واضح کورٹ کیس۔