اب شاید کوئی تمنا نہیں کرے گا
15سالوں سے جمہوری اور انتخابی سیاست میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنے والا عمران خان یوں اچانک 2011 سے سونامی ۔۔۔
15سالوں سے جمہوری اور انتخابی سیاست میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنے والا عمران خان یوں اچانک 2011 سے سونامی اور کلین سوئپ کے خواب دیکھنے لگا، یہ بات اہلِ پاکستان اور سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے تمام افراد کے لیے یقینا تعجب خیز اور حیران کن تھی ۔ اُس کی اِس اچانک مہم جوئی اور سیاسی طور پر فعال ہونے کے پسِ پردہ کیا محرکات تھے اِس سے قطع نظر یہ بات ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے اُن نو جوانوں کو جنہوں نے اِس سے پہلے کسی عام انتخابات میںاپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا تھا اور جو سابقہ حکومت کی بد عنوانیوں اور نااہلیوں کے سبب انتہائی مایوس اور نا اُمید ہوچکے تھے عمران خان کی شکل میں اُنہیں ایک خوش آیند تبدیلی کی کرن دکھائی دینے لگی۔
لیکن اِن دو سالہ مہم بازی میں جناب عمران خان کی ساری جدوجہد اور سیاست زیادہ تر میاں برادران کے خلاف کی جاتی رہی اور ملکی دولت لوٹنے اور کرپشن کے اصل ملزمان اُنکی تلخ و ترش تنقید اور جملے بازی سے یکسر محفوظ رہے۔اُن کی سیاسی معرکہ آرائی بھی زیادہ تر صرف صوبہ پنجاب تک ہی محدود رہی اور وہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں تقریباً لاتعلق اور بے عمل ہی دکھائی دیے۔ صرف چند منٹوں کے لیے کراچی میں قیام کر کے بظاہر خانہ پری کر دی گئی کہ ہاں عمران خان نے سندھ بھی جاکر اپنا فرض ادا کر دیا۔ کچھ یہی حال اور عدم دلچسپی اُن کی بلوچستان میںقائم رہی اور وہ وہاں سے کسی سیٹ کے حصول کے خواہاں دکھائی نہیں دیے۔اُن کی تمام تر توجہ صرف پنجاب ہی تک محدود رہی اور کچھ تھوڑی سی صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی کیونکہ یہ اُن کا آبائی علاقہ بھی اور جہاں اے این پی کی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کا مقابلہ نسبتاً آسان تھا۔
پندرہ سال تک فائیو اسٹار ہوٹلوں یا ٹی وی ٹاک شوز میں صرف زبانی چوکے اور چھکے لگانے والے کے لیے بڑے بڑے سیاسی جلسے کرنا اور براہِ راست عوام سے خطاب کرنا یقینا ایک اچھنبے اور حیرانی کی بات تھی۔ اپنی اِس خلافِ توقع عوامی پذیرائی پر وہ اپنے جذبات واحساسات کو قابو میں نہ رکھ سکے اور مہذب اور شائستہ اندازِ گفتگو اپنانے کی بجائے بازاری اور غیر مہذب اندازِ تکلم اختیار کر گئے جس کا سنجیدہ اور مہذب طبقہ ہائے فکر میں بہرحال بُرا تاثر تو قائم ہونا ہی تھا۔ وہ جلسوں کو مداری کے مجمعوں کی طرح شعبدہ بازی دکھانے اورطنز و مزاح کاذریعہ سمجھ کر مخالفوں پر ناشائستہ فقرے بازی کرنے لگے اور حاضرین کو ہنسانے اور خوش کرنے کے لیے بے تکے اور مضحکہ خیز جملے استعمال کر نے لگے جس کا الیکشن کمیشن نے بھی نوٹس لے لیا تھا۔
لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور متواتر یہی طرز عمل جاری رکھے رہے۔ اُن کی کوئی بھی تقریر میاں برادران کے ذکر سے خالی نہ تھی۔کرکٹ کے بلے سے پھینٹی لگانے اور ایک ہی بال سے تین تین وکٹیں اُڑا دینے جیسی باتیں ایک ایسے شخص کو ہر گز زیب نہیں دیتی تھیں جو خود کو اگلے وزیراعظم کے اُمیدوار کے طور پر پیش کر رہا ہو۔شیر کو کاغذی شیر یا سرکس کا شیرکہنا، کبھی بزدل یا کبھی گیدڑ کہنا ایک پڑھے لکھے سیاستداں کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ایسی باتیں اگر کوئی ان پڑھ اورنا خواندہ شخص کہے تو در گذر کیا جا سکتا ہے لیکن جس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ماڈرن اور ترقی یافتہ ممالک میں گذارا ہو اور جو ملک کے اندر ایک خوش آیند تبدیلی کا دعوے دار بھی ہو کسی طرح اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے مخالفوں کا اِن نامناسب جملوں اورالقابوں سے مذاق اُڑاتا رہے۔
جناب عمران خان اپنی اِس اچانک عوامی مقبولیت کے نشے اور سحر میں بہک گئے اور اپنے ہوش و حواس کو قابو میں نہ رکھ سکے ۔ اُنہیں یہ خوش فہمی ہو چکی تھی کہ اگلا الیکشن صرف اُنہیں کا ہی ہے اور وہ 11مئی کو کلین سوئپ کرنے والے ہیں ۔ اُنکی اپنی ہی تخلیق کردہ سونامی سب کچھ بہا کر لے جائے گی اور وہ بلا روک ٹوک اِس ارضِ پاکستان کے نئے منتخب وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔ لوگ گزشتہ حکومت کی نااہلیوں اور ناکامیوں کا بلاواسطہ فائدہ صرف پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالیں گے اور 344 کی اسمبلی میں بڑے آرام سے اُنہیں 172نشستیں مل جائیں گی۔ تمام انتخابی اعدادوشمار اور آزادانہ و غیر جانبدارانہ سروے کے باوجود وہ یہ تسلیم کرنے سے مسلسل انکاری تھے کہ مسلم لیگ (ن) بھی اِس سیاسی معرکہ میں اُن کی ایک مضبوط حریف ہے۔
الیکشن مہم میں جناب عمران خان کی تمام یکطرفہ نشانہ بازی اور میاں مخالف تقریروں کے باوجود پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد میاں شہباز شریف کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کو اچھی نظر سے دیکھتی رہی اور وہ مہنگائی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ذمے دار کسی طرح میاں برادران کو ماننے پر تیار نہ تھی۔پاکستان کے تمام دیگر تین صوبوں کی نسبت صوبہ پنجاب نے اِن پانچ سالوں میں بہتر کارکردگی دکھائی اور یہاں باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں ترقیاتی کاموں کی رفتارنسبتاً زیادہ بہتر رہی۔ امن و امان کی صورتحال بھی دیگر علاقوں سے یقینا اچھی رہی۔مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کا ایک مقدمہ بھی پنجاب حکومت کے خلاف درج نہ ہوا جب کہ اِسی پانچ سالہ دور میں مرکز اور دیگر تین صوبوں میں قومی دولت کی لوٹ مارکے بے تحاشہ واقعات سامنے آئے اورمختلف عدالتوں میںمقدمات بھی زیرِ سماعت رہے۔
عمران خان کو چونکہ اپنی سیاسی مہم صرف صوبہ پنجاب میں چلانی مقصود تھی لہذا اُنہوں نے یہاں صرف میاں برادران کو تمام سیاسی مہم جوئی میں نشانہ بنائے رکھا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنے سیاسی شعور اور بالغ نظری کا مکمل ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کی باتوں کو الیکشن جیتنے کا ایک حربہ اور فقط پروپیگنڈہ ہی جانا اور فیصلہ اپنے عقل و شعور کے مطابق ہی کیا۔ اُنہوں نے عمران خان کو بھی سنا اور میاں برادران کو بھی۔وہ جس کو اگلی حکومت کا صحیح اہل اور حقدار سمجھتے تھے اپنا ووٹ اُسی کے حق میں ڈالتے ہوئے11مئی کو پرچی پر مہر لگادی۔ اب قوم کا فیصلہ آچکا ہے۔ سونامی نہ آ سکا۔ کلین سوئپ کرنے اور ایک بال سے تین تین وکٹیں اُڑانے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
شیر کو بلے سے پھینٹی لگانے والے کو اپنی حیثیت و اہمیت کا خوب اندازہ ہو گیا ہوگا۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ بلند بانگ دعوے کرنے اور غرور و تکبر کی باتیں کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔حق و انصاف کا فیصلہ کرنے والا وہی خالق و مالک ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے قدر منزلت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت و رسوائی۔ تحریکِ انصاف پر ابھی تک بد عنوانیوں اور ناقص کارکردگی کا کوئی الزام نہیں تھا کیونکہ اُسے ابھی تک کہیں بھی حکومت کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا لیکن اب وہ صوبہ سرحد میں اقتدار سنبھالنے جارہی ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے منشور کے عین مطابق یہاں ایسی کارکردگی دکھائے کہ آیندہ الیکشنوں میں لوگ اُسے مرکزی حکومت کااہل بھی سمجھ سکیں ۔
لیکن اِن دو سالہ مہم بازی میں جناب عمران خان کی ساری جدوجہد اور سیاست زیادہ تر میاں برادران کے خلاف کی جاتی رہی اور ملکی دولت لوٹنے اور کرپشن کے اصل ملزمان اُنکی تلخ و ترش تنقید اور جملے بازی سے یکسر محفوظ رہے۔اُن کی سیاسی معرکہ آرائی بھی زیادہ تر صرف صوبہ پنجاب تک ہی محدود رہی اور وہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں تقریباً لاتعلق اور بے عمل ہی دکھائی دیے۔ صرف چند منٹوں کے لیے کراچی میں قیام کر کے بظاہر خانہ پری کر دی گئی کہ ہاں عمران خان نے سندھ بھی جاکر اپنا فرض ادا کر دیا۔ کچھ یہی حال اور عدم دلچسپی اُن کی بلوچستان میںقائم رہی اور وہ وہاں سے کسی سیٹ کے حصول کے خواہاں دکھائی نہیں دیے۔اُن کی تمام تر توجہ صرف پنجاب ہی تک محدود رہی اور کچھ تھوڑی سی صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی کیونکہ یہ اُن کا آبائی علاقہ بھی اور جہاں اے این پی کی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کا مقابلہ نسبتاً آسان تھا۔
پندرہ سال تک فائیو اسٹار ہوٹلوں یا ٹی وی ٹاک شوز میں صرف زبانی چوکے اور چھکے لگانے والے کے لیے بڑے بڑے سیاسی جلسے کرنا اور براہِ راست عوام سے خطاب کرنا یقینا ایک اچھنبے اور حیرانی کی بات تھی۔ اپنی اِس خلافِ توقع عوامی پذیرائی پر وہ اپنے جذبات واحساسات کو قابو میں نہ رکھ سکے اور مہذب اور شائستہ اندازِ گفتگو اپنانے کی بجائے بازاری اور غیر مہذب اندازِ تکلم اختیار کر گئے جس کا سنجیدہ اور مہذب طبقہ ہائے فکر میں بہرحال بُرا تاثر تو قائم ہونا ہی تھا۔ وہ جلسوں کو مداری کے مجمعوں کی طرح شعبدہ بازی دکھانے اورطنز و مزاح کاذریعہ سمجھ کر مخالفوں پر ناشائستہ فقرے بازی کرنے لگے اور حاضرین کو ہنسانے اور خوش کرنے کے لیے بے تکے اور مضحکہ خیز جملے استعمال کر نے لگے جس کا الیکشن کمیشن نے بھی نوٹس لے لیا تھا۔
لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور متواتر یہی طرز عمل جاری رکھے رہے۔ اُن کی کوئی بھی تقریر میاں برادران کے ذکر سے خالی نہ تھی۔کرکٹ کے بلے سے پھینٹی لگانے اور ایک ہی بال سے تین تین وکٹیں اُڑا دینے جیسی باتیں ایک ایسے شخص کو ہر گز زیب نہیں دیتی تھیں جو خود کو اگلے وزیراعظم کے اُمیدوار کے طور پر پیش کر رہا ہو۔شیر کو کاغذی شیر یا سرکس کا شیرکہنا، کبھی بزدل یا کبھی گیدڑ کہنا ایک پڑھے لکھے سیاستداں کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ایسی باتیں اگر کوئی ان پڑھ اورنا خواندہ شخص کہے تو در گذر کیا جا سکتا ہے لیکن جس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ماڈرن اور ترقی یافتہ ممالک میں گذارا ہو اور جو ملک کے اندر ایک خوش آیند تبدیلی کا دعوے دار بھی ہو کسی طرح اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے مخالفوں کا اِن نامناسب جملوں اورالقابوں سے مذاق اُڑاتا رہے۔
جناب عمران خان اپنی اِس اچانک عوامی مقبولیت کے نشے اور سحر میں بہک گئے اور اپنے ہوش و حواس کو قابو میں نہ رکھ سکے ۔ اُنہیں یہ خوش فہمی ہو چکی تھی کہ اگلا الیکشن صرف اُنہیں کا ہی ہے اور وہ 11مئی کو کلین سوئپ کرنے والے ہیں ۔ اُنکی اپنی ہی تخلیق کردہ سونامی سب کچھ بہا کر لے جائے گی اور وہ بلا روک ٹوک اِس ارضِ پاکستان کے نئے منتخب وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔ لوگ گزشتہ حکومت کی نااہلیوں اور ناکامیوں کا بلاواسطہ فائدہ صرف پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالیں گے اور 344 کی اسمبلی میں بڑے آرام سے اُنہیں 172نشستیں مل جائیں گی۔ تمام انتخابی اعدادوشمار اور آزادانہ و غیر جانبدارانہ سروے کے باوجود وہ یہ تسلیم کرنے سے مسلسل انکاری تھے کہ مسلم لیگ (ن) بھی اِس سیاسی معرکہ میں اُن کی ایک مضبوط حریف ہے۔
الیکشن مہم میں جناب عمران خان کی تمام یکطرفہ نشانہ بازی اور میاں مخالف تقریروں کے باوجود پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد میاں شہباز شریف کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کو اچھی نظر سے دیکھتی رہی اور وہ مہنگائی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ذمے دار کسی طرح میاں برادران کو ماننے پر تیار نہ تھی۔پاکستان کے تمام دیگر تین صوبوں کی نسبت صوبہ پنجاب نے اِن پانچ سالوں میں بہتر کارکردگی دکھائی اور یہاں باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں ترقیاتی کاموں کی رفتارنسبتاً زیادہ بہتر رہی۔ امن و امان کی صورتحال بھی دیگر علاقوں سے یقینا اچھی رہی۔مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کا ایک مقدمہ بھی پنجاب حکومت کے خلاف درج نہ ہوا جب کہ اِسی پانچ سالہ دور میں مرکز اور دیگر تین صوبوں میں قومی دولت کی لوٹ مارکے بے تحاشہ واقعات سامنے آئے اورمختلف عدالتوں میںمقدمات بھی زیرِ سماعت رہے۔
عمران خان کو چونکہ اپنی سیاسی مہم صرف صوبہ پنجاب میں چلانی مقصود تھی لہذا اُنہوں نے یہاں صرف میاں برادران کو تمام سیاسی مہم جوئی میں نشانہ بنائے رکھا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنے سیاسی شعور اور بالغ نظری کا مکمل ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کی باتوں کو الیکشن جیتنے کا ایک حربہ اور فقط پروپیگنڈہ ہی جانا اور فیصلہ اپنے عقل و شعور کے مطابق ہی کیا۔ اُنہوں نے عمران خان کو بھی سنا اور میاں برادران کو بھی۔وہ جس کو اگلی حکومت کا صحیح اہل اور حقدار سمجھتے تھے اپنا ووٹ اُسی کے حق میں ڈالتے ہوئے11مئی کو پرچی پر مہر لگادی۔ اب قوم کا فیصلہ آچکا ہے۔ سونامی نہ آ سکا۔ کلین سوئپ کرنے اور ایک بال سے تین تین وکٹیں اُڑانے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
شیر کو بلے سے پھینٹی لگانے والے کو اپنی حیثیت و اہمیت کا خوب اندازہ ہو گیا ہوگا۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ بلند بانگ دعوے کرنے اور غرور و تکبر کی باتیں کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔حق و انصاف کا فیصلہ کرنے والا وہی خالق و مالک ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے قدر منزلت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت و رسوائی۔ تحریکِ انصاف پر ابھی تک بد عنوانیوں اور ناقص کارکردگی کا کوئی الزام نہیں تھا کیونکہ اُسے ابھی تک کہیں بھی حکومت کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا لیکن اب وہ صوبہ سرحد میں اقتدار سنبھالنے جارہی ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے منشور کے عین مطابق یہاں ایسی کارکردگی دکھائے کہ آیندہ الیکشنوں میں لوگ اُسے مرکزی حکومت کااہل بھی سمجھ سکیں ۔