ایک سیکنڈ میں دو ماہ کی برداشت

زوردار انتخابی مہم چل چکی،ایسی مہم بچوں تو بچوں بڑوں نے بھی نہ دیکھی تھی، ستر میں بھٹو نے۔۔۔


[email protected]

زوردار انتخابی مہم چل چکی،ایسی مہم بچوں تو بچوں بڑوں نے بھی نہ دیکھی تھی، ستر میں بھٹو نے زوردار انتخابی مہم چلائی تھی،77میں پیپلزپارٹی کی تلوار اور قومی اتحاد کا ہل آمنے سامنے تھے،گویا بھٹو اور اصغر خان مقابل تھے، سب کچھ تھا لیکن آزاد ٹی وی نہ تھا،85کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد چار انتخابات ہوئے جن میں ایک اچھی انتخابی مہم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے چلائی تھی، یہ چار انتخابات ''کبھی خوشی کبھی غم'' کے مانند تھے،جس سے اقتدارچھینا جاتا اسے نہ دیا جاتا تو وہ غم کی کیفیت میں ہوتا، اقتدار سے محروم رہنے والا فریق دوسرے کی حکومت جانے پر خوش ہوتا اور اپنی باری آنے پر شاداں وفرحاں ہوتا، نئی صدی میں مشرف آئے تو پہلے انتخابات نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے بغیر ہوئے دوسرے انتخابات میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیاتھا، یوں2013کے انتخابات انوکھے اور منفرد قرار پاتے ہیں، اب تک کے سب سے دلچسپ اور انوکھے انتخابات آزاد میڈیا ''نہ خوشی نہ غم اور نہ بائیکاٹ اور نہ کوئی باہر۔''

ہاتھ پر لگی سیاہی کی موجودگی ایسی ہے جیسے دلہن کے ہاتھوں کی مہندی نہ اتری ہو، اب جذبات ٹھنڈے ہیں اور سوچنے کی بات کی جاسکتی ہے، اب عقل ودانش کی بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہم ایک ماہ کی ہیجان انگیز انتخابی مہم سے باہر آچکے ہیں، ایسی مہم ستر کے عشرے میں نہ چل سکی کہ میڈیا نہ تھا،85میں نہ چل سکی کہ غیر جماعتی اور یکطرفہ تھی، نواز بینظیر والے باری باری کے عشرے میں نہ چل سکی کہ کسی نہ کسی سے اقتدار چھینا جاتا، نئی صدی کے دو انتخابات میں ہم ایسی مہم سے محروم رہے کہ کبھی دو بڑی شخصیات تو کبھی دو بڑی پارٹیاں انتخابات سے باہر تھیں، گویا ہر لحاظ سے مکمل اور جامع انتخابی مہم سے فراغت کے بعد ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟

نواز شریف سوچ سکتے ہیں کہ اگر وہ مذہبی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے تو کتنی زائد نشستیں حاصل کرسکتے تھے؟ کیا دے کر کیا لے سکتے تھے؟ صدر زرداری سوچ سکتے ہیں کہ ان کا کوئی بڑا لیڈر پر اثر انتخابی مہم چلاتا تو کیا کچھ ہوسکتاتھا؟ فضل الرحمن اور منور حسن سوچ سکتے ہیں کہ مذہبی پارٹیوں کا اتحاد کیا نتیجے دیتا؟ عمران خان تجزیہ کرسکتے ہیں کہ زخمی ہونے سے پہلے اور زخمی ہونے کے بعد کی مہم نے نتیجے پر کیا اثر ڈالا؟ بلوچ رہنما سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے صوبے کے لیے جدوجہد سے وہ کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں؟آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے کا تجزیہ ضرور کریںگے، پیر پگارا بیلنس شیٹ بناسکتے ہیں کہ سندھ میں اتحاد نے انھیں کتنا فائدہ پہنچایا؟ یہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں، اب کھیل عوام کے ہاتھوں سے نکل کر ان کے لیڈروں کے ہاتھ میں آگیا ہے، اب انھیں پانچ سال کے لیے حکومتیں بنانی ہیں اب عوام کو پانچ سال بعد یاد کیا جائے گا، اب عوام رویںگے یا ہنسیںگے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کچھ لوگ مطمئن ہوں اور کچھ لوگ بے چین، ہمیں دیکھنا ہے کہ پانچ سال تک کون پرسکون ہوگا اور کون بے قرار۔

ووٹ دینے کا انداز طے کرے گا کہ پانچ سال تک ووٹر کے ضمیر پر کوئی بوجھ تو نہ ہوگا جس نے اپنا ووٹ باپ دادا کی روایت کے مطابق دیا ہے وہ ''لکیر کا فقیر'' قرار پاتاہے کہ اس نے سوچنے سمجھنے کا دروازہ بند کردیاہے، اگر ان کے گھر کی پسندیدہ پارٹی نے پچھلے پندرہ بیس برسوں میں عوام کے سکھ، چین اور خوشحالی میں حقیقی معنوں میں اضافہ کیا ہے تو وہ کچھ وقت تو اطمینان سے گزارسکتے ہیں، دوسرے لوگ وہ ہیں جنھوںنے لیڈر کو دیکھ کر ووٹ دیے ہیں ایسے لوگ بھی اپنے دل کو بڑے عرصے تک تسلی دیتے رہ سکتے ہیں ۔ پچھلے پانچ سال اقتدار میں بہت کچھ نہ کرسکنے والی پارٹیوں کونسل در نسل پسند کرنے والوں نے ووٹ دیے ہوںگے، وہ پچھلے دور میں کچھ نہ کچھ کرنے کے اشتہار پر اپنے دل کو تسلی دیں گے اور آیندہ کے دور میں کچھ کرنے کی امید پر اپنے دل کو تھپکی دے کر سلانے کی کوشش کریںگے، سب سے زیادہ مطمئن کون ہوگا؟

یہ ایک کشمکش ہے اس کشمکش میں ایک بات کو ذہن میں رکھنے والے ووٹر سب سے کامیاب قرار پائے گا، صرف ایک شخصیت کو نگاہ میں رکھ کر ووٹ دینے والا کبھی ضمیر کے بوجھ تلے نہیں دبے گا وہ شخصیت جو اس ووٹر کے گھر میں موجود ہے وہ اس کا فیملی ممبر ہے، ووٹر چاہے وہ مرد ہو یا عورت اگر اس نے ووٹ ڈالنے سے قبل بظاہر ''بے حیثیت '' ممبر کو ذہن میں رکھا ہے تو اسے اپنے نادان دل کو تھپکی دے کر سلانے کی ضرورت نہ ہوگی، ایسا فیملی ممبر جس کو ووٹ کا حق نہیں تھا کہ وہ اسکول جاتاتھا یا نیا نیا کالج میں داخل ہواتھا اگر ووٹروں نے پولنگ اسٹیشن کی جانب بڑھنے سے قبل جھولے میں سوئے نونہال یا پرائمری اسکول میں پڑھنے والے ہونہار کو ذہن میں رکھا ہے تو اس کا ضمیر مطمئن رہے گا۔

انتخابات ہوچکے، ووٹوں کی گنتی ہوچکی، نتیجوں کا اعلان ہوچکا، ووٹرز نے بیلٹ پیپر کی پرچی پر ٹھپہ صحیح لگایا یا غلط؟ اس کا فیصلہ مؤرخ کرے گا یا آنے والے ساٹھ ماہ میں ووٹر کا ضمیر، ووٹر نے ملک کی خاطر ووٹ دیا یا پسندیدہ پارٹی کو؟ ان کے ذہن میں ''لیڈر تھا یا نظریہ''ان تیس سیکنڈز میں جب اس کے ایک ہاتھ میں بیلٹ پیپر تھا اور دوسرے میں مہم جب وہ دونوں ہاتھوں میں دونوں چیزیں تھامے پردے کی جانب بڑھ رہاتھا تو وہ تعصب سے پاک تھا۔ اس نے وطن کا سوچا یا سیاسی لیڈر کو''بھگوان'' کہہ کر اس کے آگے سجدہ ریز ہوگیا؟ ممکن ہے آج صحیح یا غلط فیصلے کا اندازہ نہ ہو، آنے والا کل طے کردے گا کہ اس نے کس انتخابی نشان''بت'' سمجھ کو''پوجا'' تو نہیں کی، آنے والے260ہفتوں میں وطن کو کیسی قیادت درکار ہوگی؟ سوچایا نہیں؟ ووٹرز کے پاس ایک جانب تیس سیکنڈر تھے تو ذہن میں آنے والے ساٹھ ماہ ،حساب یہ بنتاہے کہ ایک سیکنڈ کا غلط فیصلہ دو ماہ کی قیمت مانگتاہے جوں جوں وقت کی گرد تھمے گی ہر ووٹر طے کرلے گا کہ کیا قیمت اس نے چکائی ہے، ایک غلط فیصلے کی یا کیا کچھ اس نے پایا ہے۔

ایک صحیح فیصلہ کرکے ہمارے نصف منٹ کا فیصلہ ہمیں پانچ برس تک بھگتنا ہے، امتحان ہے ہماری برداشت کا، ایک سیکنڈ میں دو ماہ کی برداشت کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں