ایران پر حملے کا منصوبہ

ایران پروجیکٹ کا نام اسرائیلی آرمی چیف نے امریکی جنرل سے مشاورت کے ساتھ پیش کیا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر غورکرنے کا نہ ان کے پاس وقت ہے نہ دلچسپی ہے۔ دنیا کے فیصلے چند بڑی طاقتوں کے سربراہ کرتے ہیں اور ڈھونگ یہ رچایا جاتا ہے کہ یہ فیصلے عوام کرتے ہیں۔ اس مفروضے کے لیے دنیا کے چالاک اور عیار لوگوں نے یہ بہانہ گھڑ لیا ہے کہ جو لوگ دنیا کے فیصلے کرتے ہیں انھیں عوام منتخب کرتے ہیں چونکہ ان لوگوں کو عوام منتخب کرتے ہیں لہٰذا ان کا ہر فیصلہ عوام کا فیصلہ ہوتا ہے۔

یہ سرمایہ دارانہ نظام کے عیاروں کا وہ فریب ہے جس کا شکار خود دنیا کے اربوں انسان ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں کے نامعقول فیصلوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نام کا ایک بے اختیار ادارہ بنایا گیا ہے جو عملاً بڑی طاقتوں کے مفادات کا نگہبان بنا ہوا ہے۔

دنیا میں اب تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں، اس کے فیصلے چند با اختیار حکمرانوں نے کیے ہیں اور کہا یہی جاتا رہا ہے کہ یہ فیصلے عوام کے ہیں کیونکہ فیصلے کرنے والوں کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ دنیا میں لڑی جانے والی بڑی جنگیں جن میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں چند حکمرانوں کی مرضی کا نتیجہ ہیں۔ کیا پہلی اور دوسری عالمی جنگیں شروع کرنے والے عوام ہیں۔ کیا جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ عوام نے کیا تھا؟ نہیں بلکہ امریکا کے اس وقت کے صدر ٹرومن نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ ان جنگوں میں جو لاکھوں لوگ مارے گئے کیا اس میں امریکی عوام کی مکمل مرضی شامل تھی۔

کیا کوریا ویت نام کی جنگیں شروع کرنے سے پہلے عوام کی رائے لی گئی تھی۔ کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لڑی جانے والی 1965ء اور 1971ء کی جنگیں شروع کرنے سے پہلے عوام کی مرضی حاصل کی گئی تھی۔ کیا عراق اور افغانستان پر حملوں سے پہلے امریکی صدر نے امریکی عوام سے اجازت لی تھی ان سارے سوالوں کا منہ جمہوریت کے نام سے بند کیا جاتا ہے۔

امریکا نے شمالی کوریا کو بلیک میل کر کے اسے ایٹمی ہتھیار بنانے ہی سے نہیں روک دیا بلکہ وہ سائٹس تک تباہ کروا دیا جہاں ایٹمی ہتھیار تیار کیے جاتے تھے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے کسی ملک کو روکنا ایک بہت بڑا مثبت کام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن دو بلیوں کے درمیان تنازعہ حل کرنے والے بندر نے کیا جنوبی کوریا کے ایٹمی ہتھیار ضایع کرا دیے کیا جنوبی کوریا کو جو امریکی فوجی اڈے کی شکل دے دی گئی تھی اسے تبدیل کر دیا گیا؟


امریکی صدر بش نے عراق پر حملہ کر دیا، کیا اس حملے کے لیے امریکی عوام کی رضامندی حاصل کی گئی تھی۔ عراق پر حملے کے لیے بش نے صدام حسین پر جو الزام تراشے تھے وہ سب غلط ثابت ہو گئے۔ کیا امریکی عوام نے صدر بش کے اس فراڈ کا مواخذہ کیا؟ عراق پر اس حملے میں ہزاروں عراقی بے گناہ مارے گئے کیا اس سفاکانہ جرم کی سزا بش کو دی گئی کیا صدام کو پھانسی دینے میں امریکی عوام کی مرضی شامل تھی؟

آج جنگوں اور ان کی بے لگامی پر کالم لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ اخبارات میں ایک تین کالمی خبر شایع ہوئی جس کی سرخی یہ ہے کہ ''اسرائیل امریکا نے ایران پر حملے کا منصوبہ بنا لیا ہے'' اس منصوبے کو ''ایران پروجیکٹ'' کا نام دیا گیا ہے۔ ایران پر حملے کی ممکنہ تفصیلات کے مطابق ایران پر حملے کی نگرانی کا ٹاسک 53 سالہ میجر جنرل ایلون کے سپرد کیا گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق دونوں ملکوں کے حکام نے 29 جون کو پلان پر غور کیا۔

ایران پروجیکٹ کا نام اسرائیلی آرمی چیف نے امریکی جنرل سے مشاورت کے ساتھ پیش کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب روس اور امریکا کے درمیان اسرائیل کی سرحد کے قریب شامی علاقوں میں ایرانی ملیشیا کو دور رکھنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے ایران پر حملے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ اسرائیلی اداروں کے قریب سمجھی جانے والی ایک ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اس سے قبل کہ امریکا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے دنیا میں اور کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ہم دونوں ملکوں کے جنگی خناسوں سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا دونوں ملکوں کے عوام نے ایران پر حملے کی اجازت دی ہے؟ اس سوال کا جواب دنیا کے جمہوری جنگ پسندوں کے پاس یہی ہوتا ہے کہ عام انتخابات میں عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

سرمایہ دارانہ نظام کے عیاروں نے یہ ایک آسان نسخہ ایجاد کر لیا ہے کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے۔ بلاشبہ عوام نے تمہیں مینڈیٹ دیا ہے لیکن یہ مینڈیٹ جنگوں کا نہیںبلکہ دنیا کے عوام کی امن اور خوشحالی کا مینڈیٹ دیا ہے جنگوں کا نہیں، سازشوں کا نہیں، عوام کے درمیان نفرتیں پھیلانے کا نہیں، تم میں ذرا برابر انسانیت ہوتی تو تم ایران پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے کے بجائے ایران ہی نہیں پورے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا کوئی منصوبہ بناتے عراق شام لیبیا افغانستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی دہشتگردی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی موثر منصوبہ بندی کرتے جن ملکوں کے عوام کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اسے غربت کی لکیر سے اوپر لانے کا پلان بناتے۔

لیکن یہ سب اس لیے ممکن نہیں کہ دنیا پر انسانوں کی نہیں جنگ پسندوں کی برتری قائم ہے دنیا کے فیصلوں کا اختیار چند احمق سیاستدانوں اور چند جنونی فوجیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جن کا تعلق دنیا کی اسلحے کی صنعت کے مالکان سے ہے اور جو دنیا بھر میں ہتھیار پھیلانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ایجنٹ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو دنیا کے ملکوں کو جنگ کے خوف میں مبتلا کرکے اربوں کے اسلحے کی تجارت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
Load Next Story