الحمد اللہ انتخابات کا مرحلہ طے پا گیا
ہمارے اِن انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے تین بڑے عالمی انتخابی اداروں کے درجنوں ’’معتبر‘‘ مبصرین پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں انتخابات کا انعقاد کوئی آسان اور سہل کام نہیں تھا۔ اندازوں اور قیافوں کے گھوڑے ہرروز دوڑائے جاتے تھے کہ ''الیکشن نہیں ہوں گے'' اور یہ کہ ''منتخب حکومت کی جگہ ٹیکنو کریٹ حکومت کا جگاڑ لگایا جائے گا۔'' ایسا مگر کچھ بھی نہیں ہُوا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جو تاریخ دی گئی تھی، اللہ کے فضل سے اُسی تاریخ کو انتخابات مکمل ہو گئے۔
گرمی، شدید حبس اور بارشوں کے باوجود۔ اِس کامیابی پر ہم سب کو اپنے ربّ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بھارتی، امریکی اور مغربی ذرایع ابلاغ نے ہمارے انتخابات کے بارے میں جو گرد اُڑانے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے، یہ افسوسناک امر تھا۔ الیکشن سے ایک روز قبل ''نیویارک ٹائمز'' نے اپنے ایک طویل نیوز آرٹیکل (جس کا عنوان ہی نہائت دل آزار تھا) میںعمران خان کے خلاف جو قابلِ گرفت زبان استعمال کی ہے، اِس پر بھی افسوس ہی کا اظہار کیا جانا چاہیے۔
مغربیوں کے دل کا مرض یہ ہے کہ انھیں ہمارا کوئی مُلّاحکمران پسند ہے نہ مسٹر۔ انھیں ذوالفقار علی بھٹو کی سیکولر شخصیت پسند رہی نہ ضیاء کی مذہبی شخصیت۔ قومی اسمبلی میںاب عمران خان کو برتری حاصل ہو چکی ہے۔ اِس برتری نے ثابت کیا ہے کہ کپتان کے خلاف عوام نے مغربی ذرایع ابلاغ کی ہفوات پر یقین نہیں کیا ہے۔ عمران خان کی یہ برتری دراصل ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کی بھی شکست ہے۔
بعض جماعتوںکی جانب سے انتخابات کے نتائج مسترد کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا الیکٹرانک نظام سرکاری نتائج دینے کے حوالے سے مبینہ طور پر ''بیٹھ'' نہ جاتا تو شائد اِس استرداد کی نوبت بھی نہ آتی۔ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رات کے چار بجے جو پریس کانفرنس کی ہے، وہ اطمینان بخش قرار نہیں دی گئی ہے۔ وہ اور اُن کے سیکریٹری اخبار نویسوں کے کئی بنیادی سوالات کے شافی جواب بھی نہ دے سکے ۔ اِن خامیوں اور کوتاہیوں کے باوصف انتخابات کے جملہ مراحل کا طے پاجانا ہی ہمارے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اِس کامیابی میں عوام، میڈیا، عدلیہ اور افواجِ پاکستان کا یکساں اور شاندار کردار ہے۔ لوگوں کا جوش وخروش بھی کم نہیں تھا۔
قابلِ ذکر کامیابی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ہے، خصوصاً اس لیے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ اِس نے کبھی اپنی سابقہ حکمران جماعت کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیا۔ پی ٹی آئی دوبارہ کامیاب ہُوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے اقدامات سے یہاں کے عوام اطمینان محسوس کررہے تھے۔ اِس بار پی ٹی آئی شائد مزید بہتری کا مظاہرہ کر سکے۔ پنجاب اور سندھ میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی بھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی نظر آئی ہیں۔ پنجاب میں جو پارٹی بھی حکمران بنے گی، اُسے انتہائی طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تازہ انتخابات کی تکنیک، انتظامی معاملات اور نتائج کے بارے میں پاکستان آئے عالمی انتخابی مبصرین (International Election Observers)کی طرف سے ابتدائی رائے کا آنا ابھی باقی ہے۔ ہمارے اِن انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے تین بڑے عالمی انتخابی اداروں کے درجنوں ''معتبر'' مبصرین پاکستان آئے ہُوئے ہیں۔ زیادہ مبصرین یورپی یونین کے ادارے EU-EOMکی طرف سے آئے ہیں۔ اپنی مَین پاور اور مالی وسائل کے اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے مضبوط اوربڑا انتخابی مبصر ادارہ اور مشن کہلاتا ہے۔ اِس میںدس تجزیہ کار، ساٹھ لانگ ٹرم الیکشن آبزرورز، یورپی پارلیمنٹ کے سات ممبرز اور یورپی یونین کی اتحادی ریاستوں، ناروے، سوئٹزر لینڈ اور کینیڈا کے سفارتخانوں کے42سفیر شامل ہیں۔ اِس مشن کے سربراہ مائیکل گاہلر ہیں جو پاکستان کی سیاست اور انتخابات سے بھرپور آشنائی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
یہ صاحب اپنے مبصرین کے ساتھ24جون ہی کو پاکستان وارد ہو گئے تھے۔ اِسی ادارے نے پاکستان کے پچھلے دونوں انتخابات کے بارے میں بھی اپنی تفصیلی رپورٹ دی تھی اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کئی مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر بڑی مشکلوں سے ان پر قابوپایا تھا۔یہ انتخابی مشن (EU-EOM) عمومی طور پر انتخابات کی تکمیل کے دو دن بعد اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے لیکن تفصیلی مشاہداتی رپورٹ ذرا تاخیر سے جاری کرتا ہے۔ ایک اور عالمی انتخابی مشن( کامن ویلتھ آبزرورز گروپ) بھی پاکستان آیا ہُوا ہے۔ نائیجیریا کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل عبدالسلامی ابوبکر اس کے سربراہ ہیں۔
بھارت، موریطانیہ اور سری لنکا الیکشن کمیشنوں کے دو سابق ممبر، برطانیہ کا ایک حاضر سروس جج ، آسٹریلیاکا ایک سینیٹر اور بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، فجی، کینیا اور نائیجیریاکی سول سوسائٹی کے کئی لوگ اس کے ارکان میں شامل ہیں۔ایک تیسرا گروپ ( Commonwealth Secretariat)بھی اپنے 10ممبروں کے ساتھ پاکستان آیا ہُوا ہے۔ یہ 18جولائی کو پاکستان پہنچا تھا اور30جولائی تک پاکستان میں قیام پذیر رہے گا۔ ہماری نگران حکومت نے تو اپنے تئیں بحسن و خوبی انتخابات کروا دیے ہیں۔ نتائج بھی تقریباً سبھی سامنے آ چکے ہیںلیکن مذکورہ عالمی انتخابی مبصرین کی رائے اور حتمی رپورٹیںکس شکل میں سامنے آکر کیا اثرات مرتّب کرتی ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 25جولائی2018ء کے یہ الیکشن ہماری تاریخ کے سب سے مہنگے اور گراں انتخابات ثابت ہُوئے ہیں۔ اِن پر حکومت کے تقریباً450 ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں۔ یہ روپیہ بھاری اور متنوع ٹیکسوں کی شکل میں ہماری رگوں سے نچوڑا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان ایسا غریب ملک، جس کے ناتواں کندھوں پر92ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ لدا ہے،اتنے مہنگے انتخابات کی'' عیاشی'' کا متحمل ہو بھی سکتا تھا؟ اب جب کہ یہ مرحلہ طے پا چکا ہے، شائد یہ استفسار ہی بے معنی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تازہ انتخابات پچھلے دونوں قومی انتخابات کے مقابلے میں انتہائی مہنگے ثابت ہُوئے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات ( جب کہ ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد81ملین تھی)پر 200ارب روپے خرچ ہُوئے تھے اور 2013ء کے انتخابات ( جب کہ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 86 ملین تھی)پر 400ارب روپے۔اِس بار ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد106ملین تھی۔
الیکشن کا انعقاد کروانے والے سرکاری ادارے کی ایک مرکزی شخصیت کا کہنا ہے کہ ''یہ الیکشن اس لیے بھی مہنگے ثابت ہُوئے ہیں کہimported watermarked ballot papersکا استعمال ہُوا ہے اور دوسرا یہ کہ پولنگ اسٹاف کو دیے جانے والے اعزازیے میں اضافہ ہُوا ہے۔
2013ء کے انتخابات میں ہر پریذائیڈنگ آفیسر کو تین ہزار روپے کا اعزازیہ دیا گیا تھا جب کہ اِس بار یہ اعزازیہ آٹھ ہزار روپے فی کس دیا گیا ہے۔ پچھلی بار پولنگ آفیسر کا اعزازیہ تین ہزار روپے فی کس تھا جب کہ اِس بار اِسے چھ ہزار روپے کیا گیا ہے۔'' انتخابی اُمیدواروں نے نجی حیثیت میں سرمائے کا جو بے محابہ استعمال کیا ہے، یہ ابھی کسی قطار شمار میں نہیں لایا گیا ہے۔ حکومت نے اعلان تو یہ کیا تھا کہ صوبائی انتخابی اُمیدوار 20لاکھ اور قومی اسمبلی کا اُمیدوار 40لاکھ روپے سے زائد اخراجات نہیں کر سکے گا۔ اس انتخابی ضابطے کی کتنی اور کہاں تک پاسداری کی گئی ہے، یہ بھی ہم سب نے ملاحظہ کر لی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری، بابر یعقوب فتح محمد، نے انتخابات سے دو روز قبل ایک انگریزی معاصر کو انٹرویو دیتے ہُوئے خود تسلیم کیا تھا کہ ''انتخابی اُمیدواروں کے الیکشن اخراجات کے لیے جن ضوابط کا اعلان کیا تھا، ہم اُن سے مطمئن نہیں ہیں۔'' حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے ہی وضع کردہ ضوابط کی تنفیذکی قوت نہیں رکھتا تو ایسے ضابطے بنانے کا تکلّف ہی کیوں کیا جاتا ہے؟
یوں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک بار پھر کمزور ادارہ ثابت ہُوا ہے۔ اِسی طرح ہمارے نگرانوں کی کارکردگی بھی ناقابلِ رشک ہی رہی۔اِس بار کے انتخابی تجربے نے پھر ثابت کیا ہے کہ اگر پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے اور الیکشنوں کو متنوع تنازعات اور الزامات سے محفوظ رکھنا ہے تو فیصلہ ساز قوتوں کو مل بیٹھ کر یہ قطعی فیصلہ کرنا ہو گا:(۱)الیکشن کمیشن آف پاکستان واقعی معنوں میں آزادی سے بروئے کار ہوگا(۲) چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو انتظامی طور پر ایسے اختیارات دیے جائیں کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہ آ سکے(۳) نگران حکومتیں وجود میں نہیں آئیں گی۔ نگران حکومت اور نگراں حکمرانوں کی پَخ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں دیکھی نہیں جا سکتی ۔
ہمارا ہمسایہ ملک، جسے دنیا کی ''سب سے بڑی جمہوریہ'' ہونے کا دعویٰ ہے، بھی انتخابات سے قبل ہمیشہ نگرانوں کے وجود سے محفوظ رہا ہے۔ ہمیں جرأت اورہمت سے یہ اقدام کرنا ہوں گے۔ بصورتِ دیگر الیکشن کے نتائج بارے جھگڑے اور تنازعے اُٹھتے رہیں گے۔