26 جولائی
26جولائی کا سورج جس نئے پاکستان کو لے کر طلوع ہوا ہے‘ اس کی روشنی جب تک ہر شہری کے آنگن تک نہیں پہنچے گی۔
یہ کالم26جولائی کی دوپہر میں لکھا جا رہا ہے جب کہ اب تک کے موصول شدہ انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو قومی اسمبلی مں واضح اکثریت ملتی نظر آ رہی ہے۔
صوبائی سطح پر بھی خیبرپختونخوا میں اس کی پوزیشن بہت ہی اچھی اور پنجاب میں کافی اچھی ہے' یوں اس کے نعرے ''تبدیلی آ رہی ہے'' کا ایک حصہ پورا ہو گیا ہے لیکن یہ تبدیلی اپنے ساتھ کیا کیا تبدیلیاں لائی ہے اور کن مزید تبدیلیوں کی طالب ہے یہ پاکستان کے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے لیے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ کل تک جو باتیں وہ سوال کے طور پر کرتے تھے اب انھیں خود حق کا مناسب اور صحیح جواب دینا ہو گا۔
عمومی سیاسی تربیت کی کمی کی وجہ سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی جب کوئی حزب اختلاف حکومت وقت کا تختہ الٹا کر کامیابی حاصل کرتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بہت دیر بعد تک بھی اس کا سابقہ احتجاجی اور نعرہ بازی کا رویہ برقرار رہتا ہے۔
اس ضمن میں دوسری لیکن سب سے اہم بات پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا رویہ اور سوچ ہے کہ وزارت عظمیٰ کی جس کرسی پر وہ بیٹھنے والے ہیں وہ پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام عوام کی مشترکہ نمایندگی کی حامل اور متقاضی ہے، سو امید کی جانی چاہیے کہ کچھ دیر بعد جب وہ اپنی پہلی پریس کانفرنس کریں گے تو ان کے مخاطب اور ساتھی ان کے سیاسی حریف اور پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دینے والے عوام بھی ہوں گے کہ اب وہ ان سب کے نمایندہ ہیں۔
انتخابی رنجشیں اور تلخیاں انشاء اللہ کچھ عرصے میں انصاف اور قانون کے غیر جانبدارانہ عمل سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائیں گی مگر اصل مسئلہ ان رنجشوں اور بدگمانیوں کا ہے جو چاروں جانب پھیلی یا پھیلادی گئی ہیں جب کہ ہارنے والی جماعتوں اور افراد میں ان کا غلبہ فطری طور پر زیادہ ہو گا اور اس کیفیت سے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی خود بھی اس صورت حال سے گزر چکی ہے۔
سو ایسے میں سب سے ضروری اور اہم بات ان کی جائز شکایات کو ہمدردی اور انصاف سے دور کرنا اور ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے خود آگے بڑھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے جیسا کہ گزشتہ انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔ اب ان معاملات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جن کی بنیاد پر یہ مصافحہ مکمل نہ ہو سکا اور بات دھرنوں سے ہوتی ہوئی عدالتوں تک پہنچ گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے سیاسی نظریات کو قائم رکھتے ہوئے تمام پارٹیاں ان معاملات پر یک دل اور یک سو ہو کر کام کریں جن کا تعلق خارجہ پالیسی' معیشت' تعلیم' صحت' روز گار اور عمومی عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے ہے جیسا کہ ہم امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں کہ وہاں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود قومی پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
اپوزیشن کا مطلب ایسے حکومتی اقدامات کی مخالفت اور نشاندہی کرنا ہوتا ہے جو ان مندرجہ بالا معاملات میں ان کے نزدیک قابل مخالفت یا لائق اصلاح ہوں نہ کہ ہر حکومتی عمل پر بغیر دیکھے اور سوچے ناں ناں کرتے جانا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ اسی صورت حال کا عکاس ہے۔ اس طرح کے نامعقول رویے پر روس اور امریکا کی سرد جنگ کے دنوں کا ایک واقعہ نما لطیفہ کچھ اس طرح سے ہے کہ امریکی حکومت سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران روسی صدر نے اپنے وزیر خارجہ کو ہدایت کی کہ دوسری طرف سے جو بھی بات کہی جائے تم نے اس پر NO کہنا ہے۔
وزیر خارجہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ہر بات پر نو نو کہنا شروع کر دیا لیکن پانچ چھ بار نو کہنے کے بعد ایک بار اس نے یس کہا اور پھر نو نو کی گردان شروع کر دی۔ فون ختم ہوا تو روسی صدر نے غصے سے پوچھا کہ جب میں نے تمہیں ہر بات پر نو کہنے کی ہدایت کی تھی تو تم نے بیچ میں ایک بار Yes کیوں کہا وزیر خارجہ نے سر جھکا کر کہا ''سر وہ پوچھ رہا تھا کیا تمہیں میری آواز آ رہی ہے؟''
اس الیکشن پر ہماری غریب قوم کے اربوں روپے اور بے شمار وقت خرچ ہوا ہے، ظاہر ہے اس کا مقصد محض ایک آئینی تقاضے کی خانہ پری نہیں تھی بلکہ ملک و قوم کو ترقی اور استحکام کی ایک بہتر راہ پر ڈالنے کی خواہش اور ارادہ تھا۔ اس سے یہ مراد ہرگز ہرگز نہیں لینی چاہیے کہ گزشتہ حکومت کچھ بھی اچھا نہیں کر رہی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام تر مسائل' خرابیوں اور تحفظات کے باوجود ہر جگہ اور ہر سطح پر بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں یعنی تبدیلی کی اصل وجہ ''انکار'' نہیں بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش ہے۔
سو اب سیاسی اختلافات میں سے ذاتیات کو ایک طرف کر کے سب اداروں کو ان کے حصے کا کام کرنے دینا چاہیے اور اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے شفاف آزادانہ اور منصفانہ انداز میں تحفظ کی ایسی فضا پیدا کرنی چاہیے کہ بہتر سے بہتر کارکردگی کو راستہ ملتا چلا جائے۔
سرکاری ملازمین بلاشبہ تنخواہ کسی بھی حکومت سے لیتے ہوں لیکن وہ بنیادی طور پر پاکستان کی ''ریاست'' کے ملازم ہوتے ہیں سو اس ضمن میں سب سے پہلے ''اپنے آدمی'' کے منفی تصور کو ختم کرنا پڑے گا' ابھی تک پی ٹی آئی اور عمران خان کھیل پر رننگ کمنٹری کر رہے تھے لیکن اب بال خود ان کے کورٹ میں آ گیا ہے یعنی اب پوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بھی بدلنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں انھیں ان سب باتوں سے احتراز کرنا ہو گا جس کی شکایت وہ ماضی میں اپنے حوالے سے کرتے رہے ہیں۔
پہلے وہ خود اپوزیشن میں تھے اور اب ''اپوزیشن'' کے حقوق کی حفاظت ان کے ذمے آن پڑی ہے اور انھیں یہ فرض پوری ایمانداری اور انصاف سے ادا کرنا ہو گا۔ 26جولائی کا سورج جس نئے پاکستان کو لے کر طلوع ہوا ہے' اس کی روشنی جب تک ہر شہری کے آنگن تک نہیں پہنچے گی اس تبدیلی کا حق ادا نہیں ہو سکے گا یعنی تحریک انصاف کا سب سے پہلا کام ہر سطح پر ایسے انصاف کا قیام ہونا چاہیے جس کی بنیاد محبت بھائی چارے اور سب کی فلاح پر استوار ہو۔ دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اس کے لیے اپنی اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
صوبائی سطح پر بھی خیبرپختونخوا میں اس کی پوزیشن بہت ہی اچھی اور پنجاب میں کافی اچھی ہے' یوں اس کے نعرے ''تبدیلی آ رہی ہے'' کا ایک حصہ پورا ہو گیا ہے لیکن یہ تبدیلی اپنے ساتھ کیا کیا تبدیلیاں لائی ہے اور کن مزید تبدیلیوں کی طالب ہے یہ پاکستان کے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے لیے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ کل تک جو باتیں وہ سوال کے طور پر کرتے تھے اب انھیں خود حق کا مناسب اور صحیح جواب دینا ہو گا۔
عمومی سیاسی تربیت کی کمی کی وجہ سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی جب کوئی حزب اختلاف حکومت وقت کا تختہ الٹا کر کامیابی حاصل کرتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بہت دیر بعد تک بھی اس کا سابقہ احتجاجی اور نعرہ بازی کا رویہ برقرار رہتا ہے۔
اس ضمن میں دوسری لیکن سب سے اہم بات پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا رویہ اور سوچ ہے کہ وزارت عظمیٰ کی جس کرسی پر وہ بیٹھنے والے ہیں وہ پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام عوام کی مشترکہ نمایندگی کی حامل اور متقاضی ہے، سو امید کی جانی چاہیے کہ کچھ دیر بعد جب وہ اپنی پہلی پریس کانفرنس کریں گے تو ان کے مخاطب اور ساتھی ان کے سیاسی حریف اور پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دینے والے عوام بھی ہوں گے کہ اب وہ ان سب کے نمایندہ ہیں۔
انتخابی رنجشیں اور تلخیاں انشاء اللہ کچھ عرصے میں انصاف اور قانون کے غیر جانبدارانہ عمل سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائیں گی مگر اصل مسئلہ ان رنجشوں اور بدگمانیوں کا ہے جو چاروں جانب پھیلی یا پھیلادی گئی ہیں جب کہ ہارنے والی جماعتوں اور افراد میں ان کا غلبہ فطری طور پر زیادہ ہو گا اور اس کیفیت سے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی خود بھی اس صورت حال سے گزر چکی ہے۔
سو ایسے میں سب سے ضروری اور اہم بات ان کی جائز شکایات کو ہمدردی اور انصاف سے دور کرنا اور ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے خود آگے بڑھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے جیسا کہ گزشتہ انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔ اب ان معاملات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جن کی بنیاد پر یہ مصافحہ مکمل نہ ہو سکا اور بات دھرنوں سے ہوتی ہوئی عدالتوں تک پہنچ گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے سیاسی نظریات کو قائم رکھتے ہوئے تمام پارٹیاں ان معاملات پر یک دل اور یک سو ہو کر کام کریں جن کا تعلق خارجہ پالیسی' معیشت' تعلیم' صحت' روز گار اور عمومی عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے ہے جیسا کہ ہم امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں کہ وہاں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود قومی پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
اپوزیشن کا مطلب ایسے حکومتی اقدامات کی مخالفت اور نشاندہی کرنا ہوتا ہے جو ان مندرجہ بالا معاملات میں ان کے نزدیک قابل مخالفت یا لائق اصلاح ہوں نہ کہ ہر حکومتی عمل پر بغیر دیکھے اور سوچے ناں ناں کرتے جانا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ اسی صورت حال کا عکاس ہے۔ اس طرح کے نامعقول رویے پر روس اور امریکا کی سرد جنگ کے دنوں کا ایک واقعہ نما لطیفہ کچھ اس طرح سے ہے کہ امریکی حکومت سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران روسی صدر نے اپنے وزیر خارجہ کو ہدایت کی کہ دوسری طرف سے جو بھی بات کہی جائے تم نے اس پر NO کہنا ہے۔
وزیر خارجہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ہر بات پر نو نو کہنا شروع کر دیا لیکن پانچ چھ بار نو کہنے کے بعد ایک بار اس نے یس کہا اور پھر نو نو کی گردان شروع کر دی۔ فون ختم ہوا تو روسی صدر نے غصے سے پوچھا کہ جب میں نے تمہیں ہر بات پر نو کہنے کی ہدایت کی تھی تو تم نے بیچ میں ایک بار Yes کیوں کہا وزیر خارجہ نے سر جھکا کر کہا ''سر وہ پوچھ رہا تھا کیا تمہیں میری آواز آ رہی ہے؟''
اس الیکشن پر ہماری غریب قوم کے اربوں روپے اور بے شمار وقت خرچ ہوا ہے، ظاہر ہے اس کا مقصد محض ایک آئینی تقاضے کی خانہ پری نہیں تھی بلکہ ملک و قوم کو ترقی اور استحکام کی ایک بہتر راہ پر ڈالنے کی خواہش اور ارادہ تھا۔ اس سے یہ مراد ہرگز ہرگز نہیں لینی چاہیے کہ گزشتہ حکومت کچھ بھی اچھا نہیں کر رہی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام تر مسائل' خرابیوں اور تحفظات کے باوجود ہر جگہ اور ہر سطح پر بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں یعنی تبدیلی کی اصل وجہ ''انکار'' نہیں بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش ہے۔
سو اب سیاسی اختلافات میں سے ذاتیات کو ایک طرف کر کے سب اداروں کو ان کے حصے کا کام کرنے دینا چاہیے اور اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے شفاف آزادانہ اور منصفانہ انداز میں تحفظ کی ایسی فضا پیدا کرنی چاہیے کہ بہتر سے بہتر کارکردگی کو راستہ ملتا چلا جائے۔
سرکاری ملازمین بلاشبہ تنخواہ کسی بھی حکومت سے لیتے ہوں لیکن وہ بنیادی طور پر پاکستان کی ''ریاست'' کے ملازم ہوتے ہیں سو اس ضمن میں سب سے پہلے ''اپنے آدمی'' کے منفی تصور کو ختم کرنا پڑے گا' ابھی تک پی ٹی آئی اور عمران خان کھیل پر رننگ کمنٹری کر رہے تھے لیکن اب بال خود ان کے کورٹ میں آ گیا ہے یعنی اب پوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بھی بدلنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں انھیں ان سب باتوں سے احتراز کرنا ہو گا جس کی شکایت وہ ماضی میں اپنے حوالے سے کرتے رہے ہیں۔
پہلے وہ خود اپوزیشن میں تھے اور اب ''اپوزیشن'' کے حقوق کی حفاظت ان کے ذمے آن پڑی ہے اور انھیں یہ فرض پوری ایمانداری اور انصاف سے ادا کرنا ہو گا۔ 26جولائی کا سورج جس نئے پاکستان کو لے کر طلوع ہوا ہے' اس کی روشنی جب تک ہر شہری کے آنگن تک نہیں پہنچے گی اس تبدیلی کا حق ادا نہیں ہو سکے گا یعنی تحریک انصاف کا سب سے پہلا کام ہر سطح پر ایسے انصاف کا قیام ہونا چاہیے جس کی بنیاد محبت بھائی چارے اور سب کی فلاح پر استوار ہو۔ دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اس کے لیے اپنی اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔