سیاست کا افسوسناک مقام
سیاست میں ذاتیات سے بالاتر رہنا چاہیے مگر آج سیاست میں بات ذاتیات سے بڑھ کر اخلاقی حدود بھی پار کر گئی ہے۔
سیاست کو کبھی ایک باعزت مقام حاصل تھا اور اچھے اور باکردار لوگ اپنی پسند اور نظریے کے مطابق سیاست میں آتے تھے، اپنی مرضی کی پسندیدہ پارٹی میں شمولیت اختیارکرتے تھے اپنی پارٹی میں رہ کر خدمات انجام دیتے تھے۔ پارٹی انھیں جو ذمے داری سونپتی وہ ادا کرتے، ٹکٹ ملنے پر الیکشن میں حصہ لیتے، ہار جیت سے زیادہ انھیں اپنی پارٹی کی طرف سے دی گئی ذمے داری زیادہ عزیز ہوتی تھی اور پارٹی سے وفاداری، پارٹی کارکنوں کی عزت ان کی ترجیح ہوتی تھی اور سیاست خلوص و دیانت داری سے عبادت سمجھ کر کی جاتی تھی۔
ایسے کئی پرخلوص اور قابل احترام سیاست کرنے والوں نے ایسے ہی اپنے قائد قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ وہ سیاست ذاتی و مالی مفادات کے حصول کے لیے ملک و قوم کی خدمت کے لیے ہوتی تھی اور نظریات کو ترجیح دی جاتی تھی۔
ملک میں ایوب خان کے مارشل لا تک ملک و قوم سے مخلص سیاستدان دنیا سے رخصت ہوئے۔ سیاسی مفادات غالب آنے لگے جس کا فائدہ بیوروکریسی نے اٹھایا اور اقتدارکی رسہ کشی میں وزیر اعظم اتنی جلدی تبدیل ہونے لگے کہ بھارتی وزیر اعظم کو بھی مذاق اڑانے کا موقعہ ملا تھا۔ قائد اعظم کے بعد دوسرا گورنر جنرل اور پہلا صدر مملکت بھی کوئی سیاست دان نہیں دو بیوروکریٹ بنے تھے مگر وہ بیورو کریٹ آج جیسے نہیں تھے۔
سیاسی ریشہ دوانیاں بڑھنے سے سیاست بھی تبدیل ہوئی اور جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر سیاستدانوں پر ایبڈو کے ذریعے پابندیاں لگائیں اور اپنے مفادات کے لیے سیاسی رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلم لیگ کنونشن بنائی،ان کے قابل اعتماد وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے الگ ہوکر پیپلز پارٹی بنائی اور اس سے قبل ایوب خان نے مفاد پرست سیاستدانوں کو استعمال کرکے پہلے محترمہ فاطمہ جناح جیسی رہنما کو حکومتی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے صدارتی انتخاب ہرایا اور دس سال بعد بھی اقتدار سیاستدانوں کو نہیں دیا اور کہنے والے کہتے ہیں کہ انھیں ایسا کرنے نہیں دیا گیا تھا۔
جنرل یحییٰ اقتدار میں آئے جنھوں نے اپنے مفاد کے لیے 1970ء میں عام انتخابات تو کرائے مگر اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا جس سے بھارت کو موقعہ ملا اور 1971ء کی جنگ سے ملک دولخت ہوا تو جنرل یحییٰ کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے سیاسی مخالف ملک ٹوٹنے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں جنھوں نے سندھ و پنجاب میں اکثریت حاصل کی تھی اور وہی مغربی پاکستان کے پاکستان بن جانے کے بعد وزیر اعظم بنے تو ملکی سیاست بھی تبدیل ہوئی، سیاست میں اصول، نظریہ، اخلاقیات ختم ہونے لگے اور سیاستدانوں کے نام بگاڑنے اور مخالف سیاسی رہنماؤں کی تذلیل کا سلسلہ شروع ہوا۔
بھٹو دور کے نئے اور مفاد پرست سیاستدانوں نے تو ترجیحات تبدیل کرکے سیاست کو عوام کی خدمت کی بجائے کمائی کا ذریعہ بنالیا مگر اخلاقیات کا پھر بھی خیال رکھا جاتا رہا۔ بھٹو دور کے بعد جنرل ضیا الحق کے طویل اقتدار میں مفاد پرست سیاستدانوں کی تعداد بڑھتی گئی مگر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں سیاست اتنی گندی اور بد نام نہیں ہوئی تھی جتنی گزشتہ پانچ چھ سال میں کر دی گئی ہے۔ جس کا ذمے دار عمران خان کے سیاسی مخالف انھیں قرار دیتے ہیں اور عمران خان کو جھوٹوں میں نمایاں، الزام خان، یوٹرن خان اور جعلی خان تک قرار دیا جاتا ہے۔
آج پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتیں عمران خان کو سیاست میں گالیوں، مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانا اور پھر عدالتوں میں اس کا سامنا نہ کرنا، سیاسی مخالفین کی تذلیل اور ان سے متعلق بے ہودہ الزامات لگانے اور تہذیب کے خلاف سیاسی تقریروں کا ذمے دار قرار دیتی ہیں جس کا ثبوت ٹی وی کے انتخابی اشتہاروں میں چلایا جانے والا ایک اشتہار بھی تھا جو مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے متعلق چلوایا اور پوچھا کہ کیا قوم کا مستقبل ایسے فرد کے ہاتھوں میں دیا جاسکتا ہے۔
یہ اشتہار مخالفانہ پروپیگنڈے کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ آج سیاست اس مقام پر آگئی ہے جہاں مخالفین کو دھمکیاں دینے سیاسی و اخلاقی طور پر رگیدنے اور جھوٹے الزامات لگا کر ہی اپنے حق میں تالیاں بجوائی جاسکتی ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے کہا ہے کہ عوام کی خدمت والی سیاست عبادت ہے مگر آج بھی سیاست جھوٹ پر مبنی ہے۔ سیاسی مخالفت میں پی ٹی آئی کے ایک حامی نے لندن سے سوشل میڈیا پر کہا کہ بیگم کلثوم نواز فوت ہوچکی ہیں مگر شریف فیملی یہ ظاہر کرنے کی بجائے سیاست کر رہی ہے مگر کلثوم نواز اب بھی حیات ہیں۔ اس سے قبل نواز شریف نے لندن کے جس اسپتال میں اپنا علاج کرایا تھا اس اسپتال کے متعلق بھی غلط پروپیگنڈا کیا جاچکا ہے۔
یہ درست ہے کہ سیاست میں ذاتیات سے بالاتر رہنا چاہیے مگر آج سیاست میں بات ذاتیات سے بڑھ کر اخلاقی حدود بھی پار کر گئی ہے اور شریف برادران کو آپس میں لڑانے کے لیے سیاسی بیانات دیے گئے تو عمران خان کی ذاتی زندگی پر ریحام خان کی کتاب پر پی ٹی آئی کو معترض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو بویا جاتا ہے وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے اس لیے سیاست میں اخلاقی حدود کو پامال کرنے سے گریز ضروری ہوگیا ہے۔