سب یوں ہی چلتا رہے گا
عوامی شعور بیدار اور ان میں حقوق کا ادراک پیدا کرنے والے سیاستدانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ الیکشن کمیشن حسب وعدہ وقت پر انتخابات کرانے میں کامیاب ہوگیا اور خاصی حد تک پر امن بھی اب اگر دو ڈھائی سو سے زائد افراد مختلف کارنر میٹنگز یا جلسے جلوس میں شہید ہوگئے تو کیا ہوا، ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں'' جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں اس وقت ملک بھر میں پولنگ اپنے عروج پر ہے،کتنے فی صد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور کون کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا (حالانکہ حالات و واقعات اور اقدامات سب کچھ بتا رہے ہیں) کہ جب تک سرکاری نتائج کسی کے حسب منشا اور کسی کے خلاف توقع کا اعلان نہ ہو جائے۔ اس لیے بہت کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اس پر اظہار خیال فی الحال بے کار ہے۔
مہذب جمہوری معاشروں میں حکمران کا انتخاب اگرچہ عوامی رائے کے ذریعے کیا جاتا ہے مگر اصل میں یہ ذمے داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہی عوام کو سیاسی آگاہی فراہم کر کے شفاف جمہوری نظام کی تشکیل کرتی ہیں، اگر کوئی معاشرہ فعال اور منظم سیاسی قیادت اور باشعور رہنماؤں سے محروم ہو تو وہاں جمہوری نظام کبھی مضبوط ہو ہی نہیں سکتا۔ وطن عزیز میں سیاسی اہلیت و دانش کے بجائے خاندانی اور شخصی سیاست عرصے سے رائج ہے جس کو ہم جمہوریت کے بجائے ''بادشاہت'' ہی کہہ سکتے ہیں البتہ اس انداز سیاست کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے ملک کے اعلیٰ طبقے اور خاندانوں سے ہٹ کر متوسط طبقے اور عوامی افراد کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے مگر قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد (قائد اعظم و قائد ملت کے بعد) اگر یہ کہا جائے کہ ملک کے پہلے ہی وزیر اعظم کو ان کی مرضی کے مطابق کام نہ کرنے دینے کا آغاز ہو چکا تھا اور جو طبقہ وطن عزیز پر قابض ہونے میں کامیاب ہوا اس نے آگے چل کر محب وطن، غیر جانبدار روشن خیال اور ترقی پسند عوامی سیاستدانوں کو کبھی بھی مکمل طور پر ملکی سیاست میں فعال نہ ہونے دیا۔
بھٹو نے بظاہر اس طرز سیاست سے بغاوت کی مگر یہ ٹولہ بہت جلد ان پر بھی حاوی ہوگیا اور وہ بھی عوامی لیڈر کے طور پر مقبول ہونے کے باوجود جاگیرداروں اور وڈیروں کے جال میں پھنس کر اپنے انقلابی اقدام اور وعدوں سے دور ہوگئے۔
بھٹو کے بعد ملک کے ہیرو (ورلڈ کپ کے باعث) عمران خان نے پھر مروجہ نظام سے ہٹ کر سیاست اختیار کی۔ عمران خان نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ میں الیکشنز کے مقابلے میں سیاسی نظام اور جماعت کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں کہ ووٹر شخصیات کے بجائے سیاسی جماعت کو ووٹ دیں، اگر ایسا کرسکا تو میں کامیاب ہوں گا ورنہ میری سیاست غیر اہم ہی رہے گی، مگر وزیر اعظم بننے کے لیے عمران خان اپنے وژن سے ہٹ گئے اور اب انھوں نے بھی تمام بڈھے گھوڑے جو ہر بار کسی نہ کسی جماعت کے ٹکٹ پر ایوان کا حصہ بنتے رہتے ہیں پر ہی انحصار کیا ہے۔
کچھ ممبران اسمبلی آٹھ آٹھ بار منتخب ہوچکے ہیں اور جب اپنی پارٹی کی صورتحال ذرا کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری مضبوط جماعت کا رخ کرتے ہیں اور وہاں ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں نتیجتاً پھر ایوان میں رونق افروز ہوتے ہیں، اس بار عمران خان نے ایسے ہی لوٹوں کی خدمات حاصل کی ہیں نتائج کیا ہوں گے یہ آپ کو بہر حال معلوم ہو ہی جائیں گے۔
اس صورتحال کی اصل وجہ یہ ہے کہ متوسط طبقے کی سیاسی جماعتوں مثلاً اے این پی، ایم کیو ایم جیسی عوامی، روشن خیال نچلے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی جماعتوں کے راستے میں اس لیے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ یہ جاگیردارانہ نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ اصل عوامی نمایندوں کو اسمبلی میں جانے ہی نہیں دیا جاتا، اگر کچھ اپنی تگ و دو سے پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کی بات سنی جاتی ہے اور نہ ان کے عوام دوست بل پاس ہونے دیے جاتے ہیں کیونکہ ایوان میں اکثریت تو جاگیرداروں کے نمایندوں کی ہوتی ہے۔ قائد اعظم کے بعد انگریزوں کے نوازے ہوئے جاگیرداروں نے اپنے آقاؤں کا حق نمک خوب ادا کیا بلکہ اب تک اور شاید اب بھی عوام ڈٹ کر نہ کھڑے ہوئے تو آیندہ بھی یہی مافیا ملک پر قابض رہے گا۔
متوسط طبقے کی سیاست کو ناکام بنانے کے لیے ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے، غدار قرار دیا جاتا ہے اور ایسی جماعتوں کو پاؤں جمانے نہ دینے کے لیے ملک اور حکومت کی پوری مشینری ہر طرح کی ناانصافیاں روا رکھتی ہیں اور انھیں عوام سے دور کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ پولیس مقابلے، دفاتر پر چھاپے، کارکنان کو گرفتار اور لاپتہ کرکے نہ صرف سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے بلکہ عوام کو بھی خوفزدہ کرکے ایسی جماعتوں کی حمایت سے باز رکھا جاتا ہے تاکہ مخصوص ٹولہ ملک پر ہمیشہ قابض رہے۔
عوامی شعور بیدار اور ان میں حقوق کا ادراک پیدا کرنے والے سیاستدانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے، انھیں غدار، غیر محب وطن قرار دیا جاتا ہے، یہ سب برداشت کرکے عزم صمیم رکھنے والوں کو جیل بلکہ تختہ دار تک پہنچا کر انھیں عوام کو بیدار کرنے کی مکمل سزا دی جاتی ہے۔ غلطیاں قوموں سے ہوجاتی ہیں اپنی کسی بھی غلط پالیسی کے باعث قومی سطح پر بڑا نقصان بھی ہوتا ہے مگر اپنی غلطیوں سے جو قومیں سبق سیکھ لیتی ہیں وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر پہلے سے زیادہ مضبوطی سے کھڑی ہوتی ہیں بلکہ اپنے سے طاقتور قوموں سے برابری کی سطح پر معاملات طے کرتی ہیں، مگر ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ اپنی مسلسل غفلت، غلط پالیسیوں، طلبا و عوام کے حقوق پر شب خون مارنے، اکثریت کے حق کو تسلیم نہ کرکے اپنا ایک بازو کٹا چکے ہیں مگر آج بھی اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں کوئی بڑے سے بڑا حادثہ بھی ہمارے حکمران طبقے کا نشہ اقتدار توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ہمارے سیاستدان، اصول و ضوابط بناتے ہیں وعدے اور دعوے کرتے ہیں مگر حصول اقتدار کے لیے سب کچھ پس پشت ڈال کر اس پس پردہ حکمران ٹولے کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خود اپنے اصول، دعوے، ارادے اور تمام وعدوں کو خود اپنے پاؤں تلے کچلنے پر آمادہ (مجبور نہیں) ہوجاتے ہیں۔ اس بار بھی تمام جماعتوں نے عوام سے بڑے وعدے کیے ہیں بڑے سبز باغ دکھائے ہیں خاص کر کراچی میں قدم جمانے کے لیے جانے کب کب کے بھولے بسرے وعدے (جو اب تک پورے ہوجانا چاہئیں تھے) یاد آرہے ہیں کئی بار آزمائے ہوئے بھی نئے نویلے بن کر ازسر نو سامنے آکر بڑی ڈھٹائی سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور جو پہلی بار خود کو قوم کی خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں وہ تو پہلے ہی اپنے دعوؤں سے بھر چکے ہیں۔ آگے دیکھیے جو کہا ہے اس پر کتنا عمل کرتے ہیں؟ لگتا ہے کہ ہوگا کچھ نہیں، سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا۔
...
مہذب جمہوری معاشروں میں حکمران کا انتخاب اگرچہ عوامی رائے کے ذریعے کیا جاتا ہے مگر اصل میں یہ ذمے داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہی عوام کو سیاسی آگاہی فراہم کر کے شفاف جمہوری نظام کی تشکیل کرتی ہیں، اگر کوئی معاشرہ فعال اور منظم سیاسی قیادت اور باشعور رہنماؤں سے محروم ہو تو وہاں جمہوری نظام کبھی مضبوط ہو ہی نہیں سکتا۔ وطن عزیز میں سیاسی اہلیت و دانش کے بجائے خاندانی اور شخصی سیاست عرصے سے رائج ہے جس کو ہم جمہوریت کے بجائے ''بادشاہت'' ہی کہہ سکتے ہیں البتہ اس انداز سیاست کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے ملک کے اعلیٰ طبقے اور خاندانوں سے ہٹ کر متوسط طبقے اور عوامی افراد کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے مگر قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد (قائد اعظم و قائد ملت کے بعد) اگر یہ کہا جائے کہ ملک کے پہلے ہی وزیر اعظم کو ان کی مرضی کے مطابق کام نہ کرنے دینے کا آغاز ہو چکا تھا اور جو طبقہ وطن عزیز پر قابض ہونے میں کامیاب ہوا اس نے آگے چل کر محب وطن، غیر جانبدار روشن خیال اور ترقی پسند عوامی سیاستدانوں کو کبھی بھی مکمل طور پر ملکی سیاست میں فعال نہ ہونے دیا۔
بھٹو نے بظاہر اس طرز سیاست سے بغاوت کی مگر یہ ٹولہ بہت جلد ان پر بھی حاوی ہوگیا اور وہ بھی عوامی لیڈر کے طور پر مقبول ہونے کے باوجود جاگیرداروں اور وڈیروں کے جال میں پھنس کر اپنے انقلابی اقدام اور وعدوں سے دور ہوگئے۔
بھٹو کے بعد ملک کے ہیرو (ورلڈ کپ کے باعث) عمران خان نے پھر مروجہ نظام سے ہٹ کر سیاست اختیار کی۔ عمران خان نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ میں الیکشنز کے مقابلے میں سیاسی نظام اور جماعت کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں کہ ووٹر شخصیات کے بجائے سیاسی جماعت کو ووٹ دیں، اگر ایسا کرسکا تو میں کامیاب ہوں گا ورنہ میری سیاست غیر اہم ہی رہے گی، مگر وزیر اعظم بننے کے لیے عمران خان اپنے وژن سے ہٹ گئے اور اب انھوں نے بھی تمام بڈھے گھوڑے جو ہر بار کسی نہ کسی جماعت کے ٹکٹ پر ایوان کا حصہ بنتے رہتے ہیں پر ہی انحصار کیا ہے۔
کچھ ممبران اسمبلی آٹھ آٹھ بار منتخب ہوچکے ہیں اور جب اپنی پارٹی کی صورتحال ذرا کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری مضبوط جماعت کا رخ کرتے ہیں اور وہاں ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں نتیجتاً پھر ایوان میں رونق افروز ہوتے ہیں، اس بار عمران خان نے ایسے ہی لوٹوں کی خدمات حاصل کی ہیں نتائج کیا ہوں گے یہ آپ کو بہر حال معلوم ہو ہی جائیں گے۔
اس صورتحال کی اصل وجہ یہ ہے کہ متوسط طبقے کی سیاسی جماعتوں مثلاً اے این پی، ایم کیو ایم جیسی عوامی، روشن خیال نچلے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی جماعتوں کے راستے میں اس لیے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ یہ جاگیردارانہ نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ اصل عوامی نمایندوں کو اسمبلی میں جانے ہی نہیں دیا جاتا، اگر کچھ اپنی تگ و دو سے پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کی بات سنی جاتی ہے اور نہ ان کے عوام دوست بل پاس ہونے دیے جاتے ہیں کیونکہ ایوان میں اکثریت تو جاگیرداروں کے نمایندوں کی ہوتی ہے۔ قائد اعظم کے بعد انگریزوں کے نوازے ہوئے جاگیرداروں نے اپنے آقاؤں کا حق نمک خوب ادا کیا بلکہ اب تک اور شاید اب بھی عوام ڈٹ کر نہ کھڑے ہوئے تو آیندہ بھی یہی مافیا ملک پر قابض رہے گا۔
متوسط طبقے کی سیاست کو ناکام بنانے کے لیے ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے، غدار قرار دیا جاتا ہے اور ایسی جماعتوں کو پاؤں جمانے نہ دینے کے لیے ملک اور حکومت کی پوری مشینری ہر طرح کی ناانصافیاں روا رکھتی ہیں اور انھیں عوام سے دور کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ پولیس مقابلے، دفاتر پر چھاپے، کارکنان کو گرفتار اور لاپتہ کرکے نہ صرف سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے بلکہ عوام کو بھی خوفزدہ کرکے ایسی جماعتوں کی حمایت سے باز رکھا جاتا ہے تاکہ مخصوص ٹولہ ملک پر ہمیشہ قابض رہے۔
عوامی شعور بیدار اور ان میں حقوق کا ادراک پیدا کرنے والے سیاستدانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے، انھیں غدار، غیر محب وطن قرار دیا جاتا ہے، یہ سب برداشت کرکے عزم صمیم رکھنے والوں کو جیل بلکہ تختہ دار تک پہنچا کر انھیں عوام کو بیدار کرنے کی مکمل سزا دی جاتی ہے۔ غلطیاں قوموں سے ہوجاتی ہیں اپنی کسی بھی غلط پالیسی کے باعث قومی سطح پر بڑا نقصان بھی ہوتا ہے مگر اپنی غلطیوں سے جو قومیں سبق سیکھ لیتی ہیں وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر پہلے سے زیادہ مضبوطی سے کھڑی ہوتی ہیں بلکہ اپنے سے طاقتور قوموں سے برابری کی سطح پر معاملات طے کرتی ہیں، مگر ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ اپنی مسلسل غفلت، غلط پالیسیوں، طلبا و عوام کے حقوق پر شب خون مارنے، اکثریت کے حق کو تسلیم نہ کرکے اپنا ایک بازو کٹا چکے ہیں مگر آج بھی اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں کوئی بڑے سے بڑا حادثہ بھی ہمارے حکمران طبقے کا نشہ اقتدار توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ہمارے سیاستدان، اصول و ضوابط بناتے ہیں وعدے اور دعوے کرتے ہیں مگر حصول اقتدار کے لیے سب کچھ پس پشت ڈال کر اس پس پردہ حکمران ٹولے کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خود اپنے اصول، دعوے، ارادے اور تمام وعدوں کو خود اپنے پاؤں تلے کچلنے پر آمادہ (مجبور نہیں) ہوجاتے ہیں۔ اس بار بھی تمام جماعتوں نے عوام سے بڑے وعدے کیے ہیں بڑے سبز باغ دکھائے ہیں خاص کر کراچی میں قدم جمانے کے لیے جانے کب کب کے بھولے بسرے وعدے (جو اب تک پورے ہوجانا چاہئیں تھے) یاد آرہے ہیں کئی بار آزمائے ہوئے بھی نئے نویلے بن کر ازسر نو سامنے آکر بڑی ڈھٹائی سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور جو پہلی بار خود کو قوم کی خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں وہ تو پہلے ہی اپنے دعوؤں سے بھر چکے ہیں۔ آگے دیکھیے جو کہا ہے اس پر کتنا عمل کرتے ہیں؟ لگتا ہے کہ ہوگا کچھ نہیں، سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا۔
...