کائنات قرآن سائنس
قرآن یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کی جو اس کا خالق و مالک ہے معرفت میں اونچا مقام حاصل کرے۔
سائنس دانوں نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور خلا کیا ہے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تحقیق سے کچھ نظریے قائم کیے ہیں۔ قرآن اس کے بارے میں کیا فرماتا ہے، یہ ڈاکٹر دلدار احمد قادری نے جاننے کی کوشش کی ہے۔
اپنی کتاب ''کائنات، قرآن، سائنس'' میں وہ لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کا مقصد سائنسی نظریے پیش کرنا یا سائنسی علوم سکھانا نہیں ہے لیکن قرآنی آیات میں کائنات کے بارے میں جو اشارے ہیں۔ سائنس کے ایک طالب علم کی حیثیت سے انھوں نے ان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور جدید و قدیم دورکے محقق مفسرین نے ان آیات کا جو مفہوم سمجھا ہے اسے بھی مد نظر رکھا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ''بیسویں صدی کے نصف آخر میں خلائی سائنس نے محیر العقول ترقی کی ہے۔ آج سے پچاس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان چاند پر قدم رکھ سکتا ہے لیکن آج انسان کو چاند پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ انسان کی دور بین، خلائی اسٹیشن اور تحقیقی سیارے دور درازکی کہکشاؤں اور ستاروں کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے جو اس نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ پر بھیجی ہے۔ قرآن میں کثرت سے ایسے اشارے موجود ہیں جو سماوی کائنات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے روشنی کا منبع ہیں۔''
ڈاکٹر دلدار احمد قادری لکھتے ہیں۔ ''جب ہم علوم سماوی Cosmology کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں تو قرآن حکیم کی بہت سی آیات ہمیں متوجہ کرتی ہیں۔ یہ بات جانی پہچانی ہے اور اس کا اظہارگزشتہ صدی کے عظیم قرآنی مفسر علامہ طنطاوی جوہری نے بھی کیا ہے کہ قرآن حکیم میں کم از کم سات سو پچاس آیات ایسی ہیں جن میں کائنات اور کائناتی مظاہر پر غور و فکر کی ترغیب و تحریک دی گئی ہے۔ گویا قرآن کثرت کے ساتھ اور بار بار اپنے قاری کی توجہ انفس و آفاق کی حقیقتوں کی طرف مبذول کراتا ہے اورانھیں کائنات کے خالق کی ہستی (Existence) توحید اور قدرت کے اظہار کے لیے دلیل و شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے، سب سے پہلے سورۂ آل عمران کی آیات 190 اور 191 کا مطالعہ کیجیے ارشاد ہوتا ہے:
''بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی تخلیق پر غورکرتے ہیں اورکہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔''
احادیث میں آتا ہے کہ حضورؐ جب ایک شب حسب معمول تہجد کے لیے اٹھے تو آپؐ نے ان آیات اور آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت فرمائی۔ اس دوران میں آپؐ کی نظر آسمانوں کی طرف تھی اس حال میں آپؐ نے فرمایا: ''افسوس ہے ان پر جو ان آیات کو پڑھے مگر ان پر غوروفکر نہ کرے۔
قرآن مجید کی جن آیات میں سماوی کائنات کے اشارے ملتے ہیں ان کا ذکرکرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ سورۂ رحمان میں باری تعالیٰ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ ''اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان رکھی، تو یہ آسمان کی بلندی یعنی سماوی یا کائناتی وسعتوں اور اس عظیم نظام توازن کی طرف اشارہ ہے جو پوری کائنات میں کار فرما ہے۔ سورۂ رحمن ہی میں انسان کو دعوت دی گئی ہے کہ اگر اس سے ہوسکے تو وہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے نکل جائے تو ایسا کر ڈالے مگر ضروری قوت (سلطان) کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکے گا۔ گویا چودہ سو سال پہلے انسان کی توجہ کائنات کی وسعتوں اور خلائی سفروں کے امکانات اور تقاضوں کی طرف دلائی جارہی ہے۔ حیرت ہے کہ قرآن نے ان تجربوں یا مشاہدوں اور عجیب و غریب کیفیتوں اور حیرتوں کا بھی ضمنی طور پر ذکرکیا ہے جن سے ایک انسان کو خلائی سفر میں دو چار ہونا پڑتا ہے۔
خلائی سفر کے ضمن میں سورۂ انشقاق کی آیات اٹھارہ اور انیس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جن میں فرمایا گیا ہے ''قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو، تم ضرور طبق درطبق چڑھوگے'' ڈاکٹر دلدار احمد لکھتے ہیں ''یہاں اس بات کا اعلان کیا جارہاہے کہ انسان تسخیر کائنات یا علم و آگہی یا ارتقائے شعورکے سفر میں منزل بہ منزل آگے یا اوپر جائے گا۔ چاند کی قسم کھانا اس لحاظ سے اور بھی معنی خیز لگتا ہے جب ہم غور کرتے ہیں کہ انسان کے لمبے خلائی سفرکی ابتدا جس پر وہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اس کے چاند پر قدم رکھنے سے ہوئی۔''
کائنات کی تخلیق کے بارے میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں یہ بات کہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اسے تخلیق کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کے بنیادی دعوؤں میں سے ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اسے ایک وقت خاص میں یعنی at a definile time moment میں عدم سے پیدا کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے ''وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرمادیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔'' سورۂ فاطر میں ہے ''سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔''
سائنس داں اس بات پر متفق ہیں کہ اس کائنات کا ایک آغاز ہے۔ یہ آج سے تقریباً دس سے بیس ارب سال قبل ایک خاص قسم کے دھماکے سے وجود میں آئی جسے بگ بینگ (Big Bang) کہاجاتا ہے۔ سائنسی سطح پر قائم کیا جانے والا یہ تصورکہ اس کائنات کا ایک آغاز ہے،کئی ٹھوس سائنسی شواہد پر مبنی ہے۔ ان شواہد کے علاوہ دوسرے شواہد بھی ہیں جوکائنات کی تخلیق کی طرف واضح رہنمائی کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے جو تمام صفات کامل سے متصف ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں۔
ڈاکٹر دلدار احمد قادری لکھتے ہیں ''قرآن کائنات کے متعلق دوسرا اہم تصور یہ دیتا ہے کہ اللہ نے کائنات کو ایک حکمت اور مقصد کے تحت پیدا کیا ہے یعنی کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیں،گویا کائنات کے اندر ایک داخلی سچائی موجود ہے جس پر اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ قرآن یہ بھی فرماتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ایک مقررہ مدت کے لیے کی گئی ہے۔ایک وقت آئے گا جب یہ ختم کردی جائے گی۔''
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''اب سوال یہ ہے کہ کائنات کا مقصد کیا ہے؟ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد انسان ہے، کائنات انسان کی جائے استقدار ہے اور ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جو انسان کو وہ ماحول، حالات اور میدان عمل مہیا کرتی ہے جو خالق کی معرفت کی منزل تک لے کر جاسکے۔ یہ وہ بات ہے جس کا احساس قرآن نے انسان کو بار بار دلایا ہے کائنات ایسی ہے کہ وہ انسان کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس کی تائید سائنسی دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔ ستاروں، سیاروں اور عناصر کی تخلیق کے جدید نظریات بھی کسی قدر اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کائنات کا مرکزی مقصد انسان ہے۔''
قرآن مجید میں سات مقامات پر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں تخلیق کیا ہے۔ اکثر مقامات پر یوم کا لفظ عام دن کے مفہوم میں نہیں بلکہ مطلق وقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ڈاکٹر قادری کہتے ہیں کہ اللہ قادر مطلق ہے، کائنات کو چھ ایام میں تخلیق کرنے کا مطلب ہے تدریجی یا ارتقائی طور پر تخلیق کرنا گویا چھ ایام کہنا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ کائنات کو بہ طریق ارتقا تخلیق کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب سورۂ انبیا کی آیت 20 کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ زمین اور آسمان اپنی تخلیق سے پہلے ایک وحدت تھے، بعد میں الگ ہوئے، آج تمام ماہرین علم سماوی اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک واحد وجود سے ہوا۔ قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ''ہم کائنات کو پھیل ارہے ہیں، اس مفہوم کی جدید دور کی ''پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding Universe) کے تصور سے تائید ہوتی معلوم ہوتی ہے جس کے مطابق تمام کہکشائیں نہایت تیزی سے ایک دوسری سے دور بھاگ رہی ہیں اورکائنات نہایت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ڈاکٹر دلدار قادری لکھتے ہیں ''جدید کاسمولوجی زمین کی تخلیق اور ارتقا کے متعلق جو تصور پیش کرتی ہے وہ حیرت انگیز طور پر تخلیق ارض کے قرآنی بیان کی تفسیرکرتا نظر آتا ہے۔ در اصل قرآن یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کی جو اس کا خالق و مالک ہے معرفت میں اونچا مقام حاصل کرے۔ اس مقصد کے لیے وہ انسان کو اللہ کی صنعت وخلقت کی جسے وہ انفس و آفاق میں دیکھ رہا ہے، متوجہ کرتا ہے تاکہ وہ غورو فکر سے کام لے کر اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرے۔''