سورہ والعصر کامیاب زندگی کا مکمل نصاب
سوائے چار نکاتی منصوبے پر عمل کرنے والے لوگ، سارے انسان خسارے میں ہیں
پروردگارِ عالم اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرما رہا ہے، مفہوم : عصر کی قسم! بے شک انسان گھاٹے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے اور آپس میں حق کی تلقین اور صبر کرتے رہے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ سورہ حفاظتِ مال و متاع کے لیے ایک حصار کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کی تلاوت کرنے والے کا خاتمہ صبر پر ہوگا اور اُس کا شمار اصحاب الیمین (دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والوں) میں ہوگا۔ سُنّت نمازوں میں اِس سورہ کو پڑھنے والے کا چہرہ بہ روزِ محشر نورانی ہوگا اور وہ سیدھا داخلِ جنت ہوگا۔''
(بہ حوالہ: کتاب مستطاب ''نوائے صالحین'')
اِس مختصر سے مضمون میں ہم سورۂ مبارکہ والعصر پہ کچھ غور و خوض کرتے ہیں۔
'' قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے، کہ جو صاحبانِ ایمان ہوں اور عملِ صالح انجام دینے والوں کے علاوہ اور حق کہنے اور حق سننے کے علاوہ، صبر کرنے اور صبر کروانے والوں کے علاوہ۔''
سوائے چار نکاتی منصوبے پر عمل کرنے والے لوگ، سارے انسان خسارے میں ہیں۔ وہ لوگ نقصان میں نہیں ہیں کہ جو اِن چار نکات پر عمل کرتے ہوں۔ قرآنِ مجید مکمل ایک جگہ پر اگر اپنا ہدف بیان کررہا ہے، تو وہ یہ منزل ہے، جسے سورۂ والعصر کہا جاتا ہے۔ پورے قرآن کا کام سورۂ والعصر کرتا دِکھائی دے رہا ہے۔ اِسی وجہ سے اس سورے کو ''سورۂ جامع'' بھی کہا جاتا ہے۔
ہدفِ نزولِ قرآنی کیا ہے؟ ایمان، عملِ صالح، حق کہنے کی جرأت اور حق سننے کا حوصلہ۔ صبر کرنے کی طاقت اور معاشرے کو استقامت کا پیغام دینے کا حوصلہ اور صلاحیت۔ جو لوگ ان چار نکات پر عمل کرلیں، وہ نقصان میں نہیں جاتے۔
نظامِ الہٰی اور نظامِ بشریت میں ایک واضح فرق یہ ہے، دُنیا جسے ناتواں سمجھتی ہے، دُنیا جسے کم زور سمجھتی ہے، اللہ اُسی میں طاقت کو ودیعت کردیتا ہے۔ کبھی بھی کسی کم زور کو دیکھ کر اُسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیر اور ہے، کم زور اور ہے۔ ساری دنیا جسے حقیر، فقیر، مسکین، پھٹے کپڑوں میں، مفلوک الحال سمجھتی ہے، جناب امام المتقین علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
'' اللہ نے اپنے ولیوں کو فقیروں میں چھپا رکھا ہے۔'' (مستدرک وسائل الشیعہ)
یہ دُنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہر داری کو اہمیت دیتی ہے، اور اللہ باطن کو اہمیت دیتا ہے۔ جس کا باطن پاک ہو، ظاہری طور پر اگر وہ صاف نہ بھی دکھائی دے رہا ہو، تو اُس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ جملہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کروں، جو اپنے گھٹنے کے زور پر جَو کی روٹی توڑ کر کھاتا تھا، وہ دو اُنگلیوں سے بابِ خیبر کو اُکھاڑ کر بتاتا ہے کہ طاقت کا معیار بدن نہیں، بل کہ رُوحانیت ہے۔
سورۂ عصر کے مطالب پہ غور کیجیے۔ اللہ زمانے کی قسم کھا رہا ہے ۔ یہ کون سا زمانہ ہے، جو قابلِ قسمِ پروردگار قرار پا رہا ہے۔ قسم اِس وجہ سے کھائی جاتی ہے تاکہ اپنی بات میں اعتبار بڑھایا جائے۔ ہم اپنی بات کو معتبر بنانے کے لیے، آپ اپنی بات کو حیثیت دینے کے لیے مقابل کے سامنے کسی کی قسم کھا کر اُسے معتبر بناتے ہیں۔ اللہ کو اِس کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری دُنیا اللہ کی بات مانے، تو دُنیا کا فائدہ ہے، نہ مانے تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اللہ کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی بات میں اعتبار بڑھانا مقصود ہو، بل کہ وہ زمانہ ہی اِس قابل ہے کہ ہمیں متعارف کرانا مطلوبِ الہٰی تھا۔ اللہ ہر ایک کی قسم نہیں کھاتا۔ کوئی اتنا معتبر ہوجائے کہ پروردگار اُس کی قسم کھائے، تو ہمیں غور کرنے کی دعوت ہے کہ غور و فکر کرو۔ وہ کیا وقت ہے کہ جس کی قسم اللہ کھا رہا ہے۔
کبھی ذاتِ کبریا نے صبح کی قسم کھائی، جب وہ سانس لیتی ہے۔ (سورۂ تکویر، آیت 18) کبھی پروردگارِ عالم نے رات کی قسم کھائی۔ (سورۂ تکویر، آیت17)
کوئی زمانہ بہ جائے خود نہ قابلِ تعریف ہے نہ قابلِ مذمّت ۔ کوئی واقعہ، کچھ حالات، کچھ واقعات ہوتے ہیں، جو اُس زمانے سے جُڑ جاتے ہیں، جو انھیں قابلِ تعریف بنا دیتے ہیں اور قابلِ مذمّت بھی بنا دیتے ہیں۔ اب اگر اللہ صبح کی قسم کھا رہا ہے، اب اگر اللہ دوپہر کی قسم کھا رہا ہے، تو ذاتی طور پر نہ رات قابلِ اعتبار ہے، نہ دوپہر قابلِ اعتبار ہے، نہ صبح کی کوئی حیثیت ہے۔ ہمیں تاریخ کے صفحات میں ڈھونڈنا ہوگا، کوئی ایسی دوپہر ضرور ہے، جو اتنی معتبر ہے کہ اللہ اُس کی قسم کھا رہا ہے۔ یہ وہ راتیں ہیں، یہ وہ دن ہیں، یہ وہ لمحات ہیں، یہ وہ ساعتیں ہیں، جو اللہ کے نزدیک معتبر ہوگئیں۔
ہمیں کوئی نظام نہیں چاہیے الجھنوں اور مشکلات سے بچنے کے لیے، ہمیں بس نظامِ مصطفویؐ چاہیے۔ تمام تر مشکلات کا حل نظامِ مصطفویؐ میں پایا جاتا ہے۔
کون سی چیز ہے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں دے کرگئے۔ عصرِ پیغمبرؐ سے ہمیں جامع ترین حیات ملتی ہے۔ عصرِ پیغمبر ؐ قیامت تک کے لیے راہ نما، پیشوا اور ہادی ہے۔ ہماری تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کا حل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تیئس برس کی زندگی سے عبارت ہے جن سے حاصل ہونے والے اُصولِ زندگی ہماری تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کا حل ہیں۔
زمانہ بدلتا رہا اور اُصولِ زندگی مرتّب ہوتے رہے۔ کبھی میدانِ جہاد تلوار کا گرم رہا، تو کبھی میدانِ جہاد قلم کا گرم رہا۔ کبھی اللہ کی جانب سے دِیے ہوئے وہ اسلحے، جنھیں صلاحیتِ بشر کہا جاتا ہے، ان کے ذریعے انسان اپنے کردار کو پیش کرتا رہا ہے۔ کیا تعلق ہے قسمِ عصر کا انسان کے خسارے سے؟ تعلق یہ ہے کہ تمھیں اگر خسارے سے بچنا ہے، تو عصرِ پیغمبرؐ کو اپنے لیے اُسوۂ حسنہ بنالو۔ عصرِ پیغمبر ؐ تمھیں تمام تر اُلجھنوں اور مشکلات سے نجات عطا کرے گا۔
اسلامی معاشرے میں ایک شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ اگر اسے چند جملوں میں اور چند آیات و فقروں میں محسوس کرنا ہو، تو سورۂ والعصر کی تلاوت کرلی جائے۔ یہ سورہ ایک مسلمان شخصیت، ایک مسلمان خاص فرد کی راہ نمائی کرتا ہوا دِکھائی دیتا ہے کہ کس طرح اُسے جینا چاہیے۔ اگر کسی کو دِین داری کا نصاب مرتّب کرنا ہے تو وہ سورۂ مبارکہ عصر کا مطالعہ کرے۔ یہ یقیناً دین داری کا ایک مختصر، جامع اور مکمل نصاب ہے۔ اِس پہ عمل کرنے والے ہی درحقیقت دِین دار ہیں۔
سورۂ مبارکہ والعصر، اسلامی معاشرے میں شخصیت کا کردار، یہ سورہ ایک کام یاب ترین مسلمان، موحّد شخصیت کے اُصولوں کو مرتّب کررہا ہے۔
'' قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے۔ اِلَّا اُن لوگوں کے، کہ جو صاحبانِ ایمان ہَوں، عملِ صالح کرنے والے ہَوں، حق کہنے اور سننے کی جرأت اور حوصلہ رکھتے ہَوں۔ صبر کرکے دِکھاتے ہَوں اور صبر کی تلقین کرتے ہَوں۔''
اللہ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا جس کا اللہ سے تعلق تو گہرا ہو، مگر اللہ کی مخلوق سے اُس کا تعلق نہ ہو۔ وہ باعمل مسلمان نہیں ہے، کہ جو عبادت گزارِ الہٰی تو ہے، مگر خدمت گزارِ مخلوق نہ ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر انسان اللہ کی بارگاہ میں بھی سجدہ ریز ہو اور مخلوقِ الہٰی کا بھی خدمت گزار ہو۔
اِس سورۂ مبارکہ میں چار باتوں کی راہ نمائی کی گئی ہے۔ ایمان اور عملِ صالح، حق اور صبر کی تلقین۔ مسلمان، مسلمان سے لاتعلق ہو، اللہ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا۔ بدن کی غذا کو ''عملِ صالح'' کہتے ہیں۔ رُوح کی غذا کو ''ایمان'' کہا جاتا ہے اور تعلقات کی غذا کو ''حق کی نصیحت'' اور ''صبر کی تلقین'' کہا جاتا ہے۔ اب اللہ چاہتا یہ ہے کہ مسلمان اپنے فریضے کو ادا کرے۔
حضرت علاّمہ سیّد ذیشان حیدر جوادیؒ اپنے ترجمۂ قرآن بہ عنوان ''انوار القرآن'' میں سورۂ عصر کے حاشیے میں کیا خوب رقم طراز ہیں:
''انسان حقیقی اور اضافی اعتبار سے تین چیزوں کا مالک ہے، رُوح، جسم اور تعلقات و اِرتباطات۔ دینِ اسلام نے واضح طور پر اِس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ رُوح خسارے میں ہے جس میں ایمان نہیں ہے اور وہ جسم خسارے میں ہے جس کا عمل صالح نہیں ہے اور وہ روابط و تعلق خسارے کی بنیاد ہیں جن کی اَساس صبر و حق کی وصیت و نصیحت پر قائم نہیں ہے اور اس تمام خسارے کا زمانہ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں خسارے والوں کی اکثریت رہی ہے اور فائدے والے صرف استثنائی حیثیت کے مالک رہے ہیں۔''
اللہ رحمن و رحیم ہم سب کو اپنے حبیبِ کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل سورۂ والعصر کے مطالب کو سمجھنے اور ان پہ خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل کرنے کی توفیق و سعادت کرامت فرمائے ۔ اور ہمیں اُس توفیق و سعادت پہ لبّیک کہنے والوں میں قرار دے۔ آمین
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ سورہ حفاظتِ مال و متاع کے لیے ایک حصار کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کی تلاوت کرنے والے کا خاتمہ صبر پر ہوگا اور اُس کا شمار اصحاب الیمین (دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والوں) میں ہوگا۔ سُنّت نمازوں میں اِس سورہ کو پڑھنے والے کا چہرہ بہ روزِ محشر نورانی ہوگا اور وہ سیدھا داخلِ جنت ہوگا۔''
(بہ حوالہ: کتاب مستطاب ''نوائے صالحین'')
اِس مختصر سے مضمون میں ہم سورۂ مبارکہ والعصر پہ کچھ غور و خوض کرتے ہیں۔
'' قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے، کہ جو صاحبانِ ایمان ہوں اور عملِ صالح انجام دینے والوں کے علاوہ اور حق کہنے اور حق سننے کے علاوہ، صبر کرنے اور صبر کروانے والوں کے علاوہ۔''
سوائے چار نکاتی منصوبے پر عمل کرنے والے لوگ، سارے انسان خسارے میں ہیں۔ وہ لوگ نقصان میں نہیں ہیں کہ جو اِن چار نکات پر عمل کرتے ہوں۔ قرآنِ مجید مکمل ایک جگہ پر اگر اپنا ہدف بیان کررہا ہے، تو وہ یہ منزل ہے، جسے سورۂ والعصر کہا جاتا ہے۔ پورے قرآن کا کام سورۂ والعصر کرتا دِکھائی دے رہا ہے۔ اِسی وجہ سے اس سورے کو ''سورۂ جامع'' بھی کہا جاتا ہے۔
ہدفِ نزولِ قرآنی کیا ہے؟ ایمان، عملِ صالح، حق کہنے کی جرأت اور حق سننے کا حوصلہ۔ صبر کرنے کی طاقت اور معاشرے کو استقامت کا پیغام دینے کا حوصلہ اور صلاحیت۔ جو لوگ ان چار نکات پر عمل کرلیں، وہ نقصان میں نہیں جاتے۔
نظامِ الہٰی اور نظامِ بشریت میں ایک واضح فرق یہ ہے، دُنیا جسے ناتواں سمجھتی ہے، دُنیا جسے کم زور سمجھتی ہے، اللہ اُسی میں طاقت کو ودیعت کردیتا ہے۔ کبھی بھی کسی کم زور کو دیکھ کر اُسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیر اور ہے، کم زور اور ہے۔ ساری دنیا جسے حقیر، فقیر، مسکین، پھٹے کپڑوں میں، مفلوک الحال سمجھتی ہے، جناب امام المتقین علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
'' اللہ نے اپنے ولیوں کو فقیروں میں چھپا رکھا ہے۔'' (مستدرک وسائل الشیعہ)
یہ دُنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہر داری کو اہمیت دیتی ہے، اور اللہ باطن کو اہمیت دیتا ہے۔ جس کا باطن پاک ہو، ظاہری طور پر اگر وہ صاف نہ بھی دکھائی دے رہا ہو، تو اُس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ جملہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کروں، جو اپنے گھٹنے کے زور پر جَو کی روٹی توڑ کر کھاتا تھا، وہ دو اُنگلیوں سے بابِ خیبر کو اُکھاڑ کر بتاتا ہے کہ طاقت کا معیار بدن نہیں، بل کہ رُوحانیت ہے۔
سورۂ عصر کے مطالب پہ غور کیجیے۔ اللہ زمانے کی قسم کھا رہا ہے ۔ یہ کون سا زمانہ ہے، جو قابلِ قسمِ پروردگار قرار پا رہا ہے۔ قسم اِس وجہ سے کھائی جاتی ہے تاکہ اپنی بات میں اعتبار بڑھایا جائے۔ ہم اپنی بات کو معتبر بنانے کے لیے، آپ اپنی بات کو حیثیت دینے کے لیے مقابل کے سامنے کسی کی قسم کھا کر اُسے معتبر بناتے ہیں۔ اللہ کو اِس کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری دُنیا اللہ کی بات مانے، تو دُنیا کا فائدہ ہے، نہ مانے تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اللہ کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی بات میں اعتبار بڑھانا مقصود ہو، بل کہ وہ زمانہ ہی اِس قابل ہے کہ ہمیں متعارف کرانا مطلوبِ الہٰی تھا۔ اللہ ہر ایک کی قسم نہیں کھاتا۔ کوئی اتنا معتبر ہوجائے کہ پروردگار اُس کی قسم کھائے، تو ہمیں غور کرنے کی دعوت ہے کہ غور و فکر کرو۔ وہ کیا وقت ہے کہ جس کی قسم اللہ کھا رہا ہے۔
کبھی ذاتِ کبریا نے صبح کی قسم کھائی، جب وہ سانس لیتی ہے۔ (سورۂ تکویر، آیت 18) کبھی پروردگارِ عالم نے رات کی قسم کھائی۔ (سورۂ تکویر، آیت17)
کوئی زمانہ بہ جائے خود نہ قابلِ تعریف ہے نہ قابلِ مذمّت ۔ کوئی واقعہ، کچھ حالات، کچھ واقعات ہوتے ہیں، جو اُس زمانے سے جُڑ جاتے ہیں، جو انھیں قابلِ تعریف بنا دیتے ہیں اور قابلِ مذمّت بھی بنا دیتے ہیں۔ اب اگر اللہ صبح کی قسم کھا رہا ہے، اب اگر اللہ دوپہر کی قسم کھا رہا ہے، تو ذاتی طور پر نہ رات قابلِ اعتبار ہے، نہ دوپہر قابلِ اعتبار ہے، نہ صبح کی کوئی حیثیت ہے۔ ہمیں تاریخ کے صفحات میں ڈھونڈنا ہوگا، کوئی ایسی دوپہر ضرور ہے، جو اتنی معتبر ہے کہ اللہ اُس کی قسم کھا رہا ہے۔ یہ وہ راتیں ہیں، یہ وہ دن ہیں، یہ وہ لمحات ہیں، یہ وہ ساعتیں ہیں، جو اللہ کے نزدیک معتبر ہوگئیں۔
ہمیں کوئی نظام نہیں چاہیے الجھنوں اور مشکلات سے بچنے کے لیے، ہمیں بس نظامِ مصطفویؐ چاہیے۔ تمام تر مشکلات کا حل نظامِ مصطفویؐ میں پایا جاتا ہے۔
کون سی چیز ہے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں دے کرگئے۔ عصرِ پیغمبرؐ سے ہمیں جامع ترین حیات ملتی ہے۔ عصرِ پیغمبر ؐ قیامت تک کے لیے راہ نما، پیشوا اور ہادی ہے۔ ہماری تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کا حل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تیئس برس کی زندگی سے عبارت ہے جن سے حاصل ہونے والے اُصولِ زندگی ہماری تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کا حل ہیں۔
زمانہ بدلتا رہا اور اُصولِ زندگی مرتّب ہوتے رہے۔ کبھی میدانِ جہاد تلوار کا گرم رہا، تو کبھی میدانِ جہاد قلم کا گرم رہا۔ کبھی اللہ کی جانب سے دِیے ہوئے وہ اسلحے، جنھیں صلاحیتِ بشر کہا جاتا ہے، ان کے ذریعے انسان اپنے کردار کو پیش کرتا رہا ہے۔ کیا تعلق ہے قسمِ عصر کا انسان کے خسارے سے؟ تعلق یہ ہے کہ تمھیں اگر خسارے سے بچنا ہے، تو عصرِ پیغمبرؐ کو اپنے لیے اُسوۂ حسنہ بنالو۔ عصرِ پیغمبر ؐ تمھیں تمام تر اُلجھنوں اور مشکلات سے نجات عطا کرے گا۔
اسلامی معاشرے میں ایک شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ اگر اسے چند جملوں میں اور چند آیات و فقروں میں محسوس کرنا ہو، تو سورۂ والعصر کی تلاوت کرلی جائے۔ یہ سورہ ایک مسلمان شخصیت، ایک مسلمان خاص فرد کی راہ نمائی کرتا ہوا دِکھائی دیتا ہے کہ کس طرح اُسے جینا چاہیے۔ اگر کسی کو دِین داری کا نصاب مرتّب کرنا ہے تو وہ سورۂ مبارکہ عصر کا مطالعہ کرے۔ یہ یقیناً دین داری کا ایک مختصر، جامع اور مکمل نصاب ہے۔ اِس پہ عمل کرنے والے ہی درحقیقت دِین دار ہیں۔
سورۂ مبارکہ والعصر، اسلامی معاشرے میں شخصیت کا کردار، یہ سورہ ایک کام یاب ترین مسلمان، موحّد شخصیت کے اُصولوں کو مرتّب کررہا ہے۔
'' قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے۔ اِلَّا اُن لوگوں کے، کہ جو صاحبانِ ایمان ہَوں، عملِ صالح کرنے والے ہَوں، حق کہنے اور سننے کی جرأت اور حوصلہ رکھتے ہَوں۔ صبر کرکے دِکھاتے ہَوں اور صبر کی تلقین کرتے ہَوں۔''
اللہ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا جس کا اللہ سے تعلق تو گہرا ہو، مگر اللہ کی مخلوق سے اُس کا تعلق نہ ہو۔ وہ باعمل مسلمان نہیں ہے، کہ جو عبادت گزارِ الہٰی تو ہے، مگر خدمت گزارِ مخلوق نہ ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر انسان اللہ کی بارگاہ میں بھی سجدہ ریز ہو اور مخلوقِ الہٰی کا بھی خدمت گزار ہو۔
اِس سورۂ مبارکہ میں چار باتوں کی راہ نمائی کی گئی ہے۔ ایمان اور عملِ صالح، حق اور صبر کی تلقین۔ مسلمان، مسلمان سے لاتعلق ہو، اللہ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا۔ بدن کی غذا کو ''عملِ صالح'' کہتے ہیں۔ رُوح کی غذا کو ''ایمان'' کہا جاتا ہے اور تعلقات کی غذا کو ''حق کی نصیحت'' اور ''صبر کی تلقین'' کہا جاتا ہے۔ اب اللہ چاہتا یہ ہے کہ مسلمان اپنے فریضے کو ادا کرے۔
حضرت علاّمہ سیّد ذیشان حیدر جوادیؒ اپنے ترجمۂ قرآن بہ عنوان ''انوار القرآن'' میں سورۂ عصر کے حاشیے میں کیا خوب رقم طراز ہیں:
''انسان حقیقی اور اضافی اعتبار سے تین چیزوں کا مالک ہے، رُوح، جسم اور تعلقات و اِرتباطات۔ دینِ اسلام نے واضح طور پر اِس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ رُوح خسارے میں ہے جس میں ایمان نہیں ہے اور وہ جسم خسارے میں ہے جس کا عمل صالح نہیں ہے اور وہ روابط و تعلق خسارے کی بنیاد ہیں جن کی اَساس صبر و حق کی وصیت و نصیحت پر قائم نہیں ہے اور اس تمام خسارے کا زمانہ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں خسارے والوں کی اکثریت رہی ہے اور فائدے والے صرف استثنائی حیثیت کے مالک رہے ہیں۔''
اللہ رحمن و رحیم ہم سب کو اپنے حبیبِ کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل سورۂ والعصر کے مطالب کو سمجھنے اور ان پہ خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل کرنے کی توفیق و سعادت کرامت فرمائے ۔ اور ہمیں اُس توفیق و سعادت پہ لبّیک کہنے والوں میں قرار دے۔ آمین