دھاندلی تو ہوئی ہے
ہاں! دھاندلی ضرور ہوئی ہے مگر اس بار سیاستدانوں کی طرف سے نہیں بلکہ ہماری طرف سے ہوئی ہے اور خوب ہوئی ہے
''ہاں! دھاندلی بھی ہوئی ہے مگر اس بار سیاستدانوں کی طرف سے نہیں بلکہ ہماری طرف سے ہوئی ہے اور خوب ہوئی ہے۔ ہم سب ریڑھی والوں نے سب سیاستدانوں کی بریانیاں، چکن قورمے، نان، روٹیاں، منرل واٹر کی بوتلیں، کولڈ ڈرنکس اپنے معدوں میں خوب اتاریں مگر ووٹ ہم نے اپنے من پسند لیڈر کو ہی دیا؛ اور ایسا ہر سیاسی جماعت کے ساتھ ہوا۔ وہ سب ہماری بھیڑ دیکھ کر، ہم سے مسکرا مسکرا کر عارضی طور پر عزت دیتے ہوئے اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ ہم صرف ان کے ساتھ ہیں۔ پہلے وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تھے، منافقت دکھاتے تھے مگر اب کی بار ہم نے ان کا داؤ ان پر خوب آزمایا۔ اب دیکھنا کہ الیکشن کے بعد یہ آپس میں کیسے گھتم گتھا ہوں گے، دھاندلیوں کے الزامات لگائیں گے کیونکہ ان کے ذہن میں ہماری وہ بھیڑ ہوگی، ان کی آنکھوں میں موٹر سائیکلوں کی وہ ریلیاں ہوں گی جن کی ٹنکیوں میں ان کے پیسوں کا پیٹرول تھا۔''
اس سبزی والے نے میری مطلوبہ سبزیوں کا تھیلا موٹرسائیکل کے ایک طرف لٹکاتے ہوئے کہا اور سبزیوں پر پھر سے پانی کے چھینٹے مارنے لگا تاکہ ان کی تازگی میں فرق نہ آئے۔ میں بھی گھر آگیا اور اگلے ہی لمحے جب ٹی وی آن کیا تو میں جس چینل پر بھی کلک کرتا وہاں اگر جیتنے والا خوشی سے اپنی کامیابی کے نشے میں چور ڈھول ڈھمکے سے سڑکوں پر مارچ کرتا دکھائی دیتا، وہاں دوسری طرف ہارنے والا بھی آپے سے باہر ہوکر دھاندلی کا راگ الاپ رہا ہوتا۔ جیتنے والے کے بازو اگر ہوا میں کھلے ہوئے لہرا رہے ہوتے تو ہارنے والے کی انگلیاں بھی کسی سمت میں اشارے کر رہی ہوتیں کہ ان کے ووٹ بینک پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، ہیر پھیر کیا گیا ہے ورنہ ان کی ریلیوں میں لاکھوں لوگ تھے جو ان کے مخلص ووٹر تھے۔
آنے والے دنوں میں دھاندلی دھاندلی کی صدائیں ہر سو سنائی دیں گی کیونکہ سیاستدان نے اس الیکشن کو ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن بنادیا تھا اور ہر جماعت کے کیمپ پر جم غفیر ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ووٹر نے گزشتہ پانچ سال میں اتنے دھکے کھائے تھے کہ وہ ملکی سیاست سے مکمل طور پر باخبر ہوچکا تھا۔ اس کی ایک اور اہم اور مرکزی وجہ ہمارے میڈیا کا کردار بھی تھا جس نے سب کچھ کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا اور اب کی بار عوام کو دھوکا دینا ناممکن تھا۔ اس بار الیکشن روایتی نہیں تھا، لوگوں میں یہ شعور بیدار ہوچکا تھا کہ اب کی بار ملک کو ان سب کو مل کر ٹھیک کرنا ہے۔
ووٹر گھر سے پرجوش ہوکر نکلا مگر اس نے صوبائی اور قومی سطح پر ایک ہی جماعت کو ووٹ دیا، ورنہ اس سے پہلے ووٹر صوبائی سطح پر کسی اور جماعت کو ووٹ دیتا تھا اور قومی سطح پر دوسری جماعت کو، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کو اپنی تعداد بڑھانے کےلیے اپنے حریفوں کو اپنا حلیف بنانا پڑتا تھا اور جو بھی ہو، اوپر کے سیاستدانوں نے اپنے ووٹر کے دل میں دوسری جماعت کی نفرت کوٹ کوٹ بھری ہوتی تھی۔ اب جب وہی ووٹر ان سیاستدانوں کو ایک ہی پلیٹ میں کھاتا پیتا دیکھتا تو وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی ہو جاتا کہ سب ہو کیا ہو رہا ہے؟ اسی کے ساتھ۔ ملکی وسائل کو تو یہ جماعتیں مل بانٹ کر کھائے جارہی ہیں اور مسائل عوام کی زندگی کو کھائے جارہے ہیں۔
الیکشن کا تسلسل کسی بھی ملک میں معاشی و سماجی ترقی کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو نہ صرف متوازن رکھتا ہے بلکہ الیکشن کے بعد منتخب نمائندے اسمبلیوں میں جا کر قوانین سازی کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کو اس طرح استعمال میں لاتے ہیں کہ اس سے عوام کی زندگیوں میں جہاں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں وہیں ملکی ترقی میں ان کے کردار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ہر شہری کو جب بنیادی سہولتیں اپنے دروازے پر ملتی ہیں تو وہ بھرپور توانائی سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر جب اسے ہر سطح پر محرومیاں ہی محرومیاں ملتی ہیں تو وہ سوچنا شروع کرتا ہے؛ تب ایسے میں پہلی دھاندلی اس کے دل و دماغ میں پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ ذمہ داروں کے ساتھ وہی کھیل کھیلتا ہے جو حکمران طبقہ ان کے ساتھ برسوں سے کھیلتا آیا ہے۔
موجودہ الیکشن میں بھی یہی ہوا ہے۔ سیاستدانوں کے ذہنوں میں وہی روایتی داؤ پیچ تھے کہ کچھ دن کے کمپین اور بہت سے کھانوں سے بے وقوف ریڑھی والوں، سبزی والوں اور رعایا کو سنبھال لیں گے۔ بس ایک بار ووٹ مل جائیں، پھر دیکھی جائے گی۔ مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا، پہلے دھاندلی ان کی طرف سے ہوتی تھی مگر اب کی بار دھاندلی ہماری طرف سے ہوئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس سبزی والے نے میری مطلوبہ سبزیوں کا تھیلا موٹرسائیکل کے ایک طرف لٹکاتے ہوئے کہا اور سبزیوں پر پھر سے پانی کے چھینٹے مارنے لگا تاکہ ان کی تازگی میں فرق نہ آئے۔ میں بھی گھر آگیا اور اگلے ہی لمحے جب ٹی وی آن کیا تو میں جس چینل پر بھی کلک کرتا وہاں اگر جیتنے والا خوشی سے اپنی کامیابی کے نشے میں چور ڈھول ڈھمکے سے سڑکوں پر مارچ کرتا دکھائی دیتا، وہاں دوسری طرف ہارنے والا بھی آپے سے باہر ہوکر دھاندلی کا راگ الاپ رہا ہوتا۔ جیتنے والے کے بازو اگر ہوا میں کھلے ہوئے لہرا رہے ہوتے تو ہارنے والے کی انگلیاں بھی کسی سمت میں اشارے کر رہی ہوتیں کہ ان کے ووٹ بینک پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، ہیر پھیر کیا گیا ہے ورنہ ان کی ریلیوں میں لاکھوں لوگ تھے جو ان کے مخلص ووٹر تھے۔
آنے والے دنوں میں دھاندلی دھاندلی کی صدائیں ہر سو سنائی دیں گی کیونکہ سیاستدان نے اس الیکشن کو ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن بنادیا تھا اور ہر جماعت کے کیمپ پر جم غفیر ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ووٹر نے گزشتہ پانچ سال میں اتنے دھکے کھائے تھے کہ وہ ملکی سیاست سے مکمل طور پر باخبر ہوچکا تھا۔ اس کی ایک اور اہم اور مرکزی وجہ ہمارے میڈیا کا کردار بھی تھا جس نے سب کچھ کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا اور اب کی بار عوام کو دھوکا دینا ناممکن تھا۔ اس بار الیکشن روایتی نہیں تھا، لوگوں میں یہ شعور بیدار ہوچکا تھا کہ اب کی بار ملک کو ان سب کو مل کر ٹھیک کرنا ہے۔
ووٹر گھر سے پرجوش ہوکر نکلا مگر اس نے صوبائی اور قومی سطح پر ایک ہی جماعت کو ووٹ دیا، ورنہ اس سے پہلے ووٹر صوبائی سطح پر کسی اور جماعت کو ووٹ دیتا تھا اور قومی سطح پر دوسری جماعت کو، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کو اپنی تعداد بڑھانے کےلیے اپنے حریفوں کو اپنا حلیف بنانا پڑتا تھا اور جو بھی ہو، اوپر کے سیاستدانوں نے اپنے ووٹر کے دل میں دوسری جماعت کی نفرت کوٹ کوٹ بھری ہوتی تھی۔ اب جب وہی ووٹر ان سیاستدانوں کو ایک ہی پلیٹ میں کھاتا پیتا دیکھتا تو وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی ہو جاتا کہ سب ہو کیا ہو رہا ہے؟ اسی کے ساتھ۔ ملکی وسائل کو تو یہ جماعتیں مل بانٹ کر کھائے جارہی ہیں اور مسائل عوام کی زندگی کو کھائے جارہے ہیں۔
الیکشن کا تسلسل کسی بھی ملک میں معاشی و سماجی ترقی کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو نہ صرف متوازن رکھتا ہے بلکہ الیکشن کے بعد منتخب نمائندے اسمبلیوں میں جا کر قوانین سازی کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کو اس طرح استعمال میں لاتے ہیں کہ اس سے عوام کی زندگیوں میں جہاں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں وہیں ملکی ترقی میں ان کے کردار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ہر شہری کو جب بنیادی سہولتیں اپنے دروازے پر ملتی ہیں تو وہ بھرپور توانائی سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر جب اسے ہر سطح پر محرومیاں ہی محرومیاں ملتی ہیں تو وہ سوچنا شروع کرتا ہے؛ تب ایسے میں پہلی دھاندلی اس کے دل و دماغ میں پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ ذمہ داروں کے ساتھ وہی کھیل کھیلتا ہے جو حکمران طبقہ ان کے ساتھ برسوں سے کھیلتا آیا ہے۔
موجودہ الیکشن میں بھی یہی ہوا ہے۔ سیاستدانوں کے ذہنوں میں وہی روایتی داؤ پیچ تھے کہ کچھ دن کے کمپین اور بہت سے کھانوں سے بے وقوف ریڑھی والوں، سبزی والوں اور رعایا کو سنبھال لیں گے۔ بس ایک بار ووٹ مل جائیں، پھر دیکھی جائے گی۔ مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا، پہلے دھاندلی ان کی طرف سے ہوتی تھی مگر اب کی بار دھاندلی ہماری طرف سے ہوئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔